جوش نہیں حکمت کی ضرورت ہے!

وصیل خان

یہ صحیح ہے کہ آرایس اس وقت شدت پسندی میں پوری طرح سرگرم ہے اور ہندو احیا پرستی کیلئے اس کی کوششیں اپنے شباب پر ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ اپنی اس تحریک میں وہ پوری طرح کامیاب بھی ہے اور اپنی حکمت عملی اور طویل جدوجہد کے نتیجے میں اس کے حق میں خاطر خواہ وسائل بھی جمع ہوتے جارہےہیںجن کا استعمال وہ بڑی ہوشیاری سے کررہی ہے۔ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ آر ایس ایس تنہا نہیں ہے۔ وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ابھینو بھارت، گئو رکھشا سمیتی، سناتن سنستھا، ہندو واہنی، ہندو مہاسبھا جیسی اس کی اور بھی متعدد شاخیں ہیں جو اس کے رابطے میں رہ کراس کی مرتب کردہ حکمت عملی کو آگےبڑھارہی ہیں اور ان کے مابین اتنا زبردست تال میل ہے جس کی کوئی مثال ملک کی کسی دیگر تحریک یا جماعت سے نہیں دی جاسکتی۔ بی جے پی اس کا سیاسی ونگ ہے جسے مضبوط ومستحکم کرنے کیلئے آرایس ایس اور اس کی حلیف جماعتیںدن رات کام کررہی ہیں جس کے نتیجے میں آج بی جے پی ہندوستان کے سیاسی افق پر سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے اور ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہے یہی نہیں اس کے عزائم بے حدخطرناک ہیں اور وہ ۲۰۱۹کے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر اپنی فتح درج کرانا چاہتی ہے۔ آپ ذرا لمحہ بھرتوقف کریں اورسوچیں کہ کیا یہ سب کچھ چشم زدن میں ہوگیا ہے نہیں صاحب بی جے پی اور آرایس ایس کو یہاں تک پہنچنے میں اچھا خاصا طویل عرصہ لگا ہے اورنتائج کے حصول کیلئے اسے سخت محنت کرنی پڑی ہے۔ اس کا ہدف کہنے کو تو ہندو ازم کا احیا ہے لیکن اس کا اصل نشانہ  اسلام اور مسلمان ہیں جنہیں وہ موجودہ صورت میں نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ اس کی خواہش ہے کہ  وہ اس ملک میں نمبر دو کے شہری بن کے رہیں اور ہندو ازم کی تائید کریں۔

 حالانکہ ان کا یہ عمل ہندوستانی آئین و قانون سے میل نہیں کھاتا لیکن وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اپنی سیاسی اور نفری قوت کے ذریعے آئین میں ترمیم و تبدیلی کرکے ہندتوا کی بنیاد کو مستحکم و توانا کریں۔ جس کے لئے انہوں نے پورے میں ملک میںتشدد اور فرقہ پرستی کا بگل بجارکھا ہے، گئو رکھشا کے نام پر تو کبھی طلاق ثلاثہ کے عنوان سےتو کبھی بابری مسجد کی ملکیت پر رام جنم بھومی کی تعمیرکی تحریک چلاکرقتل و غارت گری کا ایک طوفان کھڑا کررکھا ہے۔ اور ابھی کانوڑیوں کی  پدیاترا کےپس پردہ پورے اترپردیش میں ایک نیا  ہی کھیل شروع کردیا ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ یاترائیں نئی ہیں ماضی قریب میں بھی یہ یاترائیں نکلا کرتی تھیں لیکن کہیں سے بھی تشدد کے واقعات کی خبریں نہیں آتی تھیں لیکن اس وقت پورے اترپردیش میں ان شیو بھکتوںنے ایک طوفان برپا کررکھا ہےجوجگہ جگہ فساد کی شکل اختیار کررہے ہیں،اس تعلق سے اترپردیش کی یوگی سرکار کچھ زیادہ ہی سرگرم ہے وہاں کی حکومت نے پولس کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ ان کانوڑیوں کا نہ صرف استقبال کرے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرے نتیجے کے طور پرشیو بھکتوں کے یہ قافلے جہاں جہاں سے گزرتے ہیں پولس ان پر ہیلی کوپٹروں سے پھولوں کی بارش کرتی ہے۔ ماضی میں یہ یاترائیں خالص مذہبی نوعیت کی ہوا کرتی تھیں اور شیو کے یہ بھکت بڑے پرامن انداز میں اپنا سفر کیا کرتے تھے جس سے کسی کو بھی نہ شکایت ہوتی تھی نہ کوئی تکلیف لیکن اب یاترائیں مہلک بنتی جارہی ہیں اور جہاں جہاں سے گزرتی ہیں انسانی خون کی لکیریں کھینچتی چلی جاتی ہیں ایسی نازک اورمخدوش صورتحال میں جب ملک کی سالمیت اور یکجہتی ہی داؤں پر لگ گئی ہو ضروری ہوجاتا ہے کہ اس تعلق سے غور و فکر کا راستہ اختیار کیا جائےاور ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جس سے فرقہ پرستی کا یہ  زہر ختم ہو اور اس عفریت کا قلع قمع کیا جاسکے جو  ملک کی امن و امان کی فضا کو نگلنےکیلئے منھ پھاڑے کھڑا ہے۔ سردست اس کے تدارک کیلئے حزب مخالف کی ان سیکولر جماعتوں کی طرف نظر جاتی ہے جو اس عفریت کا مقابلہ کرسکتی ہیں لیکن ماضی کے مسلسل تجربات بتاتے ہیں کہ ان جماعتوں میں بھی خلوص اور حب الوطنی سے زیادہ اقتدار پرستی اور موقع پرستی داخل ہوچکی ہے یہی سبب ہے کہ ان کی مقابلہ آرائی کے باوجود فاشسٹ طاقتیں مسلسل شہ زورہوتی جارہی ہیں۔ اس ملک نےوہ بھی دن دیکھا ہے جب لوک سبھا میں ان کی صرف دو ہی نشستیں ہوا کرتی تھیں لیکن آج وہ پورے ملک کی سیاست پرقبضہ جماچکی ہیںان تمام صورتحال کی ذمہ دار ہماری وہ تمام سیکولر جماعتیں ہی ہیںجنہوں نے  خود غرضی اور مفاد پرستی کی سیاست میں غرق ہوکر ان  فرقہ پرستوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے۔ ۲۰۱۹کے پارلیمانی انتحابات اب دور نہیں ہیں لیکن ابھی تک کسی ایسے سیکولر محاذ کے اتحاد کی راہ ہموار ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہے جس سےیقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ موجودہ حکومت کو اکھاڑپھینکنے کیلئے سبھی جماعتیں متحد ہوگئی ہیں۔ حالانکہ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے اور ملک عزیز میں امن و امان کی فضا واپس لانے کیلئے یہ اتحاد اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ زندگی قائم رکھنے کیلئے خوراک۔

موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئےایک صورت یہ بھی کہ ہم حکمت و دانائی کا وہ بھولاہوا سبق پھر سے یاد کرلیں جو کبھی ہماری میراث ہوا کرتا تھا جس کے تعلق سے حدیث میں آیا کہ حکمت و فراست مومن کی گمشدہ میراث ہے اسے جہاں سے بھی ملے حاصل کرلینا چاہیے۔ ایک جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘۔ آج یہ دونوں صفات ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکی ہیںاس کےبرعکس اس کی جگہ  بے فکری اور جذباتی ہیجان نے لے لی ہے۔ معاملہ یہیں تک ہوتا تو ٹھیک تھا کیونکہ ذرا سی محنت و توجہ سے اسے دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہےلیکن افسوسناک مرحلہ تو یہ ہے کہ ان تمام معاملات کی سنگینی کا احساس بھی ہم سے رخصت ہوتا جارہا  ہے۔ ہمیں اپنی اسی گمشدہ میراث کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور ایک عرصے سے اور بار باریہ وارننگ دے رہا ہے کہ اب ہمیں اپنے طور طریقوںپر نظر ثانی کرلینی چاہیئے اور اپنے قول وفعل کے اس زبردست تضاد کو جس نے ہماری شبیہ بگاڑنے میں اہم رول ادا کیاہے اس کمزوری کو اپنے دامن سےکھرچ ڈالنا چاہیئے۔ عقل و دانش اور فکر و تدبر سے انسان درست راستے کا انتخاب بہ آسانی کرلیتا ہے، اس کے برعکس جذباتی ہیجان عقل و شعور کے سوتوں کو بند کردیتا ہےبدقسمتی سے ہم اسی آخرالذکر علت کا شکار ہیں جسے ختم کئے بغیر ہم مثبت طرز فکر کا سرا  حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ وقت عقل ودانش کا ہے نہ کہ جولانی ٔجذبات کا۔ فاعتبروایا اولی الابصار

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔