دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

سلیمان سعود رشیدی

آج جنوری کی 26؍تاریخ ہے جسے ہمارے ملک ہندوستان میں یوم جمہوریہ کے طور پرمنایا جاتا ہے،آج پورا ملک اسی کے جشن میں ڈوباہوا تھا، اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر سال یہ دن ہمیں ان عظیم رہنماوں کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے ڈاکٹربھیم راو امبیڈکر کی سرکردگی میں مساوات کا علمبردار اور ملک کی ترقی کا ضامن ایک مثالی دستوروطن عزیز کے لیے تیار کیا تھا، جسکی بنیاد پر ہی ہندوستان کا شماردنیا کی عظیم ترین ملکوں میں جمہوری ملک کے طور پرہوتا ہے، اسی مناسبت سے کچھ باتیں پیش خدمت ہے۔

  اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ 15/اگست1947 کو ہمارا یہ ملک آزاد ہوا،آزادی کے بعد آزاد ہندوستان کےلیےدستور وضع کرنے اور اس کو نئی شناخت دینےکا مسئلہ درپیش تھا، ورنہ ہم سیاسی آزادی کے بعد بھی فکری آزادی سے محروم رہ جاتے، اسی مسئلہ سے نبرد آزمائی کے لیےمنتخب افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،389 افراد کی اس کمیٹی میں ہر طبقہ سے ایک نمائندہ تھا، اسی کو دستور سازاسمبلی کا نام دیا جاتا ہے، ان فعال افراد کی شب وروزمحنت نے 3 /سال کی محنت کےبعد ایک منظم جامع ومانع دستور تیار کیا، اس مرحلہ تک پہنچتے پہنچتے وہ کئی بار تہذیب وتمدن کے گلیوں سے گذراتھا، اس لیے وہ اس قدر منظم ہوگیا  تھا کہ اسکی ہرسطر پاکیزہ قانون اور ہردفعہ سنہرا اصول ماناجاتا تھا، بلاآخر 26 جنوری 1950 کو ملک کے چونتیسویں اور آخری گورنرجنرل سی راجہ گوپالا چاری نے نئے دستور کے وجود میں آنے کا اعلان کیا اس کے بعد ملک کے نئے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا  انہی تقریبات کے ساتھ ہی ہند سے برطانیہ کا رشتہ کلی طور پر ختم ہوگیا، پورے ملک میں ایک انتہائی جامع ومتوازن منصفانہ دستورکی چھاپ تھی جس کی بنیاد پر ہندوستان شوشلسٹ،ڈموکریٹٹ اشٹیٹ شمار کیا گیا جو تمام طبقات کی بلندی کے لیے پابندی عہد تھا۔

لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت، گزشتہ چند برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگوں کی تشویش دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویشوں کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے۔ وہ ضرور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی لائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کررہے تھے، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈرکے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں با با صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار کیا جانے والا اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہاہے، اس لئے جتنا جلد ہوسکے، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے۔ آئین بدلنےکی بات، سنگھ کے چھُٹ بھین نیتاؤں کی زبان سے اکثر سنی  اور دیکھی جارہی ہیں۔

ہمیں یہ بات معلوم ہونا چایئےکہ دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پور اموقع مل سکتا ہے۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب حاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب، تمدن، زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں۔ اس غرض کے لیے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، جسپر عمل کے ذریعہ ہر ایک کو ہر طرح کی  آزادی ہوگی، اسی دستور کے بدولت ملک میں امن وامان بھائ چارہ قائم ہوگا”یہ تھا ان اصول کا خلاصہ جسکے حصول کے لیے دنیا کا یہ طویل ترین دستور وضع کیا گیا تھا،آج اسکے مدون ہوئے68 سال سے زائد عرصہ گذراچکا ہےکیا ہم اسکے اصولوں پر کھرے اترے ہیں ؟اگر نہیں تو آج کا دن جشن منانے کے قابل نہیں تھا۔

مذکورہ بالااصول ایسے نمونے پیش کرتے ہیں، جن پرعمل کرکے، ایک زبردست قوت نافذہ کی بھی فراوانی ہو، ایک منظم سماج کی بنیادپڑسکتی ہے۔ دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے یہ اصول کافی ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس سلسلہ میں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ان قوانین کا کتنا احترام کیا جا رہا ہے؟ قانون کی بالادستی ہے یادستورکی پامالی؟ قانون کی حکمرانی ہے یاقانون بے چارہ؟ چنانچہ آزادہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو داغدار کرنا، پامال کرنا اور اقلیتوں کا استحصال ایک مشغلہ سا بن گیا ہے۔ زبردست قوت نافذہ کے باوجود کتنے قانون کاغذ کے صفحات سے اب تک سرزمین تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ قوانین کی دھجیاں اڑانے والے، دستور کی پامالی کرنے والے اگر اب تک قانون کی زد میں نہیں آسکے، تو یہ جمہوریت کی شکست ہے۔
اس جمہوری ملک میں قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب کردہ لیڈروں کو اس لیے دیا گیا تھا، تاکہ قانون سازی، پالیسی سازی سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں، لوگ آسانی کے ساتھ جی سکیں، نہ کہ جان بوجھ کر منفی سوچ کے ساتھ ایسے قانون لائے جائیں، جو عوام کے لیے اور بالخصوص اقلیتوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں اور قانون سازی کے اختیارات کاغلط استعمال کیا جائے۔ جمہوریت کے مندر میں حالیہ واقعات اورگزشتہ چند سالوں میں منفی ذہنیت کے ساتھ بنائے گئے قانون اور پالیمنٹ میں لائے گئے بل شاید یہی بتانا چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کے سلسلہ میں دستور میں دی گئی سہولیات کی اب گنجائش نہیں ہے اور اب قانون سازی کے اختیار کو ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ اقلیتوں کے لیے در پردہ مشکلات کھڑی کرنے کے لیے استعمال کیاجائے گا۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہی

افسوس آزادی ملنے کے 68 سال بعد بھی ہمارے اسلاف اور قوم کے رہنماوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے، کیا آج ہم ہندوستان کو ایک ایسا ملک بنانے میں میں کامیاب ہوگئےجہاں سونچھنے اور بولنے کی آزادی  حاصل ہے، کیا ہمارے سماج میں ہر ایک کو انصاف مل گیا، کیا اس ملک سے چھوت چھات  کی لعنت ختم ہوگئی، کیا پسماندہ طبقات کے زخم پر ریزویشن کا مرحم رکھا گیا، کیا مذہبی حقوق ہر ایک کو مل گے،ان سوالوں کا اگر جواب تلاش کریں تو سر شرمندگی سے چھک جاتا ہے۔

آج جب صبح مختلف ریاستوں بشمول راجدھانی کے پرچھم کشائ کا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوئے تو ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا، کیا ہم آزاد ہیں ؟ کیا ہمیں جمہوری حقوق حاصل ہیں ؟اس آزادی سے بہتر تو وہ غلامی تھی  کیونکہ میرے ملک کے ترنگے سے  اخلاق کا خون، نجیب کے ماں کے آنسو ٹپک رہے تھے تو کہیں "سارے جہاں سے اچھا "کے نغمہ میں  گورکھپور                     کے وہ بچوں کی  چیخیں سنائی دےرہی تھی تو برما اور کشمیر کے معصوم بچوں کے آہیں تھی، تو پھر ہم کس منھ سے کہیں کہ ہمارا ملک جمہوری ہے کیا ہمارے اسلاف اور قوم کے رہنما اسی لیے کہا تھا، ” کہ اب وطن تمہارے حوالے ساتھیوں "ان سب کو دیکھتے ہوئے دل صر ف یہی کہتا ہے کہ” دل کو بہلانے کے لئے یہ گمان اچھا”انکے دیکھے ہوئے خواب کچھ اور تھے یقینا کچھ اور ہی تھے، تو انھین شرمندہ تعبیر کرنا ہوگا، آج ہمارے ملک میں چاروں طرف بے ایمانی رشوت خوری اونچ نیچ عدم مساوات تشدد وفرقہ واریت جمہوریت کا فقدان ہی نہیں بلکہ قحط ہے، غریب و دلت پر ظلم کیے جانے والے قانون آئے دن منظور ہورہے ہیں، جن میں اقلیت اور دلت کے جان مال غیر محفوظ ہیں، مذہب کے نام پر سیاست اور سیاست کے نام پر مذہب اور مذہبی عمارتوں کومخدوش کیا جارہا ہے، آج ہم عہد کریں کہ اخلاقیات اور مذہب اور سیاست کے حدود میں رہتے ہوئے  اسلاف کے دیکھے ہوئے خواب کو شرمندہ تعبیرکرینگے۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بس اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیکولر لوگ پوری طاقت سے سامنے آئیں اور ملک کو، ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ملک اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں سے اسے صحیح راہ کی طرف موڑنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ اگر فرقہ واریت اور منافرت کی راہ پر مُڑ گیا تو ہم کف افسوس ملتے رہ جائینگے اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے جتنی قربانیاں دے کر ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا ہے اور جمہوریت قائم کی ہے، یہ سب ختم ہو جائیگا۔ اس لئے آج کے یوم جمہوریہ پر ہم یہی ارادہکریں کہ ملک کی بقا اور اس کی سا لمیت کے لئے ہر قیمت پر ہم یہاں کی جمہوریت کی حفاظت کرینگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔