رہ گئی رسمِ اذاں، روح بلالی رنہ رہی

 مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اذان ایک اسلامی شعار ہے، یہ نماز کی دعوت او ر بلاوے کا ذریعہ اور ایک اہم عبادت کا دیباچہ ہے، اس لئے شریعت میں اس کی اہمیت وافادیت اور اس کے فضائل بہت زیادہ ہیں، لیکن موجودہ دور میں جہاں دیگر عبادات اور اسلامی شعار کا جنازہ نکلا ہوا ہے، اذا ن جیسے اہم شعار اسلام کی اہمیت وافادیت اور اس کے فضائل ومناقب بھی نگاہِ مسلم سے اوجھل ہوگئے ، آج کل مسجد میں بطور مؤذن کے انتخاب ان لوگوں کا کیا جاتا ہے، جو نہ اذان کے کلمات کاتلفظ صحیح کرسکتے ہیں، اور نہ اذان کا مکمل حق ادا کرسکتے ہیں ؟ جس طرح نماز اسلام کا ستون اور اہم عبادت ہے، اسی طرح اذان بھی جو نماز کی دعوت اور بلاوے کا ذریعہ ہے یہ بھی شریعت میں نہایت مہتم بالشان عمل ہے، اس کو اس طرح سرسری اور معمولی انداز میں اس شعار اسلام کی ادائیگی نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس کے لئے ہر کس وناکس کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور ہر شخص اذان دے، آج اذان جیسا مہتم بالشان عمل ایک رہ رسم بن کر رہ گیا، در اصل اس عمل اذن میں جو روح بلالی مطلوب تھی وہ آج نہ رہی، ہماری عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے جہاں دیگر اعمال میں قوت کا مطالبہ ہے وہیں اذان جیسے شعار اسلام میں روح اور حیات کی ضرورت ہے، اذان کے الفاظ میں تجوید، تلفظ وغیرہ شرعا مطلوب ہے۔ ان کا اہتمام چاہئے۔

اذان کی مشروعیت :

 اذان کہتے ہیں شرعا خبر دینے کو، اصطلاح شرع میں اذان کہتے ہیں اوقات مخصوصہ میں الفاظِ مخصوصہ کے ذریعے نماز کے لئے  پکارنا، نماز کے وقت کے آجانے کا اعلان کرنا۔

اس کی مشروعیت کی وجہ یہ بنی کہ جب پیغمبر علیہ السلام ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسا طریقہ ہو جس کے ذریعہ نماز کے وقت اور جماعت کے قیام کی اطلاع دی جاسکے، چنانچہ بعض لوگوں نے ناقوس (سنکھ) بجانے کا مشورہ دیا، کسی نے کہا بگل بجایا جائے، کسی نے آگ جلانے کا مشورہ دیا، تو کسی نے ڈھول بجانے کا، پیغمبر علیہ السلام نے بالترتیب ان چاروں طریقوں کو نصاری، یہود، مجوسیوں اور رومیوں کے طریق کی مشابہت کے باعث ناپسند فرمایا، کسی نے جھنڈا نصب کئے جانے کا مشورہ دیا اسے بھی آپ ﷺ نے اچھا باور نہ کیا، غرض یہ کہ کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا، اور پیغمبر علیہ السلام اور حضرات صحابہ فکرمندی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے، ان فکر مند اصحاب رسول میں ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زید ابن عبد ربہ بھی تھے، آپ نے اس فکر میں رات گذاری، رات میں ایک فرشتے کو خواب بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ خواب سچا ہے، ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وحی کے ذریعہ اس خواب کی اطلاع ہوئی، آپ نے عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ کو حکم دیا کہ اٹھو اور بلال کو اپنے ساتھ لے کر اذان دو، بلال رضی اللہ عنہ تمہارے  بتائے کلمات زور زور سے دہرائیں گے؛ کیوں کہ بلال کی آواز تمہاری آواز سے بلند ہے۔ (ابوداؤد، باب کیف الأذان، حدیث:۴۹۹)

اذان بلالی پر مدنی پروانوں کی آہ وفغاں

ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خواب میں نبی علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی، نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:  بلال! یہ کتنی سرد مہری ہے کہ تم ہمیں ملنے ہی نہیں آتے؟

یہ سنتے ہی حضرت بلال کی آنکھ کھل گئی، انہوں نے اسی وقت اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ : میں بس اسی وقت رات کو ہی سفر کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ اپنی اونٹنی پر روانہ ہوئے، مدینہ طیبہ پہنچے تو سب سے پہلے نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا، اس کے بعد مسجد نبوی میں نماز پڑھی، دن ہواتو صحابہ کرام کے دل میں خیال ہوا کہ کیوں نہ آج حضرت بلال کی اذان سنیں، چنانچہ کئی صحابہ نے ان کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ میں نہیں سنا سکتا؛ کیوں کہ اس کی قوت برداشت مجھ میں نہیں، ان میں بعض حضرات نے حسنین کریمین سے کہہ دیا کہ آپ بلال سے فرمائش کریں، ان کا اپنا دل بھی چاہتا تھا، اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی، چنانچہ حضرت بلال نے اذان دینی شروع کی تو حضرات صحابہ نے وہ اذان سنی جو نبی علیہ السلام کے دور میں سنا کرتے تھے، تو ان کے دل قابومیں نہ رہے حتی کہ گھروں کی مستورات نے جب یہ آواز سنی تو وہ بھی روتی ہوئی گھروں سے باہر نکلیں اور مسجد نبوی کے باہر ہجوم ہوگیا۔

اسی کو کسی شاعر نے یوں کہا ہے :

چمکتا رہے تیرے روضہ کا منظر

سلامت رہے، ـتیرے روضہ کی جالی

ہمیں بھی عطا ہو وہ جذب ابو ذر

ہمیں بھی عطا وہ روح بلالی

اذان کے فضائل :

جب اذان میں یہ روح وکیف ہوسکتا ہے تو کیوں کر یہ فضائل اذان کے نہ ہو۔

 ایک روایت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے، اتنی ہی لمبی، چوڑی اس کے لئے مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اور جس تر یا خشک چیز تک وہ آواز پہنچتی ہے وہ سب اشیاء اس کے لئے قیامت میں خیر پر شہادت دیں گی۔ ( ابوداؤد: باب رفع الصوت بالأذان، حدیث: ۵۱۵)۔

  اور ایک روایت میں فرمایا: اگر تمہیں اذان کی فضیلت اور خیر وبرکت کا علم ہوجائے تو تم اذان دینے کے لئے قرعہ اندازی کرنے لگوگے( بخاری: باب القرعۃ فی المشکلات، حدیث: ۲۶۸۹)

  اور ایک روایت میں فرمایا: مؤذن حضرات میدانِ محشر میں سب سے لمبی گردن والے ہوں گے (مسلم: باب فضل الأذان، حدیث: ۳۸۷)

اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے شارحین نے کہا ہے کہ : وہ وفورِ شوق میں اللہ کی رحمت کی طرف بار بار گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے، اس لئے کہ انہیں زیادتی ثواب کی امید ہوگی، اور علماء نے فرمایا کہ : واقعۃ ان کی گردنیں اونچی کردی جائیں گی، تاکہ وہ گھٹن سے محفوظ رہیں، اور بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ لمبی گردن ہونے ان کی سرداری اور بزرگی مراد ہے۔ ( شرح النووی علی صحیح مسلم : ۱؍۱۶۷)

 ایک روایت میں فرمایا : تین اشخاص میدانِ محشر میں ہر قسم کی ہولناکی سے محفوظ رہیں گے او ر ان کو اعزاز واکرام کے ساتھ مشک کے ڈھیروں پر بٹھایا جائے گا، ان میں وہ مؤذن بھی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے پنج وقتہ نمازوں کی اذان دیا کرتے تھے ( (الترغیب والترہیب للمنذری، حدیث: ۳۸۰)

 ایک روایت میں ہے کہ : مؤذن کو شہید فی سبیل اللہ کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ‘‘ (الترغیب والترہیب، حدیث: ۳۸۵)

یہی وجہ تھی کہ حضرات صحابہ کرام یہ تمنا فرماتے تھے کہ کاش نبی کریم ﷺ نے ان کو اور ان کے اہل خاندان کو اذان دینے پر مامور کیا ہوتا، تاکہ وہ بھی ان بشارتوں کے مستحق ہوسکیں ( مجمع الزوائد: ۱؍۳۲۶)

چنانچہ حضرت سعد بن وقاص فرمایا کرتے تھے : ’’ مجھے پابندی سے اذان دینے پر قدرت حاصل ہونا، حج وعمرہ اور جہاد سے زیادہ پسند ہے ‘‘ اسی طرح کا قول حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بھی منقول ہے ( مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: ۲۳۵۰)

مؤذن کسے بنایا جائے ؟

اسی لئے شریعت نے اذان کے اس مہتم بالشان اور فضائل ومناقب کے حامل عمل کے سلسلے میں یہ بھی بتلایا  ہے کہ  اذان کے لئے کس کی تعیین کی جائے، مؤذن کیسا ہو، وہ کن اوصاف کا حامل ہو ؟

احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ ایسے شخص کو موذن ہونا چاہئے جو باشرع، امانت ودیانت سے متصف اور تقوی وطہارت کے اعلی وافضل معیار پرفائز ہو، اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض انصاری حضرات سے فرمایا کہ : ’’ تم اپنا مؤذن ایسے شخص کو مقرر کرنا جو تم میں سب سے افضل ‘‘ ( السنن الکبری للبیہقی، حدیث: ۲۰۰۱)

اور ایک روایت میں فرمایا : ’’ امام ضامن ہے، اور مؤذن امین ہے، اللہ تعالیٰ امام کو سیدھی راہ پر گامزن فرمائے اور مؤذن کو دامن عفو میں جگہ مرحمت فرمائے (السنن الکبری للبیہقی، حدیث: ۱۹۹۷)

قیس بن حازم کہتے ہیں کہ : ہم امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ : ’’ تمہارے مؤذن کون لوگ ہیں ‘‘ ؟ ہم نے جواب دیا کہ زیادہ تر مؤذن یا ت وغلام ہیں یا آزاد کردہ موالی ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر افسوس کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : ’’ یہ تو تمہارے اندر بڑا نقص ہے، اذان تو اتنی شرافت کی چیز ہے کہ اگر مجھے خلافت کی مصروفیت نہ ہوتی تو میں پنچ وقتہ نمازں کے لئے اذان دیا کرتا ’’ لو أطقت الأذان مع الخلیفۃ لأذنت‘‘ (السنن الکبری للبیہقی، حدیث: ۲۰۰۲)

اس لئے تاتارخانیہ میں خلاصہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ : مؤذن ان اوصاف کا حامل ہو، :’’مرد، عقل مند، نیک، متقی، سنت کا جانکار اور اس کا متبع ہو ‘‘ اور کافی میں ہے : ’ ’بہتر یہ ہے کہ علماء ہی اذان دیں ‘‘ یعقوب کہتے ہیں : ’’ میں نے (اذان کی عظمت کی وجہ سے) امام ابو حنیفہ کو دیکھا ہے کہ وہ مغرب میں بذات خود اذان دیتے اور اقامت کہتے بیٹھتے نہیں، اس سے پتہ چلا کہ مفتی کو ہی مؤذن ہونا چاہئے ( الفتاوی التاتارخانیہ : ۳؍۱۴۴)

اسی لئے فرمایا کہ : موذن کے لئے لازم ہے کہ وہ دین دار ہو، مسائل سے واقف ہو اور ذی ہوش ہو، نماز کے وقت سے باخبر ہو، جن میں یہ شرطیں نہ ہو ں ان کا اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ کسی جنبی یا بدکار کا اذان دینا (فتاوی عالمگیری : ۱؍۵۳، ۵۴، کوئٹہ، پاکستان )

اذان میں خوش آوازی بھی مطلوب ہے، جیسا کہ قرآن کریم کے پڑھنے میں خوش آوازی مطلوب ومحمود ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دی ہے، لیکن یہ خوش آوازی راگ وتطویر کے درجے تک نہ پہنچ جائے، اس لئے موذن خوش الحان بھی ہے۔

اذان میں لاؤد اسپیکر کا استعمال:

اذان میں آواز کو بلند کرنا مطلوب ومقصود ہے، اسی مقصد سے لاؤڈ اسپیکر استعمال کیا جاتا ہے؛ تاہم اس کا استعمال شرعا لازم اور ضروری نہیں، پس جہاں ضرورت نہ ہو یا اور کوئی مانع در پیش ہو، فتنہ اور خون ریزی کا اندیشہ ہو تو تو وہاں اذان میں لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں (آلات جدیدۃ کے شرعی احکام : ۵۵)  ایسے معاملات میں جذباتیت کے بجائے حکمت وتدبر سے کام لینا بہتر ہے۔

اذان اور ہمارا موجودہ معاشرہ :

اذان جوکہ ایک شعار اسلام ہے، اس کے حوالے سے لاپرواہی اور غفلت عام ہے، اس کے فضائل جیسا کہ مذکور ہوا بے انتہا ہیں، اس لئے حضرات صحابہ مؤذن ہونے کی تمنا کرتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کو جب یہ پتہ چلاکہ اذان غلام اور موالی کہتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ تمہارے اندر بڑی نقص اور کمی ہے کہ اذان جیسا کہ شریف عمل ان کے حوالے کیا جائے، اگر مجھے خلافت کی مصروفیت نہ ہوتی میں خود اذان دیتا حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بذات خود مغرب کی اذان دے کر اقامت کہتے ہیں، ان فضائل اور اذان کے تعلق سے واقعات کی روشنی میں ہمارے احوال کا جائز ہ لینے کی ضرورت ہے کہ مسجدیں تو بہت عالی شان ہوتی ہیں، اس کے رنگ روغن کے لئے بے تحاشا روپیہ پیسہ صرف کیا جاتا ہے، ضرورت کی حدتک تو درست ہے، لیکن بے جا تزئین کا اہتمام تو کیاجاتا ہے ؛ لیکن اچھے عالم اور حافظ کو اچھی تنخواہ پر اذان پر مامور نہیں کیا جاتا، علماء اور حفاظ کو معاشرہ کوئی اہمیت ہی دینا نہیں چاہتا، پھر ایسی صورتحال میں کئی ریٹائرڈ شخص یا معمولی آدمی کو اذان کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، خواہ اس کے الفاظ اور تجوید اور حروف کی ادائیگی اور خوش آوازی سے وہ بالکل  عاری کیوں نہ ہو، اصل معاشرے میں اس عمل کو اس قدر حقیر اور معمولی کردیا گیا کہ کوئی عالم اور حافظ بھی بحیثیت مؤذن تقریری پر راضی نہیں ہوتا، اس لئے یہ علماء اور حفاظ کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے، اور ساتھ ہی معاشرہ نے اس اذان کے عمل کو بھی اس قدر حقیر درجے میں پہنچایا کہ مؤذن کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی؛ اس لئے اس شعار اسلام کی اہمیت وافادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔