خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا فیضِ عام اور ہندستان
خواجہ اجمیریؒ کی زندگی بہت سادہ لیکن دل کش تھی۔ ہندستان کے سب سے بڑی سماجی انقلاب کا یہ بانی چھوٹی سی جھوپڑی میں ایک پھٹی ہوئی دوہتی میں لپٹا ہوا بیٹھا رہتا تھا۔
مولانا ندیم احمد انصاری
یہ وہ دور ہے جس میں لوگوں نے خداؤں کو اور اس کی قدرت کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیا و اولیا جن کا مقصد انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف اور ان کی نظریں مخلوق سے ہٹا کر خالق کی طرف کرناہے، ان کے نام پر بھی لوگوں نے تقسیم کو روا رکھا ہے۔ بعض طبقوں نے مشاہیر اولیا و صوفیا کی من مانی تکریم کو عین دین و عبادت گر دانا ہے اور وہ سال کے چند دنوں میں ان بزرگوں کے نام پر ایسی ایسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں، جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے کے صفِ اول کے بزرگ ہیں، جن کے نام پر لڑنے والے بہت سے، لیکن ان کی حیات و خدمات سے واقف اور ان کے پیغامِ حق و معرفت کو عام کرنے والے بہت کم ہیں۔ اس لیے جی میں آیا کہ ایک مختصر مضمون میں حضرت خواجہ صاحبؒ کی حیات و خدمات سپردِ قلم کی جائے، جس میں کرامات کے بائے معلومات موجود ہو، تاکہ کسی کے دل میں اس ولیِ کامل کی زندگی کے مطالعے کا ذوق اور اُن کی اتباع کا شوق پیدا ہو۔
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ہندستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیا، وہ چشتیوں اور ان کے مخلص و عالی ہمت، بانی سلسلہ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ کے حسنات اور کارناموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔(تاریخِ دعوت و عزیمت) یوں تو ہندستان میں پہلی صدی ہجری میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ کا آنا ثابت ہے۔ محمد بن قاسم کا علاقۂ سندھ میں آنا بہ کثرت تواریخ میں مذکور ہے، پھر بعد میں بھی تقریباً ہر صدی میں کچھ نہ کچھ مسلمان آتے رہے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہاں رہ کر مستقلاً تبلیغِ دین فرمائی ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ اس طرح ان سے پہلے یہ خدمت کسی نے انجام نہیں دی۔(فتاویٰ محمودیہ کراچی)اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے خواجہ معین الدین چشتیؒ سے قبل کچھ چشتی بزرگ ہندستان تشریف لا چکے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چشتیہ سلسلہ ہندستان میں جاری کرنے کا شرف ان ہی کو حاصل ہے۔ وہ پرتھوی راج کے عہد میں ہندستان تشریف لائےاور اجمیر کو اپنا مستقر بنا کر تبلیغ و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ میر خورد نے ان کو نائبِ رسول اللہ فی الہند لکھا ہے۔(تاریخِ مشائخِ چشت للنظامی)
آپؒ کی عظمت
مولانا اشرف علی تھانویؒفرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتیوں کے بادشاہ ہیں۔ چشتیت تو ہند میں وہیں سے جاری ہوئی۔ ہندستان میں تو سلطنت ہی چشتیوں کی حضرت کی وجہ سے ہے۔ ایک انگریز نے ہندوستان سے انگلستان میں جا کر کہا تھا کہ ہندوستان کے تمام سفر میں ایک بات عجائبات میں سے دیکھی کہ ایک مُردہ اجمیر کی سر زمین میں پڑا ہوا تمام ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے۔ لوگوں کے قلوب میں حضرت خواجہ صاحب کی بڑی عظمت ہے حتی کہ ہندؤوں تک کے کے قلوب میں عظمت ہے۔ اجمیر میں تو اکثر ہندو حضرت کے نام کی قسم کھاتے ہیں۔ سلاطینِ اسلام کے قلوب میں عظمت کا یہی حال تھا۔ اکبر بادشاہ نے کئی بار دارالخلافہ سے اجمیر تک پیدل سفر کیا ہے۔ یہ عظمت نہ تھی تو اور کیا تھی؟( ملفوظات حکیم الامت، جلد اول)
ولادت و وفات
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے والد کا اسم شریف غیاث الدین سَجَزی تھا۔ آپ کی پیدائش باتفاق اہلِ تواریخ 536ھ ایران کے علاقے سیستان، قصبہ سَجَزمیں ہوئی۔ آپ ہندستان کے امام الطریق تھے۔ آپ ہی سے ہندستان میں علومِ معرفت کا افتتاح ہوا اور سلسلۂ چشتیہ ہندستان میں آپ ہی سے پھیلا اور ہندستان میں نوّے لاکھ آدمی آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے۔ آپ کا نسب گیارہ پشت پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کی وفات سلطان التمش کے دور میں ہے اور تاریخِ وفات بقول جمہور اہلِ تاریخ 6رجب، یومِ دو شنبہ ہے۔ بعض لوگوں نے تیس ذی الحجہ بھی کہی ہے، مگر صحیح پہلا ہی قول ہے۔ لیکن سنِ وفات میں سخت اختلاف ہے۔ 632، 33، 36، 37ھ اتنے اقوال ہیں۔(دیکھیےتاریخ مشائخِ چشت للکاندھلوی)
آپ کی اصل نسبت سجزی ہے، جو کاتبوں کی غلطی اور بولنے والوں کی غلط فہمی سے سنجری بن گیا۔ قدیم مسودات و اشعار سے پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں سجزی ہی لکھا اور بولا جاتا تھا۔ سجزی نسبت سجستان کی طرف ہے۔ قدیم جغرافیہ نویس عام طور پر اس کو خراسان کا ایک حصہ مانتے ہیں، موجودہ زمانے میں اس کا اکثر حصہ ایران میں شامل ہے اور باقی افغانستان میں۔(حاشیہ تاریخِ دعوت و عزیمت) اورچشت خراسان کے ایک مشہور شہر کا نام ہے، وہاں کچھ بزرگانِ دین نے روحانی اصلاح و تربیت کا ایک بڑا مرکز قایم کیا۔ اس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ نظام اس مقام کی نسبت سے چشتیہ سلسلہ کہلانے لگا۔(ایضاً)حضرت خواجہ ابو اسحاق شامیؒ (المتوفی 329ھ، 940ء) پہلے بزرگ ہیں، جن کے اسمِ گرامی کے ساتھ تذکروں میں چشتی لکھا ہوا ملتا ہے۔ (ایضاً)
سلسلۂ عقیدت و ارادت
مولانا عبد الحلیم شررؔ نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلۂ عقیدت و ارادت ساتویں درجے میں حضرت اسحاق شامیؒ چشتی تک پہنچتا ہے، جو گویا خاندان چشتیہ کے بانی اور اس متبرک و مقدس لقب کے موجد تھے۔ گیارھویں درجے میں حضرت ابراہیم ادھم تک پہنچتا ہے، جو دنیا کے مشہور و معروف اور نمایاں اولیاء اللہ میں تھے۔ پندرھویں درجے میں جناب صاحبِ ولایت علی ابن ابی طالب تک اور سولھویں میں خاص اس نقطۂ رسالت و ولایت سے مل جاتا ہے جو دنیا کی ہدایتِ عاملہ اور شریعت وو طریقت حقیقت و معرفت اور علومِ ظاہر و باطن کا سرچشمہ ہے۔(خواجہ معین الدین چشتی)
خواجہ اجمیریؒ اور ہندستان
خواجہ اجمیریؒ کی زندگی بہت سادہ لیکن دل کش تھی۔ ہندستان کے سب سے بڑی سماجی انقلاب کا یہ بانی چھوٹی سی جھوپڑی میں ایک پھٹی ہوئی دوہتی میں لپٹا ہوا بیٹھا رہتا تھا۔ پانچ مثقال سے زیادہ کی روٹی کبھی افطار میں میسر نہ آتی۔ ۔۔حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے(ہند میںآکر) چھوت چھات کے بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریۂ توحید عملی حیثیت سے پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیلی چیز نہیں ہے، بلکہ عام زندگی کا ایک ایسا اصول ہے جس کو تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہو جاتی ہے۔یہ ایک زبردست دینی اور سماجی انقلاب کا اعلان تھا۔ ہندستان کے بسنے والے ہزاروں وہ مظلوم انسان جن کی زبوں حالی پکار رہی تھی۔ع
جینے سے مراد ہے نہ مرنا شاید
اس اعلان کو سن کر دوبارہ زندگی کا کیف محسوس کرنے لگے۔(ایضاً)اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی توفیق دے۔آمین
تبصرے بند ہیں۔