زمین: ایک امانت – 22 اپریل عالمی یوم الارض کے حوالے سے خصوصی تحریر

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایاَ  و هوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ (6:73) ترجمہ:’’وہی (اﷲ تعالی) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیداکیا‘‘، یعنی زمین وآسمان کی تخلیق محض کھیل تماشے کے طورپرنہیں ہوئی بلکہ یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنیادپر کیاگیا ہے اور اس کے اندر ایک بہت بڑا مقصد پنہاں ہے۔ ایک اور جگہ قرآن مجید نے تخلیق ارض کے بارے میں فرمایا اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہ‘ حَثِیْثًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمْرِہٖ اِلاَّ لَہُ الْخَلْقَ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (7:54) ترجمہ’’درحقیقت تمہارارب اﷲ تعالی ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھراپنے تخت پرجلوہ فرماہوا جورات کو دن پر ڈھانک دیتاہے اور پھر دن کورات کے پیچھے دوڑاتا چلاآتاہے ،جس نے سورج چانداورتارے پیداکیے سب اسی کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو کہ اسی کا خلق ہے اور اسی کا امر ہے، بڑا بابرکت ہے اﷲ تعالی جوسارے جہانوں کا مالک و پروردگار ہے۔‘‘زمین کے انتظامات کے بارے میں ایک اور مقام پر اس طرح ارشاد ہوتا ہے وَ هوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ وَ اَنْہٰرًا وَ مِنْ کُلِّ الثَّمٰرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لٰاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(13:3) وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍوَّ نُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لٰاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(13:4) ترجمہ’’ار وہی اﷲ تعالی ہے جس نے زمین پھیلا رکھی ہے اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہادیے ہیں ،اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیداکیے ہیں اور وہی دن پررات طاری کرتاہے، ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں،اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جوایک دوسرے سے متصل واقع ہیں،انگور کے باغات ہیں،کھیتیاں ہیں ،کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ہیں، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کرتاہے مگرمزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کم تر، ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘
انسانی اندازے کے مطابق آج سے 4.54 بلین سال پہلے اﷲ تعالی نے زمین کووجود بخشا، زمین انڈے کی ہیئت کی مانندایک نیم بیضوی گول شکل کاایک گولا سا ہے۔ خلا سے دیکھنے میں یہ ایک سبزرنگ کی گیند نظر آتی ہے جس کے گرد بعض اوقات ایک سفید چادر سی لپٹی ہوتی ہے جو پانی سے بھرے بادل ہوتے ہیں اور دوہی مقامات سے روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے ایک مکہ مکرمہ اور دوسرا مدینہ منورہ۔ ﷲ تعالی نے زمین کو نظام شمسی کاایک سیارہ بنایاہے اور اسے اپنی قدرت کاملہ سے سورج کے زہریلے اثرات سے محفوظ بناکراس میں زندگی کو ممکن کیاہے۔ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اوراس دوران اپنے مدار کے گرد بھی گھومتی رہتی ہے، اپنے مدار کے گرد ایک چکر کو ایک دن کہاجاتا ہے اورسورج کے گرد ایک چکر365 دن 5 گھنٹے اور48 منٹ میں پورا کرتی ہے، اس مدت کو ایک شمسی سال کہاجاتاہے۔ زمین اپنے مدار کے گردکم و بیش 30 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے گھومتی ہے، یہ اتنی تیز رفتار ہے کہ اس رفتار سے چلنے والے کسی جسم پر قرار ممکن نہیں لیکن اﷲ تعالی نے زمین کے اندر کشش ثقل نامی ایک ایسی قوت رکھ دی ہے کہ زمین اپنی موجودات کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے۔ چاند زمین کے گرد گھومنے والا اکلوتا سیارہ ہے جو زمین کے گرد اپنا ایک چکر انتیس سے تیس دنوں میں مکمل کر لیتاہے۔ چاند کی گردش زمین پر بھی اثرانداز ہوتی ہے خاص طور پر سمندر مدوجزریا جوار بھاٹا سورج اور چاند کی مشترکہ گردش کا نتیجہ ہوتاہے۔
زمین کے کم و بیش اکہتر(71%) پر پانیوں کے سمندر واقع ہیں جب کہ باقی ماندہ پرخشک سرزمین ہے جب کہ خشکیوں کے درمیان جہاں دریابہتے ہیں وہاں سمندروں کے درمیان بھی جا بجا خشکی کے جزائر واقع ہیں۔ ﷲ تعالی نے ایک خاص اندازے کے مطابق زمین کو بائیس ڈگری تک سورج کی طرف ٹیڑھاکر کے رکھاہے جس کے باعث زمین کے پانیوں اور خشکی کے درمیان توازن برقراررہتاہے۔ اگر زمین ایک ڈگری کم ٹیڑھی ہوتی تو زمین کے سارے پانی کے ذخائرجم کر برف بن جاتے اور زندگی کے امکانات معدوم ہو جاتے اور اسی طرح اگر زمین ایک ڈگری زیادہ سورج کی طرف جھکی ہوئی ہوتی، جب کہ ایک ڈگری بہت چھوٹی سی مقدار ہوتی ہے،تو زمین کے سارے برفانی تودے حدت شمسی سے پگھل کر پانی بن جاتے اور زمین پر ایک انچ بھی خشکی کاباقی نہ پچتااور زندگی کے امکانات ایک بار پھر معدوم ہو جاتے، پس یہ اﷲ تعالی کی قدرت کاملہ ہے کہ جہاں زمین کو خارجی اثرات بد سے بچایا وہاں داخلی طور پر بھی اس کی تخلیق اس طرح فرمائی کہ کل مخلوقات حیاتیہ اپنا عرصہ حیات بخوبی مکمل کر سکیں۔ زمین کا اندرون بے حد گرم ہے، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین ایک زمانے میں سورج کا حصہ تھی،علیحدگی کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ زمین کا بیرون تو ٹھنڈا پڑ گیا لیکن اندرون اب بھی بے انتہا حدت کا حامل ہے۔ بعض اوقات زمین کے اندرون سے گرمی کے باعث ابلتا ہوا اور کھولتا ہوا مادہ جسے ’’لاوہ‘‘کہتے ہیں باہر نکل پڑتاہے، یہ بہتاہوا بے حد گرمائش کا حامل اپنے راستے میں آنے والی چیزکو جلا دیتاہے اور بعض اوقات اسی لاوے کے باعث زلزلے بھی آتے ہیں کیونکہ لاوے کی گرمائش زمین کی اندرونی سطح میں بہت زیادہ ردوبدل کر ڈالتی ہے۔ اسی حدت ارضی کے باعث زمین کی تہوں میں اﷲ تعالی نے انسانوں کے لیے بے شمار قیمتی ذخائر دفن کررکھے ہیں، تیل، گیس اور معدنیات کا انبوہ کثیراسی گرمائش کا مرہون منت ہے جس کی وجہ سے زمین کے پیٹ میں بہت تیزی سے کیمیائی عملات وقوع پذیرہوتے ہیں اور انسان کے لیے انعامات خداوندی تیارہوتے رہتے ہیں۔ ﷲ تعالی کی شان ہے کہ زمین کی بالائی سطح پر جہاں برفانی تودے اپنی برودت کی شدت پر قائم ہیں انہیں کی تہوں میں آگ کی تپش سے دھاتیں پگھلتی چلی جارہی ہیں۔
زمین پر سات براعظم ہیں جن میں ایشیا سب سے بڑاہے، افریقہ، شمالی و جنوبی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور انٹارکٹا شامل ہیں۔ زمین کے دو سرے جنہیں قطب شمالی اورقطب جنوبی کہتے ہیں، یہ دونوں خطے انتہائی بلندی اور انتہائی پستی پر واقع ہیں۔ زمین جب سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتی ہے تو نصف سال تک یہ زمینی قطب 22ڈگری کے جھکاؤ کے باعث سورج کے سامنے رہتے ہیں جب کہ بقیہ نصف سال سورج سے دور ہٹ جاتے ہیں چنانچہ کہاجاتا ہے کہ یہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے، تب نماز اور روزہ وغیرہ کے احکامات یہاں کس طرح مرتب ہو سکتے ہیں یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ بہرحال یہاں درجہ حرارت بعض اوقات-50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی گرجاتاہے اور لوگ برف کے گھروں میں اقامت پذیر رہتے ہیں کیونکہ برف کا درجہ حرارت صفرٖگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور یہ گھروندے باہر کی نسبت گرم ہوتے ہیں۔ تاہم یہاں زندگی اس طرح ممکن نہیں ہے جیسے زمین کے وسطی علاقوں میں تہذیب و تمدن اپنی پوری قوت سے تاریخی سفر طے کرتے ہیں اس کے باوجود بھی یہاں کی مخلوقات اپنے خالق کے قائم کردہ اصول ہائے حیات کے مطابق زندگی کے ایام پورے کرتی ہیں۔ پوری زمین میں دریاؤں کا بہاؤ شمال سے جنوب کی طرف رہتا ہے اور یہ اﷲ تعالی کا قائم کردہ نظام ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے کئی جگہ بتایا کہ کس طرح اﷲتعالی سمندروں سے بادل اٹھا کر پہاڑوں پر برساتا ہے اور پھر وہ پانی بہتا ہوا باردیگر سمندروں میں آن گرتاہے۔ زمین کی سطح، زمین کی فضا اور زمین کااندروں خدائی رازوں سے بھرپور ہیں، کہیں کہیں تو انسان کی رسائی ہو چکی ہے اور بے شمار مقامات و وقوعات ایسے ہیں کہ انسان ابھی تک ان کے مشاہدے کے بعد انگشت بدنداں ہے ۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد سے جہاں سیکولر تہذیب نے انسان کے اخلاق اور معیشیت کی تباہی پھیردی ہے وہاں صاف شفاف زمین کو بھی اس یورپی انقلاب نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور یورپی کارخانوں نے زمین کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کر کے اسے گندگی کا ڈھیر بنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آلودگی اس زمین کے سینے پر سب سے بڑی ایسی قاتل بن گئی ہے جوہمہ وقت انسانی جانوں کے درپے ہے، دنیابھرکے 100ملین سے زائد افراد آلودگی کے باعث ملیریا اورایچ آئی وی کا شکارہیں، ایک بلین سے زائد افراد پینے کے صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں،14بلین پونڈ سے زیادہ وزن کا حامل پلاسٹک کافضلہ ہر سال سمندروں میں پھینک دیاجاتاہے اورصرف میکسیکو کی خلیج میں چلنے والے جہازسالانہ 1.5میٹرک ٹن نائٹروجنی آلودگی کاباعث بن رہے ہیں جس کے باعث ایک ملین سے زائد سمندری حیات کوموت کا آسیب نگل جاتاہے، کارخانوں کے قریب رہنے والے انسانوں کو پھیپھڑے کے کینسرمیں مبتلا ہونے کے امکانات 20% تک زیادہ ہوتے ہیں اور یہ بہت زیادہ خطرناک حد تک کی شرح ہے،امریکہ جیسے ملک کی 46%جھیلیں آلودگی کے سبب آبی حیات اور انسانی تیراکی وسیاحت کے قابل نہیں رہیں، ہرسال امریکہ کے قدرتی صاف شفاف اور صحت بخش پانیوں میں 1.2ٹریلین گیلن زیریلا مواد ڈال دیاجاتاہے جس کے باعث وہاں کے بچے پانچ سال سے بھی کم عمروں میں آلودگی کے باعث بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو وحی الہی نے سینکڑوں برس پہلے بتادیاتھا کہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(30:41)‘‘ترجمہ:’’خشکی میں اور دریاؤں میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھ کی کمائی سے تاکہ(اﷲتعالی) مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آجائیں‘‘۔ پس اﷲ تعالی نے تو ایک بہت عمدہ اور بہترین زمین جو انسانی تقاضوں کے لیے ایک بہترین جائے قرار تھی، نسل آدم کو عطا کی تھی لیکن انسان نے اپنے ہی ہاتھوں ایک غیر فطری، سیکولر نظام کے تحت اس کی شفافیت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔
یورپی سیکولرازم کی زمین دشمنی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ منافقت اور کذب و فساد کے مرقع ’’سیکولرازم‘‘نے اپنی اس کارستانی پرپردہ ڈالنے کے لیے انتہائی چابک دستی سے ’’آلودگی‘‘کو ایک معاشی ہتھیار بناکر اس کا سارا نزلہ ایشیا پر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ کہ ایشیا کی زمین آج بھی یورپ اور امریکہ کی زمین سے زیادہ صاف اور صحت بخش ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیرفطری نظریہ زندگی کے باعث یورپ اور امریکہ میں صدیوں سے دو رویے بالکل متضاد سمت میں رواں دواں ہیں،ایک طرف توآبادی میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے اور عمارتوں اور سڑکوں کے بھرے ہوئے شہروں میں کوئی بچہ خال خال نظر آتاہے تو دوسری طرف کارخانوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے حتی کہ جو ہفتہ بھر میں کہیں ایک چیز تیار ہواکرتی تھی تو صنعتی انقلاب کی بدولت اب گھنٹوں میں ایسی سینکڑوں چیزیں تیار ہو جاتی ہیں۔ ان مصنوعات کی کھپت توآبادی کے ہاں ہی ممکن تھی جو کہ امریکہ و یورپ میں ناپید ہے،آبادی میں کمی کے ہوشربا اعداوشمار کے باعث اب اس تہذیب کے سرخیلوں نے ایشیائی باشندوں کے لیے اپنی شہریت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ چنانچہ آلودگی کو ختم کرنے کی بجائے اس تہذیب کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہاہے کہ ایشیائی اقوام 8 میں آلودگی کا شور مچاکر انہیں مجبور کیاجائے کہ کارخانے مت لگاؤ، نتیجۃ ان ملکوں کی بڑھتی ہوئی آبادی امریکہ اور یورپ کی مصنوعات خریدے گی جس کے باعث ملٹی نیشل کلچر کو بڑھوتری میسر آئے گی اور دولت کا بہاؤمشرق سے مغرب کی طرف ہی رہے گا۔ اس پروپیگنڈے کے تحت ایشیائی عوام کا خون نچوڑنے والے کبھی کبھی انہیں بے وقوف بنانے کے لیے آٹے میں نمک کے برابر ایسی امداد پھینک دیتے ہیں جس کا مقصد آلودگی کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے اور پس پردہ مقصد معاشی جنگ میں اپنے ہتھیارکو مزید تیزکرنا تاکہ مجبوروبے کس اقوام کی رگوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ عرق حیات کشید کیا جاسکے۔ انسانیت کے یہ دعوے دار دراصل انسانیت کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور ان کی تہذیب نے ہمیشہ آزادی کے نام پر غلامی، تعلیم کے نام پر تہذیبی تسلط، امن کے نام پرسردجنگ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نام پر باقی ماندہ دنیاؤں پر اپنا سیاسی تسلط قائم کرنے کی کوشش کر کے اﷲ تعالی کی اس زمین پر اپنے فرعونی و نمرودی نظام کے خونیں پنجے گاڑنے کی کوشش کی ہے۔ چائلڈ لیبر،آزادی نسواں، وومین امپاورمنٹ، انٹرفیتھ ڈائلاگ، تعلیم بالغاں، ہیومن رائٹس، ڈیموکریسی اورنہ جانے کتنے ہی خوبصورت بنے ہوئے مکڑی کے جال ہیں جو دراصل معاشی جنگ کے زہریلے ہتھیارہیں جن کی مدد سے انسانوں کی قاتل اور انسانیت دشمن ’’یورپی سیکولر تہذیب‘‘ نے اس زمین کو ظلم نانصافی اور معاشی عدم مساوات سے بھر دیاہے۔
اﷲ تعالی نے اپنی قدرت کا عظیم شاہکار تخلیق کیا اور پھر اسے انسان کے قابل بنایا اور انسان کو یہ عزو شرف عطا کیاکہ اسے اپنا خلیفہ یا نائب بناکر یہ کرہ ارض اس کے حوالے کیا تاکہ وہ اس زمین کے مالک کی رضا کے مطابق اس زمین پر اپنا حق حکمرانی استعمال کر سکے۔ ﷲ تعالی نے قرآن میں بتایا کہ وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآئکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (۲:۳۰) ترجمہ:’’ پھریادکرو وہ وقت جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘۔ ﷲ تعالی نے جسے خلیفہ بناکر اس زمین کا نظا م اس کے حوالے کیا، تاریخ شاہد ہے کہ اس نے اپنے آقا کی نشست سنبھال لی اور وقت نے دیکھاکہ انسان ہی اپنے جیسے انسانوں کا خدا بن بیٹھا اور اس نے فرعون اور نمرود اور ابو جہل کے روپ دھار لیے۔ ان انسانی کرداروں کے باعث زمین فسادسے بھر گئی۔ ﷲ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ انسانوں کو انسانوں کی خدائی سے نجات دلا کر تو ایک اور سچے معبود کے تابع کر دیا جائے۔ زمین کے فراعین نے انبیاء علیھم السلام اور ان کے ماننے والوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ایک معرکہ کارزار آج تک جاری ہے۔ اس زمین کے اصل وارث وہی لوگ ہیں جو اس زمین کے مالک کے بھیجے ہوئے سامان ہدایت کے حامل ہیں لیکن یہ عجائبات عالم میں سے ہے کہ غاصبین نے اس زمین کو اپنی تصرف گاہ بنارکھاہے اور اس کے خزانوں کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے ہیں۔ ماضی کی یہ جہالت آج سیکولرازم کے نام سے انسانیت کی گردنوں پر مسلط ہے اورتہذیب اورسود کی بیڑیوں سے اس سیکولرازم نے کل انسانیت کو غلامی کی زنجیریں پہنا کر اﷲ تعالی کی اس زمین کو ظلم و ستم سے بھر دیاہے لیکن بہت جلد یہ زمین اپنے حقیقی وارثوں کی طرف پلٹنے والی ہے جب یہاں کا نظم و نسق انبیاء علیھم السلام کی پیروکاروں کے پاس پلٹ آئے گا،ان شاء اﷲ تعالی۔

(یو این این)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔