اسلام اور مسلمان کے خلاف منظم سازش: اسباب اور تدارک

 ڈاکٹر سید احمد قادری

 ان دنوں جو بڑا اہم اور خوفناک منظر نامہ بہت تیزی سے ابھر رہا ہے، وہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک منظم سازش کے تحت اسلام اور مسلمان کی جو تصویریں پیش کی جا رہی ہیں، وہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ صارفیت کے اس دور میں ہمارے بعض علمأ اور مشائخ بھی صارفیت کے شکار ہو کر اپنی دینی ذمّہ داریوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ جس کا چرچا ان دنوں عام ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب  ہمارے علمأ دینی تعلیمات کے فروغ کے لئے اپنی تمام تر ذاتی ضروریات اور خواہشات کو تج کر صرف اور صرف مذہب اسلام کی تعلیمات کو فوقیت دیتے تھے،۔ جس کے باعث ایک طرف جہاں اسلام کے ماننے والے اپنے مذہب پر فخر کرتے ہوئے اس کے تمام احکام پر عمل کرتے تھے، وہیں دوسری جانب مسلمانوں کے سلسلے میں دوسرے مذاہب کے لوگ عزت واحترام اور عقیدت رکھا کرتے تھے۔

یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے، مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور بے ایمان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے سیٹھ ساہوکار عام طور پر اپنا منشی، کسی مسلمان کو ہی رکھا کرتے تھے، ایسا اعتماد اور بھروسہ تھا اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کے سلسلے میں۔ لیکن افسوس کہ آج اسلامی تعلیمات کی کمی کے باعث دوسرے مذاہب کے لوگ کیا متا ثر ہوں، خود مسلمان بہت ساری  غیراسلامی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی برائیوں میں شامل ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے غفلت کے باعث اس مذہب کو بہت ساری مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سارے منفی اثرات اس طرح سامنے آ رہے ہیں کہ مسلم گھرانوں میں اسلامی تعلیمات کے اثرات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بس خوف خدا اور جہنم سے نجات کے لئے نماز، روزہ کے پابندضرور ہیں، لیکن اسلام کی بہت ساری بنیادی احکامات سے لا علم ہیں۔ اس کے لئے میں بلا شبہ میں علمأ کوبھی ذمّہ دار مانتا ہوں۔

علمأ کی اسلامی تعلیمات ہوتی دوری، ان کی لا علمی اور بے خبری کی وجہ کر دوسرا جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے کہ ایسے علما ٔ اور مشائخ اپنی کم علمی کے باعث بعض متعصب لوگوں کے درمیان، اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے  سے عام طور پر قاصر ہوتے ہیں۔ بعض اوقات مواقع ملنے کے باوجود وہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا (اردو اخبارات کو چھوڑ کر) پر اسلام کی بہترین تعلیمات کو قران اور احادیث کی روشنی میں منطقی دلائل کے ساتھ اپنی بات مؤثر طریقے سے نہیں رکھ پاتے ہیں۔ جس کے باعث، بہت گہری سازش کے تحت مسلسل اسلام کے خلاف ہونے والی کوششوں سے، پراگندہ کئے جانے والے ذہن کو مطمئن کرنے اور اپنی باتوں سے متاثر کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہورہاہے کہ اسلام اور مسلمان کے خلاف روز بروز، کی جانے والی منظم سازش کامیاب ہوتی جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اسلام مخالف بلکہ اسلام اور مسلمان دشمن ہوتے جا رہے ہیں۔

 اس تلخ حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جو عام طور پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں، ان میں بیشتر  سانحات کو اسلامی دہشت گردی کا نام دے کر اسلام  اور مسلمان کو بدنام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمان کا ایسا تصور پیش کیا جا رہا ہے کہ نعوذباللہ اسلام کا مطلب ہی ظلم، تشدد، بربریت اور دہشت گردی ہے۔ ایسے غلط پروپیگنڈہ کا ہی یہ اثر ہے کہ بعض مغربی ممالک میں کوئی مسلمان شرعی داڑھی او رٹوپی کے ساتھ نظر آ جاتا ہے، تو لوگ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں سے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک داڑھی، ٹوپی والا ایک مسلمان ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر جب اپنے کسی عزیز کو اپنے موبائل پر یہ  اطلاع دیتا ہے کہ ہوائی جہاز اب اُڑنے (ٹیک آف)والا ہے، اسے سن کر ہوائی جہاز میں بیٹھے مسافر خوف سے کانپ جاتے ہیں اور بات کی تہہ میں جائے بغیر ہوائی جہاز کے عملہ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جہاز کو اُڑانے والا کوئی دہشت گرد یہاں آ بیٹھا ہے اورجہاز کا عملہ بغیر کسی تفتیش کئے ہی اس داڑھی، ٹوپی والے شخص کو جہاز سے نیچے اتار لیتا ہے او راس شخص کو دہشت گرد مان کر اس سے باز پرس کی جاتی ہے۔

اسی طرح کا واقعہ ابھی امریکہ کے ایک ائیر پورٹ پر بھی ہوا کہ ہوائی جہاز میں ایک مسلم خاتون حجاب لگا کر بیٹھتی ہے، تو بغل کی سیٹ پر بیٹھی ایک دوسری عورت اس سے خوفزدہ ہو جاتی ہے اور وہ ہوائی جہاز کے عملہ سے اپنے خوف کا اظہار کرتی ہے۔ اتفاق سے اس جہاز کا عملہ متعصب نہیں تھا، اس نے اس حجاب والی مسلم خاتون سے کچھ سوالات کئے اور مطمئن ہو کر جہاز کے دوسرے مسافروں کو بھی اطمینان دلایا۔ یہ دو واقعات ایسے ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر مسلم مرد و زن کے تئیں لوگوں کا کیسا متعصبانہ رویہ ہے اور کیسی سوچ ہے۔

 میں اس امر سے قطئی انکار نہیں کر تا ہوں کہ بعض لوگ اسلام کے نام پر ظلم، تشدد اور ددددہشت گردی کے واقعات کو انجام دے رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ حیرت انگیز بات بھی ہے کہ ایسے لوگ جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کر رہے ہیں، وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے اسلام مذہب کے ماننے والوں کو ہی کیوں نشانہ بنا رہے ہیں۔ عراق، لیبیا، شام،مصراور یمن کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی شامل کر لیں اور بہت ہی باریک بین نگاہوں سے جائزہ لیں، تو اندازہ ہوگا کہ یہ کیسے اسلام کے نام پر مظالم ڈھانے والے ہیں، جو اپنے مذہب کے ماننے والوں پر ہی توپ کا دہانہ کھولے ہوئے ہیں، خود کش حملہ کر مساجد اور درگاہوں میں موجود مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں، بچوں کے اسکولوں تک کو نشانہ بنا کر سیکڑوں معصوم بچوں کی زندگی کو بربریت کے ساتھ ختم کر رہے ہیں۔ دراصل ایسے ناپسندیدہ، غیر اسلامی اور غیر انسانی عمل کرنے والے یا تو اسلام کی تعلیمات سے پوری طرح بے خبر ہیں یا پھر دوسرے مذاہب کے لوگ منظم سازش کے تحت اسلام کے نام کو بدنام کرنے کے لئے ایسی خوفناک حرکتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اب تک ایسے بہت سارے واقعات اور سانحات کے بعد شواہد ملے ہیں کہ مزکورہ دہشت گرد کا، اسلام سے کوئی تعلق نہیں پایا گیا۔ ہمارے ہی ملک میں نقلی داڑھی، ٹوپی والے ایسے کئی دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں۔

کئی جگہوں پر تو  ایسے مرد برقع پہنے پکڑے گئے ہیں جو کہیں دہشت گردی کو انجام دینے جا رہے تھے۔ لیکن افسوس کہ ایسے نقاب پوشوں کو ہمارا میڈیا بے نقاب کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت ہی ہمارے بعض بے روزگار اور غریب مسلم نوجوانوں کو ایسی دہشت گردی کے لئے روپئے اور شاندار مستقبل کا لالچ دے کر آلٔہ کار بنایا جاتا ہے اور پھر خاص طور پر دہشت گردی کے بعد انھیں دہشت گرد قرار دے کر ان کی گرفتاری کو یقینی بنایا جاتا ہے، تاکہ میڈیا کے سہارے لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ دیکھئے کس قدر مسلم نوجوان دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ایسے سانحات کے بعد ایسے مسلم نوجوان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہی ا پنے’’ شاندار ‘‘ مستقبل کو گزار دیتے ہیں۔  ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹو نیو گوٹریس نے بھی اس بات پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے نہ جوڑا جائے۔ داعش اور القاعدہ کے اقدامات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق عرب لیگ سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹو نیو گوٹریس نے مذید کہا کہ عسکریت ہسندوں کے نفرت انگیز اقدامات کو اسلام کے ساتھ جاڑنا اسلام مخالف نفرت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ اس جال میں آ گئے، اور وہ داعش اور القاعدہ کے قابل نفرت اقدامات کو اسلام سے جوڑتے ہیں۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کیخلاف ہیں۔

 ایسے ناگفتہ بہہ اور تشویشناک صورت حال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر اسلام کی صحیح اور حقائق پر مبنی تصویریں پیش کی جائیں۔ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ لفظ ’اسلام‘ دراصل عربی لفظ ’ سلم ‘  سے اخذ ہے، جس کے معنیٰ ہی ’’امن‘‘ ہے۔ یعنی اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس کی بنیاد ہی امن و سلامتی ہے۔ یعنی ظلم، تشدد، استحصال اور دہشت گردی کا یہ مذہب سخت مخالف ہے۔ پھر جو مذہب اسلام، کسی بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہو،، سایٔہ دار اور پھل دار درخت تک کو کاٹنے سے منع کرتا ہو، جگہ جگہ صلہ رحمی کی ہدایت دیتا ہو، عورتوں، بچوں اوربزرگوں کے ساتھ خاص طور پر محبت اور پیار سے پیش آنے کی ترغیب دیتا ہو۔ وہ مذہب اسلام، دہشت اور تشددکو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ ایسا مذہب جو امن، سلامتی، دوستی، اخوت، یکجہتی، اتحادواتفاق پر مکمل یقین رکھتا ہو۔ اس مذہب کے ماننے والے ایسی غیر انسانی حرکات کے کیسے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کے اندر خوف خدا نہ ہو اور جو شخص بھی اسلام کے ان بنیادی امور پر یقین نہیں رکھتا ہو، وہ مسلمان ہو ہی نہیں سلتا ہے۔

 ہمارے علمأ کرام اب تک لوگوں کے ذہن سے لفظ ’جہاد‘ کے معنیٰ و مطلب بھی واضح نہیں کر سکے ہیں۔ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ آئے دن متعصب لوگ لفظ جہاد کا غلط مفہوم بتا کر لوگوں کو اسلام کے خلاف ورغلاتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو جہاد کے معنیٰ کو بالکل برعکس طور پراس طرح بتاتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں ظلم اور تشدد کے زور پر مذہب اسلام کو فروغ دینے کی بات سما جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے برادر ان وطن کو اعتماد میں لے کر یہ بتانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں کہ اسلام میں ’جہاد‘ دوسرے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں پر ظلم اور تشدد کرنا نہیں ہے، بلکہ جہادکے معنی دراصل اللہ کی راہ میں مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کا نام ہے، جس میں ظلم، تشدد اور دہشت کی کوئی جگہ نہیں۔ جہاد کا مطلب ہمارے رسول محمد ﷺ نے بڑے آسان لفظوں میں بتایا ہے کہ اصل ’جہاد‘  وہ ہے، جب کوئی شخص اللہ کے لئے خود کی برائیوں سے جنگ لڑتا ہے۔

 اب ذرا اپنے ملک کے موجودہ منظر نامہ کو دیکھئے کہ کس طرح اسلام اور مسلمان کو بدنام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر اپنے سیاسی مفادات کے لئے طرح طرح کے بہتان لگا کر ان کی زندگی پر پہرے بٹھائے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ہمارے وزیر اعظم کی یقینی طور پر ملک کے ہر مذہب  وملت کے لئے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور پھر وزیراعظم نریندر مودی تو خود ہی اسلام  اور اس کے احکامات سے  بخوبی واقفیت کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں اور اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اسلام مذہب امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ گزشتہ جولائی 15ء میں قزاقستان کی دارالحکومت استانا کی سنجر بایو یونیورسٹی میں اپنے ایک خطاب میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستانی اور اسلامی وراثت کا سنگم وسطیٰ ایشیامیں ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے کو نہ صرف روحانی تعلیمات بلکہ سائنس، ریاضی اور فلکیات میں تعاون دیا۔ اپنے اس خطاب میں شدت پسندی او ردہشت گردی کا اس طرح ذکر کیا تھا کہ ہم شدت پسندی او ردہشت پسندی کے بحران کے قریب رہ رہے ہیں۔ ہم نے دہشت گردی کو قوموں اور گروہوں کی طرف سے پالتے پوستے دیکھا ہے۔ ہم آج یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سائبر اسپیس، دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کا بغیر سرحدوں والا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ہندوستان اور وسطیٰ ایشیا دونوں کی اسلامی وراثت اسلام امن، سلامتی، رحمدلی اور فلاح  وبہبود سے عبارت ہے اور یہ وراثت محبت اور لگن کے اصول پر مبنی ہے۔

ایسے حالات کے پیش نظر ہمارے علمأ، اسلامی اسکالروں، نظریہ سازوں، فلسفیوں، دانشوروں اور مصلحین کی ذمّہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں کہ وہ بہت سنجیدگی، متانت اور بردباری کے ساتھ قران کی روشنی میں، اپنی ذہانت کے ساتھ اسلام کی تصویر کو پیش کریں، جس سے کہ منظم سازش کے تحت پوری دنیا میں جس طرح اسلام اور مسلمان کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس کا نہ صرف تدارک ہو بلکہ اس پر قدغن بھی لگے  اورسازشی کوششیں طشت ازبام ہو جائے اور اسلام کی صحیح تصویر سامنے آ کر  بہت سارے اختلافات اور منافرت کو دور کر سکے۔ آج بھی دنیا کے بہت سارے ممالک او راشخاص ایسے ہیں، جو دنیا میں امن  وسلامتی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسی کوششوں کو کامیابی ملتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ دنیا جنت نشاں بن سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔