بدحال انسانیت اور ہم

وصیل خان

کچھ عرصہ قبل بائیکلہ لوکل اسٹیشن کے باہر فٹپاتھ کے ایک کونے پر جذام کا ایک مریض کئی دنوں سے بے یارو مددگار پڑا ہوا تھا کوئی نہ اس کا پرسان حال نہ ہی مددگار، اس کے آس پاس پھیلے ہوئے تعفن کے سبب اکثرلوگ کھڑے کیا ہوتے بلکہ ناک پر رومال رکھے تیزی سے نکل جاتے، بس اکادکا راہگیراس کے قریب سے گزرتے تو کچھ سکے اچھال دیتے، کوئی سوچے تو بھلا اسےان پیسوں کا کیا کام، اسے تو فوری علاج اور تیمارداری کی ضرورت ہے۔ بالآخر مشنری کے کچھ لوگ آئے اس کے زخموں کی صفائی کی اور اپنے ساتھ لے گئے۔

یوں تو شہر میں متعدد فلاحی تنظیمیں موجود ہیں لیکن اس طرح کے کام وہ نہیں کرتیں، ایسے کام تو مشن والے ہی کرتے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ دیگر تنظیمیں غیرفعال یا ازکاررفتہ ہیں، مگر عام طور سے دیکھا یہی گیا ہے کہ ان کے کام ان بلند بانگ دعوؤں سے میل نہیں کھاتے، لیکن اعلانات ضـروربڑے ہوتے ہیںاور ان کی تشہیر بھی خوب کی جاتی ہے، اسکول جانے والے غریب و نادار طلباء کی امداد کیلئے چند کتاب کاپیوںیا یونیفارم وغیرہ کی تقسیم کا انتظام کیا جاتا ہے تو پروگرام سے قبل ہی تصاویر اخبارات کو ارسال کردی جاتی ہیں اور ان شائع شدہ تصاویر کے توسط سے پھربڑے بڑے سرکاری اداروں اور مخیران قوم سےمراعات حاصل کی جاتی ہیں، ایسے پرآشوب حالات میں جب چاروںطرف نفسانفسی کا شور ہو، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کا زورہو، انسانیت نوازی، خلوص اور ہمدردی کی خال خال ہی سہی خوش کن خبریں مسرت سے ہمکنارکردیتی ہیں، جیسے سخت دھوپ اور تپش کی حالت میں اچانک بادل گھرآئیںاورفرحت بخش ہوائیں سارے وجود کو مسرت وشادمانی سے بھردیں۔ بیتے دنوں کی ایسی ہی ایک خبر اچانک ذہن کے کینوس پر ابھرآئی جو اس وقت متعدد اخباروں کی زینت بنی تھی خواہش ہوئی کہ اسےکیوں نہ آپ سے بھی شیئر کرلیا جائے ۔

ویسے تو غریب مریضوں کے علاج کیلئے ملک میں متعدد فلاحی تنظیمیں سرگرم ہیں لیکن گورکھپورکی ہنومان پرساد پوداراسمارک سمیتی(HPPS)نے ایمانداری اور دیانتداری کی جومثال قائم کی ہے اس نے ہماری آنکھیں نم کردیں، یہ تنظیم گیتا واٹیکا میں ایک کینسر اسپتال چلاتی ہے جہاں کتاب النساء نامی ایک مسلم خاتون بغرض علاج پہنچی، غربت کی انتہا کے سبب اسپتال کے رعایتی اخراجات کی بھی وہ متحمل نہیں تھی۔ اس کے گھروالوں نے مختلف فلاحی تنظیموں کو امداد کیلئے درخواستیں دیں ایک درخواست جمعیتہ علما ریلیف فاؤنڈیشن ممبئی کو بھی موصول ہوئی جمعیتہ علماء نے اس تنظیم کے نام پر ۱۵؍ہزار روپئے کا چیک روانہ کیا، خاتون کاعلاج شروع ہوا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اس کے بعد مذکورہ تنظیم نے خاتون کے علاج پر خرچ ہوئے 6988روپئے اخذ کرکے باقی رقم یعنی 8012روپئے جمعیتہ علماء ریلیف فاؤنڈیشن ممبئی کو بذریعہ چیک واپس کردی۔ خبروں کے مطابق مذکورہ تنظیم نہ تو جمعیتہ علما سے واقف تھی نہ ہی کبھی ان دونوں تنظیموں کے درمیان کوئی مراسلت ہوئی تھی نہ ہی ان تنظیموں کے ذمہ داران ہی آپس میں کبھی ملے تھےنہ ہی جمعیتہ علماء نے اپنی ارسال کردہ رقم کے اخراجات کاکوئی حساب ہی ان سے طلب کیاتھا، اس کے باوجود اس تنظیم نے ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی ماندہ رقم پوری دیانتداری کے ساتھ جمعیت کو واپس کردی۔

اسی طرح ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے، چند ماہ قبل جے پور ( راجستھان ) سے تعلق رکھنے والے ایک غریب نوجوان مسلم رکشا ڈرائیور ( حامدقریشی ) نے بھی سڑک پر پڑی ہوئی ڈیڑھ لاکھ روپئے سے زائدکی  رقم اس کے حقیقی مالک کو پہنچا کر ایک شاندار مثال قائم کردی ، پولس کے استفسار پر کہ روپئے اٹھاتے ہوئے جب تمہیں کسی نے نہیں دیکھا تو تم نے یہ روپئے خود کیوں نہ رکھ لئے، اس نے جواب دیا کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے اگر اس نے یہ سوال کرلیا تو میدان حشرمیں اسے کیا جواب دوں گا، وہی میرا کفیل اور پالن ہار ہے اورایک نہ ایک دن وہی مجھے نوازے گا۔ ایمانداری اور دیانتداری کی یہ مثالیں ایسی ہیں جنہیں دیکھنے اور سننے کیلئے ہماری آنکھیں اور کان ترس جاتے ہیں اور اس طرح کے واقعات کبھی کبھار ہی سہی جب سنائی دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کانوں میںکوئی رس گھول دے اور دل مسرت سے جھوم اٹھے۔

اس طرح کی مثالیں ایسی بہت سی تنظیموں اور جماعتوں کیلئے تازیانہ عبرت ہیں جو آئی ہوئی رقومات کی آمد وخرچ کا نہ کوئی حساب رکھتی ہیں نہ ہی عوامی سطح پر ان کی کوئی تفصیل پیش کرتی ہیں، لیکن جنوبی ہندکےایک مشہور تروپتی مندرکو یہ استثنا حاصل ہے کہ اس کا ٹرسٹ ہر سال بڑی پابندی کے ساتھ کروڑوں کی آمد و خرچ کا نہ صرف تفصیلی حساب پیش کرتا ہے بلکہ اسے متعدد اخبارات کے ذریعے مشتہر بھی کردیتا ہے یہاں تک کہ مورتیوں پر نذر کئے گئے لاکھوں روپئے کے ان لڈوؤںکا بھی حساب دیتا ہے جنہیں فروخت کرکے حاصل شدہ  رقم مندر کے ٹرسٹ کو دے دی جاتی ہے۔

یہ سارا معاملہ خوف خداوندی اور خدا کے دربار میں جواب دہی کے اس تصور کا ہے جو انسان کے دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے جو اسے اس بات کا خوف دلاتا رہتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور مرحلہ آنے والا ہے جہاں اسے اپنے اچھے اوربرے ہرعمل کا حساب دینا ہے، یہ تصور انسان کو منکسر المزاج بنادیتا ہے جو اسے سارے برے کاموں سے روک دیتا ہے، مسئولیت یعنی (جوابدہی) کا یہی تصور اسلام کی بنیاد ہے اور اس پر وہ بہت سختی کے ساتھ قائم رہنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن جواب دہی کا یہی تصور اگر دلوں سے رخصت ہو جائے تو انسان سرکش ہوجاتا ہے اور اس کا دل پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے پھر وہ نہ تو کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی وہ کسی  انسانیت سوز فعل سے شرمندہ ہوتا ہے۔

جواب دہی کا یہ تصورآج ہمارے درمیان سے بڑی تیزی کے ساتھ رخصت ہوتا جا رہا ہے، جس کا مشاہدہ ہم ہر وقت اور ہر لمحہ کرسکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر انسانیت اور انسانی بدحالی اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے اور ہم سب  گم سم اور پابستہ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی فلاح و بقا کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے ہم سبھی کو اس گرتی ہوئی دیوارکو یکجٹ ہوکرسنبھال لینا  چاہیئے جووقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہےاورجان لیں کہ اس طرح کے عملی اقدامات میں ا ب تاخیر کی کوئی گنجائش نہیںرہ گئی ہے۔ آپ سن رہے ہیں نا۔۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔