مسلمان سیاسی سطح پر کتنے متحد ہیں؟

ابوفہد

ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ مقامی اور عالمگیر سطح پر مسلمانوں کے درمیان مسلکی اتحاد پر خوب بات ہوئی ہے، مگر سیاسی، سماجی اور اقتصادی سطح پر اتحادکے تعلق سے زیادہ بات نہیں ہوئی، نہ ہی عالمی سطح پر اس حوالے سے گفتگو اور مباحث کا کوئی سلسلہ شروع ہوسکا اور نہ  ہی علاقائی سطح پر کچھ ہوا، اتفاق تو خیر بہت دور کی بات ہے، جو قریب کی بات ہے یعنی گفتگو کا آغاز وہ بھی نہ ہوسکا۔ پتہ نہیں کیوں اس موضوع کو اہمیت نہیں دی گئی۔ لہذا جن لوگوں نے بھی زوال امت پر مضامین اورکتابیں لکھیں ہیں ان سب نے مسلکی اختلافات کو ہی سامنے رکھ کر یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ چونکہ مذہبی قیادت نے فقہ اور عقائد کے باب میں بہت سارے اختلافات پیدا کرلئے اور یوں امت مختلف گروہوں میں بٹ کر منتشر ہوئی اور زوال اس کا مقدر ہوا۔ ویسے یہ بات درست بھی ہے، کیونکہ مسلکی منافرت اور اختلاف کے جو نتائج آج پانچ چھے صدیوں بعد ظاہر ہورہے ہیں اور جس طرح ناقابل برداشت صورت حال کے ساتھ ظاہر ہورہے ہیں، متقدمین کو شاید اس کا اندازہ بھی نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج ہم اس بات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگا سکتے کہ امت کے باہمی اختلافات، اگر اسی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتے اور پھیلتے رہے تو آنے والی چند صدیوں میں امت کو کس قسم کی صورت حال سے دوچار کریں گے۔ کسی بھیانک زلزلے جیسی صورت حال سے یا قیام قیامت جیسی کسی صورت حال سے۔ یقینا آج ہم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔

مصیبت تو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ مسلکی اختلافات محض زبانی وکلامی حد بندیوں تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ ان کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پرپڑے اور اس طرح پڑے کہ سنبھلنا مشکل ہوگیا۔ لہذا مسجدیں متفرق ہوگئیں، مدرسے مختلف ہوگئے، عید گاہیں بٹ گئیں، حتی کہ معاشرے اورخاندان منتشر اور پراگندہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے شادی بیاہ کے بے شمار مسائل پیدا ہونے لگے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان، مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے یہاں اپنے بچوں کے رشتے کرنا پسند نہیں کرتے۔ یہ کتنے تعجب کی بات ہے بلکہ ایسی بات ہے کہ آدمی بے اختیار ہوکر سینہ کوبی شروع کردے اور لباس تار تار کرڈالے کہ قرآن تو اہل کتاب سے بھی نکاح کی اجازت دے رہا ہے مگرمسلمان محض مسلکی اختلاف کو بنیاد بناکر بین المسالک رشتوں اور شادیوں کو بھی روک رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ احساس زیاں بھی نہیں۔

اگر امت میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی اتحاد کی بات ہوتی تو امت موجودہ حالات سے کسی نہ کسی طرح نبرد آزماہوسکتی تھی۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک میں کئی بڑی تنظیمیں موجود ہیں۔ جیسے عرب لیگ، جو 1945 میں قائم ہوئی۔ اور بیس سے زائد مسلم ممالک اس کے ممبر ہیں۔ اسی طرح تنظیم تعاون اسلامی (OIC ) جو ستاون 57مسلم ممالک کی تنظیم ہے اور 1969 میں قائم کی گئی تھی۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں عسکری اتحاد کی بنیادپر قائم کی گئی اسلامی فوجی اتحاد(التحالف الاسلامي العسكري) تنظیم ہے۔ یہ35 مسلم ممالک کا بین الحکومتی فوجی اتحاد ہے، جس کی تشکیل 14 دسمبر 2015ء کو سعودی عرب کی قیادت میں ہوئی۔ رابطہ عالم اسلامی(رابطة العالم الاسلامي)بھی عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین عوامی تنظیم ہے۔ عالم اسلام کے بیس سے زائد ممالک کے ممتاز علما ءاور داعیانِ دین اس سے وابستہ ہیں۔

ایک اور بڑی تنظیم مجلس التعاون لدول الخليج العربية ( CCASG)ہے، جو علاقائی سطح پربین الحکومتی سیاسی اور اقتصادی اتحاد کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کے رکن ممالک بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔

ان کے علاوہ مقامی اور عالمی سطح پراور بھی کئی سارے کثیر المقاصد ادارے اور تنظیمیں مسلمان ممالک میں موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اور سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ سیاسی پلیٹ فارم پر کوئی بھی لیڈر یا ملک ایسا نہیں ہے جس کی قیادت پر دیگر ممالک بھروسہ کرسکیں۔ ترک لیڈر صدر طیب اردغان سے امت کے بعض طبقات نے اپنے طور پر بہت سی امیدیں وابستہ کرلیںہیںاور بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ امیدیں وابستہ کرنا درست تھا مگر سیاسی سطح پر امت مسلمہ کا انتشار ایساہے کہ ترکی پھر بھی تنہا کھڑا ہے۔ اور اپنی تمام ترقائدانہ صلاحیتوں اور اپنے دامن میں کامیابی کے تمام امکانات رکھنے کےباوجود تنہا کھڑا ہے۔ سعودیہ، مصر، شام اورعراق جسے تقریبا اکثر بڑے ممالک اس کے ہم نوا نہیں ہیں۔ ایران بظاہرحمایتی صحیح، مگرشام میں بشارالاسد کی بے جا موافقت کے سبب وہ ترکی کے ساتھ شایدہی  زیادہ دیر تک کھڑا رہ سکے۔ یاد رہے کہ اردغان شام میں قیام امن کے لیے بشارالاسد کی برطرفی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہی حال پاک وافغان کا بھی ہے۔ وہ پڑوسی ہوکر بھی مختلف ہیں۔ پاکستان نےافغان کے خلاف بیرونی طاقتوں کو اپنی زمین دی۔ لہذا آج کی تاریخ میں کوئی بھی مسلم ملک کسی دوسرے مسلم ملک کا سیاسی اور اقتصادی حلیف نہیں ہےاور جہاں عالمی قوتیں درمیان میں موجود ہیں وہاں تو بالکل بھی نہیں۔ ایران اور سعودی عرب آج بھی اختلافات کی طرف ہی قدم بڑھارہے ہیں، جبکہ ان کے بیرونی سیاسی حریف ان کے دروازوں پر پہنچ چکے ہیں۔ مگر وہ آپس میں ہی دست وگریباں ہیں۔ ایک طرف تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی مسلم ملک  دوسرے مسلم ملک کا حلیف نہیں، جبکہ دوسری انتہاء یہ ہے کہ ہر ایک نے یا اکثر نے باہر کی قوتوں کو اپنا حلیف بنایا ہوا ہے۔ پاک کو چین پر بھروسہ ہے، ایران کو روس پر اور سعودیہ کو امریکہ پر۔ کوئی بتائے کہ اس سے بڑی ٹریجڈی اور کیا ہوگی کہ اپنو کو دشمن بنالیا اور غیر کو دوست۔ حالاناکہ قرآن نےرسول اللہ اﷺ اور صحابہ کرام کی صفت اس طرح بیان کی ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ محمد (ﷺ) اوران کے ساتھی(صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) دشمن کے خلاف سخت، متحد اور برسرپیکار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے انتہائی نرم، صلاح جو اور خیر خواہ ہیں۔

بعض مضامین ایسے بھی نظر سے گزرےہیں جن میں لوگ قرآن کی اُس آیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بنانے کا حکم ہے اور پھر معمولی معاملات کے لیے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں، جیسے ایک مسلمان کے غیر مسلم سے تعلقات رکھنے یا انہیں سلام کرنے اور ان کے تہواروں میں انہیں مبارک باد دینے کے خلاف اس سے استدلال کرتے ہیں، وغیرہ۔ جبکہ اس آیت کا صحیح مصداق تو یہ صورت حال ہےجوابھی ذکر کی گئی ہے کہ عالم اسلام کی سیاسی قیادت کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصے کے خلاف یہود ونصاریٰ کو دوست بنارہا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے خلاف ناٹو اتحاد کو ہری جھنڈی دکھائی، شامی عوام کے خلاف ایران نے پوتن کو پکارا اور لبنان و ایران کے خلاف سعودیہ امریکہ کو پکار رہا ہے۔ جبکہ خطے کی سب سے بڑی ظالمانہ طاقت کے خلاف سب آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں اور وہ روزانہ کے حساب سے معصوم شہریوں کو موت کے کھاٹ اتاررہا ہے۔

اس حوالے سے ایک بڑی اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر مسلمان سیاسی سطح پر متحد ہوجاتے تو مسلکی سطح پر مختلف ہونا امت کے لئےاتنا نقصاندہ نہیں ہوتا، جتنا مہلک اور نقصاندہ اس صورت میں ہے جب عالم اسلام سیاسی و اقتصادی سطح پر بدترین قسم کی پراگندگی اور انتشار کا شکار ہے۔ کیونکہ سیاسی قوت مسلکی انتشار کو انارکی میں تبدیل ہونے سے باز رکھ سکتی تھی۔ اور معاشرے میں ایسے کڑے قوانین لاگو کرسکتی تھی کہ کوئی بھی مسلکی گروہ کسی دوسرے گروہ کو کم از کم جانی ومالی نقصان  نہیں پہنچا سکتا تھا۔ یوں تو اس کے برعکس بات بھی خاص اہم ہے کہ اگر مسلمان مذہب وعقیدے کے اعتبار سے متحد ہوتے تو سیاسی سطح پر بھی متحد رہتے یاپھر جلد یا بدیر متحد ہوجاتے یا کم از کم اس صورت میں سیاسی اتحاد قائم کرنا آسان ہوتا۔ یا یہ کہ سیاسی انتشار اتنا ہمہ گیر نہ ہوتا اورکوئی بھی  مسلم  ملک کم از کم اتنا لاچار تو نہ ہوتا کہ مشکل وقت میں اپنے پڑوسی مسلم ملک کے ساتھ کھڑا رہنے میں اسے بے انتہالاچار ی کا سامنا ہو۔

عالمی سطح پرجو صورت حال ہے تقریبا وہی صورت حال ملکی سطح پر بھی ہے، یعنی خود ہمارے ملک میں بھی مسلمان سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر متحد نہیں ہیں۔ کوئی کسی پارٹی میں ہے اور کوئی کسی دوسری پارٹی میں، کسی کی اپنی پارٹی ہے اور کسی کی کوئی پارٹی نہیں ہے۔ کوئی تائید کررہا ہے اور کوئی مخالفت۔ حد تو یہ ہے کہ مسلمان تائید اور مخالفت میں بھی بٹے ہوئے ہیں، کچھ کانگریس کو کم نقصاندہ بتا رہے ہیں، کچھ بے جے پی کے تعلق سے کانگریس کے مقابلے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ کھلا ہوا دشمن چھپے دشمن سے کم خطرناک ہوتاہے۔ اور کچھ لوگ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور سب سے سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی پورے قد کے ساتھ کہیں بھی اور کسی کے ساتھ بھی کھڑا ہوا نہیںہے۔ بلکہ ہرکوئی اپنی جگہ حیرانی و بے سمتی کی کیفیت سے دوچار ہے، بالکل ’نہ جائے ماندن، نہ جائے رفتن‘ کی کیفیت میں۔

اس بے یقینی کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم ابھی تک جمہوریت اور ووٹ کی شرعی حیثیت ہی متعین نہیں کرپائے ہیں، ہم ابھی تک انہی مباحث میں الجھے ہوئے ہیں، تو سوچ کے آگے بڑھنے کا سوال کم پیدا ہوتا ہے۔ جب یہی طے نا ہو کہ جمہوریت اور ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے تو پھر جمہوریت کے استحکام اور ووٹ کے اہتمام کی فکر اور منصوبہ بندی بھلا کس طرح طے کی جاسکتی ہے۔ ووٹ گرچہ سب ڈالتے ہیں مگر اس کی شرعی حیثیت میں اختلاف ہے اور اختلاف کی صورت میں پیشگی منصوبہ بندی کا سوال بہت کم پیدا ہوتا ہے۔

ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کی سیاسی لیڈر شپ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو امور مملکت کے ساتھ ساتھ دین کے معاملات کو بھی اسی طرح گہرائی کے ساتھ سمجھ پاتا۔ عمومی طورپر جتنے بھی سیاسی لیڈر ہوئے ہیں اور ہیں وہ عصری علوم سے تو واقفیت رکھتے ہیں مگر شرعی علوم میں اجتہاد کرسکنےکی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اور اسی لیے ایسا ہے کہ وہ کبھی بھی اس پوزیشن میں نہ آسکے کہ شرعی مطالبات اور عصری تقاضوں کو باہم دگر ہم آہنگ کرکے قومی ترقی کا کوئی مثالی ماڈل پیش کرسکیں۔ اورپھر قوم ان کے ساتھ اعتماد کے ساتھ کھڑی ہوسکے اور اس طرح غالب اقوام کی ذہنی غلامی سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا ہوسکے۔ پھر اس پر مستزاد یہ رویہ بھی ہے کہ اِدھر کے لوگ اُدھر نہیں گئے اور اُدھر کے اِدھر نہیں آئے اور نہ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ دونوں طرح کی قیادتوںکے درمیان کوآپریٹو سسٹم بھی جاری نہیں ہوسکا اور نہ ہی’’ تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ‘‘کی سطح پر کسی طرح کا تال میل پیدا ہوسکا۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ دونوں ایک دوسرے پر’ دورکعت کا امام‘ اور’ حیوان کاسب‘ و’دنیا دار‘ کی بھپتیاں کستے رہے اور اس طرح آپس کی خلیج کووسیع اور گہرا کرتے رہے۔

اگر عالمی حالات کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کریں تو یہ بخوبی معلوم ہوسکے گا کہ آج یہ عجیب سی صورت حال پیدا کردی گئی ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں اسلامو فوبیا کی جڑیں گہرائی تک اتار دی گئی ہیں اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور وہاں ان کی حکومتیں ہیں وہاں لبرلز کےمختلف طبقات پیدا کردئے گئے ہیں۔ یہ لبرلزجن میں ایک بڑی تعداد عورتوں کی بھی ہے، یہ عورتیں ان کی شہہ پر کبھی پڑوسی ملک میں ’میر اجسم میری مرضی‘  ’اپنا کھانا خود گرم کرلو‘اور ’ لو بیٹھ گئی صحیح سے‘ جیسے سلوگن اور نعرے بلند کرتی نظر آتی ہیں اورکبھی ایران میں اپنے حجاب ہوا میں لہراتی  اور کپڑے اتار کر درختوں اور دیواروں پر آویزاں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عراق سے لے کر سعودی تک ایسے لبرلز مردو خواتین کی بڑی تعداد ہے اور انہیں خفیہ ہاتھوں کے ذریعے گائیڈ کیا جاتا ہے۔ کئی مسائل ایسے ہیں جو صرف مسلم ممالک کا ہی حصہ ہیں، جیسے لبرلز کے ہنگامے اور فوجی و نیم فوجی بغاوتیں۔ اکثر مسلم ممالک میں متدین حضرات کے ساتھ روشن خیالوں کی مخاصمتوں اور جنگ وجدال کی خلیج بہت گہری ہے۔ اکثر مسلم ملکوں میں سیاسی انتظام انہیں لبرلز اور روشن خیالوں کے ہاتھ میں ہے یا حکومتیں ان کی پشت پناہ ہیں اور وہ اہل تدین کے خلاف زبانی وکلامی جنگ کی صورت حال پیدا کئے ہوئے ہیں۔ انہیں باہر سے شہہ مل رہی ہے، یہ اس لیے بھی پرجوش اور سرگرم ہیں۔

اس طرح اہل تدین کو بیک وقت کئی کئی سطحوں پر محاذ آرائی کا سامنا ہے۔ ایک تو وہ خود ہی آپس میں منقسم ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دوسرے سرکاری اداروں اور روشن خیالوں کے ساتھ بھی وہ لفظی جنگ کی صورت حال سے دوچار ہیں اور تیسرے انہیں عالمی میڈیا اور اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامو فوبیا کی جبال آسا خوفناک لہروں کا سامنا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو زوال امت کا ابتدائی نقطہ جو پھیل کر وسیع خلیج کی صورت اختیار کرگیا ہے، وہ امت میں اسی نابکار تقسیم کا شاخشانہ ہے کہ امت کے کچھ لوگوں نے سیاسی انتظام سنبھال لیا ہےاور کچھ لوگ دعوت و تبلیغ اور تشریح دین کے کام لگ گئے ہیں۔ حالانکہ تمام بڑے بڑے کام آپس میں تقسیم کرکے ہی پورے کئے جاتے ہیں، مگر ان کی تقسیم کی نوعیت الگ ہوتی ہے، وہ ایک طرح سے ٹیم ورک کی شکل ہوتی ہے اور یہ تفریق کی شکل ہے۔ ابتداء میں ان دونوں طبقات کے خیالات، رجحانات اور طرز بود وباش میں کچھ خاص فرق نہیں تھا، مگر بعد میں بطور خاص امت کے ہمہ جہت زوال بلکہ سیاسی زوال کے بعد، یعنی یہی کوئی ڈھائی تین سو سال قبل، یورپین اقوام کے اقبال اور عالمگیر غلبے کے بعد ان دونوں طبقات کے خیالات اور سرگرمیوں میں بہت فرق آگیا۔ اب کہنے کو دونوں مسلمان ہیں، ایک ہی ملک میں رہتے ہیں، ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک ہی قرآن پڑھتے ہیں اور ایک ہی نبیؐ کو بھی مانتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ان کے خیالات مختلف ہیں اور ترجیحات مختلف ہیں۔

ہم مسلمان بحیثیت امت آج جس دور میں جی رہے ہیں، یہ ایک طرف تو پوری دنیا میں عمومی طور پر اور عالم اسلام میں خصوصی طور پرانتشار کا دور ہے اور دوسری طرف یہی دور عالمی پیمانے پر بڑی بڑی تبدیلیوں کا دوربھی ہے گویا یہ تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز بھی ہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات امت کے خلاف سرتاپا تخریب کا باعث ہیں تو ساتھ ہی یہی حالات امت کی تعمیرکا ذریعہ بھی ہیں۔ کیونکہ اللہ نے اس کائنات کو، انسانی مزاج اور اس کی افتاد کو سہہ گانہ و صدگانہ پہلو ؤں کے ساتھ ڈیزائن کیا ہے، اس لیے اس کائنات میں اگر کسی عمل کا کوئی پہلو تخریب کا باعث ہوتا ہے تو اس کا دوسرا کوئی پہلو تعمیر کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ اگر ایک طرف یہ ہے کہ ’میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی ‘تو دوسری طرف یہ بھی ہے’کہ خون صدہزار انجم سے ہوتی صحر پیدا‘۔

عجیب طرح سے ڈیزائن کی گئی ہماری اس دنیا میں خیر سے شر بھی پیدا ہوتا ہے اور اس کے بالکل برعکس شر سے خیر بھی۔ تاہم اس عجیب ترین دنیا میں عجیب تر بات یہ ہے کہ ہم مسلمان زمین سے لے کر ذہانتوں تک محیط موجودہ ’شر‘ سے خیر کا کوئی پہلو پیدا کرنے کے لئے اپنی ذہانتوں اور خداداد صلاحیتوں کو بروکارنہ لاسکے اوراس عمل میں اپنا کوئی بھی چھوٹا یا بڑا حصہ نہیں ڈال سکے۔

  آج امت ایک طرح سے وقت کے دوراہے سے گزررہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ قیامت کی گھڑی قائم ہوچکی ہے اور پوری امت بیک وقت پل صراط سے گزر رہی ہے، یہ وقت خود کو پہچاننے کا وقت ہے، خود کو تبدیل کرنے کا وقت ہے، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، یہ وقت ایسا ہے کہ اس وقت امت یا امت کے موجودہ قائدین جو بھی فیصلہ لیں گے اس کے اثرات بہت دور رس ثابت ہوں گے۔ آج کے فیصلے ہی کل کا نقشہ ترتیب دیں گے، آج ہی کی سرگرمیاں اور جد وجہد امت کے مستقبل کومستحکم یا غیر مستحکم کرے گی۔

آج اگر امت نے خود کو نہیں پہچانا اور وقت کے اس دوراہے پر دانشمندانہ فیصلے نہیں کئے تو کل آج سے بھی زیادہ بھیانک ہوسکتا ہے۔ یہ تبدیلیوں کا وقت ہے، ہمیں خود کو بدلنا ہے، اپنے رویوں کو بدلنا ہے، سوچ اور فکر کو بدلنا ہے، ہمیں انتشار کو اور اختلافات کو ختم کرنا ہے، آج ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم ایک مستحکم مستقبل چاہتے ہیں یا برباد مستقبل۔ ہمیں ہر سطح پر وحدت امت کی طرف بڑھنا ہے، سیاسی وسماجی سطح پربھی اور عقیدے اور مسلک کی سطح پر بھی۔

اگر ہم اب بھی باز نہیں آئے اور اسی طرح کی چال چلتے رہے جس طرح کی چال ہم بحیثیت امت اور بحیثیت فرد گزشتہ ڈھائی تین سو سال سے چل رہے ہیں، وہی انتشار کی باتیں، وہی ضد اور ہٹ دھرمی اور وہی ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے والا رویہ۔ اگر آج اس فیصلہ کن گھڑی میں بھی ہم ویسے ہی رہے جیسے کہ اب تک رہے ہیں تو اللہ کی حجت ہم پر قائم ہوجائے گی اور اللہ کا فیصلہ اسی کے مطابق آجائے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قیل وقال کو چھوڑ دیں، دین اور دین پر عمل کرنے والوں کے خلاف استخفاف کا رویہ ترک کردیں، دوسرے پر نکتہ چینی کم کریں اور اپنے آپ پر زیادہ دھیان دیں، بے عملی کو چھوڑ دیں اور عمل کی طرف آجائیں، اپنے ایسے تمام انفرادی رجحانات اور اعمال کو ترک کردیں جن سے قوم وملت اور دین کی جڑ کٹتی ہو، مسلک ومشرب کی ان باتوں سے اجتناب کریں جو امت کو انتشار کی طرف لے جانے والی ہیں اور اللہ کے دین کی طرف پلٹ آئیں، اور اسی طرح اسے اپنا لیں جیسا کہ اسے اپنانے کا حق ہے۔ دیگر اقوام کے پاس وحدت کے مختلف راستے ہوسکتے ہیں مگر امت مسلمہ کے پاس یہی وہ واحد راستہ  ہے، جو امت کو وحدت کی طرف لے جاسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔