سپر طاقت صرف اللہ ہے (قسط اول)

عبدالعزیز

 علامہ اقبالؒ نے کہاہے ؎

سروری زیبا فقط اس ذات ہمتا کو ہے … حکمراں ہے بس اک وہی باقی سب بتانِ آزری

 مشہور ادیب و مصنف حافظ محمد ادریس سیرتِ مصطفی ﷺ کی روشنی میں اس موضوع پر رقمطراز ہیں :

  ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’الاسلام یعلوا ولا یعلیٰ‘‘ (اسلام غالب رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا)۔آئیے؛ سیرت رسولؐ کی روشنی میں اس فرمانِ رسولؐ کا مطالعہ کریں اور اس مسلمہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ صحابہ کرامؓ میں ایک معروف نام عدی بن حاتم طائی ہے، جو تاریخ انسانی کے سب سے بڑے سخی مرد حاتم طائی کے بیٹے تھے۔ ان کا قبولِ اسلام بھی بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی مجالس و مکالمے بھی عبرت کا مرقع ہیں ۔ دنیا میں باطل قوتیں ہمیشہ یہ دعوے کرتی رہی ہیں کہ وہ سپر ہیں اور لوگ اس کو تسلیم کرتے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ سپر طاقت صرف ایک ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ قوتیں کیسے سوپر ہوسکتی ہیں جن کا اقتدار آج تو اوج پر ہے اور کل فنا کے گھاٹ اترنے والی ہیں ۔ اللہ کو قادر مطلق ماننے والے کسی مادی قوت کو خاطر میں نہیں لاتے نہ اسے سوپر تسلیم کرتے ہیں ، نہ اس سے مرعوبیت اختیار کرتے ہیں ۔ بھلا جو مرعوب ہوگیا، وہ کیا مقابلہ کرے گا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس ماحول اور معاشرے میں پروان چڑھے، وہ پسماندہ اور غربت زدہ تھا۔ اتفاق سے جزیرہ نمائے عرب کے گرد و پیش جو قوتیں کار فرما تھیں ، وہ خود کو سوپر کہتی تھیں اور دنیا ان کے دعوے تسلیم کرتی تھی۔ ہمارے دور میں بھی امت مسلمہ نے خود کو بے وقعت، کمزور اور شکست خوردہ سمجھ لیاہے، جو قوت مادی وسائل سے مالا مال ہوکر میدان میں کود پڑے، اسے سوپر مان کر سر تسلیم خم کرلیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں قیصر و کسریٰ کو چیلنج بھی کیا اور امت کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ قیصر و کسریٰ مٹ جائیں گے۔

 عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ نفرت کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے: ’’میں نے دین عیسائیت اختیار کرلیا تھا اور میں اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ میرا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں جیسا تھا۔ بنو طے سے مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ مجھے ملتا تھا۔ اسی پر گزر بسر ہوتی تھی۔ میں اپنے مذہب کو سچا مذہب گردانتا تھا اور اپنی حکمرانی پر بہت نازاں تھا۔مجھے کسی قسم کا غم اور فکر نہ تھا۔

وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ کسی نے مجھے محمد بن عبداللہ کے بارے میں بتایا۔ ان کا نام سنتے ہی مجھے ان سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جب مدینہ سے ان کی فوجیں گرد و نواح کے علاقوں میں نکلنے لگیں تو مجھے دامن گیر ہوئی۔ میں نے اپنے ایک عربی غلام سے کہا: ’’تیرا بھلا ہو میرے لئے موٹے تازے تیز رفتار اونٹوں کا گلہ تیار رکھنا۔ جونہی محمدؐ کے لشکروں کی خبر پہنچے مجھے فوراً مطلع کر دینا‘‘۔ میرا یہ غلام میرے اونٹوں کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔

 میری ہدایات کے مطابق اسنے اونٹ تیار کرلئے تھے۔ ایک دن علی الصبح وہ بھاگتا ہوا میرے پاس پہنچا اور کہا: ’’محمدؐ کے لشکروں کی آمد پر تم کچھ کرنا چاہتے تھے، سو وہ تو آگئے ہیں ۔ میں نے دور سے کچھ جھنڈے دیکھے اور جب پوچھا تو کسی نے بتایا کہ افواجِ محمدؐ ہیں ۔ اب جو کرنا ہو کرلیں ‘‘۔

 عدی بیان کرتے ہیں ، میں نے غلام سے کہا: ’’میرے اونٹ جلدی حاضر کرو‘‘۔ جب اونٹ آگئے تو میں نے ضروری سامان لیا اور اہل و عیال کو اونٹوں پر بٹھایا اور شام کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا کہ شام میں میرے ہم مذہب عیسائیوں کی حکومت ہے ان سے جاملوں گا۔ اس بھگدڑ میں میری بہن سفانہ بنت حاتم پیچھے رہ گئی۔ روانگی کے وقت وہ کہیں کسی ضروری کام سے آگے پیچھے چلی گئی تھی۔ میں بادلِ حزین بہن کو چھوڑ کر شام چلا گیا۔

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج نے بنو طے کو شکست دی اور ان کے مال مویشی پکڑ لئے، بہت سی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اکثر مرد میدانِ جنگ سے بھاگ گئے۔ قیدی مدینہ لائے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے شام کی طرف بھاگ جانے کی اطلاع مل گئی تھی۔ بنو طے کے قیدیوں کو مسجد کے قریب ایک احاطے میں رکھا گیا۔ میری بہن بھی ان کے ساتھ قید تھی۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو میری بہن کھڑی ہوگئی۔ وہ بڑی جرأت مند اور فصیح زبان عورت تھی۔ اس نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ فوت ہوگیا اور سرپرست بچھڑ گیا ہے۔ آپؐ مجھ پر احسان فرمائیں ، اللہ آپ پر احسان فرمائے گا‘‘۔

 آپؐ نے پوچھا: ’’تیرا سرپرست کون ہے؟‘‘

  اس نے جواب دیا: ’’عدی بن حاتم‘‘۔

 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے دور بھاگتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر آپؐ چلے گئے۔ دوسرے روز پھر نبی پاکؐ قیدیوں کے پاس سے گزرے۔ پھر بنت حاتم نے ان سے وہی بات کہی، جو پہلے دن کہہ چکی تھی۔ آپؐ نے بھی اپنا وہی جواب دہرایا۔

 بنت حاتم کہتی ہیں : ’’جب تیسرا دن ہوا اور آپؐ قیدیوں کے پاس آئے تو میں مایوس ہوچکی تھی مگر حضور پاکؐ کے پیچے پیچھے ایک شخص چلا آرہا تھا۔ اس نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں اپنا معاملہ پیش کروں ، چنانچہ میں ہمت پاکر اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی درخواست دہرائی۔

 میری درخواست سن کر آپؐ نے فرمایا: ’’میں نے تم پر احسان کیا اور تمھیں آزادی دے دی ہے مگر جلدی نہ کرنا۔ یہاں انتظار کرو، یہاں تک کہ تمہاری قوم کا کوئی معتمد آدمی یا قافلہ ادھر سے گزرے، پھر ان کے ساتھ چلے جانا۔ جانے سے پہلے مجھے اطلاع دے دینا‘‘۔

روایات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بنت حاتم نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ کیسے آزاد ہوسکتی ہے، جب تک اس کے خاندان کی تمام عورتیں اور بچے بھی آزاد نہ کر دیئے جائیں ، چنانچہ آپؐ نے تمام قیدیوں کو آزاد فرمایا۔ پھر حکم فرمایا کہ آپ ان تمام کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا ئیں گے۔

 بنت حاتم کا بیان ہے کہ ’’روانگی کے وقت آپؐ نے مجھے کپڑے عطا فرمائے۔ سواری دی اور راستے کا سفر خرچ دے کر عزت و تکریم سے رخصت فرمایا۔ میں کاروان کے ساتھ شامل چلی گئی‘‘۔

 عدی کہتے ہیں : ’’خدا کی قسم میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ شام میں مقیم تھا مگر سخت پریشان تھا۔ دھیان اپنی بہن کی طرف رہتا تھا۔ پتہ نہیں اس پر کیا بیت رہی ہوگی۔ ایک روز میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ سامنے سے ایک قافلہ نظر آیا۔ ایک اونٹ پر محمل میں کوئی پردہ نشیں سوار تھی۔ وہ قافلہ ہماری جانب بڑھتا چلا آیا۔ میں نے دل میں کہا: یہ حاتم کی بیٹی چلی آرہی ہے۔ جب پہنچی تو وہی تھی‘‘۔

 میرے پاس پہنچتے ہی اس نے مجھے ملامت کرنا شروع کردی۔ ’’قطع رحمی کرنے والے ظالم! تو نے اپنے بال بچوں کو اپنے ساتھ سوار کرکے فرار کی راہ اختیار کرلی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا‘‘۔

 میں خود بہت نادم تھا۔ میں نے کہا ’’میری پیاری بہن! تم نے جو کچھ کہا سچ ہے،میں کوئی عذر پیش نہیں کرتا۔ اب مجھے معاف کردے اور کوئی بد دعا نہ دینا‘‘۔

  پھر وہ سواری سے اتری اور میرے پاس مقیم ہوگئی۔ وہ بڑی عقلمند خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’تم نے اس شخص (محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیسا پایا؟ اور اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

 اس نے جواب دیا: ’’میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہوجاؤ۔ اگر یہ شخص اللہ کا نبی ہے تو اس کی جانب جلدی جانا باعث فضیلت ہے اور اگر بادشاہ ہے تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتا ہے۔ اس کے ہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمہارا مقام و مرتبہ تو ظاہر و باہر ہے‘‘۔

   میں نے اس رائے کو صائب جانا اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مدینہ کی جانب چل دیا۔ پہنچا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا۔آپؐ نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’عدی بن حاتم طائی‘‘۔ آپؐ نے میرا پُر جوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک بدحال کمزور بڑھیا نے انھیں روک لیا۔ آپؐ دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات کا ذکر کرتی رہی۔

 میں نے اپنے دل میں کہا: ’’خدا کی قسم یہ بادشاہ تو نہیں ہے‘‘۔ بڑھیا سے فارغ ہوکر آپؐ مجھے گھر لے گئے۔ چھوٹے سے گھر میں آپؐ نے ایک گدا میرا طرف بڑھایا۔ وہ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدا تھا۔ مجھ سے فرمایا: ’’اس کے اوپر بیٹھ جاؤ‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’نہیں ، آپؐ اس پر تشریف رکھیں ‘‘ مگر آپؐ نے حکم دیا: ’’نہیں ؛ تم اس پر بیٹھو‘‘۔ میں گدے پر بیٹھ گیا جبکہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تشریف فرما ہوئے۔ اب پھر میں نے دل میں کہا: ’’خدا کی قسم یہ معاملہ (روایتی) بادشاہوں والا تو نہیں ہے‘‘۔

  اب آپؐ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عدی بن حاتم! کیا تو رکوسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا؟‘‘ (رکوسی ایک مذہبی گروہ تھا جن کے دینی عقائد و رسومات صابیوں اور عیسائیوں کے بین بین تھے)۔میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں ؛ میں رکوسی ہوں ‘‘۔ آپؐ کا دوسرا سوال تھا: ’’کیا تم اپنی قوم سے مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہ کرتے تھے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’جی ہاں !‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ وصولی تمہارے دین کے مطابق حلال بھی نہ تھی‘‘۔ میں نے تسلیم کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درست ہے۔ اب میں بخوبی جان گیا کہ آپؐ اللہ کے رسول برحق ہیں ۔ جو باتیں عربوں کو ہر گز معلوم نہ تھیں ، آپؐ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔

 اب آپؐ نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا، فرمایا: ’’اے عدی؛ شاید دین اسلام میں داخل ہونے سے تمھیں یہ امر مانع ہے کہ اہل اسلام کی مالی حالت بہت کمزور ہے؟ خدا کی قسم مال و دولت کی ایسی ریل پیل ہوجائے گی کہ دینے والے سبھی ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ اور شاید تجھے اس چیز کی بھی پریشانی ہو کہ یہ لوگ تعداد میں بہت قلیل ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے؟ خدا کی قسم! اس دین کا غلبہ یوں ہوگا کہ تو سن لے گا اور دیکھ لے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی تن تنہا اپنے اونٹ پر قادسیہ سے سوار ہوگی اور حج بیت اللہ کیلئے مکہ کا سفر کرے گی۔ اسے کوئی ڈر اور خطرہ نہ ہوگا۔ اے عدی! ممکن ہے کہ تو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاجدار نہیں ۔ بخدا تو سن لے گا کہ بابل کے سفید محلات ان لوگوں کے ہاتھوں فتح ہوجائیں گے‘‘۔

عدی کہتے ہیں : ’’یہ سن کر میں نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔

 وہ کہا کرتے تھے: ’’میں نے دو باتیں تو دیکھ لی ہیں ۔ بابل کے محلات بھی فتح ہوچکے ہیں اور قادسیہ سے تنہا سفر کرنے والی عورت بھی میں نے دیکھی۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تیسری بات ضرور پوری ہوکر رہے گی اور صدقہ و خیرات لینے والا کوئی نہ رہے گا‘‘۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔