سماج اور نوجوان

صدام پٹیل

انقلاب کی بنیاد، تاریخ کا رخ موڑنے والےاور سماج کی راہ متعین کرنے والوں کو نوجوان کہتے ہیں۔ تاریخ کے کیسی بھی ورق کا مطالعہ کر لیجیے انقلاب میں نوجوانوں کا رول بڑا اہم اور کلیدی نظر آتا ہے۔ انسانی تاریخ میں نوجوانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ نوجوان جو ہمت، امید اور طاقت سے بھرپور ہوتے ہیں، انقلاب کو اپنے انجام تک پہنچانے میں جان تک دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے اور انقلاب کے لیے اپنی جوانی کو بے دریغ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے حق اور باطل کے قائدین کو جتنی ضرورت سماج کے نوجوان طبقہ کی ہوتی ہے اس کا اندازہ ہم تاریخ کے آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

نوجوان انقلاب اور بغاوت کے لیے تازہ خون کا مقام رکھتے ہے۔ جو اگر ان تحریکات کو نہ میلے تو ان کا وجودہی ختم ہوجائے گا۔ سماج میں جو مقام نوجوانوں کو ملتا ہے اس سے ان کی ذمہ داری کا اندازہ خوب ہوجاتا ہے۔ اسلام جو دنیا میں اقامت دین کرنا چہاتا ہے ان کے مقام اور ذمہ داری میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ اسلام نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتا ہے اور ان کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ ان کو خلافت مقام اور ذمہ داری کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ جو ذمہ داری کے یہ مکلف ہے اس کی ادائیگی کےلیے ان کو با صلاحیت اور با کردار جیسی نعمتوں سے مالامال کردیتا ہے۔ اسلام نوجوانوں کو داعی، مصلح، غازی، صادیق، پاکباز، زاید اور تقویٰ والی صفات سے ایک بہترین سے بہترین نوجوان تیار کرتا ہے۔ اس لیے اسلامی تاریخ میں نوجوانوں کی داستانیں بار نار ملتی ہے۔ اس کی بہترین مثال حضرت حسنؓ و حسینؓ اور محمد بن قاسمؒ ہیں۔

لیکن سماج جو قدر اسلامی اقدار سے دور ہوتا گیا نوجون ملت اسلامیہ کا سرد خون میں تبدیل ہوتے گئے ہے۔ اس بات کا بھی انکار نہیں کے انہیں میں سے کچھ نے سماج کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی مجمعی تعداد آٹے میں نمک کے برار ہے۔ موجودہ نوجوانوں کی اکثریت اپنے نسب العین سے واقف ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنے میغام سے۔ بے کاری، بے روزگاری، منشیات لا شکار اور اخلاقی امراض موجودہ نوجوانوں کی صفات بتائی جاتی ہے۔ ان صفات مین سے سب ہر کیسی میں موجود نہیں لیکن ہر کسی میں کوئی تو ضرور پائی جاتی ہے۔ ملت اسلامیہ کے اس قیمتی اور انقلابی اثاثے کو جس تیزی اور بے رحمی سے باطل قوتیں تباہ و برباد کررہی ہے مگر ہمارے نوجوان اب تک ان قوتوں کو پہچان نے سے قاصر ہے۔ کبھی جن نوجوانوں سے دنیا بہادری اور شجاعت کا درس لیا کرتی تھی اور جن نوجوانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا اسلام غالب کیا تھا اب وہ سرد ہوچکے ہیں۔ اس بھیانک تنزل کی جو وجوہات ہمیں نظر آتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :

۱) مقصد سے عدم واقفیت:

نوجوانوں کی اس بےجاروی اور عدم فعالیت کای سب سے بڑی وجہ مقصدکا نہیں یونا یا غلط ہونا ہے۔ رضیٰ الہیٰ سے آج امت مسلمہ کا بڑا طقہ واقف تو ہے لیکن اسے مقصد کی بجائے ایک شعبہ کی حیثیت دےدی گئی ہے اور کچھ تو اس سے واقف ہی نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اسے بطور مقصد رسلیم کیا ہے وہ طریقہ کار میں گمراہ ہوگئے ہیں، اور رہبانیت کو اختیار کر لیا ہے۔ نوجوانوں کی تربیت میں سب سے زیادہ ننیادی حیثیت کسی کو حاصل ہو تو وہ ہے انھیں با مقصد بنانا ہے۔ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اس بات کا پورا فہم و اطمینان ہو نا چاہیے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہے؟ان کا کیا کام ہے؟ اور انھیں کیا کرنا ہے؟ ان سوالات کے جواب سے وہ پوری طرح واقف ہی نہ ہو بلکہ ان کو ان جوابات پر اطمینان حاصل ہو۔ اور اس کے لیے اپنی جان بھی دینے کے لیے تیار ہو۔
نوجوانوں کی صلاحیت، ان کی فعالیت اور نفع و نقصان سب مقصد کے لیے ہو۔ شعوری طور پر وہ اقامت دین کے فریضہ میں مصروف رہیں اور اللہ کی رضیٰ کے لیے مسلسل کرتے رہیں۔ آج مربیان کو اس نقطہ پر خصوصی اور لازمی توجہ دینی ہوگی اور امت کی اس انقلابی گروہ میں وہ محبت، لگن اور صلاحیتیں پیدا کرنا ہوگی جس کہ ذریعے ملت اسلامیہ اپنے مقصد کو ضلد اور منظم طور پر حاصل کر لے۔

۲) مقام سے عدم واقفیت:

جب مقصد سے واقفیت نہ ہو تو مقام کا شعور ذہن کے لاشعور میں چلا جاتا ہے۔ جب مقام ہی کا پتہ نہ ہوتو فریضہ اور ذمہ داریوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امت مسلمہ کے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے مقام اور زمہ داریوں کو بھلا دیا ہے۔ اور دوسرے ہی چھوٹے چھوٹے اور غیر اسلامی مقاصد کو اپنی زندگی میں اختیار کرلیا ہے۔ جبکہ اسلام اپنے نوجوانوں کو بلند سے بلند اخلاقی مقام اور زمہ داریاں دیتا ہے۔ انھیں اسلامی معشرے کا اثاثہ اور حقیقی وارث بناتا ہے۔ انھیں خلافت ارض و سماں کے لیے تیار کرتا ہے۔
آج نوجوانوں کو ان کے مقام اور زمہ داریوں سے متعلق شعوری طور پور بیدار کرنا امت مسلمہ لے لیے بہت ضروری ہوچکاہے۔ جس تیزی سے نوجوانوں میں اخلاقی بیماریاں عام ہوئی ہیں اور ہورہی ہے اس کا علاج کےلیے امر مسلمہ کو بہت مضبوط اور منظم انداز میں فعالی منصوبہ بندی کرنا بے حد ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر نوجوانوں کو اخلاقی بہتان کے سمندر میں جانے سے نہیں روکا گیا تو ہم اپنا ایک قیمتی اثاثہ اور وارث گنواں دینگے۔ اس بات کا انکار نہیں کی امت مسلمہ اس معملہ میں بیدار نہیں لیکن جس سستی اور آہستگی سے امت بیدار ہورہی اس سے زیادہ تیزی اور مضبوطی سے نوجوانوں میں اخلاقی امراض عام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ کو بہت جلد بیدار ہونا ہوگا اور ایک فعالی اور مضبوط منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

۳)لا پرواہیت میں اضافہ :

مقام سے جتنی دوری ہوگی انسان اتنا بے پرواہ ہو تا چلا جائے گا۔ اور ایک وقت اس جگہ پرپہنچ جائے گا جہاں اسے نہ اپنے انجام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی سماج کے انجام سے کوئی سروکارہوتا ہے۔ انسان بس یہ سوچ میں مبتلا ہوتا زلا جاتا ہے کہ ’’بس زندگی (وقت) کسی طرح گزر جائے۔ ‘‘ جب نوجوان اس میں مبتلا ہوتا ہے تو سماج کا بے کار مادہ بن کر رہ جاتا ہیں۔ سماج میں عدم تعاون کی وجہ سے اپنے مقام سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان کی مصروفیات اب فائدے مند ہونے کی بجائے سماج اور ان کے لیے نقصاندہ ہوجاتی ہے۔ وہ روحانی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا اثر پورے سماج پر ظاہر ہوتا ہے۔ سماج نئی اور تخلیقیت والی سوچ سے دور ہو جاتا ہے۔ سماج کی ترقی رک جاتی ہے۔ روحانی، جسمانی، صنعتی، معاشی غرض ہر شعبہ حیات ان کی بے فعالیت اور مضر مصروفیت کا شکار ہوتا پے۔ زندگی جیسے رک سی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہوتا ہے وہ ہی قانون فطرت ہے، یعنی تنزل سماج کا مقدر بن جاتا ہے۔ سماج اپنی حیثیت عالم کشمکش مہں گنواہ دیتا ہے۔

نوجوانوں کو جتنا اپنی ذمہ داری اور مقام سے واقفیت اور مقصد سے لگاؤ بڑھیں گا وہ اتنے ہی سنجیدہ اور محترک ہوتیں چلے جائے گے۔ اپنے مقصد کا جتنا گیرا شعور پیدا ہوگا اتنی ہی ان کی مصروفیات فائدہ مند اور کارگیر ہوگی۔ ساج عالم کشمکش میں زیادہ سے زیادہ اپنا لوہا منوائے گا۔ ترقی ہر شعبہ حیات میں جاری ہوگی۔ اور یہ ہی خون جو آج زندگی کی علامت ہے، نئے خون کی تیاری میں سماج کا بھر پور تعاون کرے گا۔ قانون الہی کے مطابق کامیابی سماج کی شناخت بن جائے گی۔

۴) اہم کام :

نوجوانوں کو فعال اور متحرک بنانے میں سماج کو ان کی تربیت کے لیے ہمیشہ متحرک رہنا ہاگا۔ ان ساری چیزوں سے پرہیز کرنا ہوگا جن سے نوجوان سماج سے دور ہوتا ہو۔ رویہ، مزاج اور سوچ سے ہمیشہ مثبت رہنا ہوگا۔ نئے مواقعے ہمیشہ ان کے لیے تیار کرنے ہو گے۔ ان میں اگر کوئی غیر اسلامی (غیر اخلاقی) چیزیں پائی جاتی ہے تو ان کی بر وقت اصلاح کرنی ہوگی۔ سماج کو مسلسل اپنی اور فرد کی اصلاح و تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ سماج کو اسلامی معاشرے کی اقدار اپنے اندر فعال کرنے ہوگے۔ قرآ نی مزاج آختیار کرنا ہوگا۔ اور یہ کام ہر فرد کے کرنے کا ہے۔ سماج افراد سے تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے ہر فرد کو انفرادی سطح پر قرآنی انسان بننا ہوگا تانکہ ایک قرآنی ساج رشکیل ہوسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔