خوف کے سائے میں ہیں ننھی جانیں!

احساس نایاب

 ابھی نربھیا کی یادیں مٹی نہیں۔ ابھی الوا کی چیخ و پکار دبی نہیں، ابھی آصفہ کے گنہگاروں کو سزا ملی نہیں، ابھی ہندوستانیوں کی آنکھوں سے آنسو  رکے نہیں کہ ایک اور ہندوستان کی بیٹی لُٹ گئی۔ ایک اور آنگن کی معصوم کلی مسل دی گئی۔ ایک بار پھر سے انسانیت کا جنازہ اُٹھ گیا۔

جی ہاں !۔۔۔ایک اور درندے نے اپنی حیوانیت دکھائی ہے۔ گجرات کی 11 سالہ بچی کی عصمت کو تار تار کر دیا۔ ہندوستان کو پھر سے شرمسار کردیا۔ ایک اور دہلی کی سنہری زندگی جل کے راکھ ہوگئی۔ ایک اور سورت کی پری دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ہریانہ میں 9 سالہ بچی کی لاش ندی کنارے سئوٹکیس میں پڑی ملی اور مہاراشٹر میں ایک ساتھ 8 معصوم بچیوں کے ساتھ ہوس کا ایسا کھیل کھیلا گیا کہ درد بھری چیخ وپکار انہیں کے اندر گھُٹ کے رہ گئی کیونکہ وہ 8 بچیاں گونگی ،بہری تھیں جو اپنا درد اپنی تکلیف بیان نہ کرسکی اور نہ ہی کوئی اُنکی آنکھوں میں جھلکتا خوف دیکھ سکا۔ اُن نادان کلیوں کو تو لگاتار مسلا جارہا تھا۔ بیچاری پریاں اندر ہی اندر کئی دنوں تک گھٹتی سسکتی بلک رہی تھی اور جب درد انتہاء پہ پہنچا تو یہ گھناؤنا راز فاش ہوگیا۔  پوری  دنیا میں یہ چرچہ عام ہوگیا ۔۔۔۔ یہاں پہ کہنے کے لئے تو ہے ہر ایک کی زبان پہ ناری سمّان۔ پر سمجھ نہیں آتا کھوکھلے نعروں سے یہ کیسے کرینگے ہمارے دیش کا کلیان؟

 جبکہ ہمارے چمنسان میں تو آج دیڑھ سے ڈھائی سال کے پھول بھی محفوظ نہیں ہیں، خود مالی اور نگہبانوں کی ہوس بھری نظروں سے اور ہندوستان کی آبرو ساری دنیا کے آگے نیلام ہورہی ہے، کیونکہ جس دیش میں عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا تھا۔ لکشمی، سرسوتی کہہ کر پوجا جاتا تھا۔ آج چند ہوس بھرے پجاریوں کی وجہ سے سب کچھ ڈھونگ سا لگتا ہے۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا جملہ اب جھوٹا لگتا ہے۔ ان شیطانوں کا بس چلے تو دیوی کو بھی دیوداسی بناکر اپنی ہوس مٹالیں۔  ہندوتوا کے نام پہ عورتوں، بچیوں کی بلی چڑھائینگے اور یہ شرمندگی یہ آفت کسی اور کی نہیں بلکہ مودی، یوگی کی دین ہیں۔ ایک مذہب کے نام پہ ملک میں نفرت پھیلائے ۔۔۔تو دوسرا اپنی جملہ بازی سے عوام کو بیوقوف بناتا ہے اور ان بگڑے حالات کے رہتے لُٹ رہی عورتیں ہیں کیونکہ جس ملک کی حکومت ان پڑھ، جاہل، چھٹے بدمعاش، ڈاکو ، لُٹیرے ،زانی جیسے نیتاؤں کے ہاتھ ہو، تو اُس ملک میں لوٹ مار ،قتل و غارت گری اور عصمت دری نہیں تو اور کیا ہوگی؟

اس لئے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئےعام آدمی پارٹی کی ممبر اسمبلی الکا لامبا نے بالکل سچ کہا ہے کہ جنکا پریوار نہیں ہوتا وہ کیا جانے اپنوں کا درد  جو خود بے اولاد ہیں وہ کیا جانیں اولاد کو کھونے کا غم جس نے ساری زندگی کسی کی ننھی انگلیاں نہ تھامی، جس نے اپنوں کے سر پہ کبھی پیار و شفقت بھرا ہاتھ نہ رکھا ، وہ کیا جانے نگہباں کی ادا ،وہ کیا جانے محافظ کے فرائض، یہ تو صرف سادھو سنیاسی کے بھیس میں چھپے ہوئے راون ہیں  اور جسطرح راون نے سادھو کا چولا پہن کر ماتا کہلانے والی ماتے سیتا کو اغواء کیا تھا آج اُسی طرح سنیاسی کا چولا پہن کر کہیں ماؤں کو لوٹ رہے ہیں تو کہیں بیٹی بچاؤ کہنے والے یوگی کے چیلے چپاٹے ننھی بچیوں کو اغواء کر کئی کئی دنوں تک اُن معصوموں کے ساتھ بربریت کا ننگا ناچ کھیل رہے ہیں ،شکر ہے کہ ماتے سیتا کو اغواء کرنے والا راون بھاچپائی نہیں تھا ورنہ سیتا ماتا کو بھی جئے شری رام کہتے ہوئے رام کے نام پہ چیرہرن کردیتے، کیونکہ اس صدی کے بھاچپائی بھگوادھاری راونوں نے تو اُس صدی کے راون کو بھی مات دیدی ہےاوردرندگی میں انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور جہاں رام کی مالا جپنے والے بھارت کو ماتا کہہ کر اسکی جئے جئےکار کرنے والے ملک میں عورتوں پہ اس قدر ظلم کرینگے تو عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیگی کہ جو بھاچپاکے وحشی درندے عورتوں اورمعصوم بچیوں کو آئے دن اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں کیا انہوں نے اپنی پارٹی سے جڑی عورتوں کو بخشا ہوگا؟ آخر یہ درندے ان عورتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہونگے اور وہ سیاسی وائرس کی ماری دولت، شہرت کی خاطر گونگی اور اندھی بنی بیٹھی ہیں۔ صنف نازک والا احساس گنوا بیٹھی ہیں۔ کیا دولت کی چمک اتنی تیز ہوتی ہے جو آنکھوں کی حقیقی بینائی ہی چھین لیتی ہے، جو زانی درندوں کے بیچ رہ کر ان کی ہوس بھری نظروں کو بھی نہ محسوس کر سکے؟ ہمیں تو ترس آنے لگا ہے بھاچپا کی تمام خواتین کارکن اور بلاتکاری کے خاندانوں کی عورتوں ، بچیوں پہ کیونکہ جو انسان دیویوں کو پوجنے کے باوجود اپنی ہی مقدس جگہ یعنی مندر کے صحن میں عورتوں اورمعصوم بچیوں کی عزت پامال کرتے ہوں وہ کیا اپنے گھروں ،دفتروں کی عورتوں کو ماں،  بہن، بیٹی کی نظر سے دیکھیں گے؟

مودی جی! اب تو ہوش کے ناخن لو، مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے ڈھونگ پہ ملک بھر میں پہلے ہی بہت فساد برپا کردیا، اب بیٹیوں کو بچانے، انہیں پڑھانے کے جھوٹے دعوے تو نہ کرو، کیونکہ چوکیدار کی ذمہ داری  تو آپ نے خوب نبھائی، چور اچکوں کے ہاتھوں دیکر بینکوں کی چابی، جس میں بیچاری بھوکی پیاسی غربت کی ماری عوام کی زندگی بھر کی جمع پونجی تھی اُس پہ تو 4 سالوں سے مہنگائی بےروزگاری کی لوٹ مچی ہی تھی کہ اب جو کچھ بھی بچا کچا تھا اُس پہ بھی ایک اور مودی نے اپنے ہاتھ صاف کردئیے اور آپ’’ آل از ویل،   آل از ویل‘‘ کہتے ہی رہ گئے۔ کاش !جتنی جملے بازی اب تک آپ نے کی تھی اُس پہ کچھ تو عملی جامہ بھی پہنادیتے ،یا کم از کم اپنے بلاتکاری منتریوں اور بھگتوں کی لگام تو کستے، جو گلی محلوں میں آوارہ کھلے سانڈ کی طرح گھومتے ہوئے ہماری بچیوں کو راہ چلتے دبوچ کر روند رہے ہیں، اُن درندے حیوانوں کو سزائے موت دلواکر عورتوں کو بھی انصاف دلواتے، کیونکہ جس ملک میں گاؤ ماتا کو انصاف مل سکتا ہے وہ بھی منٹوں میں تو آخر مظلوم عورتوں اورمعصوم بچیوں کے حق میں کیوں صرف تاریخ پہ تاریخ ملتی ہے؟

 جسطرح سے آجکل ہر زبان پہ یوگی کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں وہ تو ہم اپنی زبان سے بیان بھی نہیں کرسکتے لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ عورت کو دیوی کا درجہ ملے نہ ملے لیکن عورت کو بس عورت سمجھ کر اسکی عزت کرنا اپنے منتریوں اور بھکتوں کو ضرور سکھائیں! کیونکہ کسی بھی حکمران کی حکمرانی میں اسطرح کی حرکتیں اتنی تیزی سے بڑھتے ہوئے جرائم عورتوں پہ ہورہے، جنسی استحصال زیب نہیں دیتے، خاص کر جابجا ہورہی عورتوں ،بچوں کی عصمت ریزی جس ملک میں عام ہوجائے اُس ملک کے حکمران اور محافظوں کی مردانگی پہ سوالیہ نشان ہیں اور شاید ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ہمارا محبِ وطن اتنی بدحالی میں ہے اور ایسا پہلا حکمران ہوگا جسکو عوام کی طرف سے اتنے لفظی ریوارڈس مل رہے ہونگے، اسلئے ابھی بھی وقت ہے، سنبھل جائیں، بگڑے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کے لئے سخت سے سخت اقدامات اٹھائیں اور ہر بلاتکاری کے لئے سخت قانوں نافذ کریں تاکہ بیرونی ممالک میں بجرنگی دہشت گردوں اور بھگوادھاری دہشت گردوں کی وجہ سے  ہندوستان کی جو شبیہ بگڑی ہے وہ بہتر ہوجائے اور گنگا جمنی تہذیب والا چمنستان پھر سے دنیا بھر میں چمنستان ہی کہلائ۔ ویسے تو ہر ہندوستانی کے لئے چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان ، سکھ ہو یا عیسائی ہر ایک کے لئے اپنےِ وطن کی شان اپنی جان سے پیاری ہے اور انشاءاللہ سبھی مل کر ہمیشہ اس شان کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔بھلے ابھی کچھ نااتفاقیاں در آئی ہوں ،بھلے ہمارے چندبرادرانِ وطن اپنی راہ بھٹکے ہوں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ایک وقت ایسا آئیگا جب سبھی پھر سے ایک ہوکر اتحاد کی نئی مثال پیش کرتے ہوئے ہندوستان کی ہر ماں، بہن، بیٹی کی حفاظت کرینگے اور ہر نفرت کے سوداگر کا منہ کالا کریں گے۔

آخر میں ہم ایک اور بات کہنا چاہیں گے جو کچھ سال پہلے کسی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ کُتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا، یہاں چند منتریوں کا حال کچھ ایسا ہی ہے کہ اُن سے یہ رتبہ اور طاقت ہضم نہیں ہوپارہاہے، اسلئے آئے دن اسطرح کی چھچھوری، گھٹیا، گندی اور وحشی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آرہے ،غرض کہ ہندوستان کی ماں،  بہن، بیٹی، بہو خوف کے سائے میں زندگی گذار رہی ہیں اور یہ سایہ اُس وقت تک منڈلاتا رہے گا جب تک کے ملک کے چوکیدارچاق و چوبند نہ ہوجائیں، ورنہ یہ کام جنتا جناردھن کو خود سے کرنا پڑیگا، اور الحمدوللہ آج عوام جاگ چکی ہے اور وہ بہتر جانتی ہے کہ ایسے جنگلی جانوروں کو جتنی جلدی ہوسکے لگام لگانی ضروری ہے، انہیں اُنکی اوقات دکھانی ضروری ہے اور یہ بھی سمجھ گئی ہے کہ فی الحال انکی مدد کے لئے کوئی وشنو کا اوتار جنم نہیں لیگا نہ ہی سمندر وادیاں پار کر محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی آئیں گے ،نہ کوئی مسیحا، بلکہ آج ہر عام انسان کو ہی ان سبھی کی ہمت جذبہ خود میں پیدا کر جیسے کو تیسے کا سبق پڑھاتے ہوئے انسان اور حیوان کے بیچ کا فرق بتانا پڑیگا تب کہیں جاکر پیار محبت بھراے ایک نئے گلستاں کی تعمیر ہوسکے گی۔ آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔