جشنِ جمہوریت

تاج ا لدین اشعرؔ رامنگری

جمہوریت کا جشن منانے کادن ہے آج

قوم ووطن کے زمزمے گانے کا دن ہے آج

کہتا ہے کون اشک بہانے کا دن ہے آج

طفلِ سرشک کو کوئی سمجھائے کس طرح

دل ہی تو ہے ،نہ درد سے بھرآئے کس طرح

سینے میں ایک حشر بپا ہوتوکیا کروں

گردل میں آج درد  سَوا ہوتو کیا کروں

پابندِ لب نہ آہِ رَسا ہوتو کیا کروں

خاموش رہ کے ظلم کو سہنا گناہ ہے

کہنے کی بات ڈر کے نہ کہنا گناہ ہے

بے جا کہو سخن کو مرے یا بجا کہو !

غدار کا خطاب دو یا بے وفا کہو !

یا فرقہ واریت میں مجھے مبتلا کہو!

حق گومری زباں ہے قلم حق نگار ہے

تم چھین لو اسے یہ تمہیں اختیار ہے

ہم احترامِ نعرۂ جمہور کیا کریں ؟

لے کر تمہارا کاغذی منشور کیا کریں ؟

جس پر عمل نہیں ہے وہ دستورکیا کریں ؟

کھانے کے دانت اور دکھانے کے دانت اور

سارے جہاں میں رنگ جمانے کے دانت اور

برسوں سے ملک میںہے تمہارا یہی شعار

بے بس سمجھ کے وار پہ کرتے رہے ہو وار

جمہوریت کی آڑ میں کھیلا کئے شکار

دنیا سمجھ سکے گی نہ خواب وخیال میں

کتنا لہو بہایا ہے اس بیس سال میں

اپنے لہومیں ڈوب گئی ہیں جو انیاں

کتنے سہاگ جل گئے شعلوں کے درمیاں

گھروالوں کے سمیت جلائے گئے مکان

لاکھوں کا مال لوٹ کے دوکان پھونک دی

مسجد کو ڈھاکے عظمتِ قرآن پھونک دی

اورتم یہ سارا  جَوروستم دیکھتے رہے

میرووزیر اپنا بھرم دیکھتے رہے

گیسوئے اقتدار کے خم دیکھتے رہے

پوچھا نہ ظالموں سے یہ کیا کررہے ہوتم

انسانیت پہ کیسی جفا کررہے ہو تم

ہرسانس میں ہے ایک ہجومِ فغاں سنو

ہرزخمِ دل کی آج کُھلی ہے زباں سنو

سینے پہ ہاتھ دھر کے مری داستاں سنو

پابندِ نَے نہ ہو تو شکایت نہ کیجئیو!

نالوں میں لَے نہ ہو شکایت نہ کیجئیو!

جمہوریت کہ جس کی بڑی واہ واہ ہے

جمہوریت کہ جس کی ثنا بے پناہ ہے

وہ اک فریبِ خام وطلسمِ نگاہ ہے

وہ اک پرِ ہُما ہے ، وہ گولر کا پھول ہے

 اس کو تلاش کرنے کی کوشش فضول ہے

جس میں بشر کو امن نہیں عافیت نہیں

جس میں جمالِ عظمت ِانسانیت نہیں

جمہوریت کا ڈھونگ ہے جمہوریت نہیں

جمہوریت کا حال توکچھ ہم سے پوچھئے

دریا کی بات تشنۂ شبنم سے پوچھئے

ہوپنج شیل کا کہ اہنسا کا فلسفہ !

اُپدیش اتحاد کا ، ایکتا کا فلسفہ!

ہے صرف ایک کھیل تماشہ کا فلسفہ !

آزادی جس کے پردے میں جَوروجفاکی ہو

ایسے سیکیولرزم پہ لعنت خدا کی ہو

عورت کی مامتا ہے سوالی جواب دو

معصوم بچپنا ہے سوالی جواب دو

ہر پیرِ بے عصا ہے سوالی جوا ب دو

کیا جرم تھاجو ڈھایاگیا ظلم ماؤں پر

بہنوں کی چھاتی کاٹی گئی کن خطاؤں پر

کچھ دن اسے ہمارے گناہوں کا پھل کہا

کچھ روز دَورِچرخِ کہن کا خلل کہا

کچھ روز اس کو پاک کا رد عمل کہا

تاویل کرتے کرتے جو لاچار ہوگئی

اب بے حیا زبان حیا وار ہوگئی

تاریخ کو اب اپنے عمل کی کتاب دو

آتی ہیں مقتلوں سے صدائیں جواب دو

ہم کو ہر ایک قطرہ ٔ خوں کا حساب دو

ہاتھوں میں وقت کے ہے جو آئینہ دیکھ لو

خنجر چھپانے والو، مرا سینہ دیکھ لو

مرکز میں ہم کوکوئی وزارت نہ چاہئے

ملکوں میں عہدہ ہائے سفارت نہ چاہئے

ذاکر حسینؔ خاں کی صدارت نہ چاہئے

ان سارے پرُفریب نقابوں کو نوچ دو

اعزاز اپنے لے لو ، خطابوں کو نوچ دو

دامانِ چاک سینے کا حق چاہتے ہیں ہم

صہبائے امن پینے کا حق چاہتے ہیں ہم

صرف آبروسے جینے کا حق چاہتے ہیں ہم

یہ بات اندراؔ ہوں کہ چوہانؔ سن رکھیں

اسلامیان ہند کا اعلان سن رکھیں

تبصرے بند ہیں۔