ریلوے پلیٹ فارم پر زندگی گزارنے کو مجبور بے سہارا بچے

مامونی داس

(دہلی)

پونیت ایک 18 سالہ نوجوان ہے۔ جب وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک کوڑے دان سے خالی پلاسٹک کی پانی کی بوتلیں اٹھاتا ہے توبامقصد نظر آتا ہے لیکن تھوڑا سا بے چین بھی دیکھائی دیتا ہے۔ صبح کی دھوپ نکل رہی ہے اور اس کے پورے دن کے منصوبے ترتیب دیے جا چکے ہیں۔ اب وہ ردی والی گلی (کوڑے کے خریداروں کی گلی) کی طرف بڑھے گا جہاں اسے پلاسٹک کی بوتلیں ری سائیکلرز کو فروخت کرنے کی امید ہے۔ جب وہ چھوٹا تھا تو پیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگتا تھا۔ اس نے چنا (چنے پر مبنی ناشتہ) فروش کے طور پر بھی کام کیا، اور مایوس کن حالات میں، چند موبائل فون بھی چرائے ہیں۔ 18 سالہ ایک اور نوجوان ترون، جو ریلوے اسٹیشن کے 16 پلیٹ فارمز میں سے ایک دوسرے پلیٹ فارم سے خالی بوتلیں اکٹھا کرتا ہے۔ جب وہ ری سائیکلرز کے پاس جاتے ہیں تو دونوں ایک ساتھ ہو جاتے ہیں۔

پونیت اور ترون ان لاکھوں بچوں میں سے ہیں جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہے اور جو ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنوں پر کام کرتے اور وہیں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تے ہیں۔ ریلوے پلیٹ فارم کے ارد گرد صفائی کے عملے اور دیگر لوگوں کے ذریعہ انہیں عام طور پر کنگلے (بے آسرا) کہا جاتا ہے۔ ریلوے پلیٹ فارم ہمیشہ سے بہت سے لوگوں، خاص طور پر بچوں کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ رہا ہے۔  جو کام یہاں بچے کرتے ہیں وہ اس لیے غیر قانونی مانے جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے کام کرنے والے بچے نابالغ ہوتے  ہیں۔ لوگوں کے ذریعہ استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں ٹرینوں، پلیٹ فارمز یا بڑے اسٹیشنوں کے آس پاس سے یہ بچے اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں وہ ری سائیکلرز کو فروخت کرتے ہیں۔ کچھ بچے بھیک مانگتے ہیں اور کچھ ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو سامان بیچتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ریلوے کے ڈبوں کو صاف صاف کرتے ہیں اور تھوڑی سی تعداد ایسے بچوں کی بھی ہوتی ہے جو چھوٹی موٹی چوری میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔

بہر کیف، جن بچوں کو اسکول جانا چاہیے وہ اپنی پسند کے بجائے حالات سے مجبور ہو کر مشقت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور صرف مٹھی بھر ایسی تنظیمیں ہیں جو ان بچوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ بہت سے بچے مذکورہ سرگرمیوں میں سے ایک سے زیادہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ واقعاتی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بچے ابتدا میں بھیک مانگنا شروع کر تے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ استعمال شدہ پانی کی بوتلیں جمع کرکے انہیں فروخت کرنے کے کام لگ جاتے ہیں۔ان بچوں کے لیے وبائی بیماری ایک بڑے جھٹکے کے طور پر آئی اور ان کی روزمرہ کی روزی روٹی اور بقا پر سوالیہ نشان لگا گئی۔کوویڈ کے دوران پونیت اور ترون جیسے بچوں کے لیے ریلوے پلیٹ فارم کے ارد گرد سے کمائی کے آپشنز نہیں تھے کیونکہ ریلوے نے لاک ڈاؤن کے دوران کام روک دیاتھا۔وبائی بیماری کے آنے کے بعد انجو کو ٹرین کے ڈبوں میں بھیک مانگنے کی بجائے سڑکوں پر آنا پڑا۔ وہ بچے جو وبائی امراض کے دوران ریلوے پلیٹ فارم سے غائب ہو گئے تھے وہ مندروں یا سڑکوں پر بھیک مانگ کر یا ہاکنگ کرکے متبادل ذریعہ معاش تلاش کرنے پر مجبور تھے۔ دوسرے کچی آبادیوں میں اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔اندازے کے مطابق وہ غربت ہی ہے جس نے زیادہ تر بچوں کو بھیک مانگنے اور ریلوے اسٹیشنوں پر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کچھ نے اس لیے گھر چھوڑ دیا کیونکہ وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنا چاہتے تھے اور اپنے گھرکے ماحول سے بے چین تھے لیکن یہ ہر کسی کی کہانی نہیں تھی۔ بہت سے بچوں نے اپنا گھر اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ وہ اپنے والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے کیونکہ ان کے والدین پہلے ہی کام اور نقدی کی مر کھا رہے تھے۔

بہر کیف، ہر ایک کو خاندان سے الگ نہیں ہونا پڑتا ہے۔ کچھ اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں مگر اہل خانہ کی آمدنی تعاون کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں۔ لیکن ان سبھی کی کہانیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کس طرح سماجی اور حکومتی کوششیں حقیقت میں تمام بچوں کو معمول کی زندگی گزارنے اور اسکول جانے کا احاطہ نہیں کرتی ہیں۔ بہر صورت، اس طرح کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ لوگوں میں بیداری پیدا کرنا نہایت ضروری عمل ہے۔ان کے خاندانوں کے حالات کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بیداری بھی ضروری ہے۔صرف بچوں کو بچانا اور انہیں ان کے گھروں تک پہنچانا کوئی دیرپا حل نہیں ہے کیونکہ اضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے والدین اپنے بچوں کو واپس پلیٹ فارم پر بھیج سکتے ہیں۔ یا انہیں غیر رسمی لیبر مارکیٹ میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ترون اور پونیت دونوں ٹوٹے ہوئے گھروں سے آئے ہیں۔ تاہم، پونیت اور ترون جیسے بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو گھر کے مشکل حالات سے تنگ آکر بھاگ کر آتے ہیں، یا پھر یوں کہیں کہ ان کے پاس واپس جانے کے لیے کوئی گھر نہیں ہوتا ہے۔ کچھ دوسرے قسم کے بچے بھی ہوتے ہیں جیسے پریتم، جس نے نے پڑھائی میں درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو کر اسکول چھوڑ دیا اور اپنے طور پر رہنے کا انتخاب کیا۔

ان جیسے بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے اور مرکزی دھارے سے جوڑنے کے لیے ایک مثبت کوشش کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے جامع نقطہ نظر کی بھی ضرورت ہے جس میں خاندان، برادری اور حکومت سبھی شامل ہوں۔ جن بچوں نے اسکول چھوڑ دیا ہے ان کو دوبارہ اسکول جانے کی تلقین کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی میدان میں دلجمعی کے ساتھ مصروف ہو سکیں۔ تعلیمی میدان رفتار پکڑنے میں ان کی مدد کے لیے انہیں برج کلاسز بھی فراہم کی جانی چاہئے۔ اسی طرح نوجوانوں کے لیے آموزشی پروگرام مہیا کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لکھنا پڑھنا سیکھ سکیں پھر ہنر مندی کے لئے خاص طور پر ڈیزائن کیے گئے پروگراموں میں اندراج کر سکیں۔الغرض، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ریلوے پلیٹ فارم اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں ترون اور پنیت جیسے افراد بھی بہتر اور اچھی زندگی گزاریں تو اس کے لیے ریلوے پلیٹ فارم کے بچوں کو بہتر متبادل، بحال زندگی، اور دوبارہ انضمام کی ضرورت ہے۔(چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔