لاتوں کا بھوت باتوں سے نہیں مانتا
عبدالعزیز
وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی پسند نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ کے چیف ایڈیٹر ارنب گوسوامی کو ایک لمبا انٹرویو دیا ہے، جس میں باتیں تو انھوں نے بہت سی کہی ہیں جو سخن برائے سخن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ معاشیات کے ایک عالمی شہرت یافتہ دماغ رگھو رام راجن کو چند ماہ پہلے سبرامنیم سوامی نے غیر محب وطن بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ ملک کے مفاد کے خلاف اور امریکہ کے حق میں کام کرتے ہیں۔ ایسے شخص کو ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدے سے ہٹا دینا چاہئے۔ اس وقت دبے لفظوں میں ارون جیٹلی نے سوامی کی باتوں پر نکتہ چینی کی تھی لیکن جب سوامی نے ایک اور سوامی جو محکمہ مالیات کے سکریٹری ہیں ان پر نشانہ سادھا جو حقیقت میں ارون جیٹلی پر حملہ تھا تو ارون جیٹلی تلملا اٹھے اور سوامی کو سخت سست سنایا لیکن بی جے پی کے اور لوگ بشمول مودی جی چپی سادھے رہے۔ ملک کے بہت سے لوگوں نے بھی جن کو معاشیات میں مہارت حاصل ہے سوامی کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ اخباروں میں مضامین شائع ہوئے، اداریئے لکھے گئے مگر بی جے پی اپنا پلو جھاڑتی رہی۔ آخر رگھو رام راجن نے اپنا ری ایکشن (رد عمل) ظاہر کیا اور صاف صاف کہاکہ وہ ریزرو بینک کے دوسرے ٹرم کیلئے available نہیں ہوں گے اور نہ ہی درخواست کریں گے بلکہ وہ امریکہ کی یونیورسٹی میں اکیڈمک کیریئر کی پھر سے شروعات کریں گے۔
مودی جی نے جب پانی سر سے گزر گیا تو اخباروں کو نصیحت کی ہے۔ سوامی کا نام لئے بغیر کہاکہ ایسے لوگوں کی باتوں کو میڈیا اچھال کر ہیرو بنا دیتی ہے۔ ان کو ہیرو نہیں بنانا چاہئے۔ وہ شہرت کیلئے ایسی بے تکی باتیں کرتے ہیں اور پھر رگھو رام راجن کو حب الوطنی کی سند فراہم کرتے ہوئے کہاکہ ان کی حب الوطنی ہم میں سے کسی سے کم نہیں ہے وہ جہاں بھی رہیں گے ملک کیلئے کام کرتے رہیں گے۔
راجن کے والدین نے بھی اپنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو جب بولنا چاہئے اس وقت چپ رہے اور جب ان کے بیٹا نے من بنالیا کہ وہ ہندستان چھوڑ دے گا تو ناصحانہ باتیں کر رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈر غلام نبی آزاد نے نریندر مودی کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ’خود را فضیحت دیگراں را نصیحت‘۔ آگے کہاکہ سوامی جیسے بے حیا فرد نصیحتوں سے نہیں مانتے۔ وزیر اعظم کو نصیحت کرنا تو آتا ہے مگر عمل نام کی چیز ان کی کتاب میں نہیں ہے۔عمل کے معنی ہوتا ہے کسی کا اخراج کرنا، معطل کرنا، سزا دینا وغیرہ لیکن نصیحت کرکے ایسے لوگوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔
عجیب و غریب بات یہ ہوئی کہ جب بی جے پی کے شرپسندوں کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے اپنی ناواقفیت کا اظہار کیا کہ کون لوگ ہیں جبکہ وہ لوگ ان کی پارٹی کے محض ممبر پارلیمنٹ نہیں ہیں بلکہ وزیر بھی ہیں۔ بی جے پی ایم پی ساکچی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ ایم پی، مہیش شرما (وزیر)، بالیان ایم پی وغیرہ سے مودی جی نے اپنی واقفیت کا اظہار کیا۔ اسی کو کہتے ہیں خود را فضیحت دیگر اں را نصیحت۔ مودی جی اپنی پارٹی کے شرپسندوں سے آنکھ بند کئے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو گالی گلوچ دلوا رہے ہیں۔ دل میں خوشی ہے، زبان پر منافقت کا اظہار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی جی کا خمیر بھی ایسے ہی لوگوں سے بنا ہوا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو برا بھلا کہنے میں اخلاقی قدروں کو پامال کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔ جب سردار کی حالت ایسی ہو تو اس کے پیروکار کیسے ہوسکتے ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے دہشت گردی کی تھی، بم کے ذریعہ لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ ان کا ناطہ رشتہ آر ایس ایس سے ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت کا محکمہ ’این آئی اے‘ ان کو کلین چٹ دے رہا ہے۔ ظاہر ہے جب وہ دہشت گرد جو مسلمانوں پر بم برساتے ہیں وہ حکومت کی نظر میں نیک اور شریف ہیں تو جو لوگوں کو زبانی طور پر زخم پہنچاتے ہیں ان کو چھوٹ دینا کوئی خلاف توقع بات کیسے ہوسکتی ہے؟

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔