لہو لہان جمہوریت

منصور قاسمی

جمہوریت ایک خوبصورت لفظ، دلفریب نعرہ جسے ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں ؛آخر وہ کیا ہے ؟لارڈ برائس کا خیال ہے :ایسی حکومت جو مخصوص طبقہ یا طبقات تک محدود نہ ہو بلکہ معاشرہ کو اجتماعی طو ر پر حاصل ہو، ، معروف سیاست داں پروفیسر سیلے کا قول ہے : ایسی حکومت جس میں ہر شخص کی حکومتی معاملات میں شرکت ہو، ،سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کی نظر میں جمہوریت نام ہے :عوام کے ذریعے، عوامی مفادات کے لئے عوامی حکومت، ،لنکن کی تعریف جمہوریت کو ہی اہل شعور و سیاست نے سب سے جامع قرار دیاہے تاہم ااختلاف آج بھی برقرار ہے اور ساری تعریفات کا لب لباب یہی ہے کہ حکومتی معاملات میں، اس کے فیصلے میں، معاشرہ کے ہر فرد کی رائے اور مفادات کو ملحوظ رکھنے کو جمہوریت کہتے ہیں ؛یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت کسی مکمل نظام کا نام نہیں ہے بلکہ نظام بنانے اور اس کے نفاذ کے طریقہء کار کا نام ہے، اسی لئے مختلف ممالک میں جمہوریت کی مختلف شکلیں ہیں، نظام اور طریقہ ء کار بھی الگ الگ ہے، شایداسی لئے ایک مشہور فلسفی سموئل اڈمس نے کہا ہے : جمہوریت اپنے اصولوں پر کبھی بھی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی، یہ بہت جلد تھک ہار کر بیکار اور اپنے راستے سے بھٹک جائے گی ، آج جب ہم ہندوستا ن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر نظر ڈالتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ ان کا قول سچ ہے۔

     کہنے کو تو ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، قانون بھی یہی کہہ رہا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں جمہوریت کی جوجدید شکل ملک میں ابھر کر آئی ہے، وہ انتہائی خوفناک ہے، اس کے دست و پا دھیرے دھیرے کاٹے جا رہے ہیں، جس سے ہر طرف خوف و وحشت کا ماحول ہے ؛بی چینی اور اضطرابی کیفیت ہے جس کے لئے بی جے پی اور نریندر مودی حکومت مکمل ذمہ دار ہے۔ یاد کیجئے !بیسویں صدی کے نصف اول میں جب سماج میں انقلاب برپا ہو رہا تھا، جمہوریت کے قیام کی کوششیں ہو رہی تھیں اس وقت جرمنی میں ہٹلر، اٹلی میں مسولینی، روس میں لینن، ترکی میں اتاترک  اور اسپین میں جنرل فرانسیسکوفرانکو جھوٹے نعروں کے ذریعے تالیاں بٹور رہے تھے، طاقت اور اقتدار میں بنے رہنے کے لئے نسلی اور مذہبی منافرت پھیلا رہے تھے، خوش کن بھاشنوں سے عوام کو سبز باغ دکھا رہے تھے ؛ آج ہندوستان میں بعینہٖ وہی صورت حال ہے بس زمان و مکان اور صاحب اقتدار کا فرق ہے۔ عامر خان اور نصیرا لدین شاہ لب کشائی کرے تو گالیاں دی جاتی ہیں، پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں دیپکا پڈکون کو پدماوتی کا کردار ادا کرنے پر ناک اور سر کاٹ کر لانے والوں کے لئے انعامات کا اعلان ہوتا ہے ؛ مذہبی شناحت رکھنے والے عالم دین کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے ؛حافظ جنید کو چاقوئوں سے حملہ کر کے مار دیا جاتا ہے ؛گائے کے نام پر اخلاق، پہلو خان، علیم الدین، امتیازکو ہلاک کر دیا جاتا ہے مگر حکومت چپ رہتی ہے، اس کے اہلکار خاطر خواہ کارروائی تک نہیں کرتے، بلکہ قاتلین کی ضمانت پر رہائی ہونے کے بعد مرکزی وزیر جینت سنہا پھولوں کے ہار سے استقبال کر کے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انتہا پسند شمبھو لال ایک غریب مزدور افرازل کو کلہاڑی سے مار کر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتا ہے اور ایسے ظالم کی حمایت میں وہ فوج کھڑی ہو جاتی ہے جو خود کو محب وطن اور جمہوریت پرست کہتی ہے، یہ بھگوائی فوج اس حیوان شمبھو کی حمایت میں احتجاج کرتے ہوئے پہلے کورٹ پر حملہ آورہوتی ہے پھر علامت جمہوریت اور نشان عظمت ترنگا کو کورٹ کے گنبد سے اتار کر بھگوا جھنڈا لہرا دیتی ہے ؛اور یہ دیکھ کر سب سے بڑے جمہوری ملک کی جمہوریت پر دنیا ٹھہاکے لگاتی ہے۔

   سپریم کورٹ کی جانب سے اجودھیا کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی جاتی ہے توآر ایس ایس کے جنرل سیکریٹری بھیا جی جوشی دھمکی آمیز لہجہ میں کہتا ہے :مندر کی تعمیر میں بہت تاخیر ہو چکی ہے، عدالت ہندوئوں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرے، فیصلہ میں تاخیر سے ہندو سماج بے عزتی محسوس کررہا ہے، اگرضرورت پڑی تو مندر کی تعمیر کے لئے پھر سے تحریک چلائی جائے گی، ،۔ حکومت میں براجمان افراد سپریم کورٹ کو دھمکیاں دیتے ہیں ؛ بی جی پی کے ممبر پارلیامنٹ راکیش سنہا کہتے ہیں : اس معاملے میں پرائیوٹ ممبر بل لانے کی ضرورت ہے، ،بی جے پی کے صدر امیت شاہ وارننگ دیتے ہیں :عدالت کو غیر عمل ہدایات اور ایسے احکامات صادر کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو ناقابل نفاذ ہو، ،یعنی امیت شاہ سیدھے طور پر کورٹ کو دھمکی دے رہے ہیں کہ ہمارے لئے جو قابل عمل ہو وہی فیصلہ سنائو!فرقہ پرست گری راج سنگھ کہتے ہیں : رام مندر ضرور بنے گا، اب ہندوئوں کے صبر کا باندھ ٹوٹ رہا ہے، اور اگر یہ ٹوٹ گیا تو مجھے خوف ہے کہ ملک کا کیا ہوگا، ، مطلب اگر سپریم کورٹ نے جلد اور ہندوئوں کے حق میں فیصلہ نہیں کیا توملک میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا اور اس کے لئے کورٹ ذمہ دار ہوگا۔ کیا ایسے بیانات جمہوریت پرسیدھا حملہ نہیں ہے ؟کیا حکومت ہی جمہوریت کی دھجیاں نہیں اڑا رہی ہیں ؟

    آئین میں ہرمذہب کو آزادی حاصل ہے مگرحکومت چند عورتوں کی وجہ سے ایک طبقہ پرطلاق ثلاثہ  مخالف بل جبراً تھونپنے کی کوشش کر رہی ہے؛آر بی آئی گورنر کو حکومت اتنا مجبور کردیتی ہے کہ اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے ؛سی بی آئی کا تماشہ دیکھ کرساری دنیا ہنس رہی ہے اور پوچھ رہی ہے کہ کیایہی سب سے بڑا جمہوری ملک ہے ؟یہاں تو ڈکٹیٹر شپ ہے !یہی وجہ ہے کہ برطانوی رسالہ’’ اکونومسٹ،،کے انٹلیجنس یونٹ نے درجنوں ممالک میں موجود جمہوریت کے معیار پر مبنی ایک فہرست شائع کی ہے اس میں ہندوستان ۲۰۱۸ میں ۴۱ویں مقام پر ہے جبکہ ۲۰۱۴ میں ۲۷ویں مقام پر تھا، اس نے لکھا ہے، گزشتہ پانچ سالوں میں ہندوستان کی حالت ابتر ہوئی ہے، وزیر اعظم مودی کو کارو باریوں کی حمایت حاصل ہے، مودی حکومت میں جمہوریت پر مسلسل حملے ہوئے ہیں، ، عدم اتفاق کی آوازز کو دبانے، اقلیتی طبقات پر ظلم کرنے،ان کے درمیان خو ف و ہراس پیدا کرنے کی وجہ سے بھی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں جمہوریت زوال کی طرف بڑھ رہا ہے اور میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ ہندوستان میں اب جمہوریت نہیں، فسطائیت اور آمریت ہے، یہاں جمہوریت لہو لہان ہے، یوم جمہوریہ تزک و احتشام کے ساتھ منا لینے سے ہندوستان عظیم جمہوری ملک نہیں کہلائے گا!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔