طلاق: کب اور کیسے؟

   محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کودوطرح کی صفات سے متصف کیاہے، ایک کو’’صفت ملکوتیت‘‘ اوردوسرے کو’’صفت بہیمیت‘‘ کہاجاتاہے، صفت ملکوتیت انسان کوخالص اطاعت وبندگی پرابھارتی ہے، جب کہ صفت بہیمیت کے نتیجہ میں وہ ایسے اموربھی انجام دیتاہے، جواطاعت وبندگی سے ہٹ کرہوتے ہیں ، انھیں امورمیں سے ایک لڑائی جھگڑابھی ہے۔

 لڑائی جھگڑا جس طرح عام انسانوں کے مابین ہوتاہے، اسی طرح بسااوقات ’’میاں بیوی‘‘کے درمیان بھی ہوتاہے، پھرمیاں بیوی کے درمیان ہونے والی یہ لڑائی کبھی توصلح وصفائی کے ذریعہ ختم ہوجاتی ہے؛ لیکن کبھی یہ لڑائی اتنی طول کھنچ جاتی ہے کہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی، ایسی صورت میں نکاح کاوہ مقصدبھی فوت ہوتانظرآتاہے، جس کوقرآن نے ’’لتسکنوا إلیہا‘‘ (تاکہ تمہیں اس کے پاس سکون میسر ہو) سے تعبیر کیاہے،ایسے وقت میں سکون وطمانینت کے حصول کاواحد ذریعہ’’طلاق‘‘ ہی نظرآتاہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے میاں بیوی دونوں گھٹ گھٹ کرجینے کے بجائے ایک نئی زندگی شروع کرنے کے مستحق بن جاتے ہیں ؛ لیکن شریعت کی نگاہ میں یہ ایک مبغوض اورناپسندیدہ چیزہے؛چنانچہ اللہ کے رسول اکاارشادہے:

أبغض الحلال إلی اللہ الطلاق۔ (ابن ماجۃ، أبواب الطلاق، حدیث نمبر: ۲۰۱۸)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک مباح چیزوں میں سے ناپسندیدہ ترین چیزطلاق ہے۔

اس لئے بہترتویہی ہے کہ یہ سوچ کراس سے بچاجائے کہ ہرانسان میں کچھ خرابیاں ہوتی ہیں تواس کے اندرکچھ اچھائیاں بھی ہوتی ہیں، صرف ایک چیز پرنظرکی جائے اوردوسری کی چیزکی طرف نگاہ اٹھاکربھی نہ دیکھاجائے، یہ عدل وانصاف کے تقاضہ کے خلاف بات ہے، تاہم یہ بات ضرور ذہن نشین رہنی چاہئے کہ طلاق کی اجازت کے بھی شریعت نے کچھ وجوہات واسباب بیان کئے ہیں ، جن کاجاننا موجودہ زمانہ میں اس لئے ضروری ہے کہ عمومی طورپر لاعلمی کے نتیجہ میں بات بے بات طلاق دے دی جاتی ہے، پھرندامت کے آنسوکے سواکچھ ہاتھ نہیں آتا۔

  پھرطریقۂ طلاق سے بھی ناواقفیت ہونے کی بناپرلوگ تین سے کم پرراضی نہیں ہوتے؛ اس لئے ذیل میں اسباب ووجوہات کے ساتھ طریقۂ طلاق کوبھی بتلایاگیاہے؛ تاکہ جس طرح نکاح کاوجودشرعی طورپرہواہے، خاتمہ بھی شریعت کے مطابق ہو، لہٰذا آیئے سب سے پہلے اسباب کوجانتے چلیں۔

 شریعت نے درج ذیل اسباب کی بناپرکسی عورت کوطلاق دینے کی گنجائش دی ہے:

۱-  جب بیوی کے اندردینی بہتری کافقدان ہو،جیسے: نمازکاترک کرنااوربے پردگی وغیرہ، توایسی صورت میں طلاق دینامندوب ہے، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں :

والرابع: مندوب إلیہ، وہوعندتفریط المرأۃ فی حقوق اللہ الواجبۃ علیہا، مثل الصلاۃ ونحوہا، ولایمکنہ إجبارہاعلیہا۔ (المغنی، فصل: الطلاق خمسۃ أضرب: ۸؍۲۳۵)

(طلاق کی) چوتھی قسم: مندوب ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کے واجب حقوق میں عورت کی کوتاہی کے وقت طلاق دیناہے، جیسے: نمازوغیرہ، جب کہ اس کومجبورکرنا ممکن نہ ہو۔

۲-  جب بیوی کے اندراخلاقی خرابی پائی جائے، مثلاً: شوہرکے عدم موجودگی میں دوسرے مردسے تعلق قائم کرنا؛ کیوں کہ عورت پرضروری ہے کہ وہ اپنی عزت صرف اپنے شوہرکے حوالہ کرے، کسی اورکے سامنے ہرگزہرگزاپنی عزت نیلام نہ کرے، اللہ کے رسول ا نے عورت کے اس لازمی ذمہ داری کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

ولکم علیہن أن لایوطئن فرشکم أحداتکرہونہ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)

 تمہاراان(بیویوں )پرحق یہ ہے کہ وہ اپنے بستروں کوکسی ایسے شخص سے نہ رُندوائیں ، جس کوتم ناپسند کرتے ہو۔

  یعنی کسی اجنبی شخص(غیرمحرم) کوہرگزاپنے گھرآکراپنے بستروں پربیٹھنے کی اجازت نہ دیں ، علامہ خطابیؒ فرماتے ہیں :

 فإن معناہ : أن لایأذن لأحد من الرجال یدخل فیتحدث إلیہن۔ (معالم السنن: ۲؍۲۰۰)

 اس کے معنی یہ ہیں کہ مردوں میں سے کسی کوداخل ہونے کی اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے۔

جب اجنبی(غیرمحرم) کے لئے گھرکے اندرلانے کی اجازت نہیں تواس کے پاس عزت نیلام کرنے کی اجازت کیسے ہوگی؟لہٰذا عورت پرفرض ہے کہ وہ اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرے کہ اب صرف تنہااس کی عزت نہیں رہی؛ بل کہ اس کے شوہرکی عزت بھی بن چکی ہے؛ حتی کہ اگروہ شوہرکی اجازت کے بغیرکسی غیرمحرم کوگھرکے اندرداخل ہونے کی اجازت دیدے توشوہرکوشریعت کی طرف سے یہ حق حاصل ہے کہ اس کی تادیب کرے، اللہ کے رسول ا نے فرمایا:

 فإن فعلن ذلک فاضربوہن ضرباً غیرمبرح۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)

اگروہ دوسروں کوگھرآنے کی اجازت دیں توانہیں چوٹ نہ پہنچانے والی مارمارو۔

  اوراگربیوی زناکاری میں مبتلاہوجائے توایسی صورت میں طلاق کی گنجائش توہے؛ لیکن پہلے افہام وتفہیم کرے،نہ ماننے کی صورت میں طلاق دیناواجب ہے، محمدبن اسماعیلؒ صنعانی لکھتے ہیں :

ویجری ہذاالحکم(أی:حکم الأمۃ الزانیۃ)فی الزوجۃ أنہ لایجب طلاقہاوفراقہالأجل الزنا؛ بل إن تکررمنہاوجب۔ (سبل السلام، باب حدالزانی: ۴؍۸)

(زانی باندی کاحکم)بیوی میں جاری ہوگاکہ زناکی وجہ سے طلاق اورجدائے گی واجب نہیں ہے؛ بل کہ اگر زناکاتکرارپایاجائے توواجب ہے۔

علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

والثالث: مباح، وہوعندالحاجۃ إلیہ لسوء خلق المرأۃ، وسوء عشرتہا، والتضرربہا من غیرحصول الغرض بہا۔ (المغنی، فصل: الطلاق خمسۃ أضرب: ۸؍۲۳۵)

(طلاق کی تیسری قسم) مباح ہے، یہ عورت کی بداخلاقی، سوء عشرت اوراس سے مقصدکی حصول یابی کے بجائے نقصان اٹھانے کے وقت ہے۔

۳-  جب شوہرحقوقِ زوجیت کی ادائے گی سے عاجزہوجائے، حق زوجیت( یعنی بیوی سے تعلق قائم کرنا)بھی بیوی کاایک اہم دینی اورضروری حق ہے، جس کوپوراکرناآج کے زمانہ میں خوراک وپوشاک کے حق سے زیادہ ضروری ہے، حضور اکرم اکوبتلایاگیاکہ (حضرت) عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ دن کوروزہ رکھتے ہیں اوررات کو قیام کرتے ہیں ، اللہ کے رسول انے ان سے اس بات کی تصدیق کی، پھرفرمایا:

فلاتفعل، صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدک علیک حقاً، وإن لعینک علیک حقاً، وإن لزوجک علیک حقاً۔(بخاری، باب لزوجک علیک حق، حدیث نمبر: ۵۱۹۹)

ایسا مت کرو، روزہ بھی رکھو اورافطاربھی کرو، قیام بھی کرواورسوبھی جاؤ، کیوں کہ تمہارے جسم کاتم پرحق ہے، تمہاری آنکھ کاتم پرحق ہے اورتمہاری بیوی کاتم پرحق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اسے بیوی کاایساحق تسلیم کیاہے، جس کے مطالبہ کاپورااستحقاق بیوی کوحاصل ہے، مشہورحنفی فقیہ عثمان بن علی زیلعیؒ لکھتے ہیں :

 والوطء حق الزوجۃ، ولہٰذا کان لہاالمطالبۃ بہ۔ (تبیین الحقائق، بحث فی العزل:۶؍۲۱)

وطی(بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنا)بیوی کاحق ہے، لہٰذااسے شوہرسے مطالبہ کاپورااستحقاق ہے۔

 یہ حق کس قدراہمیت کی حامل ہے، اس کااندازہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے مرتب کردہ قانونی کتاب’’مجموعۂ قوانین اسلامی‘‘کے قانونِ طلاق کے دفعہ (۷۳) سے لگاسکتے ہیں ، جس میں لکھاہے کہ:

ترکِ مجامعت اوربیوی کومعلقہ بناکررکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے؛ کیوں کہ حقوق زوجیت کی ادائے گی واجب ہے، حقوقِ زوجیت ادانہ کرنااوربیوی کومعلقہ بناکررکھناظلم ہے اوردفع ظلم قاضی کافرض ہے، نیز صورت مذکورہ میں عورت کامعصیت میں مبتلاہونا بھی ممکن ہے، قاضی کافرض ہے کہ ایسے امکانات کوبندکردے؛ اس لئے اگرعورت قاضی کے یہاں مذکورہ بالا شکایت کے ساتھ مرافعہ کرے توقاضی تحقیقِ حال کے بعدلازمی طورپررفع ظلم کرے گا اورمعصیت سے محفوظ رکھنے کے مواقع پیدا کرے گا(مجموعۂ قوانین اسلامی،ص:۱۹۲)۔

 ۴-  بیوی ناشزہ(نافرمان) ہوجائے توطلاق دینے کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ  اللہ تعالیٰ کے بعددنیامیں عورت کے لئے سب کچھ شوہرہے، اس کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول ا نے فرمایا:

 لوکنتُ آمراً أحداً أن یسجد لأحد، لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ، حدیث نمبر:۱۱۵۹)’

اگرمیں کسی کوحکم دیتاکہ وہ کسی شخص کوسجدہ کرے توبیوی کوحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے۔

 یعنی سجدہ تواللہ کے سواکسی اورکے لئے درست ہی نہیں ، اگرایسی کوئی اجازت ہوتی توسب سے پہلے شوہرکویہ حق حاصل ہوتاکہ اسے سجدہ کیا جائے، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے بعد شوہرکی بات ماننا اوراس کی اطاعت کرنابیوی پرضروری ہے، ملاعلی قاریؒ لکھتے ہیں :

وفی ہذاغایۃ المبالغۃ لوجوب إطاعۃ المرأۃ فی حق زوجہا، فإن السجدۃ لاتحل لغیراللہ۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب عشرۃ النساء ومالکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثانی: ۶؍۳۶۹)

اس میں انتہائی مبالغہ سے بتلایاگیاہے کہ بیوی کے لئے شوہرکے حق میں اطاعت ضروری ہے؛ کیوں کہ سجدہ اللہ کے علاوہ کسی کے لئے جائزنہیں ۔

 اورجب بیوی شوہرکی اطاعت جائز امورمیں نہ کرے تویہ سوء اخلاق کے درجہ میں داخل ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے طلاق دینے کی گنجائش ہے۔

  ۵-  جب کسی شرعی بنیادپروالدین طلاق دینے کے لئے کہیں ، توایسی صورت میں نہ صرف طلاق دینے کی گنجائش ہے؛ بل کہ واجب ہے، جیسا کہ سوال نمبر(۲) کے جواب میں گزرچکاہے۔

 ۶-  جب بیوی کے اندرکوئی ایساعیب یاایسی بیماری پائی جائے، جس کی وجہ سے مقاصدنکاح کاتحقق نہ ہوسکے توایسی صورت میں بھی بیوی کوطلاق دینے کی گنجائش ہے، علامہ میدانیؒ لکھتے ہیں :

(وإن کان بالزوجۃ عیب…فلاخیارلزوجہا)لمافیہ من الضرربہابإبطال حقہا، ودفع ضررالزوج ممکن بالطلاق۔ (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح: ۱؍۲۶۰)

اگربیوی میں عیب ہوتواس کے شوہرکو(تفریق کا)خیارنہیں ہے کہ اس ایسی صورت میں اس کے حق کوباطل کرکے اس کونقصان پہنچاناہے اورشوہرکے ضررکو طلاق کے ذریعہ دورکرناممکن ہے۔

 ۷-  جب دونوں کے مابین ایساشقاق پیداہوجائے، جس میں صلح کی گنجائش باقی نہ رہے توبیوی کوکالمعلقہ بناکررکھنادرست نہیں ؛ بل کہ طلاق دے کرآزادکردینابہترہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

 فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔(البقرۃ: ۲۲۹)

 پھر رکھنا ہے تو بھلے طریقہ سے رکھ لو، یا چھوڑ دینا ہو تو نیکی اور احسان کے ساتھ رخصت کر دو۔

 اسبا ب سے واقفیت کے بعدطریقۂ طلاق کوجان لیناچاہئے؛ تاکہ افراط وتفریط کے شکارہونے سے بچاجاسکے،اس سلسلہ میں آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈنے قرآن وحدیث اورفقہ اسلامی کوسامنے رکھتے ہوئے ایک’’ضوابط برائے طلاق‘‘ جاری کیاہے، ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہئے، جس کی تفصیل حسب ِذیل ہے:

۱-   اگرشوہروبیوی میں اختلاف پیداہوجائے توپہلے وہ خودآپسی طورپران اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کریں اوردنوں اس بات کوسامنے رکھیں کہ ہرانسان میں کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں اوربہت سی خوبیاں ہوتی ہیں ، لہٰذاشریعت کی روایت کے مطابق ایک دوسرے کی غلطیوں کودرگزرکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

۲-  اگراس طرح بات نہ بنے توعارضی طورپرقطع تعلق کیاجاسکتاہے۔

 ۳-  اگریہ دونوں طریقے ناکام ہوجائیں تودونوں خاندان کے باشعورافرادمل کرمصالحت کی کوشش کریں ، یادونوں طرف سے ایک ایک ثالث مقررکرکے (Reconciliation and Arbitration)باہمی اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

۴-  اگراس کے باوجودبات نہ بنے توبیوی کوپاکی کی حالت میں شوہرایک طلاق دے کرچھوڑدے؛ یہاں تک کہ ایامِ عدت گزرجائیں، عدت کے دوران اگرمرافقت پیداہوجائے توشوہررجوع کرلے اورپھردونوں میاں بیوی کی طرح زندگی گزاریں ، اگرعدت کے دوران شوہرنے رجوع نہیں کیاتوعدت کے بعد خودہی رشتۂ نکاح ختم ہوجائے گا اوردونوں نئی زندگی شروع کرنے کے لئے آزاداورخودمختارہوں گے، اگربیوی اس وقت حاملہ ہوگی توعدت کی مدت وضع حمل ہوگی، طلاق دینے کی صورت میں شوہرکوعدت کاخرچ دیناہوگا اورمہرباقی ہوتووہ بھی فوراً اداکرناہوگا۔

۵-  اگرعدت کے بعدمصالحت ہوجائے توباہمی رضامندی سے نئے مہرکے ساتھ دونوں تجدیدِنکاح کے ذریعہ اپنے رشتہ کوبحال کرسکتے ہیں۔

 ۶-  دوسری صورت یہ ہے کہ بیوی کوپاکی کی حالت میں شوہرایک طلاق دے، پھردوسرے ماہ دوسری طلاق دے اورتیسرے ماہ تیسری طلاق دے، تیسری طلاق سے پہلے اگرمصالحت ہوجائے توشوہررجوع کرلے اورسابقہ رشتۂ نکاح بحال کرلے۔

  شوہرکوایک ساتھ تین طلاق ہرگزہرگز نہیں دینی چاہئے؛ کیوں کہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لابورڈ نے ایسے شخص کے خلاف سماجی بائیکاٹ کامطالبہ کیاہے؛ چنانچہ اس کی آٹھویں تجویز میں ہے کہ ’’مسلم سماج کوچاہئے کہ جوشخص ایک ساتھ تین طلاق دے، اس کاسماجی بائیکاٹ کیاجائے؛ تاکہ ایسے واقعات کم ازکم ہوں ‘‘۔

 اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. فراست حسین کہتے ہیں

    سب سے آخر میں جو ۶۔نمبر ہے۔ اسکی کیا دلیل ہے ؟

تبصرے بند ہیں۔