جھیٖل میں ایک کنکر ہوں میں

افتخار راغبؔ

جھیٖل میں ایک کنکر ہوں میں

ہاں نہیں کے برابر ہوں میں

جنوری کے ہیں سب منتظر

کون پوچھے،  دسمبر ہوں میں

نام پھر اُس نے پوچھا مرا

زعم تھا اب تو ازبر ہوں

میں زمانے سے واقف نہیں

ایسا لگتا ہے مصدر ہوں میں

دل کے اندر ہے میرا وطن

لوگ کہتے ہیں باہر ہوں میں

ہو کرم اے مرے بت تراش

سب کی نظروں میں پتھّر ہوں میں

میری رگ رگ میں اک اضطراب

کیا کروں عشق پیکر ہوں میں

بدرِ الفت کو چھونے کی آس

پر عطا ہو کہ بے پر ہوں میں

خوش گمانی کی راغبؔ ہو خیر

اُن کی چاہت کا محور ہوں میں

تبصرے بند ہیں۔