ماہ ربیع الاول کے تقاضے اور ہماری زندگی

مولانا غیو راحمد قاسمی

ربیع الاول امت مسلمہ کے لئے بڑی مسرت وخوشی کا مہینہ ہے اسی ماہ مبارک میں فخرکائنات محبوب خدا حضرت محمد مصطفیؐ کی آمد ہوئی ماہ ربیع الاول کی خصوصیت کے لئے نبی آخر الزماں کی تشریف آوری ہی کافی ہے جس ذات گرامی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں پھیلی ہوئی گمراہیوں اور جہالتوں سے پاک کرنے کے مبعوث فرمایا او رآپ کو تمام اوصاف حمیدہ سے بدرجہ اتم متصف کیاگیا پوری دنیا کے لئے نمونہ بن کر آئے آپ ہر شعبہ میں روج کمال پر فائز ہیں کہ نسل انسانی میں آپ جیسا کوئی ہے نہ آئندہ ہوگا اللہ تعالیٰ نے آ پ پر ہی نبوت کا اختتام فرماکر آپ کو خاتم النبی ہونے کا شرف بخشا اللہ رب العزت نے دین کے تمام ارکان فرائض حدود وقوانین حلال وحرام سب کچھ اپنے محبوب پر نازل فرمایا نبی اکرمؐ نے تمام احکامات کو سکھلادئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کن کامو ں میں ہے اور ناراضگی کن امور سے ہوتی ہے عقیدہ کیسا ہو نماز کیسی ہو روزہ کس طرح رکھنا ہے حج عمرہ ادا کرنے کی کیا شرائط واحکامات ہیں زکوٰۃ وصدقات کن پر واجب ہے او رکن لوگوں پر خرچ کرنی ہے معاشرہ میں رہتے ہوئے اسلامی اخلاق واطوار کو اپنا وطیرہ بنانا ہے۔

آنحضرت ؐ کے ساتھ اخلاص و فدائیت

رسول کریمؐ کے ساتھ صحابہ کرام کو جو عشق اور تعلق فدائیت تھا اس کی نظیر تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ صرف چند ایک واقعات درج کر کے بتایا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ کے صحابہؓ  آپ پر فدا ہونے کے لیے ہر وقت اسی طرح تیار رہتے تھے جس طرح پروانہ شمع پر۔ مردوں کی فدائیت تو کجا مسلم خواتین کو بھی آنحضرتؐ کے ساتھ ایسا بے نظیر اخلاص تھا کہ وہ حضور کے وجود کو اپنے تمام اقرباء سے زیادہ قیمتی تصور کرتی تھیں۔ جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتؐ بمع صحابہ کرام کے شام کے قریب مدینہ کو واپس ہوئے۔ چونکہ اس جنگ میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ آنحضرتؐ نے شہادت پائی ہے اس لیے مدینہ کی عورتیں عالم گھبراہٹ میں گھروں سے نکل کر رستہ پر کھڑی تھیں۔ اور عالم بے تابی میں منہ اٹھا اٹھاکر دیکھ رہی تھیں کہ اس طرف سے کوئی آتا ہوا دکھائی دے اور وہ آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کریں۔ ایک انصاری عورت نے ایک شخص سے جو اسے احد سے واپس آتا ہوا دکھائی دیا آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کیا۔ اس کا دل چونکہ مطمئن تھا اور جانتا تھا کہ حضور صحیح و سالم ہیں۔ اس نے اس عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ تمہارا باپ شہید ہوگیاہے۔ لیکن جس طرح اس مرد نے آنحضرتؐ کے متعلق کوئی تشویش نہ ہونے کی وجہ سے اس عورت کے سوال کی طرف کوئی توجہ نہ دی اسی طرح اس عورت نے اپنی بے تابی کے باعث اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر حضور علیہ اسلام کے متعلق پوچھا۔ اس نے پھر اپنے اطمینان قلب کے باعث اس کی تشویش کا اندازہ نہ کرتے ہوئے اسے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ کہا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو چکاہے۔ مگر اسکے نزدیک یہ خبر بھی چنداں اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اس کی نظر میں باپ اور بھائی بہن سب اس وقت ہیچ نظر آرہے تھے اور ایک ہی خیال تھا کہ اس محبوب حقیقی کی حالت سے آگاہ ہو۔ اس لیے اس نے اس خبر کو بھی نہایت بے التفاتی سے سنا اور نہایت بے تابی کے ساتھ پھر وہی سوال دھرایا۔ یعنی آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کیا کہ آپؐ کیسے ہیں لیکن اب بھی اس کو اس بے چاری کے جذبات کا احسا س نہ ہوسکا۔ اور بجائے اس کے کہ اسے آنحضرتؐ کی خیریت کی خبر سنا کر اس کے دل کو راحت پہنچاتا اسے اس کے خاوند کی شہادت کی اندوہناک خبرسنائی۔ مگر اس خبر نے بھی جو اس کے خرمن امن کو جلا کر خاکستر کر دینے کے لیے کافی تھی اس شمع نبوت کے پروانہ پر کوئی اثر نہ کیااور اس کی توجہ کو نہ ہٹایا۔ اس نے پھر نہایت بے تابی کے ساتھ آنحضرتؐ کی خیریت دریافت کی۔ اور بے چین ہو کر بولی کہ مجھے ان خبروں کی ضرورت نہیں۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون مرا، کون جیتا ہے مجھے تو صرف یہ بتاؤ کہ رسول خدا ؐ کا کیا حال ہے۔ آخر جب اس کے پاس اس کے متعلقین کے تعلق کوئی اور خبر نہ رہی تو اس نے اسے بتایا کہ آنحضرتؐ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں اور صحیح و سالم تشریف لا رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر اس کی جان میں جان آئی او باوجود یکہ ایک لمحہ پہلے وہ اپنے تمام خاندان کی تباہی کی خبر سن چکی تھی لیکن آنحضرتؐ کی سلامتی کی خبر نے تمام صدمات کو اس کے دل سے محو کردیا۔ اورایک ایسی راحت اور تسکین کی لہر اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی کہ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ کل مصیب جلل۔ یعنی اگر آپ زند ہ ہیں تو پھر سب مصائب ہیچ ہیں۔ صحابہ کرام کا آنحضرتؐ کے ساتھ عشق کا اندازہ ایک اور واقعہ سے کریں۔ غزوہ احد میں آنحضرتؐ کاچہرہ مبارک زخمی ہوا تو حضرت مالک بن سنان نے بڑھ کر خون کو چوسا اور ادب کے خیال سے چوسے ہوئے خون کو زمین پر پھینکنا گوارا نہ کیا بلکہ اسے پی گئے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھنا چاہے جس کا خون میرے خون سے آمیز ہو تو وہ مالک بن سنان کو دیکھے۔ اس کے بعد حضرت مالک نے نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہادت حاصل کی۔

ایمان سے بھرپور ایک صحابی رسول کا قصہ

سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اْس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اْس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اْس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اْسے نوجوان کی شکایت سْنائی جسے اْس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اْسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اْس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اْس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دْنیا کیایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سْن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اْس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔ مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح اْس آدمی کی طرف پلٹے اور اْس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اْس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔ ابالداحداح نے اْس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اْس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اْس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟

اْس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اْسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں ؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔ ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اْس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اْنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء￿  کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اْن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔

ابالداحداح وہاں سے اْٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چْھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اْس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کْچھ؟ ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ دنیا کی قْربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دْنیا میں اْٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔ ۔ ۔ ۔

یہودی لڑکا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ (تصدیق)

یک یہودی نے اپنے بیٹے کو کہا: جائو سودالے آئو تو وہ گیا، لڑکے راستے سے گذررہا تھا کہ اس کی نظر حضورؐ پر پڑی او رحضورؐ کی نظر بھی اس لڑکے پر پڑی، وہ وہیں بیٹھ گیا اور وہیں بیٹھا رہ گیا اور دیر ہوگئی۔ وہ یہودی کبھی اندر جاتا کبھی باہر آتا کہ لڑکا کہاں رہ گیا، آیا نہیں ابھی تک، سورج غروب ہوگیا مغرب کی نماز ہوگئی، شام کو گھر گیا باپ ے پوچھا: ارے نادان اتنی تاخیر کی؟ باپ بہت غصے میں کہ بڑا نادان او رپاگل ہے میں نے کہا تھا جلدی آنا تم اتنی دیر کرکے آئے ہو اور تمہیں سواد لینے بھیجا تھا تم خالی ہاتھ واپس آگئے ہو، سودا کہاں ہے؟ سواد کہا ں ہے؟

بیٹا بولا: سودا تو میں خرید چکا ہوں۔

باپ: کیا پاگل آدمی ہو تم؟ میں نے تجھے سودا لینے بھیجا تھا، سودا تمہارے پاس ہے نہیں، او رکہتا ہے خرید چکا ہوں۔

بیٹا کہتا ہے: بابا! یقین کریں، سودا خرید آیاہوں۔

باپ بولا: تو دکھا کہاں ہے؟

بیٹے نے کہا: کاش تیرے پاس وہ آنکھ ہوتی تو تجھے دکھاتا میرا سودا کیا ہے!

میرے بابا! میں تمہیں کیا بتائوں میں کیا سودا خرید لایاہوں ؟

باپ نے بولا: چل چھوڑ رہنے دے، وہ لڑکا روز نبی اے رحمتؐ کی خدمت میں بیٹھنے لگا۔ وہ یہودی کا اکلوتا بیٹا تھا، بہت پیارا تھا، اس لئے کچھ نہ  کہا، کچھ دنوں بعد لڑکا بہت بیمار ہوگیا، کافی دن بیمار رہا، اتنا بیمار ہوا کہ کمزوری اتنی ہوگئی کروٹ لینا مشکل ہوچکی تھی، اور پھر قریب المرگ ہوگیا، یہودی بہت پریشان تھا، پھر بھاگا گیا حضورؐ کی بارگاہ میں، اور بولا میں آپ کے پاس آیا ہوں، آپ تو جانتے ہی ہیں میں یہودی ہوں مجھے آپ سے کوئی اتفاق نہیں، مگر میرا لڑکا آپ سے دل دے گیا ہے، اور قریب المرگ ہے، آپ کو رات دن یاد کررہا ہے، کیا ممکن ہے آپ اپنے اس دشمن کے گھر آکر اپنے معشوق عاشق کو ایک نظر دیکھنا پسند کروگے؟ کیا یہ آرزو پوری ہوجائے گی کہ وہ مرنے سے پہلے آپؐ کا دیدار کرلے؟ وہ کسی اور چیز کی آرزو نہیں کررہاہے آپؐ نے یہ نہیں فرمایا میں جائوں گا یا نہیں جائوں گا۔ آپؐ نے فرمایا: ابوبکر! اٹھو، عمر! اٹھو، علی! چلو، چلیں، عثمان! آئو، باقی بھی جو سب ہیں چلیں آپ کے عاشق کا دیدارہم بھی کریں، اپنا دیدار اسے دیتے ہیں۔ آخری لمحہ ہے، آنکھیں بند کرنے سے پہلے اسے ہم کچھ دینا چاہتے ہیں، چلو چلتے ہیں، یہودی کے گھر پہنچے تو لڑکے کی آنکھیں بند تھیں، حضورؐ کا سراپا کرم ہی کرم ہے، لڑکے کی پیشانی پر آپؐ نے اپنا دست اقدس رکھا، لڑکے کی آنکھیں کھل گئیں، جیسے زندگی لوٹ آئی ہو، جسم میں طاقت آگئی، ناتوانی میں جوانی آئی، آنکھیں کھولیں، رخ مصطفیؐ پر نظر پڑی، ہلکی سی چہرے پر مسکراہٹ آئی، لب کھل گئے، مسکراہٹ پھیل گئی، حضورؐ نے فرمایا: بس! اب کلمہ پڑھ لو، لڑکا اپنے باپ کا منہ تکنے لگا تو وہ یہودی بولا: میرا منہ کیا تکتا ہے؟ ابو القاسم (محمد ابن عبد اللہؐ) جو کہتے ہیں کرلو۔

لڑکا بولا: یا رسول اللہ!ؐ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ! آپؐ نے فرمایا: بس تم کلمہ پڑھو! میں جانو اور جنت جانے، تم میرے ہو، جائو جنت بھی تو میری ہے، جنت سے لے جانا یہ میرا کام ہے۔ لڑکے نے کلمہ پڑھا، جب اس کے منہ سے نکلا ’’محمد رسول اللہ ’’روح باہر نکل گئی، کلمے کا نور اندر چلا گیا، آنکھیں بند ہوئیں، لب خاموش ہوئے، اس لڑکے کا باپ وہ یہودی بولا: محمد! (ﷺ) میں اور آپ دونوں مخالف ہیں، اس لئے یہ لڑکا اب میرا نہیں رہا، اب یہ اسلام کی مقدس امانت ہے، کاشانہ اے نبوتؐ سے اس کا جنازہ ٹھے، تب ہی اس کی عزت ہے، لے جائو اس کو پھر آپؐ نے فرمایا: صدیق! اٹھائو، عمر اٹھائو، عثمان! آگے بڑھو، بلال، آئو تو سبھی، علی! چلو دو کندھا، سب اٹھائو اسے، آقا علیہ السلام جب یہودی کے گھر سے نکلے تو یہ فرماتے جارہے تھے: اس اللہ کا شکر ہے جس نے میرے صدقے سے اس بندے کو بخش دیا، اس اللہ کا شکر ہے جس نے میرے صدقے سے اس بندے کو بخش دیا، (اللہ ہو اکثر! کیا مقام ہوگا اس عاشق کی میت کا جس کو علی، عثمان، ابوبکر صدیق، عمر بن خطاب، بلال حبشی ؓ جیسی مشہور شخصیات کندھا دے کر لے جارہے ہوں، اور آگے آگے محمد مصطفیؐ ہوں )

قبر تیار ہوئی، کفن پہنایا گیا، حضورؐ قبر کے اند ر تشریف لے گئے، قبر میں کھڑے ہوئے، اور کافی دیر کھڑے رہے، اور پھر اپنے ہاتھوں سے اس عاشق کی میت کو اندر اتارا، آپ ﷺ قبر کے اندر پنجوں کے بل چل رہے تھے، مکمل پائو ں مبارک نہیں رکھ رہے تھے، کافی دیر کے بعد آپﷺ قبر سے باہر آئے تو چہرہ پر تھوڑی زردی چھائی تھی، تھکن محسوس ہوئی، (اللہ ہو غنی) صحابہ پوچھتے ہیں : حضورﷺ! یہ کیا ماجرا ہے؟ پہلے تو یہ بتائے آپ ﷺ نے قبر میں پائوں مبارک مکمل کیوں نہیں رکھا؟ آپﷺ پنجوں کے بل کیوں چلتے رہے؟ تو کریم آقاﷺ نے فرمایا: قبر کے اندر بے پناہ فرشتے آئے ہوئے تھے، اس لئے مجھے جہاں جگہ ملتی تھی، میں پنجہ ہی رکھتا تھا، پائوں رکھنے کی جگہ نہیں تھی، میں نہیں چاہتا تھا کسی فرشتے کے پائوں پر میرا پائو ں آجائے، پھر صاحبہ نے پوچھا: آپﷺ قبر کے اندر کیوں گئے؟ ہمیں کہتے، ہم چلے جاتے! (تو سبحان اللہ خوبصورت جواب دیا) کہ میں نے اس لڑکے کو بولا تھانا! تیری قبر کو جنت بنائوں گا تو اب اسی قبر کو جنت بنانے قبر کے اندر چلا گیاتھا۔ تو پھر حضورﷺ اتنے تھکے ہوئے کیوں ہیں ؟ تھکا اس لئے ہوں کہ فرشتے اور حوریں اس عاشق کے دیدار کے لئے آرہے تھے، او رمیرے وجود سے لگ لگ کر گذر رہے تھے، ان کی وجہ سے تھک گیاہوں۔ (سنن ابو دائو، جلد:۳، ص:۱۸۵/مسند احمد بن حنبل، جلد۳، ص:۱۷۵/حافظ ابن کثیر: فی تفسیرابن کثیر)

مسلمان اپنی زندگی میں آنے والے تمام معاملات میں اسوہ نبی کو شامل کرکے ہی خوشگوار اور عزت کی زندگی گذار سکتے ہیں ہرمسلمان خواص سے عوام تک کی ذمہ داری اور عقیدت ومحبت رسول کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو رسول پاک کی سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم مصمم کرلیں او رہر منزل پر ہر موقعہ پر انہیں سنتوں کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئیں دل، زبان اور عمل اور میں یکسانیت پیدا کریں۔ ریاکاری ونام ونمود سے بچیں، خلوص وللہیت کو اپنالیں۔ ایثار وقربانی پر کمربستہ رہیں، صبر واستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ صورت وشکل وضع قطع کو اسلامی تہذیب کا آئینہ نہ دیں۔ کسی بھی غریب ناچار مجبور کی طاقت بھر مدد کریں۔ مظلوم کی حمایت، حق کی پاسداری کریں، علماء کرام، حفاظ، مساجد کے اماموں کی عزت واحترام کریں۔ تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور حصہ لیں۔ اچھی اور نیک باتیں بلا جھجھک مگر شفقت و احترام کے ساتھ دوسروں کو بتائیں۔ اختلاف وانتشار سے بچنے اور بچانے کی پوری کوشش کریں۔ دینی اسلامی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کرکے علم میں اضافہ کریں۔ بے حیائی، بے پردگی، اور عریانیت سے احتراز لازم رکھیں۔ اولاد کو دینی تعلیم بھرپور دیں۔ جہاں کہیں رہیں جس مجلس میں رہیں جس سوسائٹی میں رہیں مگر ایک سچے مسلمان بن کر رہیں اور اسلامی تعلیمات اداب واخلاق کی عملی وزبانی تبلیغ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ موجودہ حالات میں ہماری دلت ورسوائی کا سبب تعلیمات نبوی سے انحراف کا نتیجہ ہے محبت رسول اور عشق نبی کے دعویدار اپنی زندگیوں میں اسو نبی شامل کرکے ہی حقیقی محبت اور عشق محمدی کا لطف اٹھاسکتے ہیں محسن کائنات نے فرمایا کہ۔ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی او رجس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگے۔ اتباع سنت او راطاعت رسول صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت رسول پوری زندگی پر محیط ہے نماز کی ادا ئیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اس طرح اخلاق وکردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے جس طرح روزے میں حج اور عمرہ میں مکمل اتباع سنت مطلوب ہے تمام حالات میں اتباع رسول ہی مقصود ہے شادی بیاہ خوشی وغمی ایصال ثواب زیارت قبور حقوق العباد حقوق اللہ کی ادائیگی میں طریقہ  نبی لازم ہے۔ ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرے کہ ہمارے شب وروز میں عشق نبی کس قدر اہمیت رکھتا ہے ماہ ربیع الاول ہر سال ہمیں کیا پیغام دیتا ہے او رہم اس پیغام کو کتنی  اہمیت کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں آپؐ کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں بے خوف وخطر زندگی گذاری جاسکتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ ہدایت کی توفیق دے۔ آمین۔ حضور اکرمؐ کی مکی زندگی ومدنی زندگی اگر سامنے رہے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر عید میلاد النبی کے موقعہ پر تمام مسلمانوں کو نیا عزم نیا حوصلہ اور عملی جذبہ عطا فرما کر سنت رسول پاک کا آئینہ بنائے آمین۔ ثم آمین۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جب تک ہم دین اسلام کی اصل روح کو پہچان کر اپنی زندگی کا رخ نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک طریقے کی طرف نہیں موڑ دیتے محض زبانی دعوے اور لہک لہک کر کلام پڑھنا ہمیں شاید کامیابی کی طرف نہیں لے جائے گا ،احکامات واضح ہیں- بنیادی کام جو کرنے کے ہیں یعنی جھوٹ سے اجتناب، سچائی کا ساتھ ،فحش کلام سے اجتناب چغلی غیبت ہیرا پھیری سے دوری نماز روزہ مال ہو تو زکوات استطاعت ہو تو حج اتنے واضح احکامات کے باوجود ہم ان سب برائیوں میں لتھڑے ہوئے ہیں_ نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اگر محبت میں سچائی ہے تو سب سے پہلا کام جو کرنے کا ہےوہ یہ کہ انسان اپنے آپ پر سنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاگو کرے ،انسان کا ظاہر اور باطن حب رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ ہونا چاہیے_ انسان نا نماز پنچگانہ ادا کرے نا اخلاق اعلی ہو، نا روزے رکھے، نا زکوات دے، استطاعت ہوتے ہوئے حج نا کرے، اپنے چہرے پر سنت رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی داڑھی رکھتے ہوئے شرم محسوس کرے اور جب خاندان ،کنبے، برادری کی بات کو ترجیح دے کر سنتوں کا استھزا کیا جائے تو پھر سال کے آخر میں دو چار قصیدے پڑھ کر یہ سوچنا کہ میں نے محبت کا حق ادا کردیا، ایسی محبت ہمیں اخروی زندگی میں کام نہیں دےگی_ کفار مکہ ہر برائی اور کفر میں لتھڑے ہونے کے باوجود نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق سچا اور امین امانت دار کہتے تھے لیکن ان کا صرف یہ اعتراف کافی نہیں تھا.
    سب سے پہلے اپنی بشری کمزوریوں کی وجہ سے کوتاہیوں کی اصلاح کی کوشش ہے . اپنے آپ کا محاسبہ اورخود احتسابی کریں، موت ایک گمنام ساتھی ہے اس سے پہلے کہ انسان یہ حسرت کرے کہ کاش موت میں تاخیر ہوتی تو میں صدقہ کرتا اچھے کام کرتا لیکن جب کسی کا وقت پورا ہو جائے گا ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا اس وقت کی تیاری کے لئے توبہ نصوح کر کے اپنی زندگی کا رخ بدلنا ہو گا_

تبصرے بند ہیں۔