سید غلام مہدی راز: طبیب و شاعر

حکیم شمیم ارشاد اعظمی

حکیم غلام مہدی رازصاحب سے راقم کی پہلی ملاقات سن 2002میں حیدر آباد میں منعقد طب نبوی کے سیمنار میں ہوئی تھی۔ یہ راقم کا پہلا سیمنار تھا۔ حکیم صاحب نے راقم کے مضمون کو نہ صرف یہ کی پسند کیا بلکہ جہان طب میں اشاعت کے لئے بھی اسے شامل کیا اور بعد میں یہ مضمون جہان طب کے ایک شمارہ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد موقع بہ موقع ملا قاتیں ہو تی رہیں اور ٹیلیفون سے گفتگو ہوتی رہی، بعد میں موبائل نے یہ کام اور آسان کر دیا تھا۔ راقم نے دہلی کے بیشتر سفر میں حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی صاحب کی معیت میں حکیم مہدی صاحب کے دولت کدہ پہ حاضری دی ہے۔ ان ملاقاتوں میں بہت ساری علمی، ادبی اور طبی باتیں ہوتیں ۔ حکیم مہدی صاحب کے مزاج میں کافی نرمی تھی۔ گفتگو میں شائستگی اور محبت پائی جاتی تھی۔ آخر عمر میں فالج کے حملہ کے بعدزبان اور کلام بھی متاثر ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی باتوں کو سمجھنا مشکل ہوجاتا، مگر ہمارے مشفق شفقت صاحب مہدی صاحب کی باتوں کو سمجھ جاتے تھے۔ حکیم مہدی صاحب نے راقم کو اپنی بیشتر کتابیں دستخط کے ساتھ عنایت کی ہیں، راقم کے لئے یہ کتابیں کسی سرمایہ سے کم نہیں ہیں۔

راقم  2004  میں  جب اجمل خاں طبیہ کالج کی میگزین ’ آئینہ طب‘  نکالنے کی تیاری کر رہا تھا، اس وقت  ذہن میں خیال آیا کہ ’ناموران اجمل خاں طبیہ کالج‘ پہ ایک گوشہ نکالا جائے، اساتذہ نے حوصلہ دیا اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا گیا۔ اس وقت راقم نے حکیم غلام مہدی صاحب کو بھی ایک خط لکھا کہ اپنی مختصر سوانحی خاکہ بھیج دیں ۔ ابھی راقم ان خطوط کے جوابات کاانتظار ہی کر ر ہا تھا کہ حکیم مہدی صاحب کا مکمل مضمون آگیا۔ اس وقت  جو خوشی حاصل ہوئی تھی اس کا اظہار لفظوں میں مشکل ہے۔ اسی طرح ایک بار جب راقم جامعہ طبیہ میں تدریسی سے وابستہ تھا، تو راقم نے بانی جامعہ طبیہ کے انتقال کے ان کے فرزند ڈاکٹر انو رسعید صاحب سے گزارش کی کہ ایک کتاب بانی کالج کی حیات و خدمات پر شائع کی جائے۔ راقم نے دیوبند سے باہر کے قلم کاروں کی ایک فہرست بنائی اس میں حکیم سید ظل الرحمن، حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی اور حکیم غلام مہدی صاحب خاص طور سے قابل ذکر تھے۔ حکیم غلام مہدی صاحب نے نہ صرف یہ کہ راقم کی درخواست شرف قبولیت بخشا بلکہ معمول کی طرح بہت جلد حکیم شمیم احمد سعیدی صاحب پر ایک اہم مضمون بھیجا، یہ مضمون حکیم شمیم احمد سعیدی :حیات و خدمات‘ میں شامل ہے۔ اسی طرح  راقم نے جب حکیم محمد مختار اصلاحی صاحب پر کتاب مرتب کرنے کا پروگرام بنایا تو ایک بار پھر حکیم مہدی صاحب سے گزارش کی۔ اس بار بھی حکیم مہدی صاحب نے راقم کی حوصلہ افزائی اور میرے اس پروگرام کی خوب پذیرائی کی، افسوس کی یہ کتاب کسی وجہ سے حکیم صاحب کی حیات میں شائع نہ ہو سکی، اس کا مجھے افسوس ہے۔ حکیم مہدی صاحب نے کئی با فون کرکے اس کی اشاعت کے بارے میں معلوم بھی کیا۔ یہ ان کی محبت تھی  ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔ افسوس29ستمبر2016کو طب کا محقق، مدبر اور محسن ہم سب کو چھوڑ کر  ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔

حکیم سید غلام مہدی 17مئی 1940کو اتر پردیش کی ایک مردم خیز آبادی نو گانواں سادات مرادآباد اور اب جے۔ پی۔ نگر کے ایک تعلیم یافتہ اور ادب مزاج خاندان میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کے والد پرائمری اسکول کے صدر تھے۔ وقت کی پابندی ، علمی شغف ، مطالعہ کاشوق، وقت کی پابندی اور ڈسپلن والد محترم سے ہی سیکھی۔ ابتدائی تعلیم وطن مالوف میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وطن سے ہجرت کرنی پڑی۔ 1953میں جب آپ کی عمر محض تیرہ سال کی تھی آپ کے والد طب کی تعلیم دلانے کے لئے اجمل خاں طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی میں داخلہ کرا دیا۔ اس وقت طبیہ کالج کے پرنسپل شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی صاحب تھے۔ حکیم غلام مہدی نے داخلہ کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ’’ اس زمانہ میں طبیہ کالج میں داخلہ کے لئے ہائی اسکول پاس ہونا کافی تھا(سائنس مضامین کی بھی شرط نہیں تھی)یاپھر مولوی، عالم وغیرہ، داخلے کے لئے مقابلہ جاتی امتحان بھی نہ ہوتا تھا۔ داخلہ فارم بھیجا گیا اور طبیہ کالج کے دفتر سے ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعہ جواب آگیا کہ سیٹ ریزرو کر لی گئی ہے فلاں تاریخ کو آکر داخلہ مکمل کرا لیجئے۔ مقررہ تاریخ پر والد صاحب مجھے لے کر علیگڈھ پہونچے تو معلوم ہوا انٹریو بھی ہوگا۔ شفاء الملک حکیم عبد اللطیف فلسفی صاحب پرنسپل تھے جو داخلہ کے امیدواروں کا انٹریو لے رہے تھے ان کے ساتھ حکیم محمد اسلم صاحب تھے جو اس وقت دواخانہ طبیہ کالج کے منیجر تھے۔ اس طرح کے انٹریو کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا (اس کے بعد تو زندگی میں بے شمار انٹریو دیئے بھی اور لئے بھی)اس لئے دل دھک دھک کر نے لگا۔ میرا نمبر آیا تو فلسفی صاحب نے سوال کیا۔ ’’ طبیہ کالج میں کیوں داخل ہو نا چاہتے ہو‘‘  جواب  دیا کہ خدمت خلق کروں گا۔ فلسفی صاحب مسکرائے پھر کچھ نہ پوچھا۔ انٹریو ختم ہو گیا اس کے بعد پرنسپل صاحب نے سب امیدواروں کے درخواست فارم پر منظوری کی مہر لگا کر واپس کر دیئے مگر میرا فارم روگ لیا گیا۔ دریافت حال کے لئے والد صاحب مجھے لیکر پرنسپل صاحب کے کمرے میں گئے۔ موصوف نے فرمایا’’ آپ کے بچے کی عمر کم ہے‘‘ والد صاحب نے کہا دیکھئے اس کی مسیں بھیگ رہی ہیں اور پھر داخلہ کے لئے عمر کی شرط بھی نہیں ہے۔ فلسفی صاحب پھر مسکرادیئے اور فارم پر داخلہ کی منظوری لکھ کر واپس کر دیئے۔ پھر رجسٹرار آفس پہونچ کر باقی کاروائی مکمل کی گئی۔ ‘‘حکیم غلام مہدی نے1958 میں طب کی تعلیم مکمل کی۔ آپ کے درسی ساتھیوں میں حکیم ایوب علی قاسمی، حکیم شمیم احمد سعیدی، طبیبہ ام الفضل بطور خاص شامل ہیں۔

حکیم غلام مہدی کے زمانہ میں طبیہ کالج کے طلباء کے لئے اس دور میں ایک مخصوص ہاسٹل تھا جو طبیہ کالج ہوسٹل کہلاتا تھا۔ یہ در اصل ایک قدیم رہائشی کوٹھی تھی جس کا پرانا نام حبیب باغ تھا۔ حکیم غلام مہدی نے طالب علمی کے زمانے کے کچھ واقعات لکھے ہیں جو اقامتی ہالوں کا خاص امتیاز تھے۔ لکھتے ہیں ۔ ’’ سینیئر طلباء نے بتایا کہ علیگڈھ کی تعلیمی زندگی کا ایک سال کئی ’ شنوں ‘ سے عبارت ہے۔ تفصیل کچھ یوں تھی کہ سب سے پہلے علیگڈھ ریلوے اسٹیشن پھر ایڈمیشن، انٹروڈکشن، ایجوکیشن، یونین کا الیکشن، آٹم ویکیشن، انسٹالیشن، کانووکیشن، ونٹر ویکیشن، اکزیبیشن، پریپریشن، اکزامینیشن، سمر ویکیشن اور پھر ریلوے اسٹیشن۔ ممکن ہے ان شنوں کی ترتیب میں کچھ فرق پڑ گیاہو مگر کم وبیش وہی صورت حال آج بھی ہے۔ ‘‘حکیم موصوف نے یونیورسٹی کے اس زمانہ کے تہذیبی اور ثقافتی حالات بھی روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ اس دور کی علی گڈھ یونیورسٹی کی سوشل اور کلچرل زندگی کا اپنا ایک انداز تھا۔ پڑھائی میں محنت، رہائش میں نفاست، ایک دوسرے کااحترام اور محبت، سینیئر اور جونیر طلباء کے آپسی رشتے اور مروت، اساتذہ کی شفقتیں اور طلباء کی آپسی دائمی پروگرام وہاں کی زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ مشاعرے، میوزک کنسرٹس، شام غزل وغیرہ کے پروگرام وہاں کی زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ مشاعرے پر یاد آیا گیا کہ اس دور میں سال میں دو خاص مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ ایک یونیورسٹی کا سالانہ مشاعرہ جو عموماً اسٹریچی ہال میں ہوا کرتا تھا دوسرا علیگڈھ کی نمائش کا مشاعرہ، اس کے علاوہ کبھی کبھی یونین ہال میں مشاعرہ ہوتا تھا۔ ‘‘

حکیم غلام مہدی کے زمانہ کے اساتذہ میں چند کے نام اس طرح ہیں۔ مولوی وسیم الحق صاحب عربی پڑھاتے تھے۔ سائنس کے استاد عبد الماجد صاحب تھے جو بعد میں شعبہ بایو کیمسٹری کے پروفیسر اور صدر شعبہ ہوئے۔ اناٹمی کے استاد ڈاکٹر عبد الجلیل صاحب تھے۔ اناٹمی کا ڈسیکشن حکیم کمال الدین حسین ہمدانی کراتے تھے جو بعد میں شعبہ کلیات کے پروفیسر اور صدر شعبہ مقرر ہوئے۔ فزیالوجی کے استاد ڈاکٹر رحمن صاحب تھے۔ ان کے علاوہ اونچی کلاس میں حکیم ظہیر الدین، حکیم نور العین، حکیم سرور محمود، حکیم ضرغام۔ حکیم فخر الدین صاحبان تھے۔ سر جری کے اساتذہ میں ڈاکٹر میجر ایس۔ بی۔ لال اور حکیم سمیع الرحمن صاحبان تھے۔ حکیم طیب صاحب سریریات اور معالجات کا درس دیا کرتے تھے۔

حکیم غلام مہدی نے بی۔ یو۔ ایم۔ ایس سے فراغت حاصل کرنے کے بعد تقریبا ًایک سال گھر پر گذار دیا اس کے بعد1959 کو لکھنؤ پہونچے۔ یہاں ایک سال قیام رہا اور الہٰ آباد عربک اینڈ پر شین بورڈ سے عا  لمیت کی سند حاصل کی اور لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل تفسیر کے امتحانات بھی پاس کیے۔ 1960میں یوپی بورڈ سے پرائیوٹ انٹر میڈیٹ کا امتحا ن پاس کیا۔ 1961 میں جامعہ اردو ، علیگڈھ سے ادیب کامل کیا۔ 1962 میں عربی فارسی بورڈ الہٰ باد سے فاضل فقہ کابھی امتحان پاس کیا۔ 1964میں انگریزی ادب، ادب فارسی اور پولیٹیکل سائنس کے مضامین کے ساتھ امتیازی نمبرات حاصل کر کے دلی کالج سے بی۔ اے کی تعلیم مکمل کر لی۔ اردو زبان میں پوری یونیورسٹی میں اوّل آکر پرائز کے مستحق ہوئے۔ بعد میں کنووکیشن کے موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین ( سابق نائب صدر جمہوریہ ہند)کے ہاتھوں فرسٹ پرائز کا ایوارڈ حاصل کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز میں داخلہ لیکر1966 میں فارسی سے ایم۔ اے کر لیا۔ لکھنؤیونیورسٹی سے 1978 میں ایم۔ اے۔ عربی کا امتحان پاس کر کے کامیابی حاصل کی۔ لکھنؤ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت کے لئے بھی کوشاں رہے چنانچہ جنوری 1960میں حکومت اتر پردیش کی ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کے ڈپارٹمنٹ آف اپیڈیمولوجی میں ڈیلی ویجز سے ملازمت حا صل کر نے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر یہاں زیادہ دن نہ رہ سکے کیونکہ یکم اگست1961میں ہمدرد کے شعبہ مجلس تجویز وتشخیص میں جو نیرطبیب کی حیثیت سے تقررہوگیا۔ یہ مجلس معمر اور تجربہ کار اطبا پر مشتمل تھی۔ اس مجلس کے ناظم طب یونانی کے گم نام مصنف حکیم عبد الواحد تھے۔ 1966 میں ترقی کر کے شعبہ مجلس تجویز و تشخیص کے انچارج ہوگئے۔ یکم ستمبر1966 کوہمدرد ریسرچ کلینک اینڈ نرسنگ ہوم میں سینئر ہاؤس فیزیشین ؍ریسیڈنٹ میڈیکل آفیسر کی پوسٹ کا چارج لیا۔ حکیم غلام مہدی صاحب نے حکیم عبد الحمید صاحب کے طبیب پیشی کے فرائض بھی انجام دیئے ہیں ۔ اس نرسنگ ہوم میں طب وادب کی مایہ ناز شخصیت حکیم سید کوثر چاند پوری میڈیکل آفیسر (یونانی) تھے۔ حکیم کوثر چاند پوری کی صحبت میں رہ کر مہدی صاحب نے اپنے ادبی و شعری ذوق کو پروان چڑھایا۔

1969میں مرکزی وزیر صحت میں سنٹرل کونسل فارریسرچ ان انڈین میڈیسن اینڈ ہومیوپیتھی( CCRIMH) قائم ہوا تو حکیم محمد عبد الرزاق صاحب نے کونسل جوائن کر نے کی بات کہی چنانچہ مہدی صاحب نے حکیم عبد الحمید صاحب کی مرضی کے خلاف ہمدرد کی ملازمت کو چھوڑ کر22فروری 1971تکمیل الطب کالج میں قائم کونسل کے لٹریری ریسرچ یونٹ، لکھنؤ میں حکیم شکیل احمد شمسی کی زیر سر پرستی بہ حیثیت ریسرچ اسسٹنٹ (یونانی) سر کاری ملازمت کاباقاعدہ طور سے آغاز کیا۔ 1974 میں ترقی پاکر اسی یونٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر ہوئے اور مارچ 1975 میں کونسل کے ہیڈ کورٹرس، نئی دہلی میں ریسرچ آفیسر کے عہدہ پر تقررعمل میں آیا۔ کونسل کی ملازمت کے دوران آپ نے کونسل کی نوزائیدہ یونٹوں کو زندگی دینے اور ترقی سے ہمکنار کر نے میں اہم کر دار ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے آپ کو بھدرگ میں ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یو نانی میڈیسن قائم کر نے اور اس کی سر براہی کے لئے بھیجا گیا۔ یہاں آپ نے محنت، لگن اور ایمانداری سے طب یو نانی کے فروغ کے لئے کام کیا اور عوام میں طب یو نانی کے تئیں بیداری پیدا کی۔ اسی طرح حکیم محمد عبد الرزاق نے جب پٹنہ میں سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو نانی میڈیسن کا علاقائی تحقیقی ادارہ قائم کر نے منصوبہ بنایا تو پھرآپ کی نظر انتخاب حکیم غلام مہدی پر گئی۔ حکیم غلام مہدی نے پٹنہ میں یونانی طب کا علاقائی تحقیقاتی ادارہ قائم کرنے میں جو کوششیں کی ہیں اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، یہیں پر ڈیوٹی کے دوران ایک حادثہ میں آپ کے دونوں پیر کے ایڑی کی ہڈیاں میں فریکچر ہوا  جس کی وجہ سے کئی ماہ چلنے پھر نے سے معذور رہے۔ حکیم غلام مہدی نے یہاں فروری 1981 سے اگست1982 تک بہ طور انچارج کام کیا ہے۔ پھر دسمبر1982میں ہیڈ کوارٹرس ، نئی دہلی آگئے۔ جون 1983میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر (یونانی ) کی ذ مہ داری سونپی گئی۔ چند ماہ ہیڈ کوارٹرس، نئی دہلی میں کام کئے تھے کہ1984 میں یونانی طبی علاقائی تحقیقی ادارے کی سر براہی کے لیے لکھنؤ آگئے یہاں دو سال رہ کر مارچ 1986 میں دہلی مراجعت فر مائی۔ کونسل نے جن چاروں لٹریریریسرچ یونٹوں (حیدرآباد، پٹنہ، لکھنؤ اور علیگڈھ) کو مدغم کر کے جامعہ ہمدرد میں لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیاتو اس ادارہ کی بھی ذمہ داری آپ ہی کو سونپی گئی۔ حکیم غلام مہدی نے اپنی صلاحیت، محنت اور تجربہ سے اس ادارہ کو جو بلندی اور وقار بخشا پوری طبی دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ کونسل کے اس لٹریری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو آج ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں طبی علوم کی ترویج و اشاعت میں خاص مقام  حاصل ہے۔

حکیم غلام مہدی نے سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو نانی میڈیسن کی چہارگانہ طور سے خدمت انجام دے کر18 جنوری 2000کورضا کارانہ طور پر ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے کونسل کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ سبکدوشی کے بعد بھی مئی 2001 سے جون 2004تک دہلی کے علاقائی تحقیقی ادارے میں کنسلٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ آج بھی پیرانہ سالی کے باوجود کونسل سے دعوت نامہ آتا ہے یا پروگرام میں یاد کیا جاتا ہے تو حکیم صاحب ضرور حاضری دیتے ہیں ۔ حکیم غلام مہدی صاحب کو طب کے جن ماہرین کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملا ہے ان میں سر فہرست حکیم عبد الحمید صاحبؒ، حکیم شکیل احمد شمسیؒ، حکیم محمد عبد الرزاق اورحکیم کوثر چاند پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔

حکیم غلام مہدی راز نے تو باقاعدہ یا مستقل طور سے کوئی طبی کتاب نہیں لکھی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کونسل میں کمیاب طبی کتب اور مخطوطات کی ترتیب وتہذیب نیز تدوین و ترجمہ کا جو بھی کام آپ کو سونپا گیا اسے نہایت محنت ، لگن اور ذمہ داری سے پورا کیا۔ اس کے علاوہ کونسل سے ان کے زمانہ اور بعد میں بھی جتنی بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں ان کاعلمی تعاون کسی نہ کسی طور سے ضرور شامل رہا ہے۔ ان میں مسوادت کی تدوین، تصحیح اور تراجم جیسی خدمات شامل ہیں ۔ ذیل میں چند کتابوں کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

1- اے ہنڈ بک آف کامن ریمیڈیزان یو نانی سسٹم آف میڈیسن

یہ کتاب حکیم محمد عبد الرزاق اور طبیبہ ام الفضل کی ترتیب کردہ ہے۔ اس کتاب میں عام امراض اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو روز مرہ ہماری زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں ۔ اس کتاب کے معاونین میں حکیم غلام مہدی کے علاوہ کئی اور اطباء کے نام شامل ہیں ۔ یہ کتاب 471 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1978 میں شائع ہوا۔

2-  طب یو نانی میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب

یہ کونسل کی مشہور مطبوعات میں سے ہے۔ یہ کتاب در اصل کو نسل کی مذکورہ انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ اردو کے علاوہ مختلف علاقائی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوکر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ اس کتاب کے اندر ان امراض کو بطور خاص شامل کیاگیا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ اس کتاب کی گھریلو اور عام معالجہ سے متعلق نسخے  شامل ہیں ۔ یہ نسخے بہت ہی مختصر، سہل الحصول اور نفع بخش ہیں ۔ اس کتاب کو طبیبہ ام الفضل اور حکیم محمد عبد الرزاق نے ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب فرد واحد کی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی تیاری میں اطباء کی ایک ٹیم نے حصہ لیا ہے۔ اس کتاب کے معاونین میں حکیم غلام مہدی کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ اس کتاب کی ضخامت180صفحات ہے۔ اس کا پہلا یڈیشن 1979 میں عمل میں آیا تھا۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

3-کتاب الابدال

بدل ادویہ سے متعلق ابو بکر محمد بن زکریارازی(م:925) کی ایک اہم کتاب ہے۔ طب یونانی میں ابدال ادویہ شروع سے ہی اہم موضوع رہا ہے۔ بنیادی طور سے طبیب کے لئے ابدال ادویہ سے متعلق معلومات بہت ضروری ہیں کیونکہ بعض اوقات دوائیں دستیاب نہیں ہو پاتی ہیں تو ایسی شکل میں بدل ادویہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ رازی نے اس کتاب میں قدیم اطباء جیسے ارمانس، افراطیس، دیسقوریدوس، جالینوس، بدیغورس، ابن ماسویہ، ماسر جویہ البصری اور حنین بن اسحاق کی کتابوں کے حوا لے سے اس فن کو ہم تک بڑے ہی ایما نداری کے ساتھ پہونچایا۔ یہ کتاب مخطوطہ کی شکل میں دنیا کی مختلف لائبریریوں کی زینت بنی ہوئی تھی۔ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یو انی میڈیسن نے اس کتا کی تدوین اور ترجمہ کو اپنے منصوبہ کا حصہ بنایا۔ اس کتاب کی تدوین اور ترجمہ کے فرائض حکیم تبارک کریم تکمیلی، حکیم غلام مہدی اور حکیم خالد جاوید شمسی کی مشترکہطور سے انجام دیئے ہیں ۔ 96 صفحات پر مشتمل پہلی بار یہ کتاب جے۔ کے۔ آفسیٹ پرنٹرس، دہلی سے1980میں شائع ہوئی ہے۔ اردو کے ساتھ انگریزی اشاعت بھی عمل میں آچکی ہے۔

4-کتاب العمدہ فی لجراحت، حصہ اول و دوم

جراحت سے متعلق امین الدولہ ابو الفرج ابن القف المسیحی(م: 1286) کی مشہور و معروف کتاب ہے۔ اس کتاب میں مختلف قسم کی بیماریوں ، اسباب  وعلاج  اور ان میں جراحی طریقوں کے استعمال کو خاص طور سے بیان کیا گیا۔ جراحت سے متعلق مفردات کا ایک علاحدہ باب قائم کیا گیا ہے۔ دائرۃ المعارف، حیدرآباد نے 1937میں ایڈٹ کر کے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد کا ترجمہ مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے مترجمین میں حکیم غلام مہدی، حکیم تبارک کریم تکمیلی اور حکیم خالد جاوید شمسی کے نام شامل ہیں ۔ 298صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار1986میں علی کارپوریشن انڈیا، دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ دوسری جلد کے ترجمہ کے فرائض حکیم ظفراللہ نے انجام دیئے ہیں ۔ حکیم غلام مہدی اور حکیم خالد جاوید شمسی نے اس پر نظر ثانی فر مائی ہے۔ 324 صفحات پر مشتمل ہے یہ جلد ایکسیلیر انٹر پرائزز، نئی دہلی سے بدوں تاریخ شائع ہوئی ہے۔

5-علاج ا لامراض العامہ فی الطب

یہ کتاب در اصل’ یونانی طب میں گھریلو ادویہ اور عام معالجہ کی کتاب‘ کا عربی ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی ترتیب، تدوین اور ترجمہ کے فرائض میں حکیم غلا مہدی کے ساتھ حکیم عبد الجبار خاں ، حکیم سید محمد ایوب عثمانی، حکیم سید صفی الدین اور حکیم سید ضیاء الدین ندوی کے نام بھی شامل ہیں ۔ 186صفحات پر مشتمل یہ کتاب پرنٹ سیٹ، نوئیڈا سے 1987میں پہلی بار شائع ہوئی ہے۔

6-مجاہد طب حکیم محمد عبد الرزاق

یہ کتاب در اصل حکیم محمد عبد الرزاق پر، ان کے انتقال کے بعد لکھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے جسے طبیبہ ام الفضل اور حکیم غلام مہدی نے ترتیب دئیے ہیں ۔ اس کتاب میں حکیم موصوف کی طبی کارناموں  اور طب یو نانی کی ترقی اور اس فن میں تحقیق کے لئے ان کی بیش بہا خدمات کو پیش کیا گیا ہے۔ اردو اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں مقالات شامل ہیں ۔ کتاب کی ضخامت 350 صفحات ہے۔ یہ ریکمو پریس پرائیوٹ لمیٹڈ، دہلی سے 2010 میں شائع ہوئی ہے۔

7- انوار طب

یہ در اصل ایک فارسی مخطوطہ ــ’’طب صادق طب رضا ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں طب کے عام موضوعات جیسے کلیات، حفظان صحت، علم الادویہ وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب منتظر اشاعت ہے۔ اس کتاب میں مامون کے زمانہ کے حالات بھی تحریر ہیں ۔

طبی کتب کے علاوہ آپ نے دیگر علو و فنون پر بھی کتابیں لکھی ہیں ۔ ان میں متا غم، درد کا صحرا، بہشت سخن، فارسی ادب کی جھلکیاں ، آئینہ آفتاب، جگر لخت لختموج عرفاں ، حج اسلام (طریقۂ حج)، زمزمۂ کن فیکون شامل ہیں ۔

 (1)متاع غم

غزلوں ، نظموں اور رباعیات پر مشتمل حکیم غلام مہدی راز کا پہلا  شعری مجموعہ کلام ہے۔ 1968میں اس کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ مشہور افسانہ نگاراور طبیب کوثر چاند پوری نے ’حرف اول ‘کے عنوان سے اس کتاب پرپیش لفظ لکھا تھا بعد میں موصوف نے اسے ’ ایک بے نیاز شہرت فنکار‘ کے نام سے اس وقت کے کئی مشہور اردو رسائل میں چھپوایا تھا۔ اس کے علاوہ  ڈاکٹرقمر رئیس، نور الحسن نقوی اور پروفیسر یوگ دھیان آہوجہ کے تاثرات اور آرا بھی اس کتاب کی زینت ہیں ۔ حکیم غلام مہدی نے متاع غم کی پہلی کاپی اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کو راشٹری بھون میں پیش کی تھی۔ موصوف کافی پسند کیا اور حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔

 (2)درد کا صحرا

دردکا صحرا راز صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں غزلیں ، نظمیں ، گیت اور متفرق اشعار شامل ہیں ۔ یہ کتاب 1986میں فخر الدین علی احمد کمیٹی، حکومت اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوئی تھی۔ کتاب کی ضخامت 128صفحات ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نہ تو کسی سے پیش لفظ لکھوایا اور نہ ہی کسی کے تاثرات کو شامل کیا۔ کیونکہ اس قبل ’متاع غم‘ کے تبصرہ میں مبصر نے لکھا تھا کہ یہ مجموعہ بڑی سفارشات کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔ مبصر کے منفی تبصرہ کے بعدحکیم غلام مہدی صاحب نے بھی طے کر لیا تھاکہ اس مجموعہ میں کسی سے کچھ نہیں لکھوانا ہے۔ چنانچہ موصوف نے شروع کتاب میں ’ مجھے کہنا ہے کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون سپرد قلم کیا ہے۔

 (3) بہشت سخن

یہ در اصل حکیم غلام مہدی صاحب کے جوان سال بیٹے محمد مختار مہدی کے سانحہ ارتحال پر، ان کے احباب اور ہم وطنوں نے جو رنج و غم کا اظہار  نظموں کی شکل میں کیا تھا اسے ’ بہشت سخن ‘ کے نام سے غلام مہدی نے ترتیب دیا ہے۔ حکیم غلام مہدی نے جونظمیں اور غزلیں کہیں ہیں ان کے ایک ایک شعر درد میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ غلام مہدی نے مرحوم کے تعارف اور حالات پر  ’لازم تھا کہ دیکھومرا رستہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کے عنوان سے سوزسے ڈوبی ہوئی تحریر سپرد قلم کی ہے۔ سر ورق پر مرحو م کی تصویر اور پشت پر ’عکس لوح تربت‘ ہے۔ 1997 میں پہلی بار اس کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ دوبارہ 2011 میں اسے شائع کیا گیا ہے۔

 (4)فارسی ادب کی جھلکیاں

یہ کتاب در اصل فارسی زبان و ادب کی مختصر تاریخ پر مبنی ہے۔ کتاب کی ضخامت116 صفحات ہے۔ مقدمہ کتاب ڈاکٹر نرگس جہاں ، شعبہ فارسی دلییونیورسٹی کا تحریر کردہ ہے۔ یہ کتاب 1997میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔

 (5) آئینہ آفتاب

یہ در اصل پروفیسر حامد انگار(کیلیفورنیا یونیورسٹی، امریکہ) کی مشہور انگریزی تصنیف (A Brief Biography of Imam Khomeini)کا اردو ترجمہ ہے۔ جامعہ اہل بیت کے زیر اہتمام 2004میں  یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ پیش لفظ حجۃ الاسلام مولانا سید حسن عباس فطرت کا تحریر کر دہ ہے۔ کتاب تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں امام خمینی کی مختصر سوانح، دوسری فصل میں امام خمینی انقلاب پہلے 1902 تا 1962 اور تیسری فصل میں امام خمینی کی شخصیت اور زندگی میں عرفان اور سیاست کا امتزاج ہے۔ کتاب کی ضخامت 152 صفحات ہے۔

 (6)جگر لخت لخت

یہ کتاب در اصل حکیم غلام مہدی کے طبی اور ادبی مقالات کا مجموعہ ہے جو مختلف عناوین پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 33 مضامین شامل ہیں ۔ مضامین کا طبی اور ادبی معیار بہت بلند ہے۔ طبی تعلیمات، مخطوطہ شناسی، طبی شخصیات اور ادبیات خاص طور سے اس مجموعہ کے مشمولات ہیں ۔ اس کے علاوہ حکیم غلام مہدی نے مدینۃالحکمت، کراچی کا سفرنامہ بھی شامل کیا ہے۔ ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا کے عنوان سے مختصر سوانحی عمری تحریر کی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ پیش گفتار اور مقدمہ بالترتیب پروفیسر اخترالواسع اور ڈاکٹر محمد خالد صدیقی کا لکھا ہوا ہے۔ حرف آغاز کے عنوان سے مصنف نے خود خامہ فرسائی کی ہے۔ صفحات کی مجموعی تعداد 280 ہے۔ یہ کتاب اردو اکیڈمی، دہلی کے جزوی مالی تعاون سے  2007 میں شا ئع ہوئی ہے۔

 (7)موج عرفاں

یہ ایک منقبتی شعری مجموعہ ہے جس میں حکیم غلام مہدی نے حمد، نعت، منقبتیں ، ائمہ اہل بیت کی مدح خوانی، قصائد، قطعات و رباعیات اور بعض علما ء کے سانحہ ٔ ارتحال پر خراج عقیدت کے طور پر کہی ہوئی نظموں کا شامل کیا ہے۔ یہ مجموعہ 120صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی اشاعت 2009 میں عمل میں آئی ہے۔

 (8)حج اسلام (طریقۂ حج)

حج سے متعلق احکام و مسائل پر مشتمل یہ کتابچہ حکیم غلام مہدی نے اپنے بچوں (بیٹی، داماد اور نواسے)کے لئے لکھا تھا جو قطر میں مقیم تھے اور حج کی سعادت حاصل کر نے جا رہے تھے۔ گیارہ صفحات پر مشتمل ایک مختصر مگر معلوماتی اور مفید تحریر ہے۔ اس کی اشاعت 2009میں ہوئی ہے۔

 (9)زمزمۂ کن فیکون

یہ کتاب حکیم غلام مہدی کے استاد محترم علامہ ناطق نوگانوی کی شعریات پر مشتمل ہے۔ جس میں موصوف کی لکھی ہوئی نعت، قصائد، منقبتیں ، سلام، نوحے، غزلیات، قطعات اور متفرق کلام شامل ہیں ۔ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی کے کلام بھی شامل ہیں ۔ استاد محترم کے حکم کے مطابق غلام مہدی نے  اسے ترتیب دیا ہے۔ حکیم غلام مہدی نے مقدمہ تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ مرحوم کے عقیدت مند اور، شاگرد اور دانشوروں نے علامہ ناطق نوگانوی کی شخصیت اور اور شاعری پر مضامین لکھے ہیں ۔ 2009میں یہ مجموعہ شائع ہوا ہے۔

ان کتابوں کے علاوہ حکیم غلام مہدی نے میدان صحافت میں بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں ۔ حکیم غلام مہدی جب 1964 میں دہلی کالج ( اب ذاکر حسین کالج)، دہلی  میں بی۔ اے فائنل (ایوننگ) کے طالب علم تھے تو پہلی بار ’شمع حیات‘ کے نام سے بانی مدیر کی حیثیت سے میگزین کے ادارتی فرائض انجام دیئے۔ اس کے علاوہ 1966میں ایم۔ اے فارسی کے طالب علم کی حیثیت انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجوٹ اسٹڈیز (ایوننگ) دہلی یونیورسٹی کے سالانہ میگزین کے فارسی سیکشن کی ادارت فرمائی۔ اس کے علاوہ سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کی جانب سے شائع ہونے والے دو ماہی نیوز لیٹر اور طبی رسالہ ’ جہان طب‘ کی ترتیب و اشاعت سے وابستگی رہی اور اسن کی ادارتی اور مشاورتی کمیٹیوں کے ممبر رہے اور مستقل مضامین لکھتے رہے۔

حکیم غلام مہدی کا شعری مذاق بہت بلند تھا۔ جب آپ نے انکھیں کھولیں گھر کا ماحول ادبی پایا۔ لوریوں میں دیہاتی گیتوں اور قصے کہانیوں کی جگہ علم و ادب کی داستان سنیں ۔ بچپن سے ہی نوگانواں سادات میں منعقد ہونے والے مشاعروں نے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا تھا۔ مجالس اور محافل میں پڑھے جانے والے مراثی اور قصائد نے مہمیز کا کام کیا اور عالم جوانی میں شعری مذاق نے انگڑائی لینا شروع کر دیا اور بقول خود ذاتی واردات اور محسو سات نے کبھی کبھی شعر کہلوا دیئے۔ اور حکیم غلام مہدی کے ساتھ رازؔ کا لاحقہ ہمیشہ کے لئے وابستہ ہوگیا۔ حکیم غلام مہدی صاحب کی شاعری کاتعلق نہ توگویوں والی شاعری سے تھا اور نہ پیشہ وارانہ۔ بس جب طبیعت موزوں ہوئی خیالات اشعار کا قالب اختیار کر گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عام شعرا کی طرح تکلف بہت کم ہے بلکہ آورد ہی آورد ہے۔ اب تک حکیم غلام مہدی کے تین چار شعری مجموعے  متاع غم، درد کا صحرا، بہشت سخن اور موج عرفان منظر عام پر آچکے ہیں ۔ حکیم غلام مہدی نے جگر مرادابادی کی طرح دولت عشق و محبت لٹائی ہے۔ ملاحظہ ہو؎

خلوص عشق کی دولت جہاں میں عام کرو

اے جنوں میری وحشت کا  احترام کرو

نمونہ ٔ کلام

دنیا کا ہر فریب بنام خلوص تھا

ہم نے فریب کھائے بڑی سادگی کے ساتھ

٭٭٭

دل کو سمجھاؤں کیسیاب ضبط کا دامن چھوٹ گیا       

اپنا بیگانہ کوئی نہیں تقدیر کہاں لے آئی ہے

٭٭٭

ضبط غم کی عادت ہے دل دعائیں دیتا  ہے      

اس کو غم نہ کہو کوئی جس نے درد بخشا ہے

٭٭٭

میرے دل کے آئینے پر گرد کدورت جم نہ سکی 

اس نے مجھ کو دکھ پہونچایامیں اس سے ہنس بول لیا

٭٭٭

مدت سے ہوں میں اک بت کافر کا پجاری

اس پر بھی مجھے لوگ سمجھتے ہیں مسلماں

٭٭٭

وابستہ تیرے غم سے مریروح میری جاں

اے زہرہ جبیں تو ہے مرا دیں مرا ایماں

٭٭٭

ظلمت غم میں بھی مجھے اس طرح چین ملا             

یعنی یہ  بھی ہو  تری  زلف کا سایہ  جیسے

٭٭٭

تم نے توخیر  دولت غم بخش  دی ہمیں           

اتنا بھی کون کرتا ہے احساں کسی کے ساتھ

٭٭٭

کسی کے ذکر سے دل کو سکوں ملا یارو        

جو ہوسکے تو یہی ذکر صبح و شام کرو

٭٭٭

ہوجاتا ہے اکثر آنکھوں آنکھوں میں ٹکراؤ میاں  

ہم سے پوچھو ہم نے کھائے دل پر کتنے گھاؤ میاں

٭٭٭

اک دیوانہ ہجر کا مارااپنی جان پہ کھیل گیا       

صحرا صحرا گلشن گلشن بوئے وفا کی بات چلی

تبصرے بند ہیں۔