علامہ اقبال کو اقبال کیوں؟ 

شہباز رشید بہورو

علامہ اقبالؒ بیسویں صدی میں ایک ایسی نابغہ یکتائے عصر شخصیت کی حیثیت سے ابھرے کہ وہ عالم اسلام میں برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے ایک نمائندہ خاص اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے وکیلِ دانا بن کر معروف ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے علوم کے بے کنار و اتاہ سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنی مکمل علمی تشنگی کا سامان قرآن مجید میں پایا اور قرآن کو ہی اپنے مطالعے کا حقیقی مرکز بنایا۔ علامہ صاحب نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غوروفکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری، قرآن مجید پڑھتے، بولتے اور سوچتے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم بیان القرآن میں لکھتے ہیں:

"لیکن بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ جیساایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا، کس نے مشرق ومغرب کے فلسفے پڑھ ڈالے،جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا،جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا اد کو اس قرصن نے اس طرح possess کیااور اس پر اس طرح چھاپ قائم کی کہ اس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآن مجید سے اور اس تشنگئ علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے۔ گویا بقول خود ان کے :

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اَماں ملی تو کہاں ملی 

میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں !

مولانا ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ ” اقبال کا ایمان چونکہ نو مسلم کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر نہیں ملا ہے، اس لئے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور و احساس کے ساتھ مطالعے اور تلاوت کا زوق بہت زیادہ ہے”.

علامہ اقبالؒ نے اپنے دور اور سابقہ ادوار کے تمام مفید شرق و غرب کے فلسفوں کو پڑھ ڈالا، ان پر ناقدانہ تبصرہ کرکے عقل کی کشتی پر سوار فلسفیوں (جنہوں نے وحی، رسالت اور کتاب کا انکار کیا تھا) کو اپنی اپنی آئڈیالوجی پر نظر ثانی کرنے کے ناقابلِ انکار دلائل پیش کئے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے حاصل مطالعہ کو قرآن کی دین کہا، اپنے موئثر فلسفہ خودی کا source قرآن بتایا، اپنی روحانی شاعری کی تاثیر کو قرآن کریم کا ثمر مانا اور اپنی شخصیت کو قرآن مجید کا طالب علم ہونے کے طور پر متعارف کرایا۔ اقبالؒ کی زندگی کے آخری ایام میں جب بھی کوئی آپ سے سوال کرتا تو آپ قرآن مجید کھول کر جواب دیتے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے "میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوزو گداز سب اسی(قرآن) کا فیضان ہے”.علامہ اقبالؒ نے اپنے فلسفی ذہن کی ہر تشویش کو قرآن سے مطمئن کیا۔ آپ نے اپنے ذہن کے تمام پیچیده سوالات اور غیروں کے اعتراضات کے جواب میں قرآن رکھا۔ آپ نے ہر مشکل کا حل قرآن اور حدیث کی صورت میں پیش کیا۔ علامہ اقبالؒ نے تیسری گول میز کانفرنس کے میں شرکت کے علاوہ پورپ کی بڑی بڑی شخصیات سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں آپ نے ایک ملاقات مشہور فلسفی برگساں سے بھی کی، ملاقات کے دوران جب علامہ اقبالؒ نے برگساں کو اسلامی تصورِ زماں کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائی: "زمانہ کو برا مت کہو زمانہ تو خود خدا ہے” تو یہ حدیث سنتے ہی برگساں ششدہ رہ گیا اور کرسی سے اچھل کر آگے بڑھااور اقبالؒ سے پوچھنے لگا "کیا یہ واقعی حدیث ہے”.علامہ اقبال نے جب میسولینی سے ملاقات کی تو میسولینی نے علامہ اقبال سے کوئی اچھا مشورہ طلب کیا جو خاص اٹلی کے حالات کے لئے موزوں ہو انہوں نے فرمایا "ہر شہر کی آبادی مقرر کرکے اسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دو اس سے زیادہ آبادی کے لئے نئی بستیاں مہیا کی جائیں”.میسولینی نے اس کی وجہ پوچھی تو علامہ صاحب نے فرمایا "شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے، اس تہذیبی و اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکاتِ شر لے لیتے ہیں "۔ علامہ اقبالؒ نے مزید کہا "یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے رسولؐ نے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز نصیحت جاری فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کے بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے ".یہ حدیث سنتے ہی میسولینی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مارتے ہوئےکہنے لگا : "کتنا خوبصورت خیال ہے”.

آپ کی شاعری نے ایک تھکی ماندی ہوئی ملت میں پھر دوبارہ سے ابھرنے کی آرزو پیدا کی، ٹوٹے دلوں میں حیات نو کا اٹل یقین پیدا کیا، اور ملت مرحومہ کو اپنا اصلی مقصد یاد دلایا۔ اقبال نے اس امت کے نوجوانوں کو جگایا انہیں اپنی منزل یاد دلائی، انہیں اپنے مقام سے واقف کیا,انہیں اپنے اصل کام سے آگاہ اور زندگی کے رازوں سے آشنا کیا۔ اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 21 مارچ 1932ءمیں خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہا:

"میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو۔ ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ان کو آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہو سکتے ہیں ".

اقبال نے اپنی نظم”ایک نوجوان کے نام “ میں نوجوانوں کو اپنے اندر عقابی روح اور شاہین جیسی خصوصیات پیدا کرنے کی تلقین کی:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اقبالؒ نے جو کام کیا وہ کوئی نیا کام نہیں تھا بلکہ اسلاف کے کام کی تجدید کی اور اس انقلابی پیغام کی یاددہانی کروائی جس کو ملت کب کی بھول چکی تھی۔ مغرب کے رعب داب کو علامہ اقبالؒ نے ان کی خود کشی قرار دیا۔ مغرب کا سامنہ اقبالؒ نے مغرب میں جا کر کیا، مغربی تہذیب وتمدن کی دلربائیوں اور رائنائیوں کے بیچ جاکر ان کی چمک دمک کو باطل ثابت کیا۔ علامہ اقبالؒ مغربی تہذیب کے متعلق لکھتے ہیں :

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کہ تہذیب

کہ روح اس مدنیّت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید 

!ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاظر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

مولانا ابوالحسن علی ندوی مرحوم لکھتے ہیں :

’’اقبالؒ میری پسند اور توجہ کا مرکز اس لیے ہیں کہ وہ بلندنظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں، ایک عقیدۂ دعوت اور پیغام رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقِد اور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گذشتہ کےلیے سب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔ ‘‘ (نقوشِ اقبالؒ)

علامہ اقبالؒ دور جدید کے ان مفکرین کی فہرست میں سر فہرست ہیں جن پر مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلموں نے بھی کام کیا ہے۔ علامہ اقبال پر اتنا کچھ کہا اور لکھا گیا ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی اب مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ پاکستان کو چھوڑ کر دنیا کی کئی جامعات میں اقبالیات کا ایک علیحدہ شعبہ موجود ہے جس میں صرف کلام اقبالؒ پر تحقیق کی جاتی ہے۔ ہر شعبہ علم کے لوگ اقبال کو اپنا آئڈیل تسلیم کرتے ہیں سائنسی علوم سے لیکر سوشل سائنسز کے ہر فیلڈ میں اقبالؒ کے عقیدت مندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔

علامہ اقبالؒ نے ہماری ملت کے لیے کیا کام کیا ہے ؟اس کے جواب میں لکھنے والوں نے صفحات کے صفحات بھر دئے ہیں۔ لیکن ہمارا یہ سوال کہ علامہ اقبالؒ کو ایسا اقبال کیوں نصیب ہوا کہ اپ اپنے عصر میں صاف آسمان پر تاباں آفتاب کی مانند چمکنے لگے ابھی جواب کا منتظر ہے۔ اس کا جواب اصلاً علامہ اقبالؒ کا قرآن مجید کے ساتھ گہرا روحانی تعلق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے پناہ عشق اور ملت مرحومہ کی اتنی فکر تھی کہ آپ امت مسلمہ کی حالتِ زار پر رویا کرتے تھے۔ اس ضمن میں مرحوم سلیم یوسف چستی نے علامہ کے دورہ افغانستان کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ آپ امت کی فکر میں اسطرح روئے جیسے ایک چھوٹا بچہ روتا ہے۔ آپ کے اس لگاو، عشق اور فکرِ امت نے ڈاکٹر محمد اقبال کو اقبال اور رفعت و بلندی بخشی کہ اپ دانائے راز بن گئے۔

سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟

نسیمے از حجازآید کہ ناید؟

سر آمد روزگار ایں فقیرے

دگر دانائے راز آید کہ ناید؟

تبصرے بند ہیں۔