سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ

راحت علی صدیقی قاسمی

عالم آب و گل میں بہت سی شخصیات پیدا ہوئیں، بہت سے فن کاروں نے اس کے سینہ کو کشادگی بخشی، اس کے جاہ و حشم کو بلند کیا، مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھنے والوں نے اس چمنستان کائنات کے حسن میں اضافہ کیا، اپنے کارناموں سے اس کا معیار و وقار بلند کیا، اس کی آبرو دو چند کی، اسے راحت کدہ بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا، انسانیت کا امتیاز کہلائے، آدمیت کا وقار کہلائے اور محدود دائرے، محدود وسائل کے باوجود بے پناہ خدمات انجام دیں، جس سمت بھی نگاہ اٹھائیے، ان کی خدمات کا باغ ہرا بھرا، خوبصورت وقیع اور معیاری ہے، ان کے کمالات متعجب کرتے ہیں، ان کی ہمت کوہِ ہمالیہ سے مضبوط تر نظر آتی ہے، ان کا ارادہ چٹان محسوس ہوتاہے، ان کا عزم پہاڑوں سے بھی مضبوط محسوس ہوتا ہے، زبان انتہائی نرم و نازک قولاً لیناً کی مصداق نظر آتی ہے، جیسے سخت ترین کانٹوں اور شاخوں کے درمیان گلاب کی پتی، گفتگو کرتے ہیں، تو احمد فراز کا یہ شعر محو خیال ہوتا ہے:

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

اس نوع اور ان اوصاف کی حامل شخصیات کرۂ ارضی کے مختلف خطوں پر پیدا ہوئیں، مگر سر زمین ہند کا نصیبہ جس شہر نے بلند کیا، اس کے مقدر کا ستارہ جس بستی نے روشن کیا، اس شہر رنگ و نور کو دیوبند کہتے ہیں، علمِ حدیث، منطق و فلسفہ، جغرافیہ، طب، ادب اور صحافت کی جو کہکشاں اس سرزمین نے ہندوستان کو عطا کی، وہ اس کی پیشانی پر سجنے والا جھومر قرار پائی، اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں، علم حدیث میں علامہ انور شاہ کشمیری جیسی عظیم الشان شخصیت عطا کی، فقہ میں مفتی شفیع عثمانی جیسا دُرِّ نایاب عطا کیا، شاعری میں علامہ انور صابری جیسا زود گو اور خوبصورت لب و لہجہ کا شاعر عطا کیا، مولاناعامر عثمانی جیسا شہنشاہِ قلم اور بلند خیال شاعر بخشا، ادب و صحافت میں سید محمد ازہر شاہ قیصرؒ جیسا عظیم انشاء پرداز اور صحافی عطا کیا، جس نے اپنے قلم کے تنوع سے صحافت کی مشکل راہ میں بلند مقام حاصل کیا، ان میں ہر شخصیت انتہائی عظیم ہے، میر کارواں اور اپنے میدان کی شہسوار و امام ہے، جس پر بھی گفتگو کی جائے، اس میں گوناگوں اوصاف و کمالات ہیں۔

 ہماری گفتگو کا مرکز سید ازہر شاہ قیصر ہیں، جن کی عادت، اخلاق، کردار، انتہائی اعلیٰ معیار پر فائز ہیں، عظیم گھرانے کا عظیم فرزند جس کی زندگی کی ابتدا علوم و فنون کے ان آفتاب کے درمیان ہوئی، جن کی تمازت پتھر دلوں کو بھی موم کر دیتی ہے، جن کے ورع و تقویٰ کی روشنی ارد گرد موجود افراد کے قلوب کو بھی مثل چاند روشن کردیتی ہے اور والد محترم علم کا وہ بلند ترین پہاڑ ہیں، جس کا وجود علمی دنیا میں زلزلہ برپا نہیں ہونے دیتا، ایسی عظیم شخصیات کے درمیان شاہ جی کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی، جن میں چند کے نام ذکر کردوں تاکہ مبالغہ کا خیال ذہنوں سے محو ہوجائے، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا مفتی شفیع عثمانی، مولانا اعزاز علی امروہوی ان علماء سے شاہ جی نے ابتدائی فارسی و عربی تعلیم حاصل کی اور ان کی شخصیت میں جلا پیدا ہوا، یہ وقت کی ستم ظریفی اور حالات کی تیرہ بختی و چیرہ دستی ہے کہ ان کا تعلیمی سفر جاری نہ رہ سکا اور انہوں نے میدان صحافت میں قدم رکھا اور اسی کو شب و روز کا مشغلہ اور اوڑھنا بچھونا بنا لیا، صحافت اس خاردار میدان کا نام ہے جہاں دامن تار تار ہوجاتے ہیں، قلم کی بولی لگ جاتی ہے، عزت و آبرو نیلام ہوجاتی ہے اور وقار و معیار چاپلوسی و کاسہ لیسی کی بھیٹ چڑھ جاتا ہے، دامن بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے، شاہ جی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس میدان میں نصف صدی سے زیادہ خدمات انجام دیں، لیکن ذرہ برابر ان کی شخصیت پر میل نہیں آیا، اپنوں، پرایوں سب کو اپنے فن کا مرید بنا لیا، لوگ ان کی تحریروں کے گرویدہ ہوئے۔

 مختلف اصناف نثر میں انہوں نے طبع آزمائی کی، افسانے اور کہانیاں بھی سپرد قرطاس کیں، تحقیقی و تخلیقی مضامین بھی تحریر کئے، ادبی و سماجی خیالات کو لفظوں کا حسیں پیرہن عطا کیا، اعلیٰ فکر، دور اندیشی، مستقبل میں ابھرنے والے فتنے ان کی تحریروں میں عیاں ہوتے تھے، آپ کی تحریروں کو پڑھ کر یہ گماں ہوتا ہے کہ اکیسوی صدی کے احوال رقم کررہے ہیں، وہ نبض شناس تھے، حالات کے تغیر، وقت کی آنکھ مچولی سے بخوبی تھے، ان کے چند جملے پیش خدمت ہیں، جو مرے دعوے کو پختہ کردیں گے، ’’یہ سائنسی ایجادات چاند پر پہنچنے کی جد و جہد اور انسانی زندگی کو فائدہ پہنچانے والی یہ ترقیات اپنی جگہ پر ایک حقیقت سہی، مگر ان ترقیات کا یہ پہلو انسانیت کے لئے کس قدر تکلیف دہ ہے، کس قدر افسوسناک اور کتنا مہیب ہے کہ ان ایٹمی ایجادات نے ساری کائناتِ انسانی، دنیا کی ساری رونق اور گرما گرمی بڑے بڑے ملکوں، میلوں تک پھیلے ہوئے شہروں، عظیم الشان کارخانوں اور ملوں اور اپنے گوشۂ عاطفت میں طویل مصروفیت کے بعد سستانے اور آرام لینے والے انسان کے لئے ہولناک تباہی اور ہمہ گیر بربادی کی منزل کو قریب سے قریب کردیا ہے۔‘‘(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، اکتوبر 1961،صفحہ2)

 ان سطروں سے شاہ جی کی دور بینی و دور اندیشی حالت کو پر کھنے کی صلاحیت نمایاں ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان کی انشاء پردازی کی شائستگی و شگفتگی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، وہ کس خوبصورتی سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں، یہ احساس بھی قلب پر دستک دیتا اور یہ ایک دن کا قصہ ایک تحریر کا فسانہ نہیں ہے، بلکہ نصف صدی زائد عرصہ تک آپ اسی طرح قلم کی خدمت کرتے رہے اور تقریباً 38سال تک ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کی کامیاب ادارت فرمائی اور انتہائی عرق ریزی و محنت کے ساتھ اس رسالہ کو دارالعلوم دیوبند کا ترجمان بنایا، حالانکہ بڑی شخصیات اس معرکہ کو سر نہ کرسکیں تھیں۔

 اس کے علاوہ شاہ جی کی سب سے پسندیدہ صنف سخن خاکہ نگاری تھی، انہوں نے شخصیات کو صفحات پر زندگی بخشی، خاکہ نگاری میں انہیں درک حاصل تھا، اگر زبان و ادب پر سکہ بند افراد کی حکمرانی نہ ہوتی تو شاہ جی کو ان کا جائز مقام میسر آتا اور زبان و ادب میں ان کی حیثیت ثابت ہو جاتی۔ بہرحال اس مرد قلندر نے بے لوث خدمات انجام دیں ہیں، جن کا صلہ دنیا وآخرت میں ضرور ملے گا۔ بزرگوں کے نقش قدم کو واضح کیا ہے،ان کے لیل و نہار کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے تاکہ ہم اس آئینہ میں اپنی زندگی مرتب کرسکیں۔

 ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ شاہ جی ذاتی اعتبار سے جن کمالات کے حامل تھے، وہ ان کی بزرگی اور اعلیٰ ظرفی کی کھلی دلیل ہے۔ شاہ جی اخلاق عالیہ اور اوصاف حمیدہ کے ساتھ ساتھ ایک ایسی خوبی کے بھی مالک تھے، جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، وہ بہر ذخار تھے، وہ ایسے دریا تھے جس کی تہہ میں موتی ہی موتی ہیں، وہ ایسی سینپ تھے، جس کے منھ میں پڑنے والا بارش کا قطرہ موتی بن جاتا ہے، ان سے قربت رکھنے والے بہت سے طلبہ قلم کے شہسوار و شہنشاہ بنے، انہوں نے ہمیشہ چھوٹوں کو آگے بڑھایا، ان کی حوصلہ افزائی کی، انہیں انشاء پردازی کی باریکیوں سے واقف کرایا، زبان وبیان کی خوبیوں پر مطلع کیا اور ان کو رسالہ دارالعلوم میں جگہ دے کر ان کے حوصلے بلند تر کردئے، چنانچہ ان کے لگائے ہوئے یہ پودے آج تناور درخت بن چکے ہیں، ان کے سایہ سے ایک جہاں فیضیاب ہوتا ہے۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر علم و کمال تحریر میں بڑے شاہ جی کا عکس محسوس ہوتے ہیں،  ان اوصاف کی حامل شخصیت کے یوم وفات نے قلب میں ان کی یادوں کو تازہ کردیا، آنکھوں کو نم اور قلب کو متحرک کیا، اس کے نتیجہ میں چند جملے ضبط تحریر میں آئے، ان کی شخصیت کے تعارف اور کمالات کے احاطے کے لئے بہت سے صفحات درکار ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔