ترے بے مہر کہنے سے…

ڈاکٹر شکیل احمد خان

2 جولائی 1932 کو اٹلانٹاسٹی، امریکہ میں ایک غیر شادی شدہ عورت نے ایک بچے کو جنم دیا۔ بچے کو اپنی حیاتیاتی ماں کا کبھی پتا نہیں چلا۔ 6 ہفتوں بعد اُسے کالا مازو، مشی گن اسٹیٹ کے ایک جوڑے ریکس تھامس اور آلیوا نے گود لیا۔ بد قسمتی سے 5 سال بعد ہی آلیوا کا بھی انتقال ہو گیا۔ ریکس تھامس کام کی تلاش میں مختلف مقامات گھومتے رہے۔ بچے نے ابتدائی بچپن کا کافی حصّہ اپنی Adoptive دادی مینی سنکلیر کے ساتھ گزارا جس نے اُسے کام اور خدمت کی اہمیت سے واقف کرایا اور دوسروں کے ساتھ باوقار طریقہ سے پیش آنے کی خصوصی تربیت دی۔ اس بچے نے 12 سال کی عمر میں نامی گرامی روجر رسٹورنٹ میں اپنی پہلی ملازمت شروع کی۔ مصنف جان پارانکی مالل کے مطابق اُس نے مالک کو یقین دلایا کہ اگر اُسے موقع دیا جائے تو 12 سال کی عمر میں ہی وہ 16 سالہ لڑکے جتنا کام کریگا۔ مالک نے اُسکے جوش و جذبہ سے متاثر ہوکر اُسے ویٹر کی ملازمت پر رکھ لیا۔ ہوٹل مالکان فرینک اور جارج بردرس کے معیارات کافی اُونچے تھے۔ ۔ مالک فرینک نے بچے سے کہا، "جب تک تم کوشش کرتے رہوگے تم میرے پاس کام کر سکتے ہو۔ لیکن جیسے ہی تم کوشش کرنا بند کر دوگے، یہاں کام نہیں کر سکتے۔ "۔ بچے نے طے کیا کہ وہ کبھی اپنے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیگا۔ اُن دنوں ویٹرس کو عموماً 10 سینٹ ٹِپ دی جاتی تھی۔ بچے نے محسوس کیا کہ اگر وہ آرڈر فوراً حاضر کرئے اور خصوصی نرمی سے و شائستگی پیش آئے تو گاہک اکثر کئی گُنا ٹِپ دیا کرتے ہیں۔ غرض اعتماد اور جدوجہد کے ساتھ حسن کردار و حسن گفتار کو اس کے اپنی کامیابی کی سیڑھی بنا لیا۔ بعد ازاں اُس نے خود اپنا ایک ریسٹورنٹ "Wendy’s” کے نام سے شروع کیا اور پھر رفتہ رفتہ، مرحلہ وار اُسے ترقی دیتا گیا۔ کئی صبر آزماں سالوں کی محنت اور اُونچ نیچ کے بعداُس نے سارے یورپ میں اپنی ایک پہچان بنا لی۔ یہاں تک کہ مشہور زمانہ برانڈKFC کو بھی اپنی ترقی کے لئے اِس بچے کی خدمات حاصل کرنے میں فخر محسوس ہوا۔ آج یہ گمنام، گو د لیا ہوا غریب وناجائز بچہ ساری دنیا میں ریکس ڈیوڈ تھامس کے نام سے جانا جاتا ہے، جو امریکہ کی مشہور ترین ” Wendy’s International Incorporated ” نامی گروپ آف ریسٹورنٹس کے بانی اور تا حیات چیف اگیسیکیٹیو آفیسر رہے۔ اس گروپ کے ساری دنیا میں 4300 ریسٹورنٹس ہیں۔ اُنکا نام "Dave” آج ایک برانڈ کا نام ہے۔ کیا ریکس ڈیوڈ تھامس کی زندگی ہماری کچھ رہنمائی کرتی ہے؟

غور کیجیے، جہاں تک حسن گفتار کا تعلق ہے عموما ہمارا انداز اپنوں سے بھی تحقیر آمیز اور لہجہ پھاڑ کھانے والا ہوتا ہے۔ امریکہ کے مدبررہنماء ا ور طاقتور صدر تھیوڈور روزوویلٹ کا ماننا تھا کہ ’’ خوش گفتاری اور شائستگی باوقار شخصیت کی نشانی ہے نا کہ ماتحت یا غلا م ہونی کی ‘‘۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج بیجا گھمنڈ اور جارحانہ رویہ کو مردانگی و دلیری سمجھا جارہا ہے اور شاستگی کو کمزوری ! مہذب، باوقار، اور متاثر کن شخصیت آج کی کاپوریٹ دنیا میں کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ سافٹ اِسکل(Soft Skill) سیکھانے والے ادارے یوں ہی نہیں پھل پھول رہے ہیں۔ برطانوی انجینیر ڈرامہ نگار سر جان وانبروہ 1664- 1726) ( کے مطابق ’’ خوش اخلاقی اور نرم الفاظ کے باعث کئی دشوار مراحل با آسانی طے ہو جاتے ہیں‘‘۔

حدیث نبوی ہے کہ ’’ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں‘‘۔ اخلا ق کا پہلا مظاہرہ زبان سے ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے اہم ترین سویڈیش فلسفی، دانشور اور ماہرِ لسانیات فرڈیننڈ ڈی سسور ( 57 – 1913) کے بقول ’’ فرد اور معاشرے کی زندگی کے تمام عوامل میں سب سے ذیادہ اہمیت ’ زبان ‘کی ہے ‘‘۔ فرا نسیسی مضمون نگار جوزف جاوبرٹ (۱۸۲۴ : ۴ ۱۷۵ ) شا ئستگی اور خوش خلقی کو انسانیت کا پھول قرار دیتا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے موجودہ افریقی۔ امریکی (نیگرو) جج کلا رنس تھامس کہتے ہیں کہ ’’ بہترین تعلیم بھی جن دروازوں کو کھول نہیں پاتی وہ خوش اخلاقی کھول دیتی ہے‘‘۔

ملنساری، نرم خوئی، مسکراہٹ کے لئیے خرچ کچھ نہیں کرنا پڑتا ہے لیکن اس سے مل بہت کچھ جاتا ہے۔ ان کی وجہ سے بگڑتے کام بھی بن جاتے ہیں۔ جبکہ تلخی، جھنجھلاہٹ اور زور زور سے بولنا کمز وری اور کھوکھلے پن کی نشانی ہے جن سے بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں۔ نرم خوئی اور شائستگی کا مطلب بے عملی اور بزدلی ہرگز نہیں ہے۔ طاقت، دولت، مراعات اور اقتدار ضرور خاصل کرنا چاہئے۔ لیکن ان چیزوں کوحاصل کرنے میں بھی خوش گفتاری و خوش اخلاقی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ ’ زباں شیریں، ملک گیری ‘۔ اگر ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہم دنیا فتح کریں اور دنیا ہم پر مہرباں ہو تو ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہو گا جس کی جانب مرزا غالب نے بھی توجہ دلائی تھی کہ

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پہ مہرباں کیوں ہو

تبصرے بند ہیں۔