زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں 

جمالؔ کاکوی

زندگی قیس کی وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں

حاصلِ زیست بھی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں

اس کی مرضی کے سوا کچھ نہیں کرنا ہے مجھے

رب واحد کی عبادت کے سوا کچھ بھی نہیں

کوئی رہبر نہیں دین ِشریعت کے سوا

شیخ صاحب کی نصیحت کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی ایک معمہ،جس کا سمجھنا ہے محال

موت ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں

جام ساقی نے دیا ہے یہ نصیحت کرکے

ظرف سے زیادہ ذلالت کے سوا کچھ بھی نہیں

دلِ معصوم سے گر کوئی خطا ہو جائے

ایک بچّے کی شرارت کے سوا کچھ بھی نہیں

صبراورشکر کی تنویر سے روشن ہو حیات

ورنہ یہ شبِ ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں

ایک امید پر قائم ہے زمانے کانظام

ورنہ فرہادکی حرکت کے سوا کچھ بھی نہیں

میں نے سونچاتھاہے عکس ہی عین جمالؔ

آئینہ دیکھا تو حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں

تبصرے بند ہیں۔