فرقہ وارانہ فسادات: حکومت اور مسلمان

ذاکر حسین

مکرمی !آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی بد قسمتی کہئے یا پھر یہاں کے عوام بالخصوص مسلمانو ں کی بد نصیبی کہ صوبے کے عوام کو گزشتہ تین برس میں یہاں برسرِ اقتدار حکومتیں ترقی کے تحائف پیش کرنے میں جہاں پوری طرح ناکام رہیں تو وہیں عوام کو فرقہ وارانہ فسادات کی سب سے زیادہ مار جھیلنی پڑی ہے۔  یہ تلخ حقیقت ہیکہ جب بھی کہیں فرقہ وارانہ فسادات کے شعلے بلند ہوتے ہیں تو اس کی زد میں سب سے زیادہ مسلمان ہی آتے ہیں ۔

گزشتہ دو تین برس کے عرصہ میں ریاست میں جس طرح فسادات نے انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے لہو کو پانی کی طرح بہایا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ حکومتیں فرقہ وارنہ فسادات میں ملوث تخریب پسند عناصر کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایوان میں فرقہ وارانہ فسادات سے متعلق سماجوادی لیڈر نریش اگروال کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کرن رجیجونے کہاکہ گزشتہ تین برس کے عرصہ میں ملک بھرمیں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات اتر پردیش میں ہوئے ہیں ۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اتر پردیش میں کل162 فرقہ وارانہ واقعات ہوئے، وہیں رقبے کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست راجستھان میں ایک سال کے عرصہ میں 63 جبکہ مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ واقعات کی کل 57 وارداتیں منظر ِعام پر آئیں ۔

اب سوال یہ ہیکہ اتر پردیش میں جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور یہاں کے مسلمانوں کوتعلیم سمیت دیگر شعبے میں ترقی کے مواقع ملنے کے بجائے انہیں فرقہ وارانہ فسادات کی مار کیوں جھیلنی پڑرہی ہے؟ افسوس کی بات ہیکہ ریاست میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو تمام پارٹیوں کے انتخابی منشور میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنانے کا وعدہ سر فہرست ہوتاہے لیکن اقتدار میں آتے ہی سیاسی جماعتیں اپنے وعدے کے بالکل برعکس فرقہ پرست عناصر کوکھلی چھوٹ دی دیتی ہیں ۔ یہ تلخ حقیقت ہیکہ فرقہ وارانہ فسادات سے سب زیادہ مسلمان متاثر ہوتے ہیں ۔

پہلے فسادی مسلمانوں کے آشیانے، دولت اور عصمت کو سرِ بازار نیلام کرتے ہیں تو بچی کھچی کسر حکومت اور پولس انتظامیہ پوری کردیتی ہے۔  جی ہاں یہ محض الزام نہیں بلکہ مسلمانوں کے لہو سے ماضی کے اوراق پر لکھنی جانے والی یہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔ پہلے منظم سازش کے تحت فرقہ پرست عناصر فسادکے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں اور جب مسلمانوں کے لہو کوبے دریغ بہانے والوں کوسزا دینے کی باری آتی ہے تو فسادات میں اپنے لہو، اپنی جانیں ، اپنے آشیانے اور اپنی عصمتیں لٹتا دیکھنے والے مسلمانوں کو ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے اور حکومت بھی کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کے خلاف اپنی کاروائی انجام دیتی ہے۔

 قارئین کرام غور فرمائیں ۔ صرف بی جے پی کے دورِ حکومت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بی جے پی کی طرز پر کانگریس ، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی فرقہ وارنہ فسادات کے بعد مسلمانوں کیساتھ یکساں سلوک کرتی ہیں اور وہ سلوک قابلِ مذمت اور ناقابلِ فراموش ہوتا ہے۔  خیر مسلمانوں کی یادداشت بڑی کمزور ہے اور و ہ بڑی جلدی اپنے اوپر ہوئے ظلم کو فراموش کردیتے ہیں ۔ لیکن کسی بھی مسئلے کو فراموش کر دینا ،کیا ایک زندہ قوم کی علامت ہے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔