اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے

عام طور پر مسلمانوں  کو اسلامی تعلیمات اور معلومات سے کم واقفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب یا کسی دیگر مذاہب کے ماننے والوں  سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں  تو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں  کرنے کے بجائے اپنی منطق اور عقل و دانش کا ایسا استعمال کرتے ہیں  کہ مقابل شخص اسلام یا قرآن سے قریب آنے کے بجائے دور ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ مذہبی بحث لایعنی ہے۔ مذہبی بحث و مباحثہ سے دور رہنا چاہئے۔ ایسے لوگ جو جانکار ہوتے ہیں  داعیانہ صفت کے حامل ہوتے ہیں ۔ کسی بدظن شخص سے بات کرنا چاہتے ہیں  تو وہ بات چیت سے پرہیز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ العنکبوت میں  فرماتا ہے:

 ’’اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے‘‘ (آیت:46)۔ اس طرح کی ہدایات قرآن مجید کے کئی مقامات میں  دی گئی ہیں ۔ جن سے محض اہل کتاب سے ہی نہیں  بلکہ دیگر مذاہب سے بھی عمدہ اور بہتر طریقہ سے بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

 ’’دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ پندو نصیحت کے ساتھ اور لوگوں  سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘ (سورہ النحل، آیت:125)۔

  ’’بھلائی اور برائی یکساں  نہیں  ہیں  (مخالفین کے حملوں  کی) مدافعت ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے گرم جوش دوست ہے‘‘ (حٓمٓ السجدۃ، آیت 34)۔

 ’’تم بدی کو اچھے ہی طریقہ سے دفع کرو ہمیں  معلوم ہے جو باتیں  وہ (تمہارے خلاف) بناتے ہیں ‘‘ (المومنو، آیت:96)۔

 ’’درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو اور جاہلوں  کے منہ نہ لگو اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کیلئے) شیطان تمہیں  اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘‘(الاعراف، آیت:199-200)۔

 صاحب تفہیم القرآن نے سورہ العنکبوت کی آیت 46 کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

 ’’یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں  اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں  ہونا چاہئے، تاکہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلاح ہوسکے۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہئے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں  اتار دے اور اسے راہ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں  لڑنا چاہئے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہئے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہوجائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہل کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں  دی گئی ہے مگر یہ اہل کتاب کیلئے مخصوص نہیں  ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں  ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں  جگہ جگہ دی گئی ہے‘‘۔

 صاحب تدبر قرآن نے مذکورہ آیتوں  کی تشریح میں  لکھا ہے:

 ’’دعوت کے اس دور میں ،جو سورہ میں  زیر بحث ہے، اہل کتاب بھی مخالفت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اس وجہ سے جس طرح اوپر والی آیت میں  ان لوگوں  کے باب میں  دعوت کا طریقہ واضح کر دیا گیا جو قرآن کی صداقت تسلیم کرنے کیلئے معجزات کے طالب تھے، اسی طرح یہاں  چند آیات میں  اس طریقہ کی وضاحت فرما دی گئی جو اہل کتاب کے ساتھ بحث و استدلال میں  مسلمانوں  کو اختیار کرنا چاہئے۔ اہل کتاب کی اس خصوصیت کی وجہ آگے کی آیات سے خود واضح ہوجائے گی کہ ان کی دینی حیثیت بھی مشرکین عرب سے بالکل مختلف تھی اور ان کے شبہات و اعتراضات بھی ذرا مختلف نوعیت کے تھے۔ یہ پڑھے لکھے جنات تھے اس وجہ سے ضروری ہوا کہ ان سے نمٹنے کیلئے مسلمانوں  کو ضروری ہدایات سے پہلے دے دی جائیں ۔

 فرمایا کہ اہل کتاب سے بحث و استدلال کی نوبت آئے تو ان سے صرف احسن طریقہ سے بحث و استدلال کرو۔ ’مجادلۃ‘ یہاں  اچھے معنوں  یعنی بحث و استدلال اور حجت کے مفہوم میں  ہے۔ اور ’طریقۂ احسن‘کی وضاحت اسی آیت کے آگے والے ٹکڑے میں  آگئی ہے کہ تمہارے اور ان کے درمیان دین کے جو مشترک اقدار میں  ان کی بنیاد قرار دے کر ان سے مطالبہ کرو کہ وہ بھی ان مشترک اقدار اور ان کے لوازم کو تسلیم کریں  اور اپنی مانی ہوئی باتوں  کی خود اپنے منہ سے تردید نہ کریں ۔ اس طریقۂ بحث سے ان کی انانیت کو ٹھیس نہیں  لگے گی۔ ان میں  جو سلیم الطبع ہوں  گے وہ تمہارے باتوں  پر غور کریں  گے اور کیا عجب کہ ان میں  سے کچھ ایسے نفوس بھی نکل آئیں  جو حق کو قبول کرلیں ۔

 ’اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ‘۔ عام طور پر لوگوں  نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اہل کتاب میں  سے جو شریر اور مناظرہ باز ہیں  ان کے ساتھ طریق احسن کی پابندی ضروری نہیں  ہے ، ان کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے لیکن میرے نزدیک یہ استثنائے منقطع ہے، اس وجہ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رہے وہ جوان میں  سے شریر اور مناظرہ باز ہیں  تو ان کو سرے سے منہ ہی نہ لگاؤ۔ قرآن کے نظائر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن میں  جگہ جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ضدی اور کج فہم مناظرہ بازوں  اور کٹ حجتی کرنے والوں  سے اعراض کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ سورۂ کہف میں  یہ تصریح بھی موجود ہے کہ جو ہٹ دھرم بات سمجھنی نہیں  چاہتے، ان سے اول تو تعرض ہی نہ کرو اور اگر کبھی بحث کی نوبت آہی جائے تو بات ٹالنے (مراء ظاہر) کے انداز میں  گفتگو کرو۔ حضرات انبیاء علیہم السلام اور صالحین کا طریقۂ بحث و و دعوت ہمیشہ یہی رہا ہے اور یہی طریقہ خیر و برکت کا طریقہ ہے۔ شریروں  اور کج فہموں  کے جواب میں  انہی کی روش اختیار کرلینا اور الزام کا جواب الزام اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینا نہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے اور نہ اس میں  کوئی خیرو برکت ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔