جھوم کر اٹھو پھر وطن آزاد کرنے کے لیے!

احساس نایاب

جمہوریت کا جنازہ اٹھاکر

یوم جمہوریہ منارہے ہیں

گُنگُناکر حب الوطنی کے ترانے

ہندوستانی ہونے کا فرض نبھارہے ہیں

زندہ جسموں میں چھپے مردہ ضمیر

خاکِ وطن کو قبرستان بنارہے ہیں

کتنے احمق بسے ہیں یہاں پہ احساس

خود اپنی ہی لاشوں پہ مسکرا رہے ہیں

سال میں ایک دن لہرا کر ترنگا

جمہوریت کو زندہ بتارہے ہیں

ارے نادانوں جھوٹی تسلیاں دے کر

کیوں خود کو بہلارہے ہیں

26 جنوری 1950 ہندوستان کی یہ وہ تاریخ ہے جب ہمارے رہنماؤں نے برطانیہ پارلیمانی طرز عمل سے متاثر ہوکر ہندوستان سے موروثی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور عوامی جمہوریہ کا آغاز کرتے ہوئے جمہوری نظام نافذ کیا، جس کا مقصد ہندوستان میں صدیوں سے چل رہی موروثی حکومت یعنی عامرانہ نظام، وراثتی بادشاہت کا خاتمہ کرنا اور”ہندوستان کے ہر عام و خاص شہری کو برابری کے حقوق فراہم کرنا، جس میں من مطابق زندگی گزارنے کی آزادی، استحصال کے خلاف بولنے کی آزادی، تعلیمی و ثقافتی حقوق، ہر مذہب کے ماننے والوں کو بلا کسی روک ٹوک اپنے مذہبی قانون کو ماننے اور مذہبی رسومات کی پیروی کرنے کی آزادی دی گئی ہے، لیکن موجودہ حالات کی ترجمانی کچھ اور ہے، بی جے پی اقتدار کے پانچ سالوں میں جمہوری نظام بہت بُری طریقے سے گھائل ہوا ہے، جسکا جیتا جاگتا ثبوت 2017 , 2018 میں ڈیموکریسی انڈیکس کی گرتی ہوئی رینکنگ جو 10 سے 42 پر آگئی اور economic intelegence group کے مطابق ہندوستان میں ہندوتوا کی وجہ سے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں و اختلاف رائے رکھنے والی تمام آوازوں کے خلاف تشدد بڑھا ہے، مذہبی فسادات میں شدت آئی ہے، چاہے وہ لوجہاد کا معاملہ ہو، گھر واپسی مہم یا گائے کے نام پہ موب لنچینگ کے واقعات، جبکہ ہندوستانی آئین کے مطابق کسی بھی مجرم کو عدالتی کارروائی کے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا اور جب تک عدالت میں جرم ثابت نہیں ہوجاتا اُس کو سزا نہیں دی جاسکتی، لیکن بارہا قانون کی خلاف ورزی کر کے کھلے عام دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، بےگناہوں کو جانور کے نام پہ قتل کیا جارہا ہے، عورتوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں اور ایسے خطرناک مجرموں یعنی بھاچپائی ریپسٹ منتریوں اور انکے چیلے چپاٹوں کو سزا کے طور پہ جیل میں “وی آئی پی” سہولیات فراہم کی جاتی ہیں پھر چند روز گذرنے کے بعد انہیں باعزت رہا کر کے اعزاز سے نواز کر اعلی عہدوں پر فائز کر دیا جاتا ہے، دوسری طرف محض شک کی بنا پر مسلم نوجوانوں کو سالوں سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے، اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں غنڈہ راج کس قدر بڑھ چکا ہے اور اس کی چپیٹ میں جمہوریت کی بنیاد کہلانے والے چار ستون مقننہ، منتظمہ، عدلیہ اور صحافت سبھی خطرے کے زدپر ہیں، پہلے تو چوتھا ستون کہلانے والی عام انسان کی آواز یعنی صحافت کو خرید لیا گیا، ڈرا دھمکا کر انکی آوازیں کچل دی گئی، کئی بےباک صحافیوں پہ جابجا حملے کروائے گئے، مدھیہ پردیش کے صحافی سندیپ شرما، نوین نشچل اور گوری لنکیش کی طرح کئی صحافیوں کا قتل کردیا گیا تاکہ پولس سے ہورہے جھوٹے اینکاؤنٹر، ریپ کے واقعات اور بھاجپائیوں کے کرتوت عام شہریوں تک نہ پہنچے اور انہیں کی طرح چند مٹھی بھر ایماندار پولس اہلکار بھی تشدد کا شکار بن رہے ہیں جیسے پہلوخان کے قتل کی جانچ کرنے والے بلندشہر کے انسپکٹر سوبودھ کمار کا قتل کردیا گیا، اترپردیش کے ایک ڈی ایس پی کے اوپر وحشی بھیڑ نے ہلا بول کر زخمی کردیا اور شرمناک سچائی تو یہ ہے کہ یہ درندہ صفت بھیڑئیے خود یوگی، مودی کی پیداوار ہیں جو اپنے آقاؤں کے اشاروں پر کسی پہ بھی جنگلی کتوں کی طرح جھپٹ پڑتے ہیں اور ان اندھے بھگتوں کا شکار ہوئے مظلوموں کو انصاف کے نام پہ صرف تاریخ پہ تاریخ دی جاتی ہے، کیونکہ ہندوستان میں کرپشن اتنا بڑھ چکا ہے کہ چپراسی سے لیکر اعلی عہدیدار سبھی رشوت خور ہو چکے ہیں اور بیچارے عام انسان کی زندگی ان آدم خوروں و رشوت خوروں کے پنجوں میں بُری طرح جکڑی ہوئی ہے، ہندوستان کا ہر عام و خاص شہری پریشان حال ہے۔

جن کی شان میں جئے جوان جئے کسان کا نعرہ بلند ہوا تھا اُن میں کوئی سرحد پر گولی کھا رہا ہے اور ان داتا کہلانے والا بھوکا پیاسا خودکشی کررہا ہے، ٦ملک کا مستقبل کہلانے والے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بےروزگار ہیں اور اس بےروزگاری کے چلتے کئی مودی بھگت بن کر گمراہ ہورہے ہیں تو کئی امبانی کے بچھائے گئے “جیو” کے جال میں پھنس کر ویگو، ٹک ٹاک جیسی عارضی دنیا میں غرق ہوکر بےمقصد زندگی گذار رہے ہیں، اور انکی اس غفلت کا پورا فائدہ بھاجپہ اٹھارہی ہے نوٹ بندی ، جی یس ٹی جیسے بےتکے قوانین لاگو کرکے عوام کو بیوقوف بنارہی ہے جس سے ہر انسان کا جینا محال ہوچکا ہے اور یہاں جمہوری نظام کی طاقت کہلانے والی عوام کو محض دھوکے، فریب کے سوا کچھ نہیں مل رہا “ای, وی ایم نامی بلا کا غلط استعمال کر ہندوستانی شہری سے حکمران چننے کا حق بھی چھین لیا گیا، جسکا خلاصہ “حال ہی میں سید شجاع نامی شخص نے لندن سے پریس کانفرنس کر کے جس خطرناک سازش کا پردہ فاش کیا ہے وہ کسی مسٹری تھریلر فلم سے کم نہیں ہے، سید شجاع کے خلاصے کے مطابق 2014 کے انتخابات میں مودی حکومت نے ” ای وی ایم” کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر دھوکے سے جیت کا سہرا اپنے سر باندھ لیا پھر اس راز کے فاش ہونے کے ڈر سے بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر گوپی ناتھ منڈے کا کار حادثہ کی شکل میں قتل کروایا، کہا یہ بھی جارہا ہے کہ گوپی ناتھ منڈے اس دھاندلی سے بخوبی واقف تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور افسوس 92 کے فساد میں نرسنگھار کرنے والا آدم خور دیش بھگتی کا سفید چولا پہنے ہندوستان کی 125 کڑور عوام کا حکمران بن گیا اور ان حالات کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم خود ہیں کیونکہ موروثی نظام کو ختم کرنے کی خاطر ہمارے رہنماؤں نے جمہوری نظام کی تشکیل تو کردی مگر آزاد شہری ہونے کے باوجود 72 سالوں سے ہم نے غلامی کی زندگی کو اپنے ماتھے پہ سجائے رکھا، پہلے تو 60 سال کانگریس کی غلامی کرتے رہے اور گاندھی خاندان کا وراثتی نظام ہندوستان سے چسپاں رہا جو ڈینگو مچھر بن کر ہمارا خون چوستے رہے بدلے میں ہم تھالی میں پروس کر انہیں ہندوستان دیتے رہے, پھر 2014 میں بی جے پی نامی نو سر والے ناگ نے پھن کھولا تو ہندوستان کی پہچان گنگا جمنی تہذیب میں نفرت کا زہر گھول کر ساری فضاؤں کو زہرآلود کردیا اور بار بار آزمائے جانے موقعہ دیکر دھوکہ کھانے کے باوجود ہم خواب غفلت میں سوتے رہے، ہمارا حال خرگوش اور گیڈر سا ہوچکا ہے جو حماقت، لالچ، اناپرستی و منافقانہ سوچ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں، جبکہ آئین کےمطابق اُن تمام حقوق پہ ہمارا بھی برابر کا حق ہے جنہیں حاصل کر کانگریس اور بھاچپائی ہم پہ راج کررہے ہیں۔

لیکن ہم حقدار ہوکر اپنا ہی حق حاصل کرنے کے لئے اوروں کے آگے گڑگڑا رہے ہیں، بھیک مانگ رہے ہیں جو ہمارے لئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے، ذرا سوچیں جب ہم بھیم راؤ امبیڈکر کو دستور ہند بنانے کا موقعہ دلواسکتے ہیں، کانگریس کو 60 سالوں تک اعلی کرسی پہ بٹھانے کا دم رکھتے ہیں تو اپنے وقار، اپنی آنے والی نسلوں اور ملک و ملت کے لئے ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے لحاظ سے کیوں ہم اپنی خود کی پہچان نہیں بناسکتے ؟

جمہوریت کو لیکر علامہ اقبال رح نے بہت پیاری بات کہی ہے:

“جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں لوگوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے”

 کیوں نہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر سیکولر تنظیموں و اقلیتوں کو اعتماد میں لیکر خود کی سیاسی جماعت کی تشکیل کی جائے, مشکل ضرور ہوگا مگر ناممکن نہیں، اور انشاءاللہ ایک وقت ایسا ضرور آئیگا جب یہی جماعت بھاجپا اور کانگریس دونوں کا مقابلہ کرے گی بشرط ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو درگذر کر آپس میں اتحاد قائم کرکے خود کو مظبوط بنانا پڑیگا، اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انکی راہیں ہموار کرنی ہونگی اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم مشاعروں, بےمطلب کے جلسے تقاریب کی قربانی دیکر وہی مال اور وقت تعلیمی نظام پہ خرچ کریں، تاکہ غربت کی وجہ سے کوئی بھی تعلیم سے محروم نہ رہے اور آنے والے دنوں میں ہمارے یہی نوجوان ڈاکٹر، انجنئیر، وکلاء، آئی اے ایس جیسے دیگر شعبوں میں جاکر اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکیں اور اُن کی کامیابی سے آنے والی نسلیں فیضیاب ہوں۔

جب تک ہماری بنیادی سطح مظبوط نہیں ہوگی، ہماری قوم تعلیم یافتہ نہیں ہوگی، سیاست سے لیکر ہر شعبے میں خود کو نہ دیکھے گی اُس وقت تک اونچی عمارت کی تشکیل محض خواب بنا رہیگا اور مزید کئی سالوں تک اسی طرح حقدار ہونے کے باوجود غلام بنکر مظلومیت کی زندگی گزارنی پڑیگی اور یہ لوگ ہندوستان کو پوری طرح سے کھوکھلا کرتے رہینگے پھر

نقشہ لیکر ہاتھ میں بچہ بھی ہوگا حیران

کہ کیسے دیمک کھا گئی اُس کا ہندوستان

یاد رہے ہمارے اندر غلاموں اور نکموں کا خون نہیں بلکہ بیباک جانباز رہنماؤں کا خون ہے جنہونے آزادی کے خاطر انگریزوں کے خلاف پہلا بگل بجایا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لیکر محمد اشفاق جیسے مجاہدوں نے اپنے خون کا آخری قطرہ تک ملک کے نام نچوڑ دیا اور افسوس کہ بدلے میں ہم نے اُن سبھی کی اقربانیوں کو فراموش کردیا ہے جانباز قوم کے ماتھے پہ مظلومیت کا بدنما داغ لگادیا ہے، بنا ریڈ کی ہڈی والے جاندار کی طرح رینگتی ہوئی زندگی کو اپنا مقدر بنالیا ہے، آزادی سے پہلے انگریزوں کے غلام کہلارہے تھے اور آج ہندوتوادیوں کے غلام بن کر ہر دن ظلم و تشدت کا شکار ہورہے ہیں اور اپنی خاموشی کو حکمت کا نام دے رہے ہیں۔

لعنت ہے ایسی زندگی پہ جو اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں پہ حکمت کی چادر اڑھادیتی ہے.

خدارا اس فریبی چادر کو اپنی عقل پر سے ہٹائیں خود کو غفلت سے جگائیں, اپنے ملک عزیز کو ان زہریلے ناگوں اور دیمک سے بچالیں ورنہ کل کو فضائیں بھی یہی پوچھینگی۔

مسلمان اور ہندو کی جان

کہاں گُم ہوا تمہارا ہندوستان

 لیکن اُس وقت ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچیگا , اسلئے وقت رہتے سنبھل جائیں اگر سچ میں وطن پرست ہیں تو اپنی سوچ کو بدلیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں, اپنی طاقت کو پہچانیں, جب تک ہم اپنی طاقت نہیں پہچانینگے تب تک ہمیں ہمارے حقوق نہیں ملینگے اور جب تک ہمارے حقوق نہیں ملینگے اُس وقت تک جمہوریت دوبارہ زندہ نہیں ہوگی اسلئے خود سے عہد کرتے ہوئے خود کے ساتھ ملک کے حالات بدلنے کی کوشش کریں اپنی قابلیت و صلاحیت کو ملک کی فلاح بہبودی اور آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے خاطر جھوک دیں کیونکہ سال میں ایک,دو دن ترنگا لہراکر حب الوطنی کے ترانے گنگنانے سے کوئی وطن پرست نہیں بن جاتا نہ ہی یوم جمہوریہ کو جشن منانے سے جمہوری نظام زندہ ہوگا اس لئے دوبارہ سر پہ کفن باندھ کے نکلو

پھر دیارِ ہند کو آباد کرنے کے لئے

جھوم کر اٹھو پھر وطن آزاد کرنے کے لئے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔