نسل پرستی کابڑھتا رجحان اور اسلامی تعلیمات!

راحت علی صدیقی قاسمی

 پوری دنیا نسلی تعصبات کی آگ میں جھلس رہی ہے ،بڑے چھوٹے ،رنگ و نسل، ذات و برادی کا تعصب انسانیت کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے ،انسان انسان کا خون بہا رہا ہے اور اسے باعث اجر اور لائق فخر سمجھ رہا ہے ،پوری دنیا میں اس نوعیت کے واقعات کی کثرت ہے، افریقہ، امریکہ ،برطانیہ ،آئرلینڈ جیسے ممالک بھی اس مرض میں مبتلا ہیں اور آئے دن کوئی نہ کوئی شخص نسلی تعصب کی نذر ہوجاتا ہے ۔ہمارے ملک میں یہ رواج قدیم زمانے سے ہے ، تاریخ کا مطالعہ اس دعویٰ کی تائید کرتا ہے  اور بتاتا ہے کہ ایک ماہر تیر انداز کو محض اس لئے اپنا انگوٹھا اور اپنا فن قربان کرنا پڑا چونکہ اس کا تعلق کمزوربرادری سے تھا ،آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

ہندوستان کا ایک طبقہ اپنے آپ کو بلند سمجھتا ہے اور دوسرے کو کمزور و کمتر، اسی احساس کی بنیاد پر ملک میں سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں اور ایک خاص طبقہ ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے ،اسے زندگی کے جائز حقوق نہیں دئے جاتے ،اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے ،اس کی آبرو سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ،کہیں آخری رسومات ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ،کہیں عمدہ لباس زیب تن کر کا اختیار نہیں ملتا ،کہیں پاس بٹھانا گوارا نہیں کیا جاتا ،ملک کے ہر خطے میں دلتوں کی یہی صورت حال ہے ،حالانکہ جنگ آزادی کے بعد جب ملک غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوا اور بھیم راؤ امبیڈکر کی سربراہی میں ہندوستانی قوانین مرتب ہوئے تھے ،تو یہ خیال پختہ ہوگیا تھا کہ اب ہندوستان نسلی برتری کی کج خیالی سے بھی آزاد ہوجائے گا اور ہر انسان کو اس کا حق دیا جائے گا۔

ذات برادری کے خانے مٹ جائیں گے ، ہر ہندوستانی برابر مقام کا حامل ہوگا ،لیکن آزادی کے ستر سال گذرنے کے بعد بھی یہ خیال خام ہی ہے اور آج بھی اس کو دلائل میسر نہ آسکے ،آج بھی انسان ذات پات، اونچ نیچ کے خانوں میں بٹا ہوا ہے اور پوری شدت کے ساتھ اس رسم پر عمل پیرا ہے ،اس خیال کو باقی رکھنے میں کسی کی جان چلی جائے تو بھی کوئی پروا نہیں کرتا ،اپنے بے بنیاد خیالوں پر عمل پیرا ہے ،حیدرآباد یونیورسٹی کا طالب علم روہت ومیلا اس کی زندہ مثال ہے اور آگے بڑھئے تو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم رجنی کرش کی کہانی ہے ،جس نے زندگی کو قربان کردیا ،اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر زمانے کو یہ بتا گیا کہ اس کی موت کی وجہ ذات برادری کے نام پر امتیازی سلوک ہے ۔

یہ واقعات ملک میں موجود اس خیال کی ترجمانی کرتے ہیں ،دوطالب علم ہندوستان کے دو ممتاز ادارے ،قابلیت اور لیاقت حاصل کرنے کے باوجود ایک ایسے جرم کے مرتکب پائے گئے ، جس میں ان کا کوئی دخل ہی نہیں ہے اور اس کی سزا انہیں اتنی بھیانک ملی کے زندگی ختم کرنے پر مجبور ہوگئے ،اب اس سلسلہ میں مزید شدت آئی ہے، حالانکہ بی جے پی نے دلتوں کی حمایت کے دعوے کئے تھے ،اور دلت نائب وزیر اعلیٰ کا تحفہ دے کر اس وعدہ کو نبھانے کا اشارہ بھی فراہم کیا تھا ،لیکن زمینی سطح پر تبدیلی نہیں آسکی اور دلتوں کا مقام بلند نہیں ہوسکا ، انہیں عزت و مقام میسر نہیں آیا بلکہ سہارنپور میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب کو متعجب و حیران کردیا ،سہارنپور کے گاؤں شبیر پور میں امبیڈکر کی مورتی لگانے پر ہنگامہ ہوگیا اور اس آگ میں پورا خطہ سلگ اٹھا ،دلتوں پر مظالم کی انتہاء کردی گئی اور انہیں اذیتیں دی گئیں ، منظرنامہ کو دیکھیں تو کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے اور ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے ،اس مرض کا علاج کیا ہے؟اس خیال کو کیسے فنا کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے؟ کون سانسخہ ہے جو اس لاعلاج بیماری کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ کیا کیا جائے کس طرح لوگوں کے ذہنوں سے برتری کا نشہ اتارا جائے؟

تو اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات، قرآنی احکامات سب سے زیادہ موزوں نسخہ ہے جو تمام انسانوں کو اس شدید مرض سے شفایاب کر سکتا ہے ،جہاں امتیاز رنگ و نسل پر نہیں بلکہ عقیدہ ،اخلاق اور اعمال پر ہے ،جس کے اخلاق اچھے ہیں ،کردار بلند ہے ،عقیدہ صحیح و سالم ہے، وہ بلند مقام کاحامل ہے ،جو ان صفات سے عاری ہے ،وہ اس مقام کا حامل نہیں ہوسکتا ،کسی ذات کسی برادری اور کسی خطہ سے تعلق برتری کی بنیاد نہیں بن سکتا ،تمام انسان خدا کے بندے ہیں ،سب کی پیدائش ایک ہی کوکھ سے ہوئی ہے تو امتیاز چہ معنی دارد ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا کہ کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ،فضیلت اور برتری کا معیار انسان کی ذات نہیں اس کردار ہے ،اس کا عمل ہے ،تقوی پرہیزگاری ہے ،قرآن نے بھی اس کو واضح کیا ہے ،’’اے لوگوں ! تم سب کو ایک مرد عورت سے پیدا کیا گیا ہے اور تم میں قبیلہ پہچان کے لئے بنائے گئے ہیں ،اللہ کے نزدیک وہی معزز ہے ،جو پرہیزگار ہو‘‘ یہ آیت بھی اسلامی طرز عمل کو بتارہی اور یہ ثابت کررہی ہے کہ انسان نام سے نہیں کام سے بڑا ہوتا ہے ،اس کی عزت اس کا مقام اس کی برادری نہیں اس کے اعمال طے کرتے ہیں ،کسی کا سید ہونا، کسی کا برہمن اس کے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ،اگر اس کے اعمال خراب ہیں ،اس کا چال چلن اچھا نہیں ہے تو ایک دیہاتی اچھے کردار کا حامل اس سے بہتر اور عمدہ ہے ،خدا نے ہر انسان کو معزز  بنایا ہے ،اچھی اور پاکیزہ غذا سے نوازا ہے ،بصارت اور بصیرت عطا کی ہے ، ہاتھ پاؤں اور ذہن و دماغ عطا کرکے عمل و تدبیر کا اختیار عطا کیا ہے ، اسے تلقین کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، کائنات کے لئے نفع بخش ثابت ہو ۔

چونکہ یہ کائنات اللہ کا کنبہ ہے ،یہاں اگر کسی ایک شخص کو قتل کردیا،یا ہلاک کردیا تو پوری کائنات ہلاک کرنے کے برابر اس عمل کی شدت ہوگی اور سزا دی جائے گی ،خدا کا یہی فرمان ہے اور قرآن کا یہی اعلان ہے ،اس طرح اسلام حرمت انسان کو بیان کرتا ہے ،انسان کے مقام اور اس کی عظمت کو بیاں کرتا ہے ،ہر طرح کے تعصب کو ختم کرتا ہے ،مگر مسلمان اس نسخۂ کیمیا کو لئے بیٹھے ہیں ،کائنات کو اس سے واقف کراتے ہیں ، نہ لوگوں کی آنکھوں پر پڑے تعصب کے دبیز پردوں کو چاک کرتے ہیں ،دلتوں نے اپنے حقوق کی دہائی دیتے ہوئے ،خود اسلام کو اپنانے کا اعلان کیا ہے ۔

موقع ہے ،وقت ہے ،ضرورت ہے کہ ہم پوری کائنات کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرائیں حرمت انسان کے احکامات روشناس کرائیں ،انسان کا مقام و مرتبہ سمجھائیں ،اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکات سے کائنات کو روبرو کرائیں ،ذرائع کی کمی نہیں ہے، فیس بک، وہاٹس ایپ، ٹوئیٹر وغیرہ یہ وہ ذرائع جو ہر انسان کی دست رس میں ہیں اور ہر انسان آزاد ہے ،وہ اپنے خیالات اپنے عقائد کا اظہار کرسکتا ہے ،انسانیت کی عزت و حرمت کی داستان سنا سکتا ہے اور کائنات میں بہتی خون کی ندیوں کو روکنے میں معاون ومددگار ہوسکتا ہے اور سینکڑوں انسانوں کی دل جوئی کا باعث ہوسکتا ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔