شور میں ڈوبی زندگی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

آواز ترسیل کا مؤثر ذریعہ ہے۔ انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی کی معرفت انسان اپنے احساس وخیال سے دوسروں کو واقف کراتاہے یا پھر دوسروں کی باتوں کو سمجھتا ہے۔ زیادہ لوگوں تک آواز پہنچانے کیلئے الیکٹرک یا الیکٹرانک آلات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ 60 ڈی بی سے تیز آواز برداشت نہیں ہوتی، گراں گزرتی ہے۔ اسی کو شور کہتے ہیں اوراِسے صوتی آلودگی سے تعبیر کیا جاتاہے۔اس سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ پیڑ پودے، جانور اور پرندے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ آواز کی کثافت کا مسئلہ کسی ایک ریاست کا ایشونہیں ہے۔ تہوار پورے ملک میں منائے جاتے ہیں اور مذہبی تقریبات سبھی جگہ ہوتی ہیں ۔ جلوس، سیاسی مظاہرے، شادی بیاہ اور پوجا پاٹ کیلئے لوگ دل۔بل کے ساتھ تیز آواز میں بجتے بینڈ باجے وتام جھام کے ساتھ نکلتے ہیں ۔ اس کی انتہائی شکل چھوٹے ٹرک، ٹیمپو پر بجتے بڑے لائوڈ اسپیکر، دیر رات تک چلنے وا لے جاگرن، کائونڑیا پوجا پنڈالوں یا پھر جلسوں و ریلیوں کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ ان میں استعمال ہونے والے لائوڈ اسپیکر کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔ زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، جس سے عام لوگ پریشان ہوتے ہیں ۔ اچانک پیدا ہوئی آواز سے پرندے بے چین ہوکر پیڑوں سے اڑجاتے ہیں ۔ صوتی آلودگی نے ایسی سنگین صورت اختیار کرلی ہے کہ اس سلسلہ میں پورے ملک کو قانون کی ضرورت محسوس ہوہی ہے۔

حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کی ہدایت کے بعد یوپی حکومت نے صوتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے عوامی مقامات پر لگے لائوڈ اسپیکر کے متعلق تفصیلی ہدایات جاری کیں ۔ دسمبر2017میں ا یڈوکیٹ موتی لال یادو نے مذہبی مقامات پر لگے لائوڈ اسپیکروں کے استعمال پر پابندی لگانے  کیلئے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخلی کی تھی، جس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے اہم ہدایات دیں ۔20 دسمبر کو ہائی کورٹ نے ریاست میں صوتی آلودگی پر قابوپانیمیں ناکامی کو لے کر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے صوبائی سرکار سے پوچھا تھاکہ سبھی مذہبی مقامات مندروں ، مسجدوں ، گردواروں یا دوسرے عوامی مقامات پر لگے لائوڈ اسپیکر کیامتعلقہ افسران سے اجازت لینے کے بعد لگائے گئے ہیں ؟ اس کے بعد حکومت نے لائوڈ اسپیکر کے سروے کیلئے دس صفحہ کا پروفارمہ تیار کیا اور مستقل طورپر لائوڈ اسپیکر لگانے کی اجازت کا فارم بھی متعارف کرایا۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے اجازت نہیں لی ہے، ان کے خلاف کارروائی کی تفصیل دینے کو کہا گیا ہے۔

عدالت نے ریاست کے چیف سکریٹری ہوم واترپردیش پولیوشن بورڈ کے چیئرمین کو یہ سبھی معلومات اپنے نجی حلف نامہ کے ذریعہ یکم فروری2018 تک پیش کرنے کا حکم دیاتھا اور دونوں کو متنبہ کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی حالت میں دونوں افسران کو اگلی سماعت کے وقت نجی طورپر موجود رہنا ہوگا۔ یاد رہے کہصوتی آ؛ودگیکنٹرول قانون 2000 کے مطابق آڈیٹوریم، کانفرنس ہال، کمیونٹی سینٹر جیسے بند علاقوں کو چھوڑ کر رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک آواز کو پھیلانے والے آلات(لائوڈ اسپیکر س) کا استعمال نہیں کیاجائے گا۔ حالانکہ ریاستی حکومت کو اس میں یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ ایک کلینڈر سال میں زیادہ سے زیادہ 15 دنوں کیلئے ثقافتی یا مذہبی مواقع پر رات 10 بجے سے رات 12 بجے کے بیچ  بعض  شرائط کے ساتھ لائوڈ اسپیکر بجانے کی چھوٹ دے سکتی ہے۔

صوتی آلودگی پرکنٹرول کیلئے عدالت سے استدعاکا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے۔ تہواروں کا موسم آتے ہی صوتی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت عدالتوں کی ہدایتیں بھی دھری  کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ حکومت یا انتظامیہ کی اس پر قابو پانے میں سانسیں پھول جاتی ہیں ۔اس سلسلہ کا پہلا معاملہ 1985 میں عدالت کے سامنے آیا تھا۔ اس کا پورا کریڈٹ ممبئی کے ولے پارلے میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر یشونت ترمبک اوک کو جاتاہے، جنہیں 1979 میں جرمن سائنس داں کی تحقیقی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ صوتی آلودگی یا شور سے بلڈ پریشر کی بیماری ہوتی ہے۔ اسی وقت ان کے گھر کے سامنے مل کمپائونڈ میں ایک صنعتی اکائی لگی۔ جس کا شور اس رہائشی علاقے کے لوگوں کی صحت کیلئے نقصان دہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس اکائی کے لائسنس کی تجدید نہیں ہونے دی۔ پھر 1985 میں انہوں نے اپنے طبیب و ایڈوکیٹ دوستوں کے ساتھ مل کر’’گڑیش اتسو‘‘ میں لگنے والے لائوڈ اسپیکر کورات 11 بجے کے بعد بند کئے جانے سے متعلق عدالت میں مقدمہ دائر کیا، جس کا فیصلہ ڈاکٹراوک کے حق میں آیا۔

پہلی مرتبہ ماحول کی حفاظت قانون کے تحت صوتی آلودگی  پر ایک لاکھ کے جرمانے کے ساتھ پانچ سال کی جیل کی سزا کا نظم کیاگیا۔ملک میں پہلی مرتبہ اس طرح کا قانون وجود میں آیا۔ بعد میں ان کی ہی پٹیشن پر 2003 میں صوتی آلودگی سے متعلق سال 2000 کے قانون میں ترمیم کی گئی۔ اس کے بعد سال 2010 میں ممبئی کے شہری علاقہ تھانے میں کام کرنے والے ڈاکٹر مہندر بیڈلے کر نے تہواروں پر ہونے والی آواز کی آلودگی کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔

بھارت تہواروں کا ملک ہے۔ تہوار کی خوشی منانے کے دوران لائوڈ اسپیکر کا جتنا غلط استعمال کیاجاتا ہے، اس سے امن پسند لوگوں کو ہی نہیں بلکہ بچوں ، بزرگوں ، مریضوں اور طلبہ کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تہوارپہلے بھی منائے جاتے تھے لیکن آج کے تہوار اپنی طاقت اور بالادستی کو دکھانے کا ذریعہ بن گئے ہیں ۔ اس موقع پر تمام لوگوں کو مل کر سوچنا چاہئے۔ کیوں کہ اس سے ماحول کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ جس کی قیمت پرندوں ، جانوروں ، مچھلیوں اورانسانوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ کوئی بھی مذہب کسی ایسی عبادت کو منظوری نہیں دے سکتا جس سے ماحول یا انسانوں کو نقصان پہنچے۔ لیکن آج کسی بھی مذہبی تقریب یا عبادت کی وجہ سے ہونے والی صوتی آلودگی پر اعتراض جتانا تو دور، صلاح دینے کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ جبکہ اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑرہے ہیں ۔ صوتی آلودگی سے صرف انسانوں کی سماعت ہی متاثر نہیں ہورہی بلکہ کسی بڑے شہر شور کامرکز بنتے جارہے ہیں ۔ مثلاً دہلی80 ڈی بی، ممبئی85 ڈی بی، کولکاتہ87 ڈی بی اور چنئی 89 ڈی بی ہے۔ جبکہ معمول کے مطابق آواز60 ڈی بی سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صنعتی اکائیوں کو اپنی آواز 75 ڈی بی تک محدود رکھنی چاہئے، کیوں کہ تیز آواز کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر اور سماعت متاثر ہونے کے علاوہ تھکان، گھبراہٹ، سردرد، کمزوری اور چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔ شور سے دماغ میں خون رسائو ہوسکتا ہے جس سے برین ہیمرج کا خطرہ ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر اوپر نیچے ہونے سے ہارٹ اٹیک کا امکان بڑھ جاتاہے۔

مسلمانوں کے درمیان80 سے 90 کے بیچ نماز اور آواز کیلئے لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر طویل مباحثہ ہوا تھا۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت لائوڈ اسپیکر استعمال کئے جانے کے خلاف تھی۔ اپنے ہم وطنوں سے مسلمان اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ ایک ایک مسجد پر کئی کئی لائوڈ اسپیکر لگے ہیں ، کئی مسجد کے منتظمین نے مسجد کے باہر سڑک پر بھی دور تک لائوڈ اسپیکر لگارکھے ہیں ۔ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں ایک ہی گلی میں آمنے سامنے مسجدیں ہیں ، جب ان میں اذان ہوتی ہے تو چند منٹوں کیلئے زندگی رک سی جاتی ہے۔ کئی مسجدوں میں نمازیوں کی چھ سات صفیں ہی ہوتی ہیں ، وہاں بھی نماز لائوڈ اسپیکر پر پڑھائی جاتی ہے، کیا یہ ضروری ہے؟ امن پسند قوم ہونے کے ناطے اس پر مسلمانوں کو سوچنا چاہئے۔

کوئی کتنا اچھا فیصلہ یا قانون کیوں نہ ہو لیکن جب اس میں سیاست یا فرقہ واریت شامل ہوجاتی ہے تواس پر عمل کرنا اور کروانا مشکل ہوجاتاہے۔ صوتی آلودگی کو روکنے کی اتر پردیش حکومت کی کوشش کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔ صوتی آلودگی بلاشبہ ماحول اور انسانی زندگی کیلئے خطرناک ہے توپھر اس سے بچائو میں بھید بھائو کیوں ؟ اذان تو دن میں پانچ مرتبہ ہوتی ہے وہ بھی چند منٹوں کیلئے، ان کے لائوڈ اسپیکر کا وولیوم کم ہو اس پر شاید کسی کوا عتراض ہو لیکن گھنٹوں چلنے والی آرتیوں ، رات بھر چلنے والے جاگرن اور ہفتوں چلنے والی مذہبی تقریبات یا شوبھا یاترائوں کے لائوڈ اسپیکر کے وولیوں بھی کم کئے جائیں تبھی شور کم ہونے کی امید جاسکتی ہے۔ ملک کا مسئلہ ہے تو ملک کے سبھی لوگوں کو بلا تفریق کے مل کر حل کرنا ہوگا۔ اس کی سنگینی زیادہ کوشش اور زیادہ محنت چاہتی ہے جس کیلئے سبھی کو آگے آنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔