رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر

سفینہ عرفات فاطمہ

کم سن‘نوعمربچے مختلف چیزوں سے متعلق بے شمار سوال کیوں کرتے ہیں؟ذراسی آہٹ پرہماری توجہ اس جانب غیرشعوری طور پر مرتکزکیوں ہوجاتی ہے؟ کیوں کہ انسان فطرتاً متجسس واقع ہوا ہے ۔ تجسس اس کے خمیرمیں موجود ہے ۔اس میں اگرتجسس کی صفت نہ ہوتی توکائنات کی تسخیراوراس کے بری ‘بحری ‘ فضائی گوشوں تک رسائی ممکن ہی نہ ہوتی ۔ چاند‘ ستاروں کا سراغ پانا اور سمندروں کی تہوں تک پہنچنا بھی ایک خواب ہی ہوتا۔انسان کا تجسس ہی ہے جو اسے قدرت کے انمول خزانوں کاعلم دیتا ہے‘اس کی خوب سے خوب تر کی جستجو ہی نے کائنات کے اسرارورموزسے پردے اٹھائے ہیں ۔علم وآگہی کے لیے تجسس ‘ کائنات اور اس میں موجود تمام تر چیزوں کے لیے تجسس ‘انسان کی متجسس فطرت کا ایک مثبت پہلوہے‘لیکن اس سے ہم لوگ کم ہی مستفید ہوتے ہیں ۔ ہم لوگ اپنی اس مثبت صفت کا منفی استعمال دوسروں کے عیوب ٹٹولنے میں کرتے ہیں ۔حتی کہ انہی اخلاق سوزامورمیں عمرگزر جاتی ہے ۔اپنی ذات پر کبھی ایک احتسابی نظربھی نہیں ڈالی جاتی اور دوسروں کے پوشیدہ عیبوں ‘ کمزوریوں ‘ خامیوں کو جاننے کے لیے اور منظرعام پر لانے کے لیے ہم بے چین ہوئے جاتے ہیں ۔بیشترلوگوں کا کام بس یہی ہوتا ہے ‘دوسروں کے کمزورپہلوؤں کوکریدنا ‘ ان کے عیبوں کی ٹوہ میں رہنا اورمناسب اضافے و ترتیب کے ساتھ دوسروں کے سامنے پیش کرنا ۔

اہلِ ایمان کوان بری عادتوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ ’سورہ الحجرات‘ میں تمسخر‘طعنہ ‘بدگمانی اور غیبت کے ساتھ تجسس سے بھی منع کیاگیا ہے : ’’ولاتجسسو‘‘ ترجمہ:اورسراغ مت لگایا کرو (اورنہ ایک دوسرے کے عیوب کی کھوج میں لگے رہو)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجسس سے روکتے ہوئے فرمایاہے:
’’مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو۔جوشخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیبوں کے درپے ہوتا ہے توپھرخدا اس کے پوشیدہ عیبوں کو طشت ازبام کرنے پر تل جاتا ہے اور جن کے عیب افشا کرنے پر خدا تل جائے تووہ اس کورسواکرکے ہی چھوڑتا ہے ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرگھس کر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے۔ (ترمذی)
تجسس کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکربھی یہاں بے محل نہ ہوگا جوحضرت عمرقاروقؓ سے متعلق ہے۔
حضرت عمرفاروقؓ حق کے معاملے میں بہت ہی کھرے اور بے لچک تھے ۔ایک شب معمول کے مطابق وہ گشت فرمارہے تھے کہ ایک مکان سے انہیں نغمہ و سرود کی آوازسنائی دی ‘انہوں نے مزید کھوج کی تو انکشاف ہوا کہ وہاں مئے نوشی بھی کی جارہی ہے ۔ حضرت عمرکی حق پسند طبیعت اس بات کوبرداشت نہ کرسکی اورآپ دیوار پھاند کر اس مکان میں داخل ہوئے اور صاحبِ مکان سے کہا کہ ’اے خدا کے دشمن تو شراب پی رہا ہے ‘اورگانے بھی سن رہاہے؟‘ اس شخص نے حضرت عمرؓ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی اور کہا: مجھ سے توصرف دو غلطیاں سرزد ہوئیں اور اے امیرالمومنین آپ سے قرآنِ حکیم کے تین احکام کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔قرآن نے تجسس سے روکا ہے‘اورآپ نے میرے عیبوں کا سراغ لگایا ‘قرآن نے کہا ہے کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیرداخل نہ ہو اورآپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں داخل ہوگئے‘ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ دروازے سے گھر میں داخل ہو اورآپ دیوارپھاندکرمیرے گھرمیں داخل ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیا۔اوروہاں سے تشریف لے گئے۔
ہم لوگ اس لیے تجسس میں نہیں رہتے کہ برائیوں کوروک سکیں بلکہ ہم دوسروں کی ذات کوٹٹولنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔عرصہ دراز سے اپنی ذات ‘اپنی خامیوں ‘اپنی کمزوریوں ‘اپنی بری عادتوں سے ہم نے غفلت برتی ہے ۔دوسروں کی ذاتی زندگی میں بے جا مداخلت اوران کے عیبوں کو طشت از بام کرنا ہمارا محبوب شیوہ رہا ہے ۔یہ درست ہے کہ انسان اپنے اطراف واکناف سے بالکل بے نیاز ہوکرنہیں رہ سکتا ۔ کبھی کبھی تو اس کی یہ بے نیازی ہلاکت خیز بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد سے باخبر رہیں ‘وہاں جوانسان بستے ہیں ان کے حالات اور مسائل سے آگاہ رہیں ۔اگرہم اس بات پر قادر ہیں کہ ان کے مسائل دورکرسکیں توبے شک ہمیں ایساکرنا چاہیے ‘ دوسروں کے زخموں کوکریدکریدکرہرا کیے بغیربھی ایک خیرخواہ اور غم گسارکاکرداراداکیاجاسکتا ہے ۔ کمزور پہلوؤں کی نمائش کے بغیربھی انہیں دورکیا جا سکتا ہے‘ ان کاحل ڈھونڈھاجاسکتا ہے ‘لیکن ایسا ہوتا کہاں ہے ؟جب مسائل کا ذکرہوتا ہے ‘کسی کا دکھ بانٹنے کی بات ہوتی ہے تو ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ‘ہمارے کیاکم مسائل ہیں جو ہم دوسروں کی زندگی میں جھانکیں ‘سوہم بے نیاز ہوجاتے ہیں ‘لیکن جب دوسروں کے عیبوں اور کمزوریوں کی بات ہوتی ہے تو ہماری ساری بے نیازی کافورہوجاتی ہے ۔
اکثرلوگوں کویہ فکرلاحق ہوتی ہے ان کے پڑوس میں کتنی لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں اوروہ یہ جاننے کے لیے بھی بے تاب ہوتے ہیں کہ ان کی عمریں کیا ہیں ‘ کہیں وہ بوڑھی تونہیں ہوئی جارہی ہیں؟وہ یہ بھی خبر رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کس کی اپنے شوہرسے ان بن ہے ؟ ساس بہومیں کس بات پرلڑائی ہوئی؟کس کا بیٹا نافرمان ہے ؟ کس کی بیٹی شام ڈھلے گھرکولوٹتی ہے؟ کس کا شوہرشراب پی کرگھرکوآتا ہے ؟کس کی منگنی ٹوٹ گئی ہے ؟ کون معلقہ ہے ؟اگرطلاق ہوا ہے تو اس کے اسباب کیاہیں؟کسے کیابیماری ہے؟ کون کتنا کمارہا ہے؟کونسے ذرائع سے کمارہا ہے ؟کس کا دامادنکما ہے؟ کس کی بہودن رات آرام میں مشغول ہوتی ہے ؟ اگر کزنز کی آپس میں شادی ہوئی ہے یا لڑکا لڑکی پہلے سے ایک دوسرے کوجانتے تھے تو ان کی ارینج میریج ہوئی ہے یاپھر۔۔۔؟
دوسروں کے چھپے ہوئے عیبوں‘کمزورپہلوؤں کاسراغ لگاتے ہوئے یاپھر انہیں دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اگرہم اپنی ذات پرآکر رک جائیں اوریہ سوچیں کہ ہمارے پوشیدہ عیب اسی طرح دوسروں کے سامنے آجائیں تو ہم کیسا محسوس کریں گے؟ کیا ہمیں یہ اچھا لگے گا کہ کوئی ہماری یا ہمارے عزیزوں کی کمزوریوں کی تشہیرکرے ۔خدانخواستہ ہمارا کوئی عزیز رشتہ دار نکما ہو ‘ نافرمان ہو ‘ بری عادتوں میں ملوث ہو توہم ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ لوگ اس بات سے واقف ہوں ۔خوداپنی ذات کو ہی لیجئے باطنی عیب توچھپے ہی رہتے ہیں لیکن ہم اپنے ظاہری عیبوں کوبھی لوگوں سے چھپاناچاہتے ہیں ‘جب ہم اپنے تئیں اتنے حساس ہوتے ہیں توہمیں دوسروں کے پوشیدہ عیبوں کی ٹوہ کا کیاحق ہے ؟ ہم کیسے اس معاملے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں ؟دوسروں کی خامیوں کی کھوج اسی وقت ختم ہوسکتی ہے جب اپنی فکر لاحق ہوجائے ‘ہمیں خودپربھی ایک تنقیدی نگاہ ڈالنے کی توفیق ہو ‘ ہم اپنا بھی محاسبہ کریں ۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔