مساجد کی آبادی کا مفہوم: ایک وسیع تر زاویہ

فیروز عالم ندوی

(معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی) 

دنیا کے تمام مذاہب میں عبادت گاہیں صرف خاص مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہیں، وہاں ان کے علاوہ دوسرے امور کی انجام دہی کا یا تو تصور نہیں ہے یا پھر اسے گناہ کے درجے میں شمار کیا جائے گا۔ اسلام کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف وہاں روزانہ پانچ وقت پہونچنے کا حکم دیا ہے بلکہ اجتماعی حاضری کو لازمی قرار دیا ہے۔ اسی لیے اسلام میں مسجد صرف ایک عبادت گاہ بھر نہیں بلکہ معاشرہ میں درستگی، اصلاح، راست بازی، پاکیزگی اور خیر کے قیام کا مرکز بھی ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی نہیں ہے کہ وہاں کچھ رسوم ادا کر لئے جائیں اور بس، بلکہ وہاں سے ایک بلند اخلاق و کردار والے معاشرہ کی تعمیر کا انتظام کیا جائے ۔

نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے جیسے ہی مدینہ پہونچے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد رکھی جسے آج ہم مسجد قباء کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر مستقل قیام کی نیت سے قبیلہ بنو نجار میں وارد ہوئے اور ایک مسجد کی تعمیر کا انتظام کیا۔ یہ وہی مسجد نبوی ہے جو اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اسلام تو یثرب میں پہلے ہی سے پھل پھول رہا تھا،  جیسے ہی آپ وہاں پہونچے یہ ہر گھر میں داخل ہو گیا۔ مسجد باضابطہ تعمیر ہو ہی چکی تھی اب معاشرتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک چبوترے (صفہ) کی تعمیر کی گئی جہاں تشنگان علوم چشمہ رسالت سے سیراب ہونے لگے۔

ہجرت کے بعد جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھ تا گیا ویسے ہی مسجد نبوی کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک تعلیم گاہ،  ایک تربیت گاہ، ایک دعوتی مرکز، ایک کاؤنسلنگ سینٹر،  ایک فوجی ہیڈ کوارٹر اور ایک دارالقضا جیسی مختلف کاموں اور سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ وہاں عبادتیں بھی کی جاتی اور زندگی کی دوسری سرگرمیاں بھی انجام پاتیں۔

اسلام کی تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ مختلف ادوار کے مختلف علاقوں میں جب تک مسلم معاشرہ مسجدوں سے اچھی طرح وابستہ رہا ان کا معاشرہ پھلتا پھولتا رہا اور وہ جیسے ہی اس سے کٹے معاشرتی بیماریوں کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ رفتہ رفتہ اپنا وجود کھو بیٹھے۔

معاشرہ مستقل راست بازی پر قائم رہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا رہے، اس کے لیے لازمی ہے کہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ہم اپنی مسجدوں میں بچوں کو پچھلی صفوں میں کھڑا کر دیتے ہیں، اگر زیادہ شرارت کریں تو مسجدوں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ناعاقبت اندیشی پر مبنی رویہ ہے۔ ہم جیسے ہی کسی بچے کو مسجد سے دور کریں گے اسی لمحے ہم اسے کھو دیں گے۔ مساجد سے نونہالوں کی وابستگی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جائے، ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت اور تفریح ہر طرح کا سامان کیا جائے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک صالح معاشرہ نشو نما پائے تو ہمیں مساجد کو مختلف سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو گا۔ مثلا: اگر کسی مسجد میں تعلیمی سرگرمی کے لیے مکتب چل رہا ہے تو ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کریں تاکہ بچوں اور ان کے والدین کی مسجد سے وابستگی کو مضبوط سے مضبوط تر کی طرف لے جایا جا سکے۔

صالح معاشرہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ مناسب کاؤنسلنگ کا انتظام ہو۔ انفرادی زندگی کے مختلف دشوار مراحل میں اور اجتماعی امور کے پیچیدہ مواقع پر اس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہم اس کا انتظام مسجد کے اندر کر دیں تو یہ لوگوں کو ایک مرکز سے جوڑنے اور ان کی وابستگی میں اضافہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔

ایک صالح معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مائیں تربیت یافتہ، فرض شناس اور بہترین مربی ہوں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم انھیں نہ صرف مسجدوں میں آنے دیں بلکہ ان کی تربیت کے لیے بہترین پروگرام ترتیب دیں۔

مساجد کی آبادی میں ہماری ملی آبادی کا راز پنہاں ہے۔ اس کی حقیقی شادابی ہماری کامرانیوں کی ضامن ہے ۔ مگر اس کے لیے ہمیں بیدار مغز، حقیقت شناس، متحرک اور فعال بننا پڑے گا۔ جامد تقلیدی روش سے ہٹ کر معاملہ فہمی کو راہ دینا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔