شکوہ ہائے تاخیر

 ایس ایم حسینی

             لکھنؤ جسے نوابوں کے شہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس شہر کی خاص پہچان اردو زبان اور نوابی پکوان ہیں، لکھنو میں مختلف طرح کی بریانی، قورما، کھیر، زردہ، شاہی ٹکڑا، نہاری، قلچے، شیر مال، باقر خانی، رومالی روٹی، ورقی پراٹھا، کاکوری کباب، گلاوٹی کباب، پتیلی کباب، بوٹی کباب، گُھوٹے کباب اور شامی کباب جیسے قسم کے پکوان کافی مشہور ہیں، ہر شہر کو کسی نہ کسی معاملہ میں امتیاز حاصل ہوتا ہے، جیسے کلکتہ اور کانپور چمڑے کے لئے معروف ہیں تو رامپور خاص قسم کے چاقو کے لئے، حیدرآباد نظام سے جانا جاتا ہے تو بنگلور کو سلطنت خداداد کا شرف حاصل ہے، آگرہ میں عشق و محبت کا تاج ہے تو دلّی اور لکھنؤ میں تہذیب وثقافت کے راج کے ساتھ زبان و بیان کا امتزاج ہے، اور دکن سے صَرف نظر دونوں ہی شہر اردو زبان کے گڑھ مانے جاتے ہیں، لیکن لکھنؤ اردو کے ساتھ نوابین اودھ اور کھانے کے ذائقوں کے لئے منفرد شناخت رکھتا ہے، مختلف شہروں میں یکساں چیزیں تو مل سکتی ہیں لیکن ذائقہ ایک انمول شئے ہے، لکھنؤ میں ایک طرف امین آباد کے ٹنڈے کباب کو عالمی شہرت حاصل ہے تو نخاس میں رحیم کے قلچے نہاری کے سامنے سب ٹُھس ہے، گرمی کے ایام میں پاٹانالہ کی شکنجی پیاس بجھانے کا کام کرتی ہے، تو پرکاش کی قلفی لوگوں کے کلیجہ میں ٹھنڈک ڈالتی ہے، ایک طرف دُرگا کا خستہ پوڑی ہے تو دوسری طرف سردار جی کے چھولے بٹورے، کبھی گول دروازہ سے لذیذ مکھن کی اٹھنے والی مہک بے چین کرتی ہے تو کبھی چوک کی کشمیری چائے لوگوں کے قدموں میں بیڑی ڈالتی ہے، یہاں گھنٹہ گھر میں ایرانی چائے کی رونق ہے تو لال باغ میں شرما جی کے چائے سموسے کے الگ ہی مزے ہیں، رومی دروازے پر حافظ جی کا مٹّھا، شِری کی لسّی، بالاگنج چوراہے پہ یادو جی کا کیسریا دودھ اور پھر لکھنوی پان کا اپنا الگ رنگ ہے۔

 لکھنؤ کا شہری ہونے کا ناطے پکوان کا شوقین ہونا لازمی سی بات ہے، کہ یہ ذائقوں کا آخری شہر ہے، لیکن آج غذاؤں کے سلسلے میں جب نگاہیں اٹھتی ہیں تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ بس کھانوں کے نام رہ گئے ہیں نہ مزہ بچا ہے اور نہ ذائقہ، اب پھر وہ خواہ ٹنڈے کباب کی بات ہو یا رحیم کی قلچہ نہاری کا ذکر، البتہ ابھی بھی کچھ دسترخوان ایسے ہیں جن کی لذت انگلیاں چاٹنے پر مجبور کردیتی ہے، یوں تو ہم کھانوں کے شوقین ہیں اور لکھنؤ جیسے شہر میں اس شوق کی تسکین میں کچھ مانع بھی نہیں، اس لئے کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ لکھنؤ میں موجود اکثر کھانے ہمارے ذوق کی نظر چڑھ چکے ہیں، یہاں یوں تو بہت سے بریانی سینٹرز ہیں، اور کمال کی بات ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ منفرد ذائقہ ہے بنسبت دوسروے شہروں کے کہ آپ وہاں جس جگہ بھی کھائیے، مزہ ایک سا ملے گا، لکھنؤ میں امین آباد کی واحد بریانی، گھنٹہ گھر کی ماشی بریانی، اور قیصر باغ میں مراد آبادی کا نام سر فہرست ہے، لیکن ادریس بریانی ان سب کی رانی ہے ، جس کا کوئی توڑ نہ ذائقہ میں ہے، نہ چرچے میں اور نہ خرچے میں، اب وہ دہلی میں اردو مارکیٹ کی بریانی ہو یا حیدرآباد کی کلیانی بریانی، یا پھر فیرزآباد اور کانپور کی بابا بریانی۔

 قصہ مختصر! ادریس کی بریانی کا نام تو بہت سنا لیکن لکھنؤ میں رہنے کے باجود اس سے اب تک ہم محروم ہی رہے تھے، یہ نہ سمجھئے کہ کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا، نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ بارہا گئے لیکن وائے قسمت کہ بے نیل ومرام لوٹے، کبھی بریانی تیار نہیں، تو کبھی بریانی دم پہ ہے، اور کبھی دکاندار کا یہ کہنا کہ میاں! آپ نے تاخیر کردی، بریانی کی ڈیگ تو خالی ہوچکی ہے، مسلسل اس صورت حال سے دو دو چار اور نامرادی ہاتھ آنے کی وجہ سے جی پر پتھر رکھ کر دوبارہ نہ جانے کا تہیہ کرتے لیکن دل کے ہاتھوں مجبور حسرت کی تکمیل کے لئے منھ لٹکائے پہنچ جاتے، تقریبا تین سال تک یہ آرزو پوری نہ ہوئی اور ہم اندر ہی اندر گُھلتے رہے، پھر ہوا یوں کہ قسمت کا ستارہ چمکا، تکمیل شوق کی کرن پھوٹی، ابھی ڈیڑھ ماہ قبل شروع فروری کی بات ہے، دیوبند سے ایک صاحب ہمارے مہمان ہوئے، اور اودھ کی گلابی شام، ٹنڈے کبابی، رحیم قلچہ نہاری کشمیری چائے اور لکھنؤ بھر کی سیر سے فراغت کے بعد آخر کار بھائیوں کی ایماء پر ادریس بریانی کا رخ کیا، دل تو چاہا نہ جائیں کہ سابقہ حالات کے پیش نظر "ملنی ویسے بھی نہیں ہے”، لیکن انکار کیسے کرتے کہ بھئی یہ لکھنؤ کی عزت کا سوال تھا، اس خیال کی وجہ سے کہ کہیں وہ (مہمان) واپس جاکر یہ نہ کہہ دیں کہ "بھئی لکھنؤ ہینہہ! وہاں ڈھنگ کی بریانی تو ملتی نہیں ہے” سو اس اندیشہ کے پیش نظر گاڑی اٹھائی، اور عم زاد واصل حسینی کو لئے اسحاق بھائی کی معیت میں ایک بار پھر ہم ادریس بریانی کے یہاں جا دھمکے۔

 یہ ایک بے ترتیب، خستہ حال، اڑے ہوئے رنگ کی یک منزلہ عمارت ہے، دھویں کی وجہ سے دیواریں سیاہ ہوچکی ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ تو ایسی لگی ہوئی تھی جیسے لنگر تقسیم ہورہا ہو، اگلے حصہ میں بریانی کی ڈیگیں چولہوں پر چڑھی ہوئی ہیں، پھر کاؤنٹر ہے اور اس کے بعد جگہ اتنی کہ بیک وقت بمشکل چھ لوگ سما سکیں، یہی کوئی تین بج رہا تھا، بھوک کے مارے عجب حال تھا، آنتیں تھیں کہ قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں، گاڑی کنارے لگائی اور اتر کر جب اندر پہنچے تو پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی، پھر کرم یہ ہوا کہ ویٹر نے ہوٹل کے باہر سڑک کنارے ہی کرسیاں لگاکر بیٹھنے کا انتظام کردیا، اور یہ ان کے یہاں معمول کی بات ہے، اب اتنا تو طے ہوچکا تھا کہ اس بار بریانی مل ہی جائیگی، خواہ یوں ہی سہی، گرمی زوروں کی تھی اور موسم بھی کچھ خاص اچھا نہیں تھا، بیٹھنے کا انتظام تو خیر، پنکھے کا انتظام کجا، پندرہ سے بیس منٹ انتظار ہی میں کٹ گئے، آخر کار ویٹر کے ہاتھوں میں بریانی کی صورت نظر آئی، اور نگاہیں تھم سی گئیں، اب ایک ایک بریانی کی پلیٹ، پیاز اور تَری کے ساتھ ہم چاروں افراد کے سامنے چُنی جاچکی تھی، بادل نخواستہ اٹھ کر ہاتھ دھوئے اور شوق کے ہاتھ پلیٹ کی جانب لپکے، ایک لقمہ، دو لقمے، تین لقمے، چار لقمے اور پلیٹ صاف، دوبارہ آرڈر دیا گیا اور پھر بریانی چٹ، پلیٹ صاف! واصل اور اسحاق بھائی پہلے بھی چکّر لگاتے رہے تھے، یہ میرا پہلا موقع تھا، اور میرے چہرے پر حیرت واستعجاب کے ڈونگرے برس رہے تھے۔

 بھئی ادریس کی بریانی کے کیا کہنے! ہم اپنی خوارک سے زیادہ کھاچکے تھے اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سنّاٹے میں ایسے بیٹھے تھے جیسے تین ہزار وولٹیج کا جھٹکا لگا ہو، دھچکا تو پہلا لقمہ زبان پر رکھتے ہی لگ گیا تھا، اب ہم پچھلے ان برسوں کے بارے میں سوچ رہے تھے جو اس لذیذ بریانی کے بغیر گزرے، ساتھ ہی اسحاق اور واصل بھائی میرے چہرے کو دیکھ دیکھ کر مزے لے رہے تھے، کیونکہ ہم پر اب یہ راز منکشف ہوچکا تھا کہ باقی پکوان تو محض بھوک مٹانے کے لئے ہیں، البتہ اگر ذوق کی تسکین چاہئے تو پھر کسی چَکَلَّس کے بغیر پہلی فرصت میں ادریس کی بریانی نوش فرمائیے، بلا مبالغہ سچ بتائیں تو میاں! ادریس بریانی کا ذائقہ اور لکھنؤ میں رہنے کے باجود اس سے محرومی، اس غم کا احاطہ کسی صورت نہیں کیا جاسکتا، امَا یار! واقعی کمال کی بریانی ہوتی ہے، میرا ماننا ہے ادریس بریانی کھانے کے بعد اس کے ذائقہ کا عاشق ہوجانا فطری امر ہے، واللہ اس کے ذائقہ کا کوئی باذوق شخص ہرگز ہرگز انکار نہیں کرسکتا ہے اور نہ کبھی بھول سے بھولنے کی جرات کرسکتا ہے۔

 یوں تو بریانی کے ہم عاشق رہے ہی ہیں لیکن ادریس کی بریانی! بس ذائقے تمام ہیں، ہر شخص کا کوئی نہ کوئی ویک پوائنٹ ہوتا ہے اور میری کمزوری ادریس کی بریانی! دو وقت کھانا نہ کھانا منظور ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ادریس کی بریانی میسر آجائے، ایسی لذیذ اور لطف آمیز ہوتی ہے کہ کئی دنوں تک ہم اسی ایک ذائقہ میں کھوئے رہے، اور اسی کے بارے میں سوچتے رہے، جس نے طبیعت میں ایسا طوفان برپا کردیا تھا کہ بس اللہ خیر، اب تو حال یہ ہے کہ ادریس بریانی کے نام پر دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں، اور تیز رفتار قدم سست پڑجاتے ہیں، ابھی چار دن قبل کی بات ہے، مامو جان کے ساتھ کام کے سلسلہ میں نخاس بازار جانا ہوا، واپسی میں لوٹتے وقت مامو نے کہا کہ آؤ بریانی کھاتے ہیں، میرا سوال تھا کونسی؟ کہنے لگے ادریس بریانی، اتنا سننا تھا کہ ہم نے گاڑی کی رفتار دھیمی کردی اور ہوٹل پہ جا کھڑی کی، اور ان ہی سب کے دوران آپ پوچھتے ہیں، کیسی لگتی ہے  تمہیں؟ اچھی لگتی ہے نا؟ اللہ اللہ! فقط اتنا سننا تھا کہ محسوس ہوا جیسے یہ سوال نہیں، سوال کے پردے میں چٹکی لے رہے ہوں، اب ہم کیا کہتے! خاموشی سے گاڑی اسٹینڈ پر لگائی اور ویٹر سے بریانی لانے کے لئے کہا، اس بار بھی ہوٹل کے باہر سڑک کنارے ہی جگہ ملی، سو مسکراتے ہوئے وصال یار کا ذائقہ سمیٹنے جا بیٹھے.

تبصرے بند ہیں۔