شعبۂ اردو میں یک روزہ سمپوزیم کا انعقاد

آزادی کے بعد حب الوطنی کی تلاش ایک مشکل عمل ہے۔ اب ہمارے سامنے آزادی جیسا کوئی مقصد تو ہے نہیں لیکن حب الوطنی کا حاصل صرف جنگ آ زادی ہو یہ درست نہیں۔ حب الوطنی کے آزادی کے بعد مختلف شیڈس ملتے ہیں۔ مشترکہ تہذیبی وراثت، اتحاد و اتفاق، اپنی مٹی سے محبت، ملک دشمن عناصر کے خلاف جہاد، ملک کو آ گے لے جانے والے اعمال وغیرہ ایسے شیڈس ہیں جو ہمیں وطن سے محبت سکھاتے ہیں۔ یہ الفاظ تھے پرو فیسر اسلم جمشید پوری کے جوشعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے پریم چند سیمینار ہال میں شعبۂ اردو اور ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کے اشتراک سے منعقدہ یک روزہ سمپوزیم بعنوان’’ اردو افسانے میں حب الوطنی :آزادی کے بعد‘‘ میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرما رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو افسانوں میں حب الوطنی کے ہر رنگ کا نما یاں عکس ملتا ہے۔ اس سے قبل پروگرام کا افتتاح نائب شیخ الجامعہ پروفیسر ایچ ایس سنگھ کے ہاتھوں عمل میں آیااور صدارت کے فرائض معروف ادیب نند کشور وکرم نے ادا کیے۔ نظامت ڈاکٹر آصف علی اورشکریے کی رسم ڈاکٹر شاداب علیم نے انجام دی۔

اردو افسانوں میں حب الوطنی کے ہر رنگ کا نما یاں عکس ملتا ہے: پروفیسر اسلم جمشید پوری

پرو گرام کا آ غاز مولانا ظفیرالاسلام نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ علاوہ ازیں تعارف دیویندر کمار دیویش، افسر بکار خاص، ساہتیہ اکادمی، تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے شین کاف نظام نے کہا کہ کہانی کا تعلق کہن سے ہے، کتھا کا کتھن سے جب کہ افسا نہ کا تعلق افسوں سے ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ افسا نے کے موجودہ خدو خال مغرب سے متاثر و مستعار ہیں لیکن ان کی پرکھ اور پہچان کے پیمانے مشرق کے اپنے ہیں۔ افسا نہ انفرادی ذہن کی دین ہے جب کہ کہانی اجتماعی حافظے کی دین ہے۔ کہانی کا جنم اس دن ہوا جس دن ایک لڑ کا بھیڑیا بھیڑیا چلاتا ہوا بھاگا اور بھیڑیا اس کے پیچھے نہیں تھا۔ قاری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ کہانی پر بھرو سہ کرے۔ افسا نے کے انکھوے آئیڈیا لوجی کے آنگن سے نہیں بلکہ ضمیر کی زمین سے پھوٹتے ہیں۔

پروفیسر ایچ ایس سنگھ نے اس پرو گرام کے انعقادپر ساہتیہ اکادمی اور شعبۂ اردو کے اراکین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سمپوزیم کے لیے جس مو ضوع کا انتخاب کیا ہے وہ عہد حا ضر میں انتہا ئی اہم ہے۔ کیو نکہ ہما ری نو جوان نسل حب الوطنی کے اصل مفہوم کو بھلا چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل ہی نہیں بلکہ آج کی بزرگ نسل بھی اپنے اسلاف کے ان کارناموں کو بھولتی جارہی ہے جنہوں نے ہمیں انگریزوں کی غلا می سے آزادی دلائی تھی۔ انہوں نے راج گرو کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کل یعنی 24؍ اگست کو ان کا یوم پیدا ئش تھا۔ لیکن ایسا محسوس ہوا کہ قوم نے ان کی شہادت کو بھلا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا یہ پروگرام نوجوان نسل میں وطن سے محبت کی اصل روح زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ بزرگ نسل کے لیے بھی مشعل راہ ہوگا۔

پہلے اجلاس کا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ادیب و شاعر نند کشور وکرم نے کہا کہ اردو افسا نہ صدیوں سے لکھا جارہا ہے۔ لیکن موجودہ افسا نے کا جنم1903ء میں راشد الخیری کے افسا نے سے ہوا تھا۔ اردو لگ بھگ نصف صدی تک حب الوطنی کے موضوع پر بے شمار افسا نے لکھے گئے لیکن آزادی کے بعد اس موضوع پر کم ہی لکھا گیا اور دیگر مو ضو عات پر افسا نے لکھے گئے۔

دوسرے اجلاس کی محفل صدارت میں پروفیسر طارق چھتا ری، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی، سلام بن رزاق، ممبئی اور ڈاکٹر سید معراج الدین رونق افروز رہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر صاحب علی’’اردو افسا نے میں قومی یکجہتی کا تصور‘‘، ڈاکٹر عابد حسین حیدری’’آزادی کے بعد اردو افسانے میں تحریک آزادی کا عنصر‘‘۔ ڈا کٹر پرویز شہر یار’’ مابعد جدید اردو افسانے میں حب الوطنی‘‘، اور اجے مالوی نے ’’جدید اردو افسا نے میں حب الوطنی‘‘ مو ضو عات پر مقا لے پیش کیے۔

اس مو قع پر ڈا کٹر فرحت خاتون، ڈاکٹر راشد انور راشد، ڈاکٹر ارشاد سیانوی، ڈاکٹر ہما مسعود، ڈاکٹر فوزیہ بانو، ڈا کٹر عفت ذکیہ، انجینئر رفعت جمالی، آفاق احمد خاں، طالب زیدی، ڈاکٹر ودیا ساگر، ڈا کٹر پروین کٹاریا، مدیحہ اسلم، ڈا کٹر سیدہ، آر کے بنسل، نایاب زہرہ زیدی سمیت طلبا و طالبات موجود رہے۔

تبصرے بند ہیں۔