گزشتہ روز لکھنؤ میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی اور سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے سیاسی اتحاد کے مظاہرے اور پریس کانفرنس سے بہتوں کی نیند حرام ہوگئی مگر جن دو فرقہ پرست شخصیتوں کو سب سے زیادہ تکلیف اور پریشانی لاحق ہوئی وہ ہیں نریندر مودی اور ملائم سنگھ۔ مودی کو تو ہر اس اتحاد اور یکجہتی سے نفرت اور عداوت ہے جو ملک کے تمام شہریوں کے اتحاد و ترقی کیلئے کوشاں ہو کیونکہ مودی کی سیاست ہندو اور مسلمانوں میں نفرت، کدورت اور عداوت کی بنیاد پر احمد آباد سے دہلی تک کی تخت نشینی کا سبب بنا ہے۔ انسانوں کو بانٹنے اور ان میں نفرت پھیلانے کی سیاست سے ان کو اور ان کی پارٹی کی ترقی نظر آتی ہے۔ وہ زبان اور منہ سے جو بھی کہیں ، خواہ ’’سب کا ساتھ، سب کا ویکاس‘‘ کہیں یا کچھ اور کہیں مگر ان کی شخصیت کا تعارف ملک کے کونے کونے میں ہے ایک فرقہ پرست اور فسطائیت پسند کی شخصیت کا ہے۔
گجرات کے فساد سے لے کر اتر پردیش کے مظفر نگر تک ان کا فسق و فجور پھیلا ہوا ہے۔ گجرات کے فسادیوں میں امیت شاہ کا نام نمایاں طور پر آتا ہے۔ انھوں نے اسے اپنی فرقہ پرست پارٹی کا سربراہ بنا دیا تاکہ وہ ان کی جی حضوری کرتا رہے اور صاحب صاحب کہتا رہے۔ امیت شاہ نے یوپی کا چارج 2014ء میں اپنے صاحب کے کہنے سے لیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک مظفر نگر کا معاملہ ہو یا کیرانہ کی بات ہو، محمد اخلاق کے قتل اور ان کی گھر کی تباہ حالی کا معاملہ ہو سب میں امیت شاہ پیش پیش نظر آتے ہیں اور جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں یا زبانیں روز مرہ کی زندگی میں زہر آلود ہیں سب کی پیٹھ تھپتھپانے میںلگے ہوئے ہیں۔ سنگیت سوم، بالان، ساکشی مہاراج، ادتیہ ناتھ جیوتی یہ سب فساد انگیز شخصیتیں ہیں جو امیت شاہ کے ہاتھ پاؤں بنے ہوئے ہیں۔ غرض مودی یوپی کو امیت شاہ کے چارج میں دے کر اتر پردیش کو گجرات بنانے کی اسکیم پر عمل پیرا ہیں۔
ملائم سنگھ یادو آج سے نہیں کئی سال سے نریندر مودی اور امیت شاہ کو نہ صرف پسند کرنے لگے ہیں بلکہ ان کے ایجنڈے پر لکھنؤ میں بیٹھ کر عمل کرنے اور کرانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ جب نتیش کمار اور لالو پرساد کی تجویز پر جنتا پریوار کو اکٹھا کرنے کی بات سامنے آئی اور ملائم کو اس کا مکھیا تک بنانے کی بات طے ہوئی تو وہ مودی کے ایک فون پر ڈھیر ہوگئے۔ فوراً میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ دنوں کے بعد انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بہار میں لالو-نتیش اور راہل کے گٹھ بندھن (اتحاد) کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور مہا گٹھ بندھن کی ہار ہوگی اور مودی کی پارٹی بی جے پی کی جیت ہوگی۔ نتیش آج تک کہتے ہیں کہ میری سمجھ میں آج تک وہ بات نہیں آئی کہ سب کچھ طے ہونے کے باوجود کیسے وہ (ملائم) اٹھ کر چلے گئے اور پھر واپس نہیں آئے اور بالکل بدل گئے ؟ راقم نے ایک بار نہیں کئی بار اپنے مضامین میں لکھا ہے۔ ایک سال سے نہیں بلکہ دو سال سے کہ ملائم مودی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فسادیوں نے مظفر نگر کے مسلمانوں کے تیس بتیس گاؤں کے نام و نشان مٹا دیئے۔ 75 ہزار مسلمان آج تک در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ شدید جاڑے کے موسم میں جب مظفر نگر فساد زدگان ٹھنڈک اور بارش سے ٹھٹھر رہے تھے ملائم سنگھ ، امر سنگھ کے ساتھ اپنی سالگرہ کا جشن منا رہے تھے۔ بمبئی سے کئی فلم اداکار و اداکارہ بھی ان کی سالگرہ کا حسن بڑھانے کیلئے چارٹرڈ جہاز کے ذریعہ بلائے گئے تھے۔وہ سب رقص و سرود کی مجلسوں میں شریک ہوئے تھے اور ان کی سالگرہ کے پروگرام کو دوبالاہ کیا تھا۔ اس طرح ملائم سنگھ نے مسلمانوں کی مصیبتوں کا کھلا مذاق اڑایا تھا۔
اب ملائم سے ان کا بیٹا آزاد ہوگیا ہے۔ ملائم نے بہت اچھل کود کی مگر ان کی اچھل کود کچھ کام نہ آئی۔ شیو پال یادو کو لے کر 335 سیٹوں کا جب اعلان کر رہے تھے تو کسی نامہ نگار نے کانگریس سے Alliance (اتحاد) کے بارے پوچھا تو انھوںنے تین بار کہا کانگریس سے Alliance نہیں ہوگا لیکن ایک ایسا وقت جلد ہی آگیا کہ اپنے بیٹے اکھلیش کے سامنے 38 لوگوں کے ناموں کی فہرست لے کر کھڑے نظر آئے کہ ان کے نام بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل کرلئے جائیں۔ بیٹے نے فہرست پر ایک نظر ڈالی اور کہاکہ اس پر وچار(غور)کیا جائے گا۔
اب جبکہ کانگریس اور اکھلیش کی سماج وادی پارٹی کا اتحاد عمل میں آگیا اور اس کا مظاہرہ پریس کانفرنس اور لکھنؤکی سڑکوں پر روڈ شو ہونے لگا تو مودی یا ان کے لوگوں نے جو کچھ کہا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ مگر ملائم سنگھ یادو نے جو کہا وہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کیلئے غیر متوقع ہو مگر جو لوگ کئی سال سے مودی بھکت ملائم کی شخصیت اور کارنامے سے واقف ہوگئے ہیں۔ ان کیلئے غیر متوقع نہیں تھا۔ ملائم نے بیان دیا ہے کہ اکھلیش اور راہل کے اتحاد کی وہ حمایت نہیں کریں گے بلکہ اپنے ساتھیوں سے مخالفت کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ہدایت کریں گے۔ بیٹا تو یہ کہہ رہا ہے کہ باپ کا اسے آشیر واد حاصل ہے، وہ اس کا ساتھ دیں گے مگر باپ کہہ رہا ہے کہ دعا نہیں بد دعا دیں گے۔ یہ در اصل ’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کے مصداق ہے۔ اب ملائم سنگھ قصہ پارینہ ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی اگر کوئی بات اخبارات یا ٹی وی چینلوں پر میں آئے گی تو وہ اکھلیش اور راہل کی مخالفت میں ہی آئے گی کیونکہ بھاجپا کی میڈیا کو یہ بہت پسند ہے۔ حالانکہ جو کل کے مظاہرہ میں نعرہ دیا گیا کہ ’’یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے‘‘ حقیقت میں فرقہ پرستوں کے سوا سب کو پسند ہے۔ ملائم سنگھ نے اکھلیش کی مخالفت میں انتخابی نشان سائیکل نہ پانے کے بعد بیان دیا کہ اکھلیش مسلمان کا دشمن ہے۔ اس نے مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں کیا مگر اب بات مسلمانوں کی سمجھ میں آجائے گی کہ کس نے اکھلیش کو کچھ کرنے نہیں دیا۔ مسلمانوں کو تو فرقہ پرستوں سے جو روز مرہ کی زندگی میں تکلیف و مصیبت ہے وہ تو سب سے زیادہ اس اتحاد کو پسند کریں گے بلکہ ہر اس اتحاد کو پسند کریں گے جو ملک سے فرقہ پرستی اور نفرت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکے۔ اکھلیش اور راہل گاندھی کا ملاپ اور اتحاد نہ صرف مسلمانوں کیلئے خیر و برکت کا پیغام ہے بلکہ ملک بھر کے لوگوں کیلئے خیر و برکت کا پیغام ہے۔ یہ سچے اور اچھے عوام کا اتحاد فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے ملائم اور مودی جو بھائی بھائی ہوگئے ہیں انھیں کیسے یہ اتحاد اور ملاپ ہضم ہوگا ان کی تو راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہوگی۔
راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں اپنی پختہ ذہنی کا بھی مظاہرہ کیا اور اسے گنگا جمنا کا اتحاد بتایا اور یہ پوچھے جانے پر کہ کون گنگا ہے اور یا کون جمنا ہے، اس سے پرہیز کیا۔ صرف یہ کہاکہ جس نے الہ آباد میں دونوں کا سنگم دیکھا ہوگا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سنگم میں کون گنگا ہے اور کون جمنا ہے۔ راہل نے اپنی سیاسی پختہ ذہنی کا بھی اس وقت ثبوت دیا جب مایا وتی کیلئے نرم لب و لہجہ استعمال کیا اور ان کے بارے میں بتایا کہ ان کا موازنہ سنگھ پریوار سے نہیں کیا جاسکتا، ان سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے جبکہ سنگھ پریوار اور بی جے پی سے ملک اور عوام کو ہر طرح سے خطرہ لاحق ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہل کی نظر الیکشن کے نتائج کے بعد پر بھی ہے اور 2019ء کے الیکشن پر بھی ہے۔ اکھلیش نے مایاوتی کیلئے نرم گوشہ اپنایا اور کہا کہ ان کا ہاتھی اتنی جگہ لے گا جو ان کا اتحاد نہیں دے پائے گا۔ بُوا کی بات پر بھی وہ صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ اب وہ نہیں کہتے۔ ظاہر ہے الیکشن کے موسم میں ان کو بوا کہنے میں نقصان نظر آتا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ دونوں کی جوڑی اس وقت کے حالات میں بے مثال ہے۔ یہ دونوں اس وقت سیاست کی دنیا کے کنہیا کمار ہیں جو نریندر مودی کیلئے مصیبت کاپہاڑ بن سکتے ہیں۔ یوپی میں تو مودی کو اس اتحاد سے نقصان پہنچے گا ہی مگر جو اشارے ان جواں فکر اور جواں سال نوجوانوں کا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مودی کیلئے 2019ء میں بھی ان دونوں کا اتحاد پہاڑ ثابت ہوگا۔ ملائم قصہ ماضی (out of date) ہوجائیں گے۔ ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں رہے گا۔ پارٹی کے بڑوں اور چھوٹوں (Rank and file) نے انھیں ٹھکرا دیا ہے۔ بھلا عوام کو کیا پڑی ہے کہ ان کی یادوں کا بوجھ اٹھاتے پھریں۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔