نئی غزل اور حسن نعیم: ایک محاکمہ

امتیاز وحید

(شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی، کولکاتا)

غزل ممتا زصنف سخن ہے، اردوغزل گوئی کے طویل سفر میں اس صنف ادب نے رد وقبول کی کئی بہاریں دیکھی تاہم دیگر صنف شاعری کی طرح اس کاقافیہ کبھی تنگ  نہ ہوسکا۔ اس نے ماضی کے پامال حسن و عشق اور گل و بلبل کو خیر باد کہا اورکبھی تصوف، ترقی پسندی، وجودیت اور جدیدیت کے منطقہ سے خود کو ہم آہنگ کیا، اس طرح ’تبدیلی‘ اور زمانہ شناسی اس کی فطرت کاحصہ  بنتی چلی گئیں۔ 1950کے دہے ہیں ’ نئی غزل‘ کے نام سے اس نے پھر کروٹ لی اور خود کو ماضی کی سکہ بندروایت، اپنے عہد کے غالب رجحانات (ترقی پسندی اور جدیدیت) سے الگ ایک خود مکتفی اساس فراہم کیا۔ نئی غزل، کی یہ نیو بنیادی اعتبار سے نئے خیالات، لہجے اور اسلوب کی نیو تھی جس کا سہرا بڑی حدتک سید شاہ حسن نعیم کے سر جاتا ہے۔

زیر نظر کتاب’’ حسن نعیم اور نئی غزل‘‘ ڈاکٹر احمد کفیل کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے جس میں  نئی غزل کے ایک بنیاد گزار حسن نعیم کی غزلوں کے سیاق میں اس پورے ادبی رجحان کے مالہ و ماعلیہ سے بحث کی گئی ہے، یہ سائنٹیفک مطالعہ حسن نعیم کی ذاتیات، شخصیت،خانکی، تعلیمی اور دیگر جزئیات کے احاطے پرمشتمل ہے۔

چوں کہ حسن نعیم کی غزل گوئی کا سارا نظام نئی غزل پراستوار ہے،لہٰذانفس موضوع سے قبل ’نئی غزل، سمت و رفتار، پس منظر ‘کے تحت اس رجحان کے ابعاد پر جامع گفتگو کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ’ نئی غزل‘ کس طرح صنف غزل کے لیے نئی زندگی کی نوید ہے۔ یہ محض ماضی سے کلیۃً اعلانِ برأت نہیں بلکہ لہجے اور اسلوب میں نمایاں تبدیلی کے ساتھ ماضی کی غزلیہ روایت سے کسب فیض کا عمل بھی ہے، البتہ نئی غزل میں روایتی غزل کے’ عشق ‘کی مرکزیت کا خاتمہ ضرورہوا ہے، عہد جدید کی زندگی کی ترجمان’ نئی غزل ‘میں چوں کہ مسائل حیات کا خود انبار ہے لہٰذا یہاں روایتی عشق کی خود مختاری کے لیے کوئی گلے نہیں ہے۔

نئی غزل کے امتیازت پرکچھ اس انداز میں بحث کی گئی ہے کہ نئی غزل کی زبان، لفظیات، موضوعات، عہد اور اس کی پیچیدگیاں، زندگی کی تیز رفتاری اور پھر ان سب کاساتھ نبھانے کے  لیے درکار نئے علائم اور اشاروں کی ناگزیرت کا ازخود خلاصہ ہوتا چلاجاتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ عصری ماحول کی کثافت کے ضمن میں نئی غزل روایتی غزل کے اشارے پردہ، چملن، محفل جاناں، نازوادا، رقیب اور جھروکا، وغیرہ کاکیوں کر متحمل ہوسکتی ہے اس کے بالمقابل ’’ سائنسی زندگی اور ماحول کے تحت ’’ نئی غزل ‘‘ میں پتھر، پیڑ، جنگل، برف، سورج، دھوپ، آندھی، زمین، دھنواں، منڈیر، چھت، جھروکا، تنہائی، برگ، سایہ سمندر‘‘ جیسی نئی ترعلاتی بساط بچھائی گئی ہے۔ ان معنوں میں بھی’ نئی غزل ‘ کی اصطلاح قابل غور ہے، ڈاکٹر احمد کفیل کا عندیہ، ان الفاظ کے سیاق میں یہ ہے کہ یہ الفاظ روز مرہ کی زندگی میں مستعمل ہیں لہٰذا نئی غزل نے آج کی حقیقی زندگی سے قرب کا لفظی اور علامتی پیمانہ اپنایا نہ صرف یہ بلکہ تقریب فہم یا میرؔ کی طرح بول چال کی عام زبان کو نئی غزل کی شناخت بنایا، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مصنف نے خوبی سے نئی غزل کے ایک اور انحراف  کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹی ایس ایلیٹ کے اس خیال کی تائیدکی کہ ’’ شاعری میں نئے انداز اور نئی ہیئت کی ایجاد کو کسی قوم کا سب سے اہم کارنامہ سمجھنا چائیے ‘‘ گویا ’نئی غزل‘ کی عمارت ماضی کی روایتی غزلوں کے مد مقابل ایک خود مکتفی اساس رکھتی ہے۔ جس میں فکر کو آزادی حاصل ہے وہ کسی ازم اور ریڈی میڈ ایجنڈا کا شکار نہیں اور اس طرح فکر اور فن دونوں سطح پر نئی غزل خود کار بنیادیں رکھتی ہیں جو بڑی حد تک اس عہد کے دو حاوی رجحانات اور ان کی شدت پسند فکری محدودیت کاردعمل کہی جاسکتی ہے جس میں عصری زندگی کے مسائل، خیالات اور مقامیت کو آفاقیت کی سرحدوں تک وسعت کی گئی ہے، مسلکی حصار ٹوٹا ہے اور غزل گوئی اخلاقی، فلسفہ، رومانی اور انقلابی خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

’نئی غزل‘ کے معیار و اقدارِ اساس کی روشنی میں کتاب اپنے اصل بحث کا رخ کرتی ہے، اس باب کا مدعا حسن نعیم کی غزل گوئی کے فکری محرکات کا پتہ لگانا اور یہ جاننا ہے کہ کس طرح ماحول،تعلیم اور ذاتی مشاہدے سے حسن نعیم کے فکر و احساس کی تعمیر ہوئی ہے اور کس حدتک فنکار کا ذاتی مشاہدہ حسن نعیم کو ’’ نئی غزل ‘‘ کا نقاش اول ’’ پہلا ماڈل شاعر‘‘ بنانے میں ممدو معاون رہا ہے۔

حسن نعیم نے ایام طفولیت ہی سے اپنے گردویش کی زندگی کو پیچیدگیوں سے گھیرا پایاہے قربت میں ایک نوع کا کٹائو، اجتماعیت میں سمٹی انفرادیت، مقصد بے زاری، یاس اور بے بیگا نکی کا احساس کیا۔ بحیثیت شاعر اسے بیان بھی کرتا ہے مگر عجب بات ہے کہ یہ محرومیاں اس کے اعصاب کو کمزور نہیں کرتیں اور وہ اس قدر توانا اور سخت جان نظر آتا ہے کہ اس کی توانائی اسے اناپر ست بنادیتی ہے۔

میں نہ طوفاں سے جھکاہوں اور نہ آندھی سے دبا

ان درختوں سے تو اونچاہوں بلا سے گھاس ہوں

____

گردِ شہرت کو بھی دامن سے لپٹنے نہ دیا

کوئی احسان زمانے کا اٹھایا ہی نہیں

 انا آگاہی عبقربت کی راہ سے جنم لیتی ہے، اس ضمن میں مصنف نے مومنؔ، میرؔ، یگانہ، دردؔ کی انانیت کے سیاق میں محرومی اور خود انحصاریت پر مبنی حسن نعیم کی انا پسندی کے کئی واقعے کا حوالہ بھی دیا ہے، انابنیادی طور پر اعتراف کا تقاضا کرتی ہے اور جب نیر نگِ زمانہ سے صرف ٹھوکر ملے تو اس کی طلب اور بڑھ جاتی ہے، احمد کفیل نے تفصیل نے حسن نعیم کی اس ذہنیت کا خلاصہ کیا ہے کہ کس طرح وہ زمانے سے اپنا حق وصول کرنے پر اتاروہوجاتا ہے۔ محفل میں غزل کی جگہ اپنے غزلوں کے فنی امتیازات پر روشنی ڈالتا ہے اور اپنی غزلوں کاخودہی محاکمہ کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ذاتی تسکین کا باعث تو ہوتی ہے مگر کس طرح یہ بہت سے معاصر احباب کو اس سے دور کر دیتی ہے، اور پھر ان حالات کی کوکھ سے مصلحت نااندیشی اور غیر مصالحانہ رویہ پنپتا ہے۔ حسن نعیم ناعاقبت اندیشی کی حد تک غیر مصلحت کوش واقع ہوئے تھے۔

حسن نعیم کی زندگی ’’ انامع العسریسرا‘‘ کی عملی تعبیر تھی، محرومی، ناکامی اور کلفتوں کے بعد ایک زمانے تک عیش و طرب نے ان کا ساتھ نبھایا، جاہ و منصب اور دربدری ان کا مقدر ہوئی، لیکن حالات کے زیر وبم انھیں اخلاقی طور پر زوال آمادہ نہیں کرسکی، وسیع المشربی ان کا وطیرہ تھی، وطن سے گہرا لگاو تھا، سیاسی شعور بالیدہ اور سماجی مسائل پر پوری نگاہ تھی، ظاہر ہے اس وسعتِ نظر کا حامل فنکار فنی طور پر لازماًپختہ کار ہوگا۔ ندافاضلی کے الفاظ میں ’’ حسن نعیم کی غزلوں کے مرکزی کردار کا تیور بڑا توانا ہے۔ یہ تیور نہ صرف ان کو اپنے ہم عصروں میں منفرد کرتے ہیں بلکہ نئی غزل میں ایک نئے احساس اور رنگ کے آمد کی خبر بھی دیتے ہیں ‘‘۔

حسن نعیم کے یہاں ماضی کی طرف فکر انگریز مراجعت کا احساس ہوتا ہے یہ اناکی بنیادوں کو پختہ تر کرنے کا وسیلہ ہے اور ماضی کی ان پاک طینت علامتوں کو خراج تحسین بھی، جو اب صرف یادوں میں محفوظ ہیں۔

یہ کوہساروں کی تربیت ہے کہ اپنا خیمہ جما ہوا ہے

ہزاروں طوفاں سناں چلائے ہزار موج غبار لائے

ڈاکٹر احمدکفیل کا تنقیدی جوہر وہاں کھلتا ہے جہاں وہ حسن نعیم کی شعری روایات سے آگاہی اور استفادہ کی بات کرتے ہیں۔ چند جملے دیکھئے۔

’’… تجربات میں کسی کی نقالی کو کبھی گوارانہ کیا۔ اپنے فن میں ان کا تیور غالبؔ کی طرح باغیانہ رہا۔ الفاظ کی سطح پر بھی اور مضمون آفرینی کی سطح پر بھی وہ اپنے فن پر مہینوں اور برسوں غور وخوض کیا کرتے تھے، انجام کار اپنی شعوری سنجیدگی کے ذریعہ لفظوں کو تخلیقی جہات بخشنے میں اپنے معاصرین پر انہیں سبقت حاصل ہوگئی، جس سے شعروں میں تہہ داری، دانائی اور توانائی ابھری۔ آپ جتنی بار پڑھیں گے ایک نئی فضا کا احساس ہوگا۔

بامِ خورشید سے اترے کہ نہ اترے کوئی صبح

خیمۂ شب میں بہت دیر سے کہرام تو ہے

____

وحشت سارئے ذہن میں وہ بھی تھا اجنبی

دل میں رہا مقیم تو اپنے مکاں میں تھا

ترسیلِ مدعا کے مقصد کے تحت ’نئی غزل‘ میں اسلوب میرؔ کی سہل نگاری کو اپنایا گیا تھا لہٰذا سادگی اور پرکاری کا جوہر حسن نعیم کے کلام کا ایک خاص وصف ہے۔ ڈاکٹر احمد کفیل نے مندرجہ ذیل اشعار کی روشنی میں سادگی، میر ؔ اور حسن نعیم کی تثلیثیت کی بات کی ہے۔

چلا تھا میرؔ کے پیچھے سخن کی وادی میں

اسی کی خاک نوازی مری امامت ہے

____

دشت پیمائی ہے اپنی، عہدِ حاضر کا جنوں

بن چکے ہیں مجھ سے پہلے، میرے قدموں کے نشاں

’’ یہ شعری اسلوب نہیں نثری منطق ہے ‘‘ کے سیاق میں ڈاکٹر احمد کفیل نے محمود ہاشمی کے اعتراض کو ’’ ذاتی پرخاش‘‘ پر محمول کرتے ہوئے اپنی تائید میں پروفیسر وہاب اشرفی اور عشرت ظہیر کے استدلالی جواب کا حوالہ فراہم کیا ہے۔

’’ نئی غزل میں حسن نعیم کی انفرادیت‘‘ کتاب کاقابلِ مطالعہ حصہ ہے اس بحث سے یہ سمجھنا زیادہ دشوار نہیں کہ 1950کے عہد میں خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشا اور ناصر کاظمی کی بالترتیب ’’کاغذی پیرہن‘‘، ’’چاند نگر‘‘ اور ’’ برگِ نے‘‘ کی آمد سے سبک خرامی کے ساتھ نئی غزل کی دھمک محسوس کی گئی، جب کہ حسن نعیم کے یہاں اس آواز (نئی غزل) کی پرچھائی 1945 – 1946سے ہی ابھر نی شروع ہوگئی تھی اگرچہ ان کا کلام ’’ اشعار‘‘ 1971 میں شائع ہوا۔ اس طرح نئی غزل کی اولیت کا سہرا حسن نعیم کے سر جاتا ہے۔ اس باب کا امتیازی وصف یہ ہے کہ حسن نعیم کی غزلوں کی بیچ ان کی فنکارانہ پختگی، شعور، فکری بالیدگی اور معاصر شعرا سے مقابلتاً ان کی امتیازی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے۔

ہے وہی شاعر جو سازِ زندگانی پر نعیم

فکر کا نغمہ سنائے دل کا افسا نہ کہے

۔۔۔

جب لہو روئے ہیں برسوں تو کھلی زلفِ خیال

یوں نہ اس ناگ کو لہرانے کے فن آئے ہیں

حسن نعیم اپنے اشعار کے فکر انگیز خیالات میں کہیں دانشور، توانا لب و لہجہ کا شاعر، نئی غزل کے پیش رو، تو کہیں نئی غزل کا امامِ وقت نظر آتے ہیں، کثیف، بوجھل اورالجھائو سے ان کی غزلوں کا دامن پاک ہے۔ حسن نعیم نے خالص افکارکی ترسیل کو غزل نہیں سمجھا اس لیے وہ فکر اور جذبہ کے خوشگوار ترکیب سے اشعار ڈھالتے ہیں۔ ڈاکٹر کفیل نے اس باب کو مربوط علمی اور ادبی آنچ پر کندن کیا ہے زیادہ تفصیل گلاب کے پھول کو پنکھڑیوں سے جدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ حصہ صرف مطالعہ چاہتا ہے۔

اس مبحث کا اطلاقی (Practical) جز وہ ہے جہاں احمد کفیل نے کلامِ حسن نعیم سے

(الف ) فارسی اضافتوں ( علامت کسرہ) کی مدد سے تشکیل شدہ ترکیبیں

(ب)اردو اضافتوں (کا، کی، کے ) کی مدد سے تشکیل شدہ ترکیبیں

(ج) حرفِ عطف (و) سے تشکیل شدہ ترکیبیں

(د) علامت کی شکل اختیار کرلینے والے الفاظ

(ہ) اردو، ہندی اور انگریزی کے ایسے عامیانہ الفاظ کا استعمال جو غزل کے مزاج میں ڈھل گئے ہیں

(و) خود ساختہ نئے محاورات

کی نشاندہی کی ہے۔ ان الفاظ و تراکیب کی معنویت پر مخمور جاندھری کی یہ عبارت بھی خوب ہے۔

’’ ان کی غزلوں کا ہر لفظ نگینے کی طرح اور ہر مصرع مزین ہے، جس کا ایک لفظ بھی نکال دیجئے تو ساری روحِ شعر فنا ہوجائے گی۔ ‘‘

غزلیات حسن نعیم سے ایک انتخاب بھی شامل کتاب ہے جو ’’حسن نعیم اور نئی غزل ‘‘ پر جملہ تحقیقی و تنقیدی گفتگو کا مشق و مصدر ہے، انتخاب میں شامل غزلیں بلاشبہ وہ اساس ہیں جن پر اس تحقیق کتاب کی عمارت کھڑی ہے۔ حسن نعیم کے تعلق سے حقائق کی توثیق میں براہ راست ان کا کلام دیکھا جاسکتا ہے۔

کتابیات سے پہلے شعرا اور ادبا کے وہ تاثرات یا آرا بھی یکجا کردی گئیں ہیں جو حسن نعیم کو بحیثیت فرد، اور تخلیق کار سمجھتے ہیں معاون ہیں۔

حسن نعیم پر خال خال مضامین لکھے جاتے رہے ہیں تاہم یہ پہلا علمی کا م ہے جو پوری معروضیت کے ساتھ حسن نعیم کے فکر و فن کا احاطہ کرتا ہے۔ کسی علمی کام کو اس کی حرمت کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہچانے میں جو علمی مذاق درکار ہے اس میں ڈاکٹر کفیل بالکل آئینہ ہوں رہے ہیں توقع ہے کہ’نئی غزل‘ کے ایک رجحان ساز شاعر حسن نعیم کو ڈاکٹر کفیل نے جس رخ پر پیش کرنے سعی ہے وہ پسند یدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا اور بعض وہ پہلو جو اس تحقیقی کاوش میں تشنہ رہ گئے ہیں  یا وہ ذاتی گوشے جو ہنوز پردئہ اخفا میں ہیں آیندہ روشن ہوسکیں گے۔

  • ••

تبصرے بند ہیں۔