فرسودہ خیالات کی حکمرانی ہے

راحت علی صدیقی قاسمی
ہندوستان قدیم تاریخی ملک ہے صدیوں سے یہاں انسان آباد ہے زمانہ کروٹ لیتارہاوقت بدلتا رہا تغیروتبدل کاسلسلہ جاری رہامگرحیاتِ انسانی سے یہ وسیع وعریض زمین خالی نہیں رہی ۔کروڑوں انسانوں کا مسکن رہی اور وقت کے بہاو کے ساتھ انسانوں کی تعدادکااضافہ قرین قیاس ہے بدلاؤ کا عالم یہ ہے کہ تہذیب بدل گئی کلچر بدل گیا،اچھائی اوربرائی کی اقدارمیں تبدیلی کے آثارنظر آئے سوچ وفکر میں زمین وآسمان کافرق ہوالیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں بدلاو کا یہ طوفان بھی تبدیل نا کرسکا اور وہ مضبوط چٹان کی طرح ساکت و جامدہیں ان میں ذرہ برابربھی حرکت پیدا نہیں ہوئی تہذیب نو کی بندگی اورمغرب پرستی بھی ان فرسودہ خیالات کو ختم کرنے میں کامیاب نا ہوئے ماضی کا حال تاریخ کے اوراق پر نقش ہے جھل کی تاریکی میں جس طرح ذات برادری چھوت چھات چھوٹے بڑے کا خیال ذہنوں میں راسخ تھا لوگ اس پر اس شدت سے عمل پیرا ہوتے کہ روح انسانی کانپ اٹھتی جسم انسانی لرزہ براندام ہوجاتا لیکن متشدد اورفرسودگی کو بندگی سمجھنے والے ان اعمال کو انجام دینے میں کوئی تامل نہیں کرتے تھے۔
اگر کسی دلت نے مقدس سمجھے جانے والے الفاظ سنے تو سخت ترین سزاسے دوچارکیاجاتا تعلیم برہمنوں کی جاگیر سمجھی جاتی جس پر دلتوں کا کوئی حق نہیں انکے پاس بیٹھنا ستارے توڑنے کے مترادف تھاانکی ہمدردی خام خیالی ہے وہ تو بنائے ہیگئے ہتک عزت یکیلئے تذلیل ذلت خواری انکا مقدرہے، بے عزتی انکی میراث جوہرپیدا ہونے والابچہ ماں کے پیٹ سے لیکر پیداہوتا ہے یہ وہ تلخ سچاء ہے جس کا انکار کرنے کی جرئت کسی ہندوستانی کی زبان میں نہیں تاریخ کے صفحات اس کے منھ پر کذب بیانی کا لیبل لگا دینگے اور دنیا اسے کذاب کے نام سے یاد کریگی لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب لگا کہ یہ روایت ٹوٹ جائیگی اب مساوات وبرابری ہمدردی ورواداری کی حکمرانی ہوگی جب ہندوستان کے جسم سے غلامی کی قباء اتری اور آزادی کے لباس نے اسکے حسن کو دوبالا کیا اپنی حکومت اپنے افراد اپنے قوانین وضوابط اور آئین ہند مرتب کرنے والا وہ ہونہار شخص تھا جس نے مدھیہ پردیش کی سرزمین پر 1891آنکھیں کھولی ۔محنت جد و جھد کوشش و کاوش سے باد مخالف کو بے اثر کیا اور اپنی قابلیت کا لوہا پوری دنیا میں منوایااور آئینِ ہندمرتب کئے ۔اب لگا کہ ماضی کی وہ خوفناک یادیں اب تاریخ کے بوسیدہ صفحات میں قیدہوکر رہ جائینگی مستقبل میں کوء نگاہ ان تکالیف دہ مناظر کو نہیں دیکھیں گی لیکن خیال حقیقت کی شکل اختیار نا کرسکا اوریہ خواب آج تک تعبیر سے خالی ہے ہزاروں واقعات ایسے اس سرزمین پر ہوئے جنہوں نے اس فرق کو واضح کردیا اور دلت ہونے کا خمیازہ کء عاشقوں کو اپنی جان گنوا کر بھگتنا پڑااور یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری ہے اور اس دور حکومت میں خاص طور سے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے دلتوں کے استحصال کی حقیقت کو عیاں کیاآج بھی انہیں ظلم استبداد کی چکی میں پیسا جاتا ہے انکے حوصلوں کو توڑا جاتا ہے آگے بڑھتے قدموں کوروک دیا جاتا ہے روہت وومیلا قابل ،ذی استعداد محنتی جفاکش نوجوان غریبی فقر وفاقہ تنگدستی سے لڑکر بلند منصب پرپہونچنے والا علم و تحقیق کے اعلیٰ منازل طے کرنے والا نوجوان تمام ترمشکلات و مصائب پر فتح حاصل کرتا رہا مگر فرسودہ خیالات سے ہار گیا اورملک اسی دوراہے پر کھڑا نظر آیا جہاں صدیوں پہلیتھا اورایسا محسوس ہواجیسے آج بھی انہی افکار کے اسیر ہیں روہت وومیلا کے خط نے ہماری ترقیات اور بدلتے خیالات کی پول کھول کررکھدی کاش یہ سلسلہ یہیں ختم ہوجاتااوریہ فکر ایک نوجوان کی موت اور اسکی بلکتی ماں کو دیکھ کر ہی دم توڑدیتی کاش یہ سلسلہ اس مرحلہ تک نا پہونچتا جہاں آئینہ دل چکنا چور ہوگیا اور قلب میں یہ حسرت پیدا ہورہی ہے کہ ملک کی قسمت پرزاروقطار رویا جائے اورآنسوں کی بارش کردی جائے۔مگر خمار کا یہ شعر آنسوں کو پلکوں سے جدا ہونے سے روک رہا ہے جی تو ہلکا ہوا رو کر مگر ہم…..لذت غم گنوا بیٹھے۔
بہرحال غم کی کیفیات اس واقعہ کی نوعیت سے عیاں ہوجائیگی کشمیر میں پاکستان کی جانب سے حملہ ہوا 8 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کیا اور ملک کی خاطر سب سے عزیز شئ جان کو قربان کردیا پہلا سوال تو ان لوگوں سے جو ایک سر کے بدلے دو سر لانے کی بات کرتے تھے وہ کہاں ہیں کیا کررہے ہیں اس واقعہ کے بعد انکا رد عمل کیاہے انکے اقدامات کا علم کب ہوگا کیا ان8شہیدوں کی جانوں کی قیمت نہیں ہے کیا ان کی بیواؤں کی آرزوئیں تمنائیں اورخواہشیں بھی معاوضہ پوری کرپائیگا شہیدوں میں ایک شخص ویر سنگھ فیروزآباد ضلع کے نگلا گاوں کا رہنے والا ہے جسکاتعلق دلت برادری سے ہے اسکی شہادت پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پورا ملک اور ساتھ ہی اسکی جائے پیدائش اسکے گاوں کے غم میں ڈوب جاتے کسی گھرچولہا نا جلتا ہانڈی نا چڑتی دکھ تکالیف مین آنسو بہتے مگر ہوا اسکے برعکس اور اس عظیم کارنامے کو انجام دینے والے شخص کو سرحد کی حفاظت کرنے والے نوجوان کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے زمین دینے سے بھی انکار کردیا گیا وہ شخص جو مستحق تھا کہ عزت و اعزاز سے نوازا جاتا سلامی دی جاتی شان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت کیا جاتا اسکے ساتھ یہ رویہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ملک فرسودگی کی اس کھاء سے نکلنے میں ناکام رہا ہے اورآج بھی ہم دونیا کے ترقی یافتہ سے پیچھے ہیں آج ہمارے ملک کے وہ رہنماکہاں ہیں جو بڑے بڑے وعدہ کرتے ہیں اور انتخاب کے وقت پاوں پکڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے کیا وہ اس شخص کو اس کی بے عزتی کا معاوضہ دے پائینگے کیا انکے خزانہ میں ایک شہید کی عزت کی قیمت موجود ہے کیایوپی کے وزیراعلیٰ کو اس واقعہ کی خبر نہیں ہوئی کیا انکی زبان سے نکلے چند جملے جو اس سوچ کے خلاف ہوں کیاہمارے وزیراعظم سب کا ساتھ سے لیکر اس موقع پرکچھ کرتے نظر آئے کیا دلتوں کی مسیحا کہی جانے والی مایاوتی نے اس جانب توجہ دی کیا سزا دی جائیگی ان لوگوں کو جو شہید ویر سنگھ کی عزت سے کھیلے ہیں انکے بیوی بچوں کے جذبات کو اپنے تکبرمیں روند ڈالہ ہے کیا ہے کوئی قانون جواس جرم کا بدلا لے وزیر اعظم اس سلسلہ میں کیوں نہیں بولتے جس قوم نے ڈاکٹربھیم راؤپیدا کیا وہ آج عظیم افراد کو پیدا نہیں کرسکتی کیا وہ انسان نہیں ہیں آخر کب تک یہ فرسودگی باقی رہیگی آخر کب تک ان تصورات کی ضمن میں انسانوں کی عزت تارتار کی جاتی رہیگی اور رہبران خاموش تماشائی بنے رہینگے یہ تو وقت ہی بتائیگامگرعام انسانوں کوجاگناہوگا اور ایسی جماعتوں کو انتخابات میں بتانا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں اور اس سوچ کے حامل افرادکو احساس دلاناہوگاکہ انسانیت کو تقسیم نا کریں چاہے انکا تعلق سیاست ہے ہو یا مذہب سے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہرایک ہندوستانی بلکہ ہرایک انسان کے درد کو ہم اپنا درد سمجھے اور اسکا ایسے ہی مداوا کریں جیسے ہم اپنے غم کا کرتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔