ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

 ڈاکٹر محمد واسع ظفر

 یوں تو نمازوں کی ادائیگی کے سلسلہ میں ملت کئی طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہے لیکن ایک عام کوتاہی جو مشاہدہ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نمازوں کو بڑی جلدبازی کے ساتھ بہت ہی بری طرح ادا کیا جاتا ہے؛ قرأت میں ترتیل کا اور رکوع،  سجود،  قومہ اور جلسہ میں اطمینان و سکون اور اعتدال کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتاچہ جائیکہ خشوع و خضوع کا اہتمام کیا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کوتاہی صرف عوام تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ علماء اور ائمہ مساجد کے طبقہ میں بھی سرایت کرچکی ہے حتیٰ کہ جماعت سے ادا کیجانے والی فرض نمازیں بھی اب اس سے محفوظ نہیں رہیں۔ عوام کی اکثریت تو بہرحال دینی علوم سے بے بہرہ ہے لیکن حیرت ہے ان ائمہ پر جو عالم دین ہیں،  نماز کے مسائل،  اس کی شرائط،  ارکان،  واجبات،  سنن، تعدیل ارکان سے متعلق سلف و خلف کے اقوال اور خشوع و خضوع کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن ان سب کے باوجود نمازیں ایسی بری طرح ادا کررہے ہیں کہ مجھ جیسے دنیادار کا دل بھی پارہ پارہ ہے اور علامہ اقبال کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے جس کے ایک مصرعہ کو ہی راقم نے عنوان کی شکل دیدی ہے۔

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

 چنانچہ بندہ کو بعض ایسے ائمہ کی اقتدا میں نمازیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور رہتاہے جن کے پیچھے رکوع و سجود کی تسبیحات دو بار بہ مشکل ادا کر پاتا ہوں ورنہ ایک ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے اور قعدہ اخیرہ میں درود شریف مکمل کرلینے کی نوبت کبھی نہیں آئی چہ جائیکہ دعاء ماثورہ کا اہتمام کر پاؤں۔ جمعہ کی نمازیں بھی اس سے اچھوتی نہیں رہیں حالانکہ یہی ائمہ تقاریر اور دوسری غیر ضروری باتوں میں گرانی کی حد تک وقت لیتے ہیں لیکن نمازوں کو سنوارنے کے لئے ایک دو منٹ کا اضافہ کرنے کو تیار نہیں۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں:

’’ اِنَّ طُوْلَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَ قِصَرَ خُطْبَتِہِ مَئِنَّۃٌ مِنْ فِقْھِہِ فَأَطِیْلُوا الصَّلَاۃَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَۃَ‘‘

جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ آدمی کا نماز لمبی اور خطبہ مختصر پڑھنا اس کے دین کی سمجھداری کی علامت ہے لہٰذا تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ،  باب تخفیف الصلاۃ و الخطبۃ، بروایت عمار بن یاسرؓ)۔ بعض ائمہ قرأت کی ترتیل میں تو حد درجہ کا مبالغہ کرتے ہیں لیکن ان کے رکوع،  سجود،  قومہ اور جلسہ میں سکون ناقابل اطمینان درجہ کا ہوتا ہے اور اس طرح افراط اور تفریط کا شکار ہوتے ہیں۔  چونکہ عوام کی اکثریت لاعلمی کی وجہ سے خود اس مرض میں مبتلا ہے اس لئے انہیں کوئی ٹوکنے والا بھی نہیں۔  لیکن انہیں صفوں میں دین کی سمجھ رکھنے والے کچھ حساس افراد بھی ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر گھٹ رہے ہوتے ہیں لیکن ان ائمہ کی اصلاح کرنے کی جرأت نہیں کرپاتے کیوں کہ یہ ائمہ ایک عام مقتدی کی اصلاح کی باتیں سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خود راقم نے اس مسئلہ پر قلم اٹھانے کی جرأت بڑی کشمکش کے بعد اور بہت مجبور ہوکرکی ہے کیوں کہ یہ بیماری عام ہوتی جارہی ہے اور ہر کوئی اگر خاموش رہا تو اصلاح ناممکن ہے۔

 سب سے اہم بات ہم سب کے سمجھنے کی یہ ہے کہ کویٔ بھی عبادت،  عبادت کا درجہ جب ہی حاصل کرپاتی ہے جب وہ بشمولیت ایمان و اخلاص کے نبی کریم ﷺ کی سنتوں کے مطابق ہو یعنی ان کے طریقہ پر ہو۔ جو عمل نبی کریم ؐ کی سنتوں کا لحاظ کئے بغیرعادتاً کیا جائے وہ عبادت کا مقام حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں انعامات کے جو وعدیں ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوسکتے۔ نماز کے متعلق آپؐ نے خصوصاً یہ ارشاد فرمایا:

’’ صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّی ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب الاذان للمسافراذا کانو جماعۃً و الاقامۃِ و کذالک بعرفۃ و جمع، بروایت مالک بن حویرثؓ)

یعنی ’’ نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری نمازیں اسی ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ہوں جیسے رسول ﷺ کی نمازیں ہوا کرتی تھیں۔ آپؐ نماز کے تمام ارکان کو اعتدال و اطمینان کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔ چنانچہ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مختصر اور مکمل نماز پڑھتا ہو۔ رسول اللہ ﷺ جب  سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہتے تو کھڑے رہتے یہا ں تک کہ ہم یہ خیال کرتے کہ آپؐ بھول گئے ہیں (یعنی سجدے میں جانا بھول گئے)۔ اس کے بعد آپؐ تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور دو سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپؐ بھول گئے ہیں۔ (سنن ابوداؤد،  کتاب الصّلوٰۃ، طولِ الْقِیَامِ مِنَ الرُّکُوعِ وَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ)۔ براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا رکوع اور آپؐ کے سجدے، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی نشست، اور(وہ حالت) جب کہ آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تھے (یعنی قومہ) تقریباً برابر ہوتے تھے سوائے قیام اور قعود (یعنی تشہدکی حالت) کے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب حد اتمام الرّکوع والاعتدال فیہ و الاطمأنینۃ)۔

 نبی کریم ﷺ صحابہ کرامؓ کو ایسی ہی نماز پڑھنے کا طریقہ سکھاتے تھے۔ ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں (کہ ایک مرتبہ) نبیﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اس کے بعد نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے سلام عرض کیاتو نبیﷺ نے اسے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے پھر نماز پڑ ھی اس کے بعد آیا اور نبی ﷺ کو سلام کیا، آپؐ نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ اس لئے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تین بار ہوا۔ تب اس نے کہا کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس ذات کی قسم! میں تو اس سے اچھی نمازنہیں پڑھ سکتا لہٰذا آپ مجھے تعلیم فرما دیجئے تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر جس قدر قرآن آسانی کے ساتھ پڑھ سکے وہ پڑھ، اس کے بعد رکوع کر یہاں تک کہ جب اطمینان سے رکوع کرلے تو اس کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا اس کے بعد سجدہ کر پھر جب اطمینان سے سجدہ کرچکے تو اس کے بعد سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جا اس کے بعد دوسرا سجدہ کر یہاں تک کہ سجدہ اطمینان سے ادا ہو، پھر اپنی پوری نماز میں اسی طرح کر( یعنی پوری نماز اس طرح ادا کر)۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب امر النّبیّ ﷺالذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ)۔ یہ صحابی خلادؓ بن رافع تھے جنہوں نے رکوع اورسجدہ پوری طور پر ادا نہیں کیا تھا اسی لئے نبی کریم ﷺ نے انہیں نماز لو ٹانے کا حکم فرمایا۔

 نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ لو گوں میں بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے، صحابہ ؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ ! نماز میں کس طرح چوری کرتاہے ؟ فرمایا: وہ رکوع و سجود کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ (سنن دارمی، کتاب الصلاۃ، باب فی الّذی لا یتم الرّکوع والسّجود، بروایت ابو قتادہؓ)۔ نبی کریم ؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف نظر التفات نہیں فرماتے جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کرتا۔ (مسند احمد بروایت ابوہریرہؓ)۔ ان ارشادات کی وجہ سے صحابہؓ نماز میں اطمینان و سکون کا خاص خیال رکھتے اور اس سے عاری نمازوں کا سخت نوٹس لیتے تھے۔ زید بن وہب ؓ کا بیان ہے کہ حذیفہ ؓنے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدوں کو( نماز میں ) پوری طرح ادا نہیں کرتا تھا تو انہوں نے اس سے کہا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی اور اگر تو مرے گا تو اس طریق پر (یعنی اس دین پر ) نہیں مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا کیا تھا۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب اذا لم یتم الرّکوع)۔

  آپؐ نے رکوع اور سجدے کے علاوہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت (یعنی قومہ) اور دونوں سجدوں کے درمیان کی نشست(یعنی جلسہ) کے لئے کئی طرح کے اذکار اور دعائیں بتائی ہیں۔ مثلاً رکوع سے سر اٹھاتے وقت آپؐ پڑھتے:

’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُمِلْیُٔ السَّمَاوَاتِ وَمِلْیُٔ الْأَرْضِ وَ مِلْیُٔ مَاشِْٔتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصّلوٰۃ،  باب مَا یَقُولُ اِذَا رَفَعَ  رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، بروایت عبد اللہ بن ابی اوفیٰؓ)۔

امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو حضرت علیؓ کی روایت سے نقل کیا ہے جس کے شروع میں ہی اِذَا قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ کا لفظ ہے جس معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ فرض نمازوں میں بھی اس کو پڑھتے تھے۔ (سنن ترمذی، ابواب الدعوات، باب ماجآئَ فِی الدُّعَآئِ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ اللَّیْل)۔ اس طرح آپؐ دونوں سجدوں کے درمیان یعنی جلسہ میں یہ دعا پڑھتے:

’’اللّٰھُمَ اغْفِرْلِی وَ ارْحَمْنِی وَاجْبُرْنِی وَاھْدِنِی وَ ارْزُقْنِی‘‘(سنن ترمذی، کتاب الصّلوٰۃ، باب مَا یَقُولَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ بروایت ابن عباسؓ)۔

لیکن ان دعاؤں کو بغیر کسی دلیل کے نفل نمازوں کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور فرائض میں رائج نہ ہونے کی وجہ سے نفل میں بھی یہ متروک ہی ہے کیوں کہ کوئی ان کا تذکرہ بھی نہیں کرتانہ ہی لوگ جانتے اور یاد کرتے ہیں،  ایسا لگتا ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ان کا ذکر ہی نہیں۔ رکوع اور سجدوں میں دعاؤں کے اہتمام کی سنّت بھی متروک ہے فقط تسبیحات کے اقل درجہ (تین بار) کو کافی سمجھ لیا گیا ہے وہ بھی اتنی جلد بازی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ امام ہر رکن کی طرح رکوع و سجود میں مقتدی سے پہلے جاتے ہیں اور پہلے اٹھتے ہیں تو اگر وہ تسبیحات فقط تین بار جلدی جلدی کہہ کر اٹھ جائیں توان کے پیچھے پیچھے چلنے والے مقتدیوں کوان کے ساتھ ایک یا دو بار ہی تسبیحات پڑھنے کا موقعہ ملے گا کیوں کہ جب تک وہ ان کے ساتھ رکوع یا سجود میں شامل ہوں گے امام ایک یا دو بار تسبیح کہہ چکا ہوگا۔ اس لئے ائمہ کو چاہیے کہ کم از کم پانچ بار تسبیحات کا اہتمام کریں وہ بھی اطمینان سے جب ہی مقتدیوں کو تین بار کہنے کا موقعہ ملے گا۔ اس کے علاوہ قومہ اور جلسہ کی دعائیں اور درود شریف وغیرہ بھی اطمینان و سکون سے پڑھنا چاہیے۔ امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک جلسہ میں کم از کم ایک بار اللّٰھُمَ اغْفِرْلِی کہنا واجب ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک قعدہ اخیرہ میں درود شریف واجب ہے۔ تعدیل ارکان کے سلسلہ میں ائمہ مجتہدین نے مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ امام شافعیؒ،  امام مالکؒ،  امام احمد بن حنبل ؒ اور حنفیہ میں سے امام یوسف ؒ اسے فرض کہتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہؒاور امام محمدؒ کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے۔ (مظاہر حق جدید، مطبوعہ،  دارالاشاعت، کراچی،  پاکستان، 2009، جلد 1، ص 576)۔  لہذٰا جو لوگ اسے فرض کہتے ہیں ان کے نزدیک اس کے ترک سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور جو لوگ اسے واجب کہتے ہیں ان کے نزدیک اس کے ترک سے نماز باطل تو نہیں ہوتی لیکن اس کالوٹانا واجب ہے۔ متاخرین حنفی علماء میں امام طحاویؒ، علامہ ابن عابدین شامیؒ، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ،  مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ،  مولانا تقی عثمانی، مولانا مفتی نظام الدین اعظمی اور مفتی فضل الرحمٰن اعظمی وغیرہم نے بھی تعدیل ارکان کے اہتمام پر کافی تاکید کی ہے۔ اس لئے سب سے احسن طریقہ یہ ہے کہ آدمی سنّتوں کا اہتمام کرلے تاکہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی بیان کردہ وعیدوں کی زد میں نہ آئے اور کسی امام سے اختلاف کی صورت بھی پیدا نہ ہو۔

 کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے اماموں کو نماز مختصر پڑھانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن نماز مختصر اور نماز کامل میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ آپؐ نے نماز مختصر کرنے کے لئے قرأت میں تخفیف کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ رکوع و سجود میں ٹھونگیں مارنے کا۔ ایک صحابیؓ نے حضرت معاذؓؓ کے طول نماز کی نبی کریمؐ سے شکایت کی جب انہوں نے عشاء میں سورہ بقرہ یا نساء کی تلاوت کی تھی تو نبیؐ نے انہیں سمجھایا کہ تو نے سبح اسم ربک الاعلیٰ، والشمس وضحاھا اور واللیل اذا یغشی کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیوں کہ تیرے پیچھے بوڑھے کمزور اور صاحب حاجت سبھی طرح کے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب مَنْ شَکَا اِمَامَہُ اِذَا طَوَّلَ، بروایت جابر بن عبداللہؓ )۔ اس سے یہ واضح ہے کہ تخفیف قرأت میں ہے نہ کہ اطمینان رکوع و سجود اور سکون نماز میں۔ صاحب مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ آپؐ کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع سجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کمی نہیں ہوتی تھی۔ (مظاہر حق جدید، مطبوعہ،  دارالاشاعت، کراچی،  پاکستان، 2009، جلد 1، ص719)۔ ہاں تسبیحات کو اتنا طول دینا کہ لوگوں کے لئے گرانی کا سبب ہو یہ بھی درست نہیں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔

 آخری بات یہ ہے کہ کامیابی کی ضمانت اس نماز کے ساتھ ہے جو خشوع خضوع اور صفت احسان کے ساتھ پڑھی جائے۔ اتنی جلد بازی کی نماز یں جن میں رکوع و سجود بھی صحیح سے ادا نہ ہوں اور جو سنّتوں سے عاری ہوں ان میں صفت احسان ( اللہ کے دھیان) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے جب ہم اپنا قیمتی وقت خرچ کرتے ہی ہیں تو نمازوں کو سنوارنے کی کی بھی فکر کریں اور ائمہ کو تو اور بھی محتاط ہونا چاہیے کیوں کہ وہ خود کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کے بھی ضامن ہیں اور ان پر مقتدیوں کے اصلاح کی ذمہ د اری بھی ہے۔ اللہ پا ک ہم سب کو عمل کی توفیق عنایت کرے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔