عمران پرتاپ گڑھی: اقبالؒ کا پیروکار نوجوان شاعر!

عبدالعزیز

یہ سچ ہے کہ جب اندھیرا بڑھتا ہے تو لوگوں کو شدت سے روشنی کی تلاش ہوتی ہے اور جب حق پسندوں کے ساتھ فرعونیت کی کشمکش شروع ہوتی ہے تو لوگوں کو عصائے کلیمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظلم کا اندھیرا اس کے بغیر نہ چھٹتا ہے اورنہ ختم ہوتا ہے۔ اس وقت ہندستان میں سب سے زیادہ جہاں اندھیرا بڑھ رہا ہے وہ اتر پردیش ہے جہاں کی آبادی دنیا کے کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں کے برابر ہے۔ ہندستان کی کل آبادی میں سے چھٹا آدمی اتر پردیش کا ہوتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ ساکشی مہاراج، وینے کٹیار جیسے لوگ بھی یہاں پائے جاتے ہیں ۔ وینے کٹیار بجرنگ دل کے بانی مبانی ہیں ۔ یوگی آدتیہ ناتھ ہندو یووا واہنی کے کمانڈر چیف ہیں اور اتر پردیش کے چیف منسٹر ہیں ۔ یہ سب ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی پیداوار ہیں جومسلمانوں کی ملک بدری اور دشمنی کے قائل ہیں اور اسلام کو نیست و نابود کرنے میں ہندوتو تحریک کی کامیابی اور بھلائی سمجھتے ہیں ۔

مسلمانوں کو بابر بادشاہ کی سنتان (اولاد) کہتے ہیں ۔ بابری مسجد کو ڈھانے کو ہندوتو کی شان بتاتے ہیں اور اسی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ نفرتوں کا یہ مندر ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ رکھنے میں سنگھ پریوار کیلئے معاون و مددگار ثابت ہو۔ ایسے ہی حالات میں ایک بچہ 6اگست 1989ء میں ہی اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے شہر پرتاپ گڑھ میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ڈیڑھ دو سال بعد ہی تاریخی بابری مسجد شہید کر دی جاتی ہے۔ یہ بچہ اب 27سال کا ہوگیا ہے۔ اگر چہ وہ الہ آباد یونیورسٹی کا طالب علم ہے ۔ اب یہی بچہ اردو زبان کا ایسا انقلابی شاعر ہے جو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمانوں اور دلتوں کی مظلومیت کی داستان الم پر روشنی ڈال رہا ہے۔ نجیب احمدکی مظلوم ماں کے آنسوؤں کو خوبصورت الفاظ کے پیکر میں پیش کر رہا ہے۔ مدرسے کی عظمت و شوکت کچھ اس طرح دل کی گہرائیوں سے سوز و گداز سے پیش کر رہا ہے کہ  ؎

ہو گرم سخن تو گرد آوے ایک خلق

 خاموش رہے تو ایک عالم ہوے

کوئی اردو کا مشاعرہ خواہ دوبئی میں ہو یا بجنور میں ، کیرانامیں ہو یاکشمیر میں بغیر عمران پرتاپ گڑھی کے کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کی موجودگی مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ مسلمان نوجوانوں کی فکر اور جذبات اس طرح اس سے وابستہ ہوگئے ہیں کہ جیسے جے این یو کے کنہیا کمار کے کمیونسٹ نوجوانوں کی فکر اور جذبات سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ کنہیا کمار اپنی بات اشتراکی نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں جس کو سارا ہندستان سننے کیلئے حلقہ بگوش ہوتا ہے اسی طرح بلکہ کچھ اس سے بہتر انداز میں شاعرانہ لب و لہجہ میں اسلامی نقطہ نظر سے عمران پرتاپ گڑھی اپنا کلام پیش فرماتے ہیں جس کو سننے کیلئے ایک دنیا حلقہ بگوش ہوتی ہے۔ جس طرح کنہیا کمار ایک اچھے مقرر اور اچھے مفکر ہی نہیں بلکہ عامل (Activist) ہیں اسی طرح عمران پرتاپ گڑھی نہ صرف ایک اچھے شاعر اور مفکر ہیں بلکہ عامل ہیں ۔ پرتاپ گڑھی پہلے نجیب احمد کی مظلوم اور بے کس اور ماں سے ملاقات کیلئے جے این یو گئے تھے جہاں وہ دھرنا پر بیٹھی تھیں پھر جے این یو کے طلبا و طالبات کی دعوت پر جے این یو گئے جہاں انھوں نے ہزاروں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہر طرح کے جبر و ظلم کے خلاف ہیں اور ہر قسم کی غلامی سے آزادی کے طلبگار ہیں ۔ جے این یو کے طلبہ کی نہ صرف انھوں نے حوصلہ افزائی کی بلکہ نجیب احمد اور روہت ویمولا کیلئے ان کی کوششوں کو سراہا اور اس کیلئے جے این یو کے طلبا و طالبات کو اپنا سلام پیش کیا۔ پھر اپنی وہ نظم پیش کی جو نجیب کی مظلومیت اور اس کی ماں کی بے بسی پر ہے۔ جب وہ نظم پیش کر رہے تھے تو نہ صرف نجیب کی ماں زار و قطار آنسو بہا رہی تھیں بلکہ ہزاروں طلبا و طالبات کی پلکیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں ۔

 سب سے اچھی اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ عمران پرتاپ گڑھی اپنی مسلمانیت کو نہیں چھپاتا بلکہ ’’ہم مسلمان ہیں ‘‘ علی الاعلان مجمع عام میں کہتا ہے۔ در اصل اسی وجہ سے اس کی شاعری جوش و جذبہ سے بھری ہوتی ہے مگر وہ فکر کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا، خواہ مدرسہ پر نظم پڑھ رہا ہو یا فلسطین پر صرف اس میں جذبات ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ فکر و دانش کا عنصر بھی ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام پر اس کا گہرا مطالعہ نہ سہی مگر اچھا خاصا مطالعہ ہے جو اس کی شاعری میں برگ و بار لانے کیلئے کافی ہے۔

 یوں توسیکڑوں نہیں ہزاروں شاعر ہیں جو علامہ اقبالؒ کی پیروی کرتے تھے اور کرتے ہیں مگر جس آن بان اور شان سے علامہ کی پیروی اور مسلمانوں اور دیگر مظلوموں کے جذبات کی ترجمانی عمران اپنے قلم و زبان سے کر رہا ہے وہ کسی اور میں میرے علم کی حد تک نظر نہیں آتی۔

 کیونکہ کمیونسٹ طلبا و طالبات سے ان کی انقلابی آواز کی وجہ سے عمران کو بھی دلچسپی ہورہی ہے اور عمران سے کنہیا کمار کے رفقاء کو بھی لگاؤپیدا ہورہا ہے، اس لئے آگے کی سطروں میں میں یہ کہنے جارہا ہوں کہ دونوں کے نظریہ اور فلسفہ میں یکسانیت نہیں ہے مگر کمیونسٹ ہر ایک کی غلامی سے نجات چاہتے ہیں ۔ مسلمان ایک کی غلامی (اللہ کی غلامی) کے سوا ہر ایک غلامی سے آزادی اور نجات چاہتے ہیں ۔ اسلام کے اس نقطہ نظر کو مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی تحریروں میں اور علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے فن و فکر کے ذریعہ بہت ہی اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔

 ’’انسان کے محبوبات و مالوفات کے اٹکاؤ ایک نہیں بے شمار ہیں ۔ اس کی گردن پر الفتوں کے طوق کا بوجھ ہوتا ہے۔ اس کے پاؤں علائق کی زنجیروں سے گراں بار، اس کا دل چاروں طرف سے صدہا قسم کی کششوں کا نشانہ، ہر زنجیر کے بندھن پر ہوتا ہے اور ہر علاقہ کی الفت میں اسیر ہوتا ہے تو اب اصلی کام یہ ہوا کہ ساری بندشیں کٹیں اور پرستش ماسویٰ اللہ کی ساری زنجیریں ٹوٹیں ‘‘۔  (مولانا آزادؒ)

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اس سے بڑھ کر اور کیا ہے فکر و نظر کا انقلاب

بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین

(علامہؒ اقبال)

  یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک فکر اور نظریہ کے افراد دوسری فکر اور نظریہ کو اپنی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ چیز نوجوانوں میں بھی ہوتی ہے اور بزرگوں میں بھی۔ 1937ء کے مئی یا جون کے مہینہ میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانی سجاد ظہیر ترقی پسند ترقی پسند مصنّفین کی ایک کانفرنس میں امرتسر تشریف لے گئے تھے۔ کانفرنس کے اختتام پر انھیں علامہ اقبال سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی یہ ان کی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ موصوف رقمطراز ہیں :

’’پنجاب کے اسی سفر میں مجھے علامہ اقبال سے ملنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ پہلی بار جب میں لاہور آیا تھا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ظاہر ہے اقبال سے ملنا اور ترقی پسند ادب کی تحریک کے متعلق ان سے گفتگو کرنا ہمارے لئے ضروری تھا۔ تاثیر نے امرتسر میں ہمیں بتایا کہ انھوں نے علامہ سے نئی تحریک کے بارے میں گفتگو کی ہے اور انھوں نے اس سے ہمدردی اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

  امرتسر میں ڈاکٹر اشرف اور میں لاہور آئے اور میاں افتخار الدین اقبال کے یہاں ٹھہرے۔ میاں صاحب نے علامہ اقبال سے ہمارے ملنے کا وقت مقرر کیا۔ ہم تیسرے پہر، چائے کے بعد ان کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ گرمیوں کے دن تھے اور اقبال اپنی کوٹھی کے باہر ایک کھردری بان کی چار پائی پر نیم دراز اپنے بستر کا تکیہ لگائے بیٹھے اور حقہ پی رہے، وہ اشرف سے اور مجھ سے بڑے تپاک اور شفقت سے ملے۔ ان کے پلنگ کے گرد جو تین چار مونڈھے رکھے ہوئے تھے، ہم ان پر بیٹھ گئے۔ ہم دونوں ڈاکٹر صاحب کے داہنے ہاتھ کی طرف تھے۔ ہم نے دیکھا کہ بائیں طرف ایک صاحب اور وہاں پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارا ان کے ساتھ تعارف نہیں کروایا۔ اس پر مجھے کسی قدر تعجب ہوا۔ اقبال سے پہلی بار ملاقات کا تجربہ میرے لئے کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ان کا کلام بچپن سے ہمارے ذہن اور روح بلکہ خون میں رچا ہوا تھا۔ چھوٹی عمر میں جب ہماری زبان میں لکنت تھی۔ ہم کو ان کے قومی اور ملی ترانے یاد کرائے گئے تھے۔ جوں جوں عمربڑھی اور شعور آیا، ’’مسدس حالی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’شکوہ، جوابِ شکوہ‘، ’شمع و شاعر‘‘ کے بیشتر حصے وردِ زبان رہتے تھے۔ ’’بانگ درا‘‘ شائع ہوئی تواس کی ’’تلاوت‘‘ ادبی اور قومی سمجھ کر ہوتی رہی۔ انگلستان کی تعلیم کے زمانے میں اقبال کا فارسی کلام پڑھتے رہے۔ میں خود جب اپنی ذہنی اور ادبی تربیت کے متعلق اپنی طالب علمی کے زمانے کا خیال کرتا ہوں تو اردو کے شاعروں میں انیس، غالب، حالی اور اقبال کا اس میں سب سے زیادہ حصہ نظر آتا ہے۔

 اور اب ہم اسی اقبال کے پاس بیٹھے ہوئے تھے! اس وقت معلوم نہیں کیوں مجھے ان کی نظم ’’تنہائی‘‘ یاد آگئی۔ عہد شباب میں جب کبھی محبت کا شدید غم دل کو خون کر دیتا تھا، ہم اسے گنگناتے تھے  ؎

یہ بحر رفتم و گفتم ز موج تنہائی.

ہمیشہ در طلب استی چہ مشکلے داری

  ساری کائنات سے غم گساری کی طلب کے بعد   ؎

شدم بہ حضرتِ یزداں ، گذشتم از مہ و مہر

کہ در جہانِ تو یک ذرہ آشنائم نیست

جہاں تہی  زدل و مشتِ خاکِ من ہمہ دل

چمن خوش است و لے در خورِ نوائم نیست

تبسّمے بہ لب او رسید و ہیچ نہ گفت

 ہمارے ساتھ علامہ اقبال کے التفات و عنایت کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ مجھے جرأت ہوئی کہ سب سے پہلے ان سے ہمیں جو اختلاف اور شکایتیں تھیں ، وہی ان کے سامنے پیش کروں اور محض عقیدت مندی کی باتیں نہ کروں ۔ سوشلزم کے بارے میں جو گفتگو شروع ہوگئی اور شاید میں نے ان سے کہا … ہماری نظر میں قوم کی غلامی، بین الاقوامی جنگ، محنت کشوں کے ظالمانہ استحصال کا علاج، موجودہ دور میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، لیکن انھوں نے بعض مقامات پر اپنے کلام میں اشتراکی نظریہ پر غلط نکتہ چینی کی ہے۔ خود انکی آزادی خواہی اور انسان نوازی کی منطق، ہمیں سوشلزم کی طرف لے جاتی ہے اور ہماری نظر میں نوع انسانی کی موجودہ ارتقا کی منزل وہی ہے۔ میں نے کہاکہ نوجوان ترقی پسند ادیبوں کا گروہ اس نئے نظریے سے کافی متاثر ہے۔ وہ بڑی توجہ اور سنجیدگی سے میری باتیں سنتے رہے؛ بلکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس طرح کی باتوں کیلئے میری ہمت افزائی فرما رہے ہیں ۔ پھر انھوں نے کہا … ’’تاثیر نے مجھ سے ترقی پسند تحریک کے متعلق دو ایک بار باتیں کی تھیں اور مجھے اس سے بڑی دلچسپی ہوئی ہے۔ ممکن سوشلزم کے سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو۔ بات یہ ہے کہ میں نے اس کے متعلق کافی پڑھا بھی نہیں ہے۔ میں نے تاثیر سے کہا تھا کہ وہ اس موضوع پر مجھے مستند کتابیں دیں ۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک پورا نہیں کیا… میرا نقطۂ نظر آپ جانتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ مجھے ترقی پسند ادب یا سوشلزم کی تحریک کے ساتھ ہمدردی ہے۔ آپ لوگ مجھ سے ملتے رہئے‘‘۔

 ابھی ہماری گفتگو بالکل ابتدائی منزل میں ہی تھی کہ میرے رفیق ڈاکٹر اشرف نے خالص سیاسی موضوع پر علامہ سے باتیں شروع کر دیں ۔ جب ڈاکٹر اشرف گفتگو کا سرا اپنے ہاتھ میں لے لیں تو پھر گفتگو نہیں ، گفت و شنید ہوتی ہے۔ اس زمانہ میں صوبہ متحدہ میں قوم پرور مسلمانوں اور مسلم لیگ والوں میں سخت سیاسی کشمکش شروع ہوگئی تھی۔ علامہ اقبال خاموشی سے اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اشرف کی دلچسپ اور تیز طنز کلامی سے محظوظ ہورہے تھے۔ اس درمیان میں نے دیکھا کہ وہ تیسرے صاحب جو وہاں بیٹھے تھے اور جن کا ڈاکٹر اقبال نے ہم سے تعارف بھی نہیں کروایا تھا، کافی جز بز ہورہے تھے۔ آخر میں ان کی شامت آئی اور انھوں نے اشرف کو ٹوک کر شاید کچھ ایسی بات کہی جس سے یہ مفہوم نکلتا تھا کہ قوم پرور مسلمان، کانگریسی لیڈروں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں ۔ اشرف بھلا یہ بات کہاں برداشت کرسکتے تھے؟ انھوں نے چھوٹتے ہی کہا ’’اس قسم کے لغویات صرف سرکاری ٹوڈی یا سی۔ آئی۔ ڈی کے لوگ کہہ سکتے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے آپ انہی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘۔ اس پر ان صاحب کا رنگ زرد پڑگیا اور ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ علامہ اقبال اس بے لطفی کے سبب سے گھبراگئے۔ انھوں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی، اورخود اشرف سے مخاطب ہوگئے۔ اشرف کی باتوں کا انداز آتش باز کا تھا جس میں حرارت،تیزی اور گل فشانی تھی۔ سب مبہوت سے ہوکر انھیں سن رہے تھے۔ اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا۔ اشرف کی باتوں میں مداخلت کرنے والے صاحب بڑے اہتمام اور اعلان کے ساتھ وضو کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم بھی علامہ اقبال سے سمع خراشی کی معافی مانگ کر رخصت ہوئے‘‘۔ (روشنائی، از: سجاد ظہیر، صفحہ 138 تا 140)

  سجاد ظہیر نے سوشلزم کے تعلق سے جو باتیں علامہ اقبال کے متعلق کہی ہیں اس میں سچائی کم نظر آتی ہے کیونکہ یہ علامہ کی زندگی کے آخری ایام تھے۔ ایک ڈیڑھ سال بعد علامہ دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ لینن اور کارل مارکس پر نظمیں لکھ چکے تھے اور کمیونزم اور سوشلزم کا گہرا مطالعہ کرچکے تھے اس لئے علامہ اقبال کا یہ کہنا ’’ممکن ہے سوشلزم کے سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو … بات یہ ہے کہ میں نے اس کے متعلق کافی پڑھا نہیں ہے‘‘۔ علامہ اقبال زندگی کے اس مرحلہ یا منزل پر تھے کہ سوشلسٹوں یا کمیونسٹوں کا دل رکھنے کیلئے ایسی باتیں کہہ دیں جن سے وہ خوش ہوجائیں ۔شاید ممکن نہیں ہوسکتا۔

 17 اکتوبر 1937ء کو خواجہ غلام السیدین کے نام علامہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :

 ’’سوشلزم کے ماننے والے مذہب اور روحانیت کے منکر ہیں ۔ یہ لوگ مذہب کو افیون سمجھتے ہیں ۔ سب سے پہلے جس شخص نے مذہب کو افیون کہا وہ کارل مارکس تھا۔ میں ایک مسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا۔ میرے نزدیک تاریخ کی مادی تعبیر (Interpretion) قطعاًغلط ہے‘‘۔ (اقبال اور مغربی مفکرین از جگن ناتھ آزاد،صفحہ 75)۔

علامہ اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں :

 ’’اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے انداز نہیں رکھتا اور ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین کو تیار نہیں بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر دستور العمل جو غیر اسلامی ہونا مقبول و مردود ہے‘‘۔ (مضامین اقبال، صفحہ 182)

علامہ اقبال انگریزوں کی غلامی سے نجات چاہتے تھے مگر وہ ایسی نجات کے قائل نہ تھے کہ ناظم بدلے اور نظام نہ بدلے ۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بدترین ہوجائے تو یہ مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہوں ‘‘۔ (مضامین اقبال، صفحہ 196)

 ایسے اقتباسات پر ماہر اقبالیات جگن ناتھ آزاد کا تبصرہ ملاحظہ ہو۔

 ’’ایسے اقتباسات سے اقبال کے نظریہ وطنیت بحث و مقصود نہیں بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اقبال کارل مارکس یا سوشلزم کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں ۔ 1921ء میں اقبال نے ’خضر راہ‘ کہی جو وہ سرمایہ داری کی مخالفت اور مزدور کے حامی کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے۔ اب اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اقبال کارل مارکس کی بڑی حمایت کرتے ہیں ، اقبال کے افکار کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ پھر اقبال کو اسلامی سوشلسٹ کہنا تو اسلام اور سوشلزم دونوں کو غلط رنگ میں پیش کرنے کوشش ہے‘‘۔  (اقبال اور مغربی مفکرین، صفحہ 75)

 ہندستان کے آج کے حالات میں کنہیا کمار اور عمران پرتاپ گڑھی کوایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے مگر کمیونسٹ یا سوشلسٹ اور مسلمانوں کا نظریہ ایک نہیں ہے۔ بہت سی چیزوں میں مماثلت نظر آتی ہے مگر دونوں کی روح اور بنیاد جدا جدا ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کمیونسٹوں اور مسلمانوں کو مظلوم انسانوں کیلئے ایک ساتھ دلجمعی کے ساتھ کام کرنا چاہئے تاکہ ملک میں جو آزادی کو خطرہ لاحق ہے اس سے ملک کو بچایا جاسکے اور ہر ایک انسان اپنے عقیدہ اور نظریہ پر آزادانہ طریقہ سے عمل کرسکے۔ جو لوگ زعفرانی رنگ میں پورے ہندستان کو زور زبردستی رنگنا چاہتے ہیں ان کے قدم ہمیشہ کیلئے پیچھے ہوجائیں ۔  پھر کبھی گھر واپسی اور لو جہاد جیسی لغو باتیں نہ کرسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔