طلاق دینے کا صحیح طریقہ

 عطا رحمانی
تین طلاقوں کے سلسلے میں موجود اختلاف کو لے کر لڑنے جھگڑنے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ طلاق دینے کا سنت کے مطابق صحیح طریقہ کیا ہے ؟
کیوں کہ یہ دشواری وہیں پیش آتی ہے جہاں سنت کی مخالفت کی جاتی ہے .
پس معلوم ہونا چاہیے کہ ایک ساتھ تین یا دو طلاقیں دینا بالاتفاق حرام ہے .
طلاق کا صحیح طریقہ سنت کے مطابق یہ ہے کہ آدمی عورت کی پاکی کے ان دنوں میں ، جن میں اس نے اس سے جماع بھی نہ کیا ہو ، یا حمل کی حالت میں صرف ایک طلاق دے.
اب اگر رکھنے کا ارادہ بنے تو عدت کے اندر اندر رجوع کر لے اور چھوڑنے کے ارادے پر ہی برقرار رہتا ہے تو عدت کے پورا ہونے کا انتظار کرے . عدت کے پورا ہوتے ہی وہ عورت اس کی زوجیت سے پورے طور پر نکل جائے گی. اب وہ عورت (اپنے سابق شوہر سمیت) کسی بهی نا محرم مرد سے دوسری شادی کر سکتی ہے .
اس طرح ایک ہی طلاق میں آدمی کا مقصد پورا ہو جائے گا اور دوسری یا تیسری طلاق کی نوبت ہی نہ آئے گی .
اس طرح طلاق دینے کا، سنت کے مطابق ہونے کے علاوہ ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر بعد میں آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ بغیر کسی "حلالے” (جس کو حرامہ کہنا چاہیے ) کے اس کے ساتھ رجوع یا دوبارہ نکاح کر کے اپنے گھر کو پھر سے شاد و آباد کر سکتا ہے . طلاق دینے اور رجوع کرنے کے وقت دو انصاف پسند لوگوں کو گواہ بنانا بھی ضروری ہے. تا کہ کل کو کسی طرح کا کوئی جھگڑا نہ ہو اور گواہوں کو بھی اللہ واسطے سچ سچ گواہی دینی چاہیے.
دلائل حسب ذیل ہیں :
الله تعالی إرشاد فرماتا ہے :
اے نبی ! (اپنی امت سے کہیے کہ ) جب تمهیں اپنی عورتوں کو طلاق دینی ہو تو ان کی عدت ( کے دنوں آغاز میں ) میں انهیں طلاق دو، عدت کا حساب رکھو اور اپنے رب سے ڈرتے رہو .
(الطلاق 65: 1)
عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان فرماتے ہیں کہ انهوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی . چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے کر دیا . یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم کو غصہ آ گیا اور آپ نے فرمایا : (اپنے بیٹے سے کہو ) کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ، پھر اس کو روکے رکھے یہاں تک پاکی کے ایام شروع ہو جائیں ، پھر (اسی طرح روکے رہے یہاں تک کہ ) دوبارہ حیض شروع ہو جائے اور وہ (حیض ) سے پاک ہو جائے . پھر اگر اسے طلاق دینا مناسب لگے تو پاکی کے ایام (Period ) میں جماع کرنے سے پہلے پہلے طلاق دیدے . یہی وہ عدت ہے جس ( کے شروع میں طلاق دینے کا حکم ) اللہ نے (سورہء الطلاق کی پہلی آیت میں) دیا ہے .
(صحیح بخاری : کتاب الطلاق ، حدیث نمبر : 4908)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : (اپنے بیٹے کو ) حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ، پھر اسے پاکی کی حالت میں یا حمل کی حالت میں طلاق دے .
(صحیح مسلم : 1471، سنن ابن ماجہ :2023، سنن ابوداؤد :2181)
عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں :
سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ آدمی پاکی کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے پھر اس کو عدت پوری ہونے تک چھوڑ دے یا اگر چاہے تو رجوع کر لے.
(سنن ابن ماجہ : 2020 ، التمهيد لابن عبد البر :ج:15 ، ص.74 .)
علی رضي الله عنه فرماتے ہیں :
اگر لوگ طلاق کی صحیح تعریف تک پہنچ جاتے تو کسی آدمی کو اپنی بیوی پر افسوس نہ ہوتا . وہ اسے یا تو حمل کے واضح ہو جانے کی حالت میں طلاق دیتا یا پھر جماع کیے بغیر پاکی کی حالت میں . وہ انتظار کرتا یہاں تک کہ جب عورت اپنی عدت کے آغاز میں ہوتی تو اگر مناسب سمجھتا تو رجوع کر لیتا اور اگر مناسب سمجھتا تو اس کا راستہ چھوڑ دیتا .
(مصنف ابن ابی شیبہ :17728)
امام حسن بصری اور امام ابن سیرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں :
سنت کے مطابق طلاق دینے کا وقت عدت کا آغاز ہے . وہ پاکی کے ایام میں جماع کیے بغیر طلاق دے گا . اور اگر عورت حمل سے ہے تو جب چاہے طلاق دے سکتا ہے .
(مصنف ابن ابی شیبہ:17729)
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اگر آدمی نے عورت کو ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے اس کے ساتھ جماع نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ عدت پوری ہو گئی ، تو ایسا آدمی بالاتفاق سنت کے مطابق طلاق دینے والا ہے .
(المغنی :10/325)
پھر جب وہ اپنی میعاد (یعنی انقضائے عدت) کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو ان کو اچھی طرح (زوجیت میں) رہنے دو یا اچھی طرح سے علیحدہ کردو اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کرلو اور (گواہو!) اللہ کے لیے درست گواہی دینا۔ ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کرے گا. (الطلاق:2)
نوٹ :
واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے . اس میں حیض کا ہی اعتبار کیا جائے گا مہینے کا نہیں اور یہ عدت عورتوں کی عادت کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے . یہاں تک کہ کسی عورت کو ایک ڈیڑه مہینے میں تین حیض بھی آ سکتے ہیں .

تبصرے بند ہیں۔