قرآن کریم میں  رچی بسی شخصیت: ڈاکٹر اسرار احمدؒ

 حرکت وروانی اسی کائنات کا خاصّہ ہے۔ یہاں  ہر چیز ایک مخصوص نظام کے مطابق حرکت میں  رہتی ہے۔ لیکن حرکت کے ساتھ ساتھ فنا بھی کائنات کا لازمی وصف ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو حرکت میں  رہتی ہے، نموپذیر اور رواں  دواں  رہتی ہے، وہ ایک نہ ایک دن رک جاتی ہے۔ بس پھر کبھی نہیں  چلتی۔ کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح انسانی زندگی کا بھی یہی خاصّہ ہے۔ حرکت اور فنا۔ البتہ بعض لوگوں  کو اللہ تعالیٰ ایسی حرکت عطا فرماکر بھیجتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی لگتا ہے کہ وہ رواں  دواں  ہیں۔  اپنے کاموں  میں  لگے ہوئے ہیں۔  ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اپنی زندگی وہ لوگ ایسی سرگرمی کے ساتھ گزارتے ہیں  کہ وہ سر اپاحرکت و روانی بن جاتے ہیں۔  کسی منزل پر ٹھہرنا، رکنا اور سانس لینا اُن کے مزاج کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسی ہی چلتی پھرتی، رواں  دواں  اور حرکت مسلسل رکھنے والی ایک عظیم شخصیت کو دنیا ڈاکر اسرار احمد (ولادت:26؍اپریل 1932، وفات:13؍اپریل 2010) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرنی ہوتو، آپ ڈاکٹر صاحب کی کوئی تقریر یا کوئی چھوٹا موٹا بیان سن لیجیے۔ آپ کو چند لمحات ہی میں  اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کسی زوردار اور متحرک شخصیت کو سن رہے ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے اُن کے اندر نہ جانے کیسی حرکت القاء فرمائی تھی۔ وہ سراپا حرکت اور تحریک معلوم ہوتے تھے۔ یہ حرکت و تحریک ان کے شب و روز سے آگے بڑھ کر ان کی گفت و شنید سے بھی ظاہر ہونے لگی تھی۔

پہلا تعارف

2003 کی بات ہے۔ ندوے کے دورِ طالب علمی میں  ہمیں  اخبارات کا چسکا لگا۔عالم عرب کے اخبارات کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کے اردو اخبار ات بھی ہم بڑے ذوق و شوق سے پڑھنے لگے۔ پاکستان سے روزنامہ جنگ بھی آتا تھا۔ اُسے بھی شروع سے لے کر آخر تک پڑھ ڈالتے تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے نام سے پہلا تعارف وہیں  حاصل ہوا۔ ان کے بیانات اور کالمز بہت پسندآتے تھے۔ آہستہ آہستہ غائبانہ طور پر وہ ہماری ایک پسندیدہ شخصیت بن گئے۔ ایک دن روزنامہ جنگ ہی میں  کسی مسئلے پر مشاہیر کی آراء شائع ہوئیں۔  ہر شخص کی رائے کے ساتھ اس کی تصویر بھی تھی۔ اس دن پہلی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھی۔ تصویر دیکھی تو حیرت میں  پڑگیا۔ حیرت سے زیادہ تشویش۔ خدا جانے یہ وہی اسرار احمد ہیں  یا کوئی اور۔ نہ ماننے کی دلیل صرف یہ تھی کہ ہم نے اپنے ذہن میں  جس اسرار احمد کی تصویر بنا رکھی تھی، وہ اتنے متشرع نہ تھے۔ آہستہ آہستہ ہم نے کچھ شک کے ساتھ مان ہی لیا کہ یہ وہی اسرار احمد ہیں،  جن کے معتدل بیانات کے ہم گرویدہ ہیں۔

2004 میں  ندوے سے تعلیم مکمل کرکے دلّی پہنچے۔ پاکستان کے QTV کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس وقت تک ہمارے سامنے کوئی دوسرا مسلم ٹی وی نہ تھا۔ اس لیے اس کے پروگرام سننا ہماراپسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں  کہ وہی تصویر والے ڈاکٹر اسرار احمد یہاں  بھی موجود ہیں۔  قرآن کا درس دے رہے ہیں۔  اب ہماری محبت، عقیدت میں  بدل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے دروس قرآن کا ابتدائیہ شروع ہی ہوا تھا۔ ہم کسی شاگرد کی طرح کاغذ قلم لے کر بیٹھتے اور ان کے بیان کردہ نکات نوٹ کرتے۔ آہستہ آہستہ ڈاکٹر صاحب کا عرفان حاصل ہونے لگا۔ ان کے مقامِ بلند کا اندازہ ہونے لگا۔ ان کے تبحر علمی اور بالخصوص قرآنی علوم پر بے مثال گرفت نے ہمیں  اُن کا عاشق بنادیا۔ بعد میں  QTV نے (غالباً مسلکی نقطۂ نظر سے) اُن کے دروس کا سلسلہ بند کردیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اُن کی آخری عمر میں  شہرت کی بلندیوں  پر پہنچانا تھا۔ اس کے لیے ذریعہ QTV کو ہی بنایا۔ گھر گھر میں  ڈاکٹر صاحب کا چرچا ہونے لگا اور وہ ہندستان میں  بھی ہر گھر کے روحانی مربی کی شکل میں  سامنے آئے۔

برّصغیر میں  عام مقبولیت

ہندستان میں  ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ دو موقعوں  پر سامنے آیا۔ ایک اُن کے سفرِ ہندستان کے موقعے پر اور دوسرا اُن کی وفات کے موقعے پر۔ ڈاکٹر صاحب ہندستان آئے تو ایک ایک دن میں  کئی کئی بڑے بڑے مجمعوں  کو خطاب کرنے کا نظم کیا گیا۔ صبح کے وقت عید گاہ دہلی میں  ہیں،  دوپہر میں  جامع مسجد دہلی میں،  مغرب بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں  تو عشاء بعد مرکز جماعت اسلامی ہند کی مسجد میں۔  دو تین دن کے طوفانی دورے میں  یہی عالم رہا۔ اخبارات میں  کئی کئی جلسوں  کے اشتہارات شائع ہوتے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے بینر اور پوسٹر لگتے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ہر جگہ پہنچتے اور پوری شان سے خطاب فرماتے۔ کیا مرد،  کیا عورتیں،    کیا بوڑھے اور کیا جوان؟ سب پروانہ وار ان کی تقریریں  سننے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہ دلّی کی صورت حال تھی۔ دوسرے بڑے شہروں  میں  بھی اسی طرح کی کیفیت سننے میں  آئی۔

اس کے دو چار سال بعد جب ڈاکٹر صاحب نے رحلت فرمائی تو بھی گھر گھر میں  غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ اخبارات کئی دن تک تعزیتی بنایات اور تعزیتی جلسوں  کی خبریں  شائع کرتے رہے۔ جیسے کہ وہ یہیں  کے تھے اور یہیں  رہ رہے تھے۔

اس محبوبیت و مقبولیت کی تاویل ہم صرف یہی کرتے ہیں  کہ اُس اللہ کے بندے نے اپنی پوری زندگی کو قرآنی زندگی بنالیا تھا۔ قرآن ہی پر جیے اور اسی کو عام کرتے کرتے اس دنیا سے گئے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو عام مقبولیت عطا نہ فرماتا۔ ربِّ کریم نے QTV کو ذریعہ بنایا اور پورے برّصغیر میں  اُن کی لہر چل پڑی۔ ہر سلیم الفطرت شخص ان کا دل دادہ ہوگیا۔ اُن کے ٹھوس علمی افکار کے باوجود بہت کم عرصے میں  عوام و خواص میں  ایسی محبوبیت و مقبولیت سوائے عطائے الٰہی کے کچھ نہیں  تھی۔

شرفِ نیاز

 2004 میں  ان کی ہندستان آمد کے موقعے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں  شرفِ نیاز حاصل ہوا۔ وہاں  اُن کی تقریر کا موضوع تھا: ’’موت کا عقیدہ‘‘۔ اُن کی آمد سے پہلے ہی ہال بھر چکا تھا۔ تقریر کے وقت سے چند منٹ پہلے ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے۔ موضوع عوامی سے زیادہ فلسفیانہ تھا۔ چنانچہ ان کی گفتگو پر دونوں  رنگ غالب رہے۔ عوامی کم اور فلسفیانہ زیادہ۔ لیکن وہ مجمع کو ایسی گرفت میں  لے لیتے تھے کہ کیا مجال کوئی اپنی جگہ سے ہل جائے۔پورا مجمع ڈیڑھ دو گھنٹے ساکت و جامد بیٹھا رہا اور ڈاکٹر صاحب خطاب فرماتے رہے۔ وہیں  تقریر سے پہلے ناظم جلسہ نے یہ بھی بتایا کہ جب ہم اِس پروگرام کے لیے وقت لینے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ اپنی قیام گاہ پر نہیں  تھے۔ کسی جلسے ہی میں  گئے ہوئے تھے۔ ابھی ہم وہاں  سے واپس آبھی نہ سکے تھے کہ ہمارے دیے ہوئے نمبر پر ڈاکٹر صاحب کا فون آچکا تھا کہ آپ پروگرام طے کردیں۔  میں  وقت مقررہ پر ضرور حاضر ہوجائوں  گا۔

قرآنی تحریک

ڈاکٹر اسرار احمد ہریانہ کے مشہور علاقے حصار میں  پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد مع اہلِ خانہ پاکستان منتقل ہوگئے۔ 1948 میں  جماعت اسلامی سے متأثر ہوئے اور اپنی تعلیم کے ساتھ جماعت کی سرگرمیوں  میں  حصہ لیتے رہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے انتخاب میں  حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس پر سخت احتجاج کیا۔ حتیٰ کہ جماعت سے علاحدگی اختیار کرلی۔ 71-1970 ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا سب سے اہم موڑ ثابت ہوا۔ جب انھیں  حجاز مقدس میں  خاصے لمبے عرصے قیام کا موقع ملا۔ حج کی سعادت بھی میسر آئی۔ دوران حج انھوں  نے اپنی میڈیکل پریکٹس ترک کرنے کا اہم فیصلہ لیا اور 1972میں  مرکزی انجمن خدام القرآن کی بنیاد رکھ دی۔ 1975 میں  تنظیم اسلامی اور 1976 میں  قرآن اکیڈمی قائم کی۔ مختلف پلیٹ فارم قائم کرکے انھوں  نے ملک بھر میں  مختلف نوعیتوں  سے فہمِ قرآن کی تحریک چھیڑ دی۔ نماز تراویح کے ساتھ دورۂ ترجمۂ قرآن، ہفتہ واری دروس قرآن، سالانہ قرآن کانفرنس اور اس کے علاوہ متعدد پہلووں  سے قرآن کریم کی اشاعت کا کام شروع کیا۔   ہم پوری ذمے داری کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں  کہ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے آخری خواب (اشاعتِ قرآن) کو عام کرنے والی ڈاکٹر صاحب کے علاوہ کوئی شخصیت نظر نہیں  آتی۔ مفتی محمد رفیع عثمانی نے بھی تقریباً اسی طرح کا تأثر ظاہر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب حضرت شیخ الہند کو مجدد کہتے تھے۔ وہ قرآن کریم کے اندر اتر گئے تھے۔ یا یوں  کہیے کہ قرآن کریم کو اپنے اوپر اوڑھ لیا تھا۔ اس لیے ان کی شخصیت قرآن کریم میں  ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ عہدِ حاضر میں  شاید پورے عالم اسلام میں  قرآن کریم کے سب سے ممتاز مبلغ و داعی کی حیثیت سے سامنے آئے۔

حق گوئی

ڈاکٹر اسرار احمد کو اللہ تعالیٰ نے حق گوئی کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ وہ ہر بات پوری مضبوطی کے ساتھ کہتے تھے اور بہ بانگ دہل کہتے تھے۔ ہندستان تشریف لائے اور مرکز جماعت اسلامی ہند میں  خطاب فرمایا تو جماعت کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ اپنا اختلاف بھی صاف ذکر کیا۔ پاکستان میں  جاوید احمد غامدی اور ان کے    ہم نوائوں  کے انکار حدیث آمیز افکار کے خلاف محاذ سنبھالا۔ خود بھی مسلسل لکھا اور دوسروں  سے بھی لکھوایا۔ اپنے ایک استاد مولانا امین احسن اصلاحی سے ہونے والی سخت تفسیری غلطیوں  کا اعتراف تو ان کی ویڈیو ریکارڈنگ میں  بھی موجود ہے۔ سورۂ نور کی تفسیر میں  درس دیتے دیتے رکے، اپنے استاد کی صریح غلطیوں  کا تذکرہ کیا اور ان کے لیے ہاتھ اٹھاکر دعائے مغفرت کرائی۔ جماعت اسلامی سے علاحدگی کے بعد دو سال تبلیغی جماعت میں  رہے۔تاکہ اجتماعیت کے ساتھ کام چلتا رہے۔ لیکن وہاں  سے الگ ہوئے تو اپنا اختلاف صاف صاف بیان کرکے علاحدگی اختیار کی۔ اس کے باوجود تمام جماعتوں  کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف اور تمام شخصیات کا ادب و احترام بھی علی الاعلان کرتے تھے۔ یعنی اس معاملے میں  وہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے حقیقی مسلک پر قائم تھے۔ کھلے دل سے سب کا اعتراف اور صاف زبان میں  علمی اختلاف۔

اعتدال و توازن

ایک طرف وہ خلافتکے  عظیم علم بردار تھے۔افغان طالبان کے پرزور حامی اور ان کے مسلسل رابطے میں  رہتے تھے۔ 1991 میں  عالمی خلافت کانفرنس کا انعقاد کرکے تحریک خلاف پاکستان کا قیام کرچکے تھے۔ تو دوسری طرف امام غزلی، شیخ محی الدین ابن عربی، امام ولی للہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی وغیرہ کے صوفیانہ افکار و نظریات کے بھی حامی تھے۔ اس سلسلے میں  ایک دل چسپ واقعہ بھی ہے۔

ڈاکٹر صاحب لاہور کے علاقے سمن آباد کی مسجد خضراء میں  درس قرآن دیتے تھے۔ ڈھائی گھنٹے مسلسل درس چلتا تھا۔ حاضرین کی تعداد عام طور پر پانچ چھ سو تک پہنچ جاتی تھی۔ مسجد خضراء کا سنگ بنیاد مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری ؒنے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے اس درس کی بے پناہ مقبولیت کا سہرا حضرت مفسر قرآن کے سر باندھتے تھے۔ اسے اُن کا روحانی فیض اور کرامت سمجھتے تھے۔  لکھتے ہیں :

’’مسجد خضراء سمن آباد میں  اس دعوتِ قرآن کو جو پذیرائی حاصل ہوئی، اس پر میں  خود اور میرے قریبی ساتھی سب کے سب شدید حیران تھے۔ لیکن بالآخر اس کا راز ایک روز کھل ہی گیا۔ آج کے عقلیت زدہ بلکہ گزیدہ لوگ تو شاید اس بات پر ناک بھوں  چڑھائیں۔  لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسجد خضراء کی اس استثنائی کیفیت کا اصل راز جو مجھے ایک دن اچانک معلوم ہوا، یہ تھا کہ اس کا سنگ بنیاد اُس مرد درویش نے رکھا تھا، جسے دنیا مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نام سے جانتی ہے اور جس نے خود بھی پورے چالیس سال تک  ارضِ لاہور پر درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔‘‘(دعوت رجوع إلیٰ القرآن کا منظر و پس منظر،  ص170)

عظیم خلاء

ڈاکٹر اسرار احمد کے علماء دہلی کی یادگار، مفسر قرآن مولانا اخلاق حسین قاسمی سے بھی گہرے مراسم تھے۔ ان مراسم کا نکتۂ اتحاد تفسیری اشتغال ہی تھا۔ افسوس کہ اب یہ دونوں  شخصیات شہر خموشاں  میں  جا سوئیں۔  کچھ دن پہلے میں  نے تفسیر قرآن کے متعلق قائم کیے گئے علماء کے ایک واٹس ایپ گروپ پر سوال کیا کہ کیا موجودہ وقت میں  برصغیر میں  ایسی کوئی شخصیت ہے، جس کا اوڑھنا بچھونا تفسیر قرآن ہو؟ وہ صرف کسی ادارے میں  تفسیر کا استاد نہ ہو،  بلکہ علوم تفسیر کے ساتھ مسلسل و متواتر اشتغال رکھتا ہو؟ جیساکہ ماضی بعید میں  مولانا احمد علی لاہوری اور ماضی قریب میں  ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا اخلاق حسین قاسمی تھے؟ آپ یقین جانیے کہ بس دو نام آئے اور وہ دونوں  بھی دو اداروں  میں  تفسیر کی تدریس انجام دے رہے تھے۔ ہمارے مطلوبہ معیار کے مصداق نہ تھے۔ یہ معمولی واقعہ نہیں،  عظیم المیہ ہے۔

2010 میں  ڈاکٹر صاحب کی وفات سے سب سے بڑا نقصان یہی ہوا کہ تفسیر قرآن کے میدان میں  ایسا خلا پیدا ہوگیا، جس کا پر ہونا بہ ظاہر آسان نظر نہیں  آتا۔ یوں  اللہ کی قدرت کاملہ سے کیا بعید؟ اُن کے بعد پوری امت میں  ایسی کوئی دوسری شخصیت نظر نہیں  آتی، جو قرآن کریم پر ایسا استحضار بھی رکھتی ہو اور اس کو ایک تحریک کی شکل میں  پیش بھی کر رہی ہو۔ وہ بھی پوری حکمت اور اعتدال کے ساتھ۔ ہم بہ جا طور پر ڈاکٹر صاحب کو ’’قرآن کریم میں  رچی بسی شخصیت‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔  رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔

تبصرے بند ہیں۔