خود فریبی سی خود فریبی ہے، پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا  کی دوسری لہر جب اپنے شباب پر پہنچی تو  یومیہ  متاثرین کی سرکاری تعداد 4لاکھ سے تجاوز کرگئی اور 4ہزار سے زیادہ اموات ہونے لگیں،  اس  لیے عارضی طور پر سہی 56 انچ کا سینہ پچک گیا  لیکن جیسے ہی متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہوئی وزیر اعظم  نریندر مودی  کی بتیاں جل گئیں، کیمرہ چل پڑا  اور پروچن شروع ہوگیا۔ ایک زمانے میں سابق وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی نےکہا تھا میں خود نہیں آیا اور نہ مجھے کسی نے بھیجا ہے۔ مجھے گنگا میا ّ نے بلایا ہے۔ یہ سن کر خودکو گنگا کا بیٹا سمجھنے والوں نے  انہیں اپنا بڑا بھائی سمجھ  کر وزیر اعظم بنا دیا۔ کورونا کی وبا کے دوران جب ان  بیٹوں کی لاشیں گنگا میاّ  میں تیرنے لگیں اور وہ خون کے آنسو رونے لگی تو  بڑا بیٹا  چھومنتر ہوگیا۔ آگے چل کر جب دوسری لہر کا زور ٹوٹا اور لاشیں خلیج بنگال میں ڈوب گئیں تو  7 جون کو مودی جی نےقوم سے  خطاب کیااور خوب جی بھر کے کذب گوئی کی  جس پوسٹ مارٹم اسی دن شام میں رویش کمار نے کردیا اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔ اسی کے ساتھ مودی بھگت بھی شرم سے پانی پانی ہوگئے۔

تقریر والے  دن  دوپہر 2 بجے جب وزیر اعظم کے دفتر نے  ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ  شام 5 بجے مودی جی قوم سے خطاب کریں گےتو لوگوں نے قدرے اطمینان کا سانس لیا  کہ  رات 8بجے کا منحوس مہورت نہیں تھا یعنی   کسی بڑی  آفت  کا امکان نہیں  ختم  ہو گیا۔ اسکے بعد بھگت  آپس میں شرط لگانے لگے کہ وزیر اعظم روئیں گے یا نہیں ؟ جن کے گھروں میں کسی کا انتقال ہوا تھا  انہیں یقین تھا کہ مودی جی ان کے غم شریک ہوکردو آنسو بہائیں گے لیکن دیگر لوگوں کو یقین تھا کہ پچھلی مرتبہ جوجگ  ہنسائی ہوئی تھی   اس کے پیش نظر پرانی غلطی کو نہیں دوہرایاجائےگا اس لیے کہ اس وقت  کسی کو وزیر اعظم کے آنسووں پر تو نہیں لیکن دشمنوں کے تمسخر  اڑانے پر بہت روناا ٓیا تھا۔ مختلف اٹکلوں کے بیچ تین گھنٹے گزر گئے اور کورونا وبا کے دوران نویں بار  مودی جی ایک نیا لباس اور قدرے مختصر داڑھی کے ساتھ سج دھج کر  ٹیلی ویژن پر نمودار ہوگئے نیز ۳۲ منٹ سمع خراشی  فرماکر  لوٹ گئے۔

وزیر اعظم کے رخصت ہوتے ہی مرکزی وزراء کے ٹوئٹر بولنے لگے۔ اسے دیکھ کر پرانے زمانے کے قوال اور ان کی ٹیم یاد آگئی جو قوال کی آواز میں آواز ملاکراس کے مصرعوں کو بارباردوہرایاکرتے تھے۔وزیر اعظم کی چاپلوسی میں سب سے آگے ان کی پارٹی بی جے پی تھی۔ اس نے ۱۸ سال کی عمر کے لوگوں کو مفت میں ویکسین دینے اور غریبوں کو مفت راشن دینے کی تعریف کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ویکسین کے معاملے میں یہ فیصلہ عدالت کی پھٹکار کے بعد بہت تاخیر سے ہوا۔ مودی سرکار کی جیب  سے سرمایہ داروں کے لیے تو کروڈوں روپئے بڑی آسانی سے نکل آتے ہیں مگر  عوام کی فلاح وبہبود کے لیے پھوٹی کوڑی بھی  نہیں نکلتی۔ مرکزی سرکار  نےاول تو ویکسین کے بغیر کورونا کی جنگ جیتنے کا اعلان کرکے اس خرچ سے بچنے کی کوشش کی ۔ شروع میں 60سے اوپر والوں کےلیے اس خیال سے  مفت میں ویکسین  دینے کا اعلان کیا کہ وہ تو آئیں گے ہی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد 45سے اوپر والوں کو اپائنٹمنٹ لے کر ٹیکہ دینے کا وعدہ کیا مگر سائیٹ ہی کام نہیں کرتی تھی پھر 18 سے زیادہ عمر عمر کے لوگوں  سے روپیہ کمانے کا خواب دیکھا گیا لیکن جب ساری دنیا میں خوب بدنامی ہو چکی تو شرم آئی اس لیے سراہنے جیسا کچھ نہیں بچا۔ یہ اعلان اگر 6 ماہ قبل ہوا ہوتا تب تو اور بات تھی۔

وزیر اعظم کے ذریعہ دیوالی تک 80 کروڈ لوگوں مفت اناج دینے کا فیصلہ اچھا ہے مگر اس کے اندر یہ حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ ملک کے اندر فی الحال 80 کروڈ ایسے لوگ موجود  ہیں جن کا پیٹ مفت سرکاری راشن کے بغیر نہیں بھرے گا۔ ملک کی  اتنی کثیر آبادی  کا اس قدر غریب ہونا کسی وشوگرو کو شوبھا نہیں دیتا۔   وزیر اعظم ایک زمانے تک مفت خوری کا تمسخر اڑاکر عوام   کو  خود کفیل بنانے کا نعرہ لگاتےتھے۔ تو کیا اب  یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ خودکفالت کے نعرے سے رجوع کرکے کانگریس کے راستے پر گامزن ہوچکے ہے؟ بی جے پی کے صدر  نشین جگت پرشاد نڈا  نے وزیر اعظم کا اس طرح شکریہ ادا کیا گویا وہ سرکاری خزانے سے نہیں اپنی جیب سے یہ رقم خرچ کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا  کے خلاف لڑائی میں مودی سرکار ہر ہندوستانی کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ بات اگر حقیقت ہو تو کہنے کی کیا ضرورت ؟ اس لیےکہ مثل مشہور ہے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا  مگر چونکہ اس دعویٰ کا حقیقت سے  دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اس لیے نہ صرف  خود بلکہ  میڈیا کے ذریعہ بار بار کہلوانا  بھی پڑتا ہے تا کہ ایک سفید جھوٹ پر عوام یقین کرلیں۔  ابن الوقت  گودی میڈیا  کی نقص کو خوبی بناکر پیش کرنے کی  خود فریبی  پر باقی صدیقی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

جے پی نڈا کے پیش رو امیت شاہ نے اپنا فرض منصبی نبھاتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ عوام کے تحفظ اور صحت کی خاطر مودی سرکار نے ہمیشہ پرعزم ہو کر کام کیا ہے۔ لوگ نہیں جانتےکہ یہ کام کس دنیا میں کیا گیامگر پوچھنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اس کے جواب میں یہ نہ کہہ دیا جائے  :’’وہ تو  انتخابی جملہ ہے‘‘۔ ویسے بھی آئندہ  سال ۶ صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ شاہ  نے ۱۸ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ٹیکہ لگانے کاتاریخی فیصلے کرنے کے لیے وزیر اعظم کا  تہہ دل سےشکریہ ادا کیا۔ اس میں تاریخی کیا ہے یہ و ہی جانتے ہیں کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ کام بہت پہلے ہوچکا ہے نیزعوام کے پیسے سے ٹیکہ دینے پر شکریہ کیسا؟  شاہ جی  نے اس کو کورونا سے نجات دلانے کی جانب ایک اہم قدم بتایا۔ ایک زمانے سے وہ  ملک کو کانگریس مکت بنانے کے چکر میں ہیں۔ اس میں تو انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اب  کورونا کے معاملے میںکامیا بی ملتی  ہے یا ناکامی ہاتھ آتی یہ  تو وقت ہی بتائے گا۔

وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے  وزیر اعظم کے اعلان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ  تمام بالغوں کے لیے مفت ٹیکے کا اعلان کرکے وزیر اعظم نے ملک کے باشندوں کو بڑی راحت دی ہے لیکن یہ  راحت  بڑے انتظار کے بعدنصیب ہوئی اوراب  تو صرف اعلان  ہواہے، ویکسین کہاں ہے؟ اس کو مہیا کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس  راحت سے کتنے لوگ اور کب تک  بہرمند ہوسکیں گے یہ کہنا دشوار ہے۔ وزیر دفاع کے مطابق اس فیصلے سے کورونا کے خلاف جاری جنگ میں نئی طاقت ملے گی  لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پرانی طاقت کہاں چلی  گئی ؟ انہوں  نے بھی عوامی فلاح بہبود کے اس فیصلے کا دل سے  شاید اس لیے  شکریہ ادا کیا کیونکہ وزیر اعظم ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ وہ  نہ تو فیصلے کرتے ہیں اور نہ توعمل درآمد کرواتے ہیں۔ان کا پسندیدہ مشغلہ موقع بے موقع  کہانیاں سنانا  اورپندو نصیحت کرنا ہے۔ مثلاً اول تو طلباء کوامتحان میں کامیابی حاصل کرنے نسخے سجھاتے ہیں اورپھر امتحان کے مسترد ہوجانے کا اعلان فرمادیتے ہیں۔ ان کے مشوروں پر عملدرآمد کرنے والے طلباء فی الحال اپنے آپ کو فریب خوردہ محسوس کررہے ہیں۔

وزیر پٹرولیم اور گیس دھرمیندر پردھان  نے یہ نادر انکشاف کیا کہ حکومت اپنے خرچ پر ٹیکہ کاری  کررہی ہے۔ کیا ملک کے عوام یہ بھی نہیں جانتے۔مرکزی وزراء کی مکھن بازی کو دیکھ کر صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھی جوش آگیا۔  اس میں یوگی ادیتیہ ناتھ سب سے آگے تھے۔  ان کے وزیر اعظم سے تعلقات کشیدہ ہیں اس لیے مفت ویکسین اور اناج فراہم کرنے کے لیے شکریہ پر اکتفاء کیا۔  مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان  ذرا تفصیل میں گئے۔ انہوں نے لکھا   کہ ویکسین کو لے کر مختلف وزرائے اعلیٰ کے درمیان باہم  مسابقت تھی۔ یہ مسابقت ان کی مجبوری تھی کیونکہ مرکز اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے کنی کاٹ رہا تھا۔ چوہان کہتے ہیں کہ لوگ گلوبل ٹینڈر سے کچھ ہو نہیں پارہا تھا کیونکہ  کہ  مرکزی حکومت غیر ملکی  صنعتکاروں  کو تحفظ فراہم کرنے میں آنا کانی کررہی تھی۔ مفت میں ویکسین اور اناج فراہم کرنے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے  کے بجائےچوہان کو مرکزی حکومت  کا ممنون ہونا چاہیے تھالیکن  چاپلوس سیاستدانوں  سے اس کی توقع کرنا خود فریبی ہے۔

حزب اختلاف کے وزرائے اعلیٰ مثلاً کیجریوال نے اس فیصلےکا کریڈٹ عدالت کی پھٹکار کو دیا۔ ممتا بنرجی نے جارحانہ انداز میں چار ماہ کی تاخیر کا ذکر کیا جس کی قیمت لوگوں نے جان دے کر چکائی۔ جھارکھنڈ کےوزیر اعلیٰ کو بھی تاخیر کی شکایت ہے کیونکہ وہ  ویکسین کی خرید پر۴۷  کروڈ خرچ کرچکے ہیں۔ کیرالہ  کےوزیر اعلیٰ نے استقبال کرتے ہوے خوشی کا اظہار کیا کہ کم ازکم مرکزی حکومت نے ان کے مطالبے کو سمجھا۔ تمل ناڈو کے اسٹالن نے کہا کہ اب  ویکسین کے تعلق  سے تمام ذمہ داریاں صوبائی حکومت کو منتقل کی جائیں۔ چھتیس گڑھ کے بگھیل نے کہا اعلان تو ہوگیا اب اس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کانگریس  اور دیگرجماعتوں کے وزرائے اعلیٰ نے تو  ویکسین کے معاملے میں  بدانتظامی کے صوبائی حکومتوں  کو ذمہ دار ٹھہرانے کی سستی سیاست پر تنقید کی لیکن بی جے پی  کےرہنما یا وزیر اعلیٰ اس کی جرأت نہیں کرسکے  کیونکہ طبلا سارنگی بجانے والوں سے اس کی توقع بھی  غیر واجب  ہے کہ وہ اپنے قوال سے ہٹ کر کوئی اور سرُ الاپیں گے۔  کورونا کی ویکسین  ویسے تو  ساری دنیا میں لگ رہی ہے لیکن جو  سیاسی تماشے وطن عزیز میں ہورہے ہیں اسے دیکھ کر خود کورونا کا جرثومہ بھی حیران و پریشان ہے اوراس کے ہندوستانی بہروپ سے ساری دنیا تھر تھر کانپ رہی ہے۔ مودی جی اپنی لال آنکھوں سے تو چین کو نہیں ڈرا سکے مگر کورونا کے سودیشی یعنی ڈیلٹا  ورژن سے پوری دنیا کو خوفردہ کردیا۔ یہ کوئی نیک نامی نہیں ہے لیکن وزیر اعظم خوش ہیں کیونکہ؎

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔