حضرت مولانا حافظ ندیم صدیقی
محمد طیب ظفر
ایک طرف مہاراشٹر اپنی تاریخ کے سب سے بڑےقحط و سوکھے سے گزررہا تھا تو دوسری طرف ملک کی سیاست نئ نئ کرونٹیں لے رہی تھی اورانہی دنوں مہاراشٹر کے ایک ضلع بیڑکے تعلقہ منجلے گاؤں کے ایک دیہات میں ڈاکٹر مستقیم صدیقی جو کے ایک سرکاری ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دےرہے تھے ان کے گھر یکم جون ۱۹۷۲ کو ایک لڑکے نے جنم لیا جس کا نام ندیم صدیقی رکھا گیا۔ ندیم صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم سے فراغت تک جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم اودگیر میں اپنے وقت کے قطب دکن حضرت مولانا عبدالغفورقریشی صاحب ؒ کے زیرے نگرانی تعلیم حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی خدمات اپنی صلاحیتوں کو پھر قاسم العلوم کی بنیادے مظبوط کرنےاور نسلِ نوں کی تعلیم و ترقی کے لیےصرف کی۔ ندیم صاحب کو خدمت خلق کا جزبہ اپنے والد ڈاکٹر مستقیم صاحب اور استاد محترم حضرت مولانا عبدالغفور قریشی صاحب ؒ سے ورثہ میں ملا تھا۔ جب استاد محترم انتقال فرما گئے تو۔ حضرت کو اللہ نے جب ایک ولی کی خدمت سے دور کیا تو اپنے دوسرے ولی کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس ولیِ کامل کے عزم محکم، جوشِ عمل اور عظمت کردار کو یہ تاریخ کبھی بھولا نہیں سکتی اس شخصیت کے تعرف کےلیے میں کیا کہوں میری بساط نہیں ہے۔ میں جانشینِ شیخ الاسلام فخرِملت حضرت مولانا سیداسعد مدنی صاحب ؒ (صدر جمعیۃعلماء ہند)کا ہی ذکر کررہا ہوں۔ اللہ انکی قبر کو نور سے پور فرمائے (آمین )
جب اللہ کو کسی سے خدمت کا کام لینا ہوتا ہے نا۔ تب اللہ خود تربیت کا انتظام فرماتا ہے۔ اللہ کو حضرت مولانا حافظ ندیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم سے کام لینا تھا اللہ نے اس ہی لیے اس شخصیت کو ایک قوم کے خادم جناب ڈاکٹر مستقیم صاحب کے گھر پیدا کیا پھر اپنے ایک ولی کی نگرانی میں پروان چڑھایا پھر خاندان حسینی کے چشمِ چراغ جانشن ِ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب ؒ کی تربیت میں بھیج دیا ان اللہ والوں کی نظروں نےایک شخص ندیم صدیقی کو ایک مکمل شخصیت حضرت مولانا حافظ ندیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم بنا دیا۔ آؤ اب کچھ اس مردِمجاہد کی خدمات پر نظر ڈالتے ہے ایک بات وضع کرلیں کہ حضرت مولانا حافظ ندیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم کی خدمات اتنی ہے کہ اس کو ایک وقت میں بیان کرنا یا ایک مضمون میں قلم بندکرناناممکن ہے۔ مگر بہت سارے نہیں تو ہم چند قصہ تو نقل کر ہی سکتے ہے۔ میرے ذہین میں سیکڑوں واقعات آرہے ہے جیسے ۲۰۱۳ اودگیر ضلع میں ۱۴،۱۵ مارچ کو ضلع کے تبلیغی اجتماع تھا اس کہ اختتام کے بعد فساد شروع ہوگیا۔ کم و بیش۲۵ مسلمانوں کوگرفتار کیا گیا اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ دس سے زائد دکانوں کو نقصان پہنچایاگیا۔ صوبائی صدر ندیم صدیقی صاحب اودگر میں مقیم رہ کر حالات کو پرامن کرنے کے لئے مسلسل کوشاں رہے، ضلع و صوبائی انتظامیہ سے ربطہ رکھ کر جلد امن و امان قائم کرنے میں انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا۔
فساد متاثرین کے لئے اناج و نقد رقومات سے امداد کی گئی،پچاس ہزار روپئے نقد تقسیم کیا گیا۔ گرفتار شدگان کی ضمانت کے لئے وکلاء کا انتظام کیا گیا، ضمانت کے لئے کاغذات کی فراہمی اور کورٹ کے اخراجات جمعیۃ علماءمہاراشٹر کی طرف سے اداکیاگیاچھوٹے موٹے کاروباری نقصان زدہ لوگوں کی نقد رقومات سے مدد کی۔ اس پورے واقعہ کے بعد اس اجتماع سے خود صدر محترم حافظ ندیم صدیقی صاحب نےاپنی نگرانی میں جماعتوں کو روانا کیاجن کی تعداد کم وبیش ۳۵۰ سے ۴۰۰ کے آس پاس تھی ایسے کہیں واقعات ہے۔ جس میں ڈیگرس پست کا فساد قابلِ گور ہے صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کو اطلا ع ملی کہ ڈیگرس پست میں فساد ہوگیا ہے جس میں میرج سانگلی ا چل کرنجی ایسےتقربن ۷۰ دیہات اس میں ملوِس ہو گئے ہے اور فساد نے کافی طول پکڑ لیا ہے۔ اور مہاراشٹر میں بھیضابطہ اخلاقلگ چکی تھی اور گورنر راج نافذ ہوچوکاتھا۔ ایسے حالات میں صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب نے گورنرسے بات کی اور اپنے دورے کے لیے ایک آڈرنکلوایا۔ اور اس مرد مجاہد نے اپنا سفر شورو کردیا پورا دن اور پوری رات گاڑی چلتی راہی اور تقربن صبح بانچ بجے کے آس پاس یہ گاڑی اسلام پور میں رُکی۔ تو آنکھیں کیا دیکھتی ہے کہ صرف پولیس، ایس آر پی، اور کرفیوں، کہی پتھر بکھر ہے، کہی کانچ کے ٹکڑے بکھرےہوے ہے، کہی سے دھواں اٹھتا ہے اور سڑکیں ویران ہے اداس موسم کا بھیانک منظر سامنے ہے۔ وہا ں صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب پولیس سے بات کی اور اپنے دورے کے لیے جو آڈر نکل وایا تھا دیکھایا اور وہا سے دو پولیس کی گاڑیوں کے ہمرہ ایک مدرسہ پوچیں اور سفر کی تھکان اس طرح دور کی کے صرف وضو کیا دو گھونٹ کالی چائی پی اور دورہ شروع کردیا فجر کےبعد کا وقت تھا لوگ سہمیں ہوے تھے اور ایسے حالات میں یہ مرد مجاہد اپنے چند جیالو کے ساتھ چلتا رہا کہی ٹوٹے مکان ہوتے تو کہی جلتی ہوی آگ اس فساد میں تقربن ستر مسجدیں شہید ہوئی ان دل کو چیر دینے والے مناظر سے گزر تے ہوے یہ قافلہ تاس گاؤں پہنچا تو وہا پر اس قافلے پر پتھراؤ کیا گیا جس میں صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کی گاڑی کا کانچ بھی ٹوٹا مگر حوصلہ نہیں ٹوٹا ا س وقت صاحب نے کہاں یے ہونا ہی تھا ہم دنگل میں آئے ہے نا کہ کسی پروگرام میں جو عوام گلوں سے ہمارا استقبال کر یگی اور بھر اپنے گاڑی کے ڈرائیور سے کہا جلو آگے چلو اور پھر پورا دن تاس گاؤں کا پیدل دورہ کیا اور رات میں آشٹہ میں آئے تو کہی لوگ وہاں پر موجود تھے، صدر صاحب نے وہاں پر نقد رقم تقسیم کرنا شروع کیا تو دیکھا کی مجمع میں پانچ غیر مسلم بھی ہے، صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب نے اپنی ٹیم سے کہا کے جہا ں مسلمانوں کو تین تین ہزار روپئے دیے جارہیں ہے وہی ان غیر مسلم بھائیوں کو بانچ بانچ ہزار روپئے دیے جائے اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ ان غیر مسلم بھائیوں میں سے ایک صدر صاحب کے پاس آیا جس کا نام رانے تھا اور صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کے کان میں کہا کے صاحب فلاں فلاں جگہ تقربن تین سوسے زیادہ خواتین پھنسی ہوی ہے اور انہیں وہا ں سے نکالنا ضروری ہے۔ تو صدر صاحب نےفوراََ ڈپٹی کلکٹر، تحصیلدار، ڈی وائے ایس پی،پی آئے،اور ایس آر پی کے افسروں کو ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچے جس کا پتہ ہندو بھائی رانے نے دیا تھا۔ وہ خواتین اتنی ڈری اور سہمی ہوی تھی کہ ان گاڑیوں کو دیکھ کر بھاگ نے لگی، تو صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب نے فوراََ پولیس کا مائک لیا اور کہا ں میری بہنوں ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے میں مولانا ندیم صدیقی ہوں جمعیۃ علماء ہند سے اور آپ سب کو یہا ں سے لیجانے آیا ہوں وہ خواتین جنگل میں چھپی ہوئی تھی صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب خود جنگل میں اترے ان بہنو ں کو اوپر لایا اب ان کی تعداد اتنی تھی کہ ایک ساتھ سب کو رواناکرنا مشکل تھا جتنی خواتین ان گاڑیوں میں بیٹھ سکتی تھی انکو روانا کردیا گیا اور خود ان بچی ہوئی ڈری ہوئی خواتین کے ساتھ اس فساد کےماحول میں جنگل میں رکے رہے اور جب تک آخری خاتون بھی وہاں سے نہ نکل گئی وہی پر یہ مرد مجاہد صبح چار بجے تک رہا اور رات بھر کی اس کش مکش کے بعد صبح چاربجے وہاں سے نکلےاور مدرسہ پہنچے جہا ں پر ان خواتین کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اور مولانا ہادی صاحب سے کہا کے پہلے دال چاول بناؤ اور ان کو کھلاؤ۔ یہ ہے ہما رے قائدین ِ ملت اللہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے صحت اور تندروستی عطا فرمائے۔ تقربن تیرا دن صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب اس فساد زدہ علاقہ میں رہے جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ بتاتے ہے کے مرُمرُے کھا کھا کر تو کبھی اپنے ہاتھ سے چاول ابال کر صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب اور ہم لوگوں نے کھائے صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے وہاں اللہ کی یہ مدد دیکھی کہ ہم نے اپنے ساتھ ڈیڑلاکھ روپئے لے کر گئے تھے مگر جب وابس آئے تو تقربن چھپن لاکھ روپیوں کا کا م کر کے لوٹے تھے۔
یہ الگ بات کے خاموش کھڑے رہتے ہیں
پھر بھی جو لوگ بڑے ہے وہ بڑے رہتے ہیں
ایسے درو یشوں سے ملتا ہے ہمارا شجرہ
جن کے قدمو ں میں کہی تاج پڑے رہتے ہیں
صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کے فرزند بتاتے ہے کے جب بھی والد صاحب سفر سے آتے ہے تو سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کے کوئی مہمان آیا تھا کیا اور اگر آیاتھا تو کھانا کھلا تھا کیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ صدر صاحب کسی مہمان کو بغیر کھائے جانے نہیں دیتے ہیں اور یہ اتفاق ہمارے ساتھ بھی ہوچوکا ہے کہ ہم صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کے کھر گئے تو اس مرد مجاہد نے اپنے ہاتوں سے پروس کر ہم کو کھلایا۔ ان دنوں تقربن ۱۷۲ بم دھماکو ں کے کیس اور گجرات فساد کے دوہزار مظلوموں کے کیس آپ کی نگرانی میں جمعیۃ علماءمہاراشٹر لڑرہی ہے۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے اب تک پونے تین سو بےگناہوں کی رہائی آپ کی قیادت میں ہو چکی ہے۔ کہی سلاب ہو، کہی آسمانی آفت سے لوگ دوچار ہو، مسلم ریزرویشن کا معاملہ ہو، قوم کی تعلیم کامعاملہ ہو، طبی خدمات کا معاملہ ہو، قوم کی اصلاح کا معاملہ ہو ہر جگہ یہ مردمجاہدصدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب آپ کو سب سے پہلے موجود ملےگے۔ بتانے کے لیے تو بہت کچھ ہے مگر صرف اتنا کہونگا۔
اڑائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نےکچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوی ہے داستاں میری
بس یہ سمجھ لیجیے گا کہ اس شخصیت کوصرف کسی ایک مضمون میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا زندگی نے وفا کی تو پھر کبھی کچھ اور واقعات کو آپ کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے انشاءاللہ۔ میرے عزیز قارعین صدرمہاراشٹرحافظ ندیم صدیقی صاحب کی پوری زندگی خدمت سے بھری پڑی ہے اور یہی ہم کو بھی دعوت دیتی ہے کہ ہم بھی اپنے آپ کو خدمت کے کاموں میں آگے رکھے۔
تبصرے بند ہیں۔