انصاف

محمد حسن

ناکامیاں اس کا پیچھا نہیں چھوڑرہی تھیں، وہ کہنی کھڑکی پر ٹکائے اپنےخیالوں میں گم تھا، اس کےسوچ ابھرتے جارہے تھے، دن بھر کی گرمی سے جہاں وہ اکتا چکا تھا، وہیں پھیری والوں نے بھی اپنی آوازوں سے بہت تنگ کیا تھا۔ شام ڈھلنے ہی والی تھی، وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، ریل گاڑی آبادی سے نکل کر صحر ا میں دوڑنے لگی تھی، ریل کی رفتار میں اس کے چہرے پر پڑنے والی ہواؤں سے اس کی روح کو بہت تازگی مل رہی تھی۔ اس کی تھکان غائب ہو چلی تھی، وہ بہت پر سکون ہوا جارہا تھا اور اسے بہت اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ اپنے اور گھر کے حالات کسی پہلو اس کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے، جب سے اس کے والد کی بیماری شروع ہوئی وہ اپنے آ پ میں کافی پریشان ہوگیا تھا۔ گاؤں والے طرح طرح کی باتیں بناتے، کوئی علاج کار گر ثابت نہیں ہوتی، ڈاکٹروں کی فیس، دواؤں کے اخراجات، بہنوں کی شادی، بھائیوں کے تعلیم کا مسئلہ اور اوپر سے اس کی بے روزگاری، یہ سب روزمرہ کے مسائل تھے اس کی زندگی میں، ایک طرف سے نکل کردوسری طرف پھنستا اور دوسری طرف سے کسی طرح نکلتا تو تیسری طرف پھنسنا ہی تھا، اس کی زندگی ایک بھول بھولیا سے کم نہ تھی جس سے نکلنے کا راستہ اسے خود معلوم نہ تھا۔

اب تک وہ اپنے استادوں کی رہنمائی اور دوستوں کی مہربانی کے دم پر ٹکا تھا۔ وہ پڑھائی کے زمانے میں بہت ہونہار، ہردلعزیز اور سب کا چہیتا تھا، سب اس سے بے پناہ محبت کرتے تھےاس لئے جب بھی رہنمائی یا مشورہ کے لئے اپنے کسی استاد کو یاد کرتا اسے صحیح سمت کی رہنمائی مل جاتی اور اس کے راستے آسان ہوجاتے۔ دوستوں کے تعلق سےاس کا معاملہ بڑا حساس اور خود داری کا تھا، اپنے دوستوں کی بے لوث خدمت کرتا اوران کی ہر ممکن مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا، اس لئے اس کے مخلص دوستوں کی فہرست بھی کافی لمبی تھی، کسی بھی ضرورت کے لئے ان کو پکارتا تو اس کی مدد میں چنداں دیر نا کرتے۔

ریل اپنی رفتار بڑھارہی تھی، چندا کی روشنی میں اسے صحرا اور درختوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اس کے قریب کی سیٹوں والے رات کا آدھا سفر طے کر چکے تھے، رات اپنے شباب پر تھی لیکن نیند اس سےکوسوں دور، جب گھڑی پر نظر پڑی وہ حیران رہ گیا، رات کے دوبجنے والے تھے، اس نے لاحولا ولاقوۃ۔ ۔ ۔ پڑھی اور ایک طرف دراز ہوگیا۔

صبح کے9 بج چکے تھے اور وہ نیند کی آغوش میں تھا، اس کے پاس ہورہے شور شرابوں سے اس کی نیند میں خلل آتی، اس کی آنکھیں کبھی کبھار کھلتیں اور بند ہوجاتیں، اس کا موبائل بج رہا تھا، اس نے اسکرین پر نمبر دیکھی تونینداچٹ گئی، جمائی لیتے ہوئے فون کا جواب دیا، دوسری طرف سے آواز آئی جو اس کے جاب انٹرویو کے لئے تھی، اس کے یہ کہنے پر کہ وہ ابھی ریل سفر پر ہے اس کو ہدایت ملی کہ رابطہ کا مناسب وقت بتائے، وہ ایک گھنٹے میں اپنی منزل پر پہونچنے والا تھا، اس نے ٹھیک دو گھنٹے کے بعد رابطہ کئے جانے کی درخواست کی اور سلسلہ منقطع ہوگیا۔ وہ اندر ہی اندر بہت خوش تھا، اس کے خواب جلد ہی حقیقت میں تعبیر ہونے والے تھے، اس نے خیالوں ہی میں منصوبہ بندی اور پلاننگ بھی شروع کر دی، سنہری زندگی کے ارمان اس کے من میں انگڑائیاں لینے لگے۔ اس نے اللہ کا شکرادا کیا اور سب کے لئے دل کھول کر دعائیں کی، اس کی تقرری ہوگئی اوروہ اعلی عہدہ پر فائز ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب اس کی خوبیوں کے قائل اور صلاحیتوں کےقدر دان بن گئے۔ محنت اور ایمانداری جیسے اس کو وراثت میں ملی ہو، غفلت اور کاہلی کا اس کے اندر دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔

اس کے اچھے دن اب لوٹ آئے تھے اور وہ خوشی و مسرت بھری زندگی بسرکر رہا تھا۔ اس کے سارے مسائل حل ہوچکے تھے۔ اپنے استادوں اور دوستوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتا، جب چھٹیوں میں گھر جاتا توان سے ملاقات کرتا اور ان کے ساتھ وقت بانٹتا، اس کے والد صاحب اب مکمل شفا یاب ہو چکے تھے، دشمنوں کے منہ ہر کالکھ لگ چکی تھی۔

وہ چھٹیاں گزار کر واپس اپنے کام پر لوٹ رہا تھا، اس نےسب کو الوداع کہااور اپنی امی کو پیشانی پر بوسہ دی، سب مطمئن اور خوش تھے، جہاں تک وہ نظر آیا سب کی نظریں اس کا پیچھا کرتی رہیں، اس کے والد اس کو اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے۔ ریل کا وقت قریب تھا، اس نے ریزویشن کرا رکھی تھی، ریل رکی اور وہ اپنی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا، ریل مختلف جگہوں اور اسٹیشنوں سے ہوکر گزر رہی تھی، اس کا شوق تھا کھڑکی پر کہنی ٹکائے دلفریب نظاروں سے روح کو تازگی پہنچانا، ریل اپنی رفتار میں تھی اور وہ خدا کی بنائی ہوئی اس عجب سی دنیا کو تکے جارہا تھا، قدرت کی کاری گری کو دیکھ کر اس کے ذہن میں سوالوں کاجم گھٹا لگ جاتا، آسمان، بادل، زمین، پہاڑ ان سب چیزوں کو دیکھ کر وہ حیران، ششدر رہ جاتا اور کون ہے جو اس کی برابر ی کر سکے پر جا کر رک جاتا۔ اسے ریل کے رکنے کی آواز آئی اور ایک ہنگامہ سنائی دینے لگا، شور اتنا کہ وہ خوداپنی آواز نہیں سن پا رہا تھا، وہ ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کر تا رہا، کچھ سمجھنا اور پتہ کرنا چاہتا تھا، کیا ہورہا تھا، معاملہ اس کی دانش سے بالکل پرے تھا، بھگڈر مچی ہوئی تھی، سب لوگ افراتفری میں تھے، وہ باہر نکلنے کی پوری کوشش کر رہا تھا، اتنے میں اس کے سر پر کولہاڑی کی مار پڑی اور وہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے زمین پر گرکر شہید ہوگیا۔ دو دن بعد کفن دفن ہوا، گھر میں غم کا موحول تھا، ہر طرف ماتم چھایا ہوا تھا، سب اپنی جگہ بیٹھے نظریں جھکائے وقفہ وقفہ ایک دوسرے کو تک رہے تھے، سب کی زبان بولنے کی طاقت کھو چکی تھی، من ہی من میں اس کے لئے دعائیں کر رہے تھے، پڑوسی اور رشتہ دار ان کوصبر کی تلقین میں لگے ہوئے تھے۔ کسی کے اندر بدلے کی آگ تھی نہ انتقام کا جوش سب اس کی باتیں دہرا رہے تھے۔ ‘‘ دنیا امن کی آماجگاہ ہے، چین و سکون کا گہوارہ ہے، یہاں خدا کی ساری مخلوق ہے، جس دھرتی پر جانوروں کو انصاف دلانے والےموجود ہیں وہاں انسانوں کا بھی انصاف ہوگا، ضرور ہوگا، وہ دن آئے گا جب ہر زبان پر امن کا ترانہ اور ہر ہاتھ میں شانتی کا پرچم ہوگا’’ دفن کی رات اس کے والد سپنے میں اس کو یہ کہتاہواسن رہے تھے اور خوشی کے آنسو ان کی آنکھوں سے ندی بہا رہے تھے!

2 تبصرے
  1. badar کہتے ہیں

    bht acha , lajawab , har ek kinsan ko insaf dilata hai

    1. محمد حسن کہتے ہیں

      بہت بہت شکریہ میرے محترم، سلامت رہیں!

تبصرے بند ہیں۔