سدھو سے بغل گیرجنرل باجوا کا پیغام : بھاجپا کیوں خفا ہے؟

سید منصورآغا

پڑوسی ملک پاکستان میں انتخابی عمل کیسارہا، اس میں فوج نے کیا کردارادا کیا؛ہمیں اس سے زیادہ غرض نہیں۔ کچھ خامیاں اگررہ بھی گئیں تب بھی اہم بات یہ ہے کہ آئینی عمل مکمل ہوا۔ چندروزدیرسے سہی نئی حکومت وجود میں آگئی۔ خدا کرے رائے دہندگان نے جن اچھی توقعات کے ساتھ عمران خان پراعتماد کیا، ان کے پوراہونے کی راہیں کھلیں۔ لیکن خیال رہے سرکار دوسری پارٹیوں کی مدد سے بنی ہے۔ ایسی صورت میں سیاسی دباؤ بہت ہوتا ہے۔ بیوروکریسی کو ڈھب پر لانا، خودغرض اورآرام طلب عملے میں دیانتداری اور خدمت گزاری کا جذبہ ابھارنا بھی ہنسی کھیل نہیں ہوتا۔ حکومت تو بیوروکریسی ہی چلاتی ہے۔ عمران خان ناتجربہ کارہیں، شریک پارٹیوں کے لیڈر اورسرکاری افسران اچھے اچھوں کو ناک سے پانی پلوا دیتے ہیں۔ اس لئے عوام کو صبرسے کام لینا ہوگا۔ جاگتے ضروررہیں مگرتحمل کے ساتھ۔ شدت پسندی اور بیرونی رشہ دوانیوں سے پاک خوشحال مستحکم پاکستان پورے خطے کیلئے اہم ہے۔ ہماری نیک خواہشات اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہیں جن سے ہمارے تاریخی، ثقافتی، مذہبی اورخاندانی رشتے بہت ہیں۔

سدھو کی شرکت :

عمران خان کرکٹ کی دنیا کی بڑی شخصیت ہیں۔ دنیا بھرکے چوٹی کے کرکٹ کھلاڑیوں سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ اپنی حلف برداری کی تقریب میں انہوں نے ہندستان کے تین معروف کرکٹرس کپل دیو،سنیل گواسکر اور نوجوت سنگھ سدھو کواورفلم اسٹارعامرخان کو مدعوکیا تھا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے دیرینہ دوست کی دعوت کوقبول کر کے ملک کی تہذیبی اور سیاسی روایت کوزندہ رکھا۔ جب کہ تین دیگررسم حلف برداری میں شریک نہیں ہوئے۔ عمرا ن خان جس اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے وہ کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ تقریب کے لئے محدودتعداد میں دعوت نامے دئے گئے۔ اس بات کی قدرکی جانی چاہئے تھی کہ ہندستان سے چارافراد کو مدعو کیا گیا۔ یہ ایک موقع تھا جب ان کے یہ دوست وہاں جاتے اور خوشگواری کا احساس دلاتے۔ عمران توان کے ذاتی دوست ٹھہرے، غیروں کے بلانے پر ان کی تقریبات میں بھی شرکت کی جاتی ہے۔ وزیراعظم سمیت اہم سیاسی لیڈروں کا اپنے سیاسی مخالفین کی تقریبوں میں شریک ہونا روز کی بات ہے۔ سدھو کے علاوہ باقی تین کیوں نہیں گئے؟ اس کا اندازہ بھاجپا کے قومی ترجمان سمبت پاترا کی 18اگست کی پریس کانفرنس سے ہوجاتا ہے جس میں انہوں نے سدھو پراورکانگریس پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہہ دیا، ’’پنجاب سرکارمیں وزیر اور کانگریس لیڈر سدھو کا عمران خان کی حلف برداری میں جانا کسی جرم سے کم نہیں۔ ‘‘

سمبت پاتراکا یہ کہنا وزیراعظم ہند کے اس پیغام مبارکبادی کی بے قدری ہے جو انہوں نے عمران خان کوارسال کیا۔ ان کا یہ اندازفکرہماری قومی تہذیبی روایات کے بھی خلاف ہے جب ہم سیاسی رنجشوں اور مخالفتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان کے غم اورخوشی میں شریک ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ وزیراعظم ہند خود سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیٹی کی شادی کی مبارکباد دینے اچانک لاہور پہنچ گئے تھے۔ تحفے تحائف بھی لئے دئے گئے اورگلے بھی ملے۔ اورجب مخالفین نے اس پر سوال اٹھائے تو پارٹی نے مودی کی تائید کی تھی۔ اگران کا لاہورجانا اوران کی تقریب حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کیا جانا اوران کی شرکت قابل تعریف ٹھہری توعمران خان کی دعوت پر نوجوت سنگھ سدھو کا جانا گناہ کیسے ہوا؟ پاتراکے اس بیان سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ باقی تین محترم مدعوئین کیوں نہیں گئے ؟ان کوخوف ہوگا کہ گئے توپگڑی اچھالی جاسکتی ہے۔ خوف کے اس ماحول میں سدھو نے اپنی فطری جرأتمندی، بلند اخلاقی اورسیاسی سوجھ بوجھ کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ یقیناًلائق تعریف ہے۔ اس وقت ملک کو ایسے ہی دانشمندانہ حوصلے کی ضرورت ہے۔

باجپئی کوبھی بھلادیا:

سمبت پاترانے سدھو پر حملہ باجپئی جی کی آخری رسوم کے اگلے دن ہی بول دیا، جن کا قول یہ تھا کہ’’ ہم دوست توبدل سکتے ہیں، پڑوسی نہیں بدل سکتے‘‘۔ جنہوں نے 19فروری 1999کواپنی مشہور’ لاہوربس یاترا‘ اوراس دوران مینار پاکستان جاکر پڑوسی ملک کو خیرسگالی کا پیغام دیا تھا۔ اس کے بعد کرگل ہوا اوریہ جانتے ہوئے کہ اصل کھل نائک کون ہے، انہوں جنرل پرویزمشرف کوآگرہ مدعو کیا۔ اگرآڈوانی جی رکاوٹ نہ ڈالتے توسمجھوتہ ہو ہی جاتا۔ باجپئی جی کی ان تدابیرکی دنیا تعریف کرتی ہے۔ پاترا نے سدھوکے پاکستان جانے پراعتراض کرکے باجپئی جی کی سوچ کی توہین کی ہے۔ حالانکہ مودی جی نے 15اگست کی تقریر میں ان کے نقش قدم پرچلنے کاارادہ ظاہر کیا تھا۔ یہ ارادہ منھ پھلاکر گھربیٹھ جانے سے پورا نہیں ہوگا۔ اگرباجپئی جی کی کوششیں ہندکی جدید تاریخ کا اورخود باجپئی جی کی سیاسی زندگی کا روشن صفحہ ہیں، توسدھو کااسی راہ میں قدم بڑھانا کیونکر جرم اورگناہ ہوگیا؟

سدھو اورمسعودخان:

رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹرسدھو کو جلسہ گاہ میں کہیں آخری قطار میں بٹھایا گیا تھا۔ مگرکچھ دیر بعدمنتظمین نے ان کو وہاں سے اٹھاکر اگلی صف میں بٹھادیا جو وی وی آئی پیزکیلئے مخصوص ہوتی ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے صدر مسعود خان کو بھی جوکسی پچھلی صف میں تھے، آگے لایا گیا اور سدھو کی برابروالی خالی سیٹ پربٹھادیاگیا۔ پاتراجی کا خیال ہے کہ سدھو کومسعود خان کے پہلو سے اٹھ جانا چاہئے تھا۔ ان کا یہ مشورہ عین اس مزاج کی عکاسی کرتا ہے جس پر بھاجپا اوراس کے ہم نواچل پڑے ہیں۔ لوگوں کی نظروں میں آجاؤ چاہے اخلاق اور انتظام کے پرخچے اڑجائیں ‘۔ اس کی ایک مثال نئی دہلی میں 14اگست کوایک نوجوان سماجی کارکن عمرخالدپرقاتلانہ حملہ ہے۔ اس جرم میں ملوث ’’گؤ رکشک دل‘‘ کو دوشورہ پشتوں نے، جو19اگست کو پکڑے گئے، اعتراف کیا ہے کہ یہ حرکت اور ا س کے بعد ویڈیو سوشل میڈیا پر اس لئے ڈالا گیا کہ ان کوشہرت مل جائے۔ اسی مقصدسے ہجومی تشدد اورہجومی قتل کی ویڈیو وائرل کی جاتی ہیں۔ پاتراجی کو معلوم ہونا چاہئے کہ سارا ہندستان اس بیمار ذینیت میں گرفتارنہیں ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملک اورقوم کے وقار اوراپنی مذہبی اقدار کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہو پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمارا اوردوسری طرف وہاں کی نمایاں سیاسی شخصیت سے اس قدربیر؟پاترا جی اگرمقبوضہ کشمیر کے باشندوں اوراہل پاکستان کے دل جیتنے ہیں تودھونس دھمکی کی پالیسی ترک کرکے حسن سلوک اورخوش اخلاقی کو عام کرنا ہوگا۔

باجپئی کے اصول:

سدھو اورکانگریس پر پاترا کا یہ حملہ اس لئے بھی حیرتناک ہے کہ 15اگست کی تقریر میں، جب کہ یہ واضح ہوچکا تھا کہ باجپئی جی آخری سانسیں لے رہے ہیں، وزیراعظم مودی نے ان کے تین اصولوں کا ذکرکیا تھا، ’جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت‘‘۔ یہ ان تینوں اصولوں پر حملہ ہے۔ پاکستان جانا سدھو کا جائزجمہوری حق ہے۔ اگران کا وہاں جانا جرم تھا، تو سرکاری ایجنسیوں نے ان کو کیوں نہیں روکا؟مسٹر سدھو سکھ قوم کے نمائندہ فرد ہیں۔ انسانیت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لئے پاترا جی کبھی کسی گرو دوارے میں ہو آئیں، جہاں بڑے بڑے باحیثیت سکھ لنگرمیں غریبوں کو کھانا کھلاتے،جھوٹے برتن دھوتے، زائرین کی جوتیاں صاف کرکے سیدھی رکھتے ہوئے مل جائیں گے۔ جہاں جگہ مل جاتی ہے، بیٹھ کر کھانا کھالیتے ہیں۔ یہی ہندستانیت ہے۔ سکھ گروؤں نے مسلم صوفیوں کی صحبت اٹھائی ہے۔ انہوں نے اپنی انا کو فنا کرنا سیکھا اورسکھایا ہے۔ ایک ایسی قوم کے باشعورفرد سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی محفل میں مہمان ہو اور بدمزگی پھیلانے کا مرتکب ہو، وہ بھی اس لئے کہ یہاں نہیں بیٹھوں گا، وہاں بیٹھوں گا۔ سکھ پنتھ میں بہت سے عقائد اوراعمال صوفیانہ ہیں۔ وہ اپنے دشمن سے بچاؤ توکرتے یں مگراس ؂ سے بھاگتے ہیں، پاس آجائے تو بھگاتے نہیں۔ پاس بٹھاتے ہیں اور حسن اخلاق سے دل کو رام کرتے ہیں۔ یہ بدخلقی اوربدتہذیبی جس کا پاتراجی مشورہ دے رہے ہیں، اس جدید گروہ کی پہچان ہے جو ہندتوواکے نام پرہندو قوم اورتہذیب کو بدنام کررہا ہے۔

باجوا کی پیش کش:

اس تقریب کے دوران پاکستانی فوج کے چیف جنرل قمرجاوید باجوا سے بھی سدھو کی مختصرملاقات ہوئی۔ یہ سدھو کی شخصیت کی کشش تھی کہ جنرل باجوا نے بڑھ کران کوگلے سے لگالیا۔ پاترانے اس پربھی اعتراض کیا حالانکہ والہانہ انداز میں مہمانوں اورمیزبانوں سے گلے ملنا ہمارے وزیراعظم کی خاص ادا ہے۔ کئی باروہ ہندستانی تہذیبی روایات کے خلاف غیر خواتین کو بھی گلے لگالیتے ہیں۔ اس موقع پر جنرل باجوا نے جنرل باجوا نے سدھو کو بتایا کہ اگلے سال باباگرونانک دیو کے 550ویں یوم پیدائش کے موقع پر سکھ زائرین کے لئے کرتارپور پربین اقوامی کھول دینے کی پاکستان کی تجویز ہے۔ یہاں سے گرودوارہ دربارصاحب صرف تین کلومیٹر ہے۔ اب لاہور کے راستہ جانا پڑتا ہے جس سے سفر 160 کلو میٹر سے زیادہ ہو جاتاہے۔ یہ اہم گورو دوارہ اس مقام پر تعمیر ہے جہاں گرونانک دیو نے 22ستمبر1539کووفات پائی۔ یہیں سے انہوں نے اپنی تحریک چلائی تھی۔ یہ تجویز بھی ہے کہ ننکانہ صاحب جانے والے سکھ زائرین کی سہولت کے لئے بھی خاص سرحد کھولی جائے۔ لیکن ان تجاویز پر پاترا جی کا کوئی تبصرہ نظرنہیں، حالانکہ اس کا پرزورخیرمقدم ہونا چاہئے۔ ہمارے سکھ بھائیوں کے کئی مقدس مقامات اورتاریخی گرودوارے پاکستان میں ہیں۔ سکھوں کا یہ حق ہے کہ وہ بلا رکاوٹ ان مقدس مقامات کی زیارت کرسکیں۔

سابق مرکزی وزیر ایم ایس گل نے، جو چیف الیکشن کمشنربھی رہے، اس تجویز کا پرزورخیرمقدم کیا ہے اورکہا ہے، ’حکومت کوجنرل باجوا کے اس منصوبے کا پرجوش خیرمقدم کرناچاہئے۔ مجھے حیرت ہے کہ حکومت ہند نے جنرل باجوا کے بیان پر کوئی پرجوشی نہیں دکھائی ہے جو میری رائے میں ہندستان کے لئے پاکستان کی طرف( جذبہ مفاہمت ) ایک بڑااشارہ ہے۔ ‘‘

حیرت کی بات یہ کہ جب چین نے ناتھولا کے راستے ہندویاتریوں کو کیلاش پربت اورمانسرورکی یاترا کی اجازت دی تو بھاجپا نے اس کا خیرمقدم کیا لیکن جب سکھوں کے لئے سہولت کا اعلان ہوا توترجمان خاموش رہا۔ ہونا یہ چاہئے کہ سکھ زائرین کوویزاکے لئے دہلی نہ آنا پڑے بلکہ سرحد پر یا امرتسر میں سہولت دی جائے۔ پاکستان کرتارپورسرحد سے دربار صاحب تک تین کلومیٹرکا ایک محفوظ گلیارا بنادے توزائرین کو بڑی راحت مل جائے گی۔ اسی طرح پاکستان سے بہت سے عقیدت مند یہاں صوفیاء کے اعراس میں یا تبلیغی جماعت میں شرکت کے لئے آنا چاہتے ہیں، ان کے لئے بھی بے روک ٹوک سہولت ملے اورتبلیغی جماعتوں کو کثیر مقامات پرجانے کی اجازت ہو۔

سکھوں پراعتمادکرو:

یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ کچھ سابقہ واقعات اورتحریکات کی بناء پر حکومت ہند سکھ قوم پر شک کرتی ہے، حالانکہ اس قوم نے ملک کی سرحدوں کی نگرانی اورقومی آمدنی میں اضافے میں اہم کرداراداکیا ہے۔ بہت سے سکھ بیرون ملک سے بڑی مقدار میں زر مبادلہ (foreign exchange) کماکروطن بھیجتے ہیں۔ ہمیں ان کے مذہبی جذبات اورقومی خدمات کا اعتراف ہونا چاہئے اورسرکاری سطح پرہونا چاہئے۔ ان کی آبادی اگرچہ ملک میں صرف دوفیصد ہے مگرملک کے لئے ان کی خدمات بہت ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔