مسلمان ہونے کیلئے علم کی ضرورت

تقریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

اللّٰہ کا سب سے بڑا احسان: ہر مسلمان اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں اس کو شامل کیا اور اسلام کی نعمت اس کو عطا کی۔ خود اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنے بندوں پر اپنا سب سے بڑا انعام قرار دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ط (المائدہ:3) ۔
’’آج میں نے تمہا را دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اس بات کو پسند کرلیا کہ تمہارا دین اسلام ہو‘‘۔
احسان سناشی کا تقاضا: یہ احسان جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرمایا ہے اس کا حق ادا کرنا آپ پر فرض ہے، کیونکہ جو شخص کسی کے احسان کا حق ادا نہیں کرتا وہ احسان فراموش ہوتا ہے اور سب سے بدتر احسان فراموشی یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کے احسان کا حق بھول جائے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ خدا کے احسان کا حق کس طرح ادا کیا جائے؟ میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ جب خدا نے آپ کو امت محمدیہؐ میں شامل کیا ہے تو اس کے اس احسان کا صحیح شکریہ ہے کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے پیرو بنیں۔ جب خدا نے آپ کو مسلمانوں کی ملت میں شامل کیا ہے تو اس کی اس مہربانی کا حق آپ اسی طرح ادا کرسکتے ہیں کہ آپ پورے مسلمان بنیں۔ اس کے سوا خدا کے اس احسانِ عظیم کا حق آپ اور کسی طرح ادا نہیں کرسکتے اور یہ حق اگر آپ نے ادا نہ کیا تو جتنا بڑا خدا کا احسان ہے اتنا ہی بڑا اس کی احسان فراموشی کا وبال بھی ہوگا۔ خدا ہم سب کو اس وبال سے بچائے۔ آمین!
مسلمان بننے کیلئے پہلا قدم: اس کے بعد آپ دوسرا سوال یہ کریں گے کہ آدمی پورا مسلمان کس طرح بن سکتا ہے؟ اس کا جوب بہت تفصیل چاہتا ہے اور آئندہ جمعہ کے خطبوں میں اسی کا ایک ایک جز آپ کے سامنے پوری تشریح کے ساتھ بیان کیا جائے گا، لیکن آج کے خطبہ میں، میں آپ کے سامنے وہ چیز بیان کرتا ہوں جو مسلمان بننے کیلئے سب سے مقدم ہے، جس کو اس راستہ کا سب سے پہلا قدم سمجھنا چاہئے۔
کیا مسلمان نسل کا نام ہے؟ ذرا دماغ پر زور ڈال کر سوچئے کہ آپ مسلمان کا لفظ جو بولتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا انسان ماں کے پیٹ سے ’’اسلام‘‘ ساتھ لے کر آتا ہے؟ کیا ایک شخص صرف اس بنا پر مسلمان ہوتا ہے کہ وہ مسلمان کا بیٹا اور مسلمان کا پوتا ہے؟ کیا مسلمان بھی اسی طرح مسلمان پیدا ہوتا ہے جس طرح ایک برہمن کا بچہ برہمن پیدا ہوتا ہے، ایک راجپوت کا بیٹا راجپوت اور ایک شودر کا لڑکا شودر؟ کیا مسلمان کسی نسل یا ذات، برادری کا نام ہے کہ جس طرح ایک انگریز کسی انگریز کے گھر پیدا ہونے کی وجہ سے انگریز ہوتا ہے اور ایک جاٹ، جاٹ قوم میں پیدا ہونے کی وجہ سے جاٹ ہوتا ہے، اسی طرح ایک مسلمان صرف اس وجہ سے مسلمان ہوکہ وہ مسلمان نامی قوم میں پیدا ہوا ہے؟یہ سوالات جو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں ان کا آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ یہی کہیں گے نا کہ نہیں صاحب! مسلمان اس کو نہیں کہتے ۔ مسلمان نسل کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا بلکہ اسلام لانے سے مسلمان بنتا ہے اور اگر وہ اسلام کو چھوڑ دے تو مسلمان نہیں رہتا۔ ایک شخص خواہ برہمن ہو یا راجپوت، انگریز ہو یا جاٹ، پنجابی ہو یا حبشی، جب اس نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں میں شامل ہوجائے گا۔ اور ایک دوسرا شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اگر وہ اسلام کی پیروی چھوڑ دے تو وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہوجائے گا، چاہے وہ سید کا بیٹا ہو یا پٹھان کا۔
کیوں حضرات آپ میرے سوالات کا یہی جواب دیں گے نا؟ اچھا تو اب خود آپ ہی کے جواب سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت یعنی مسلمان ہونے کی نعمت جو آپ کو حاصل ہے، یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماںباپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہوجائے اور اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں؛ بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کیلئے خود آپ کی کوشش شرط ہے۔ اگر آپ کوشش کرکے اسے حاصل کریں تو آپ کو مل سکتی ہے اور اگر آپ اس کی پروا نہ کریں تو یہ آپ سے چھن بھی سکتی ہے، معاذ اللہ!
اسلام لانے کا مطلب: اب آگے بڑھئے؛ آپ کہتے ہیں کہ اسلام لانے سے آدمی مسلمان بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام لانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اسلام لانے کا یہ مطلب ہے کہ جو آدمی بس زبان سے کہہ دے کہ میں مسلمان ہو یا مسلمان بن گیا ہو، وہ مسلمان ہے؟ یا اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک برہمن پجاری بغیر سمجھے بوجھے سنسکرت کے چند منتر پڑھتا ہے اسی طرح ایک شخص عربی کے چند فقرے بغیر سمجھے بوجھے زبان سے ادا کر دے اور بس وہ مسلمان ہوگیا؟ آپ خود بتائیے کہ اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے؟ آپ یہی کہیں گے ناکہ اسلام لانے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے اس کو آدمی جان کر، سمجھ کر، دل سے قبول کرے اور اس کے مطابق عمل کرے۔ جو ایسا کرے وہ مسلمان ہے اور جو ایسا نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔
پہلی ضرورت … علم: یہ جواب جو آپ دیں گے، اس سے خود بخود یہ بات کھل گئی کہ اسلام پہلے علم کا نام ہے اور علم کے بعد عمل کا نام ہے۔ ایک شخص علم کے بغیر برہمن ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ برہمن پیدا ہوا ہے اور برہمن ہی رہے گا۔ ایک شخص علم کے بغیر جاٹ ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ جاٹ پیدا ہوا ہے اور جاٹ ہی رہے گا؛ مگر ایک شخص علم کے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمان پیدائش سے مسلمان نہیں ہوا کرتا بلکہ علم سے ہوتا ہے۔ جب تک اس کو یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کیا ہے، وہ اس پر ایمان کیسے لاسکتا ہے اور اس کے مطابق عمل کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب وہ جان کر اور سمجھ کر ایمان ہی نہ لایا تو مسلمان کیسے ہوسکتا ہے؟ پس معلوم ہوا کہ جہالت کے ساتھ مسلمان ہونا اور مسلمان رہنا غیر ممکن ہے۔ ہر شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے؛ بلکہ مسلمان در حقیقت صرف وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتا ہو۔ ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لئے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے کہ وہ دھوتی باندھتا ہے اور یہ پاجامہ پہنتا ہے، اس لئے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان؛ بلکہ اصلی فرق ان دونوں کے درمیان علم کا ہے۔ وہ کافر اس لئے ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ خداوند عالم کا اس سے اور اس کا خداوند عالم سے کیا تعلق ہے اور خالق کی مرضی کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ کیا ہے۔ اگر یہی حال ایک مسلمان کے بچے کا بھی ہو تو بتاؤ کہ اس میں اور ایک کافر میں کس چیز کی بنا پر فرق کرتے ہو اور کیوں یہ کہتے ہو کہ وہ تو کافر ہے اور یہ مسلمان ہے۔
حضرات! یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کو ذرا کان لگا کر سنئے اور ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجئے۔ آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کی یہ سب سے بڑی نعمت جس پر آپ شکر اور احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا حاصل ہونا اور حاصل نہ ہونا دونوں باتیں علم پر موقوف ہیں۔ اگر علم نہ ہو تو یہ نعمت آدمی کو حاصل ہی نہیں ہوسکتی۔ اور اگر تھوڑی بہت حاصل ہو بھی جائے تو جہالت کی بنا پر ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ یہ عظیم الشان نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ محض نادانی کی بنا پر وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتا رہے گا کہ میں ابھی تک مسلمان ہوں، حالانکہ درحقیقت وہ مسلمان نہ ہوگا۔ جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے اور اسلام اور شرک میں کیا امتیاز ہے، اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ایک پگڈنڈی پر چل رہا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سیدھی لکیر پر چلتے چلتے خود اس کے قدم کسی دوسرے راستے کی طرف مڑجائیں اور اس کو خبر بھی نہ ہوکہ میں سیدھی راہ سے ہٹا گیا ہوں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راستے میں کوئی دجال کھڑا ہوا مل جائے اور اس سے کہے کہ ارے میاں؛ تم اندھیرے میں راستہ بھول گئے، آؤ میں تمھیں منزل تک پہنچا دوں۔ بیچارہ اندھیرے کا مسافر خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ اس لئے نادانی کے ساتھ اپنا ہاتھ اس دجال کے ہاتھ میں دے دیگا اور وہ اس کو بھٹکا کر کہیں سے کہیں لے جائے گا۔ یہ خطرات اس شخص کو اسی لئے تو پیش آتے ہیں کہ اس کے پاس خود کوئی روشنی نہیں ہے اور وہ خود اپنے راستے کے نشانات کو نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس کے پاس روشنی موجود ہو تو ظاہر ہے کہ نہ وہ راستہ بھولے گا اور نہ کوئی دوسرا اس کو بھٹکا سکے گا۔ بس اسی پر قیاس کرلیجئے کہ مسلمان کیلئے سب سے بڑا خطرہ اگر کوئی ہے تو یہی کہ وہ خود اسلام کی تعلیم سے ناواقف ہو، خود یہ نہ جانتا ہوکہ قرآن کیا سکھاتا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہدایت دے گئے ہیں۔ اس جہالت کی وجہ سے وہ خود بھی بھٹک سکتا ہے اور دوسرے دجال بھی اس کا بھٹکا سکتے ہیں لیکن اگر اس کے پاس علم کی روشنی ہو تو وہ زندگی کے ہر قدم پر اسلام کے سیدھے راستے کو دیکھ سکے گا، ہر قدم پر کفر اور شرک اور گمراہی اور فسق و فجور کے جو ٹیڑھے راستے بیچ میں آئیں گے ان کو پہچان کر ان سے بچ سکے گا اور جو کوئی راستے میں اس کو بہکانے والا ملے گا تو اس کی دو چار باتیں ہی سن کر وہ خود سمجھ جائے گا کہ کہ یہ بہکانے والا آدمی ہے، اس کی پیروی نہ کرنی چاہئے۔
علم کی اہمیت: بھائیو؛ یہ علم جس کی ضرورت میں آپ سے بیان کر رہا ہوں، اس پر تمہارے اور تمہاری اولاد کے مسلمان رہنے کا انحصار ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ اس سے بے پروائی کی جائے۔ تم اپنی کھیتی باڑی کے کام میں غفلت نہیں کرتے، اپنی زراعت کو پانی دینے اور اپنی فصلوں کی حفاظت کرنے میں غفلت نہیں کرتے، اپنے مویشیوں کو چارہ دینے میں غفلت نہیں کرتے۔ اپنے پیشے کے کاموں میں غفلت نہیں کرتے، محض اس لئے کہ اگر غفلت کرو گے تو بھوکے مرجاؤگے اور جان جیسی عزیز چیز ضائع ہوجائے گی۔ پھر مجھے بتاؤ کہ اس علم کے حاصل کرنے میں کیوں غفلت کرتے ہو جس پر تمہارے مسلمان بننے اور مسلمان رہنے کا دارو مدار ہے؟ کیا ا س میں یہ خطرہ نہیں کہ ایمان جیسی عزیز چیز ضائع ہوجائے گی؟کیا ایمان، جان سے زیادہ عزیز چیز نہیں ہے؟ تم جان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کیلئے جتنا وقت اور جتنی محنت صرف کرت ہو کیا اس وقت اور محنت کا دسواں حصہ بھی ایمان کی حفاظت کرنے والی چیزوں کیلئے صرف نہیں کرسکتے؟
میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص مولوی بنے، بڑی بڑی کتابیں پڑھے اور اپنی عمر کے دس بارہ سال پڑھنے میں صرف کردے۔ مسلمان بننے کیلئے اتنا پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم میں کا ہر شخص رات دن کے چو بیس گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ علم دین سیکھنے میں صرف کرے۔ کم از کم اتنا علم ہر مسلمان بچے اور بوڑھے اور جوان کو حاصل ہونا چاہئے کہ قرآن جس مقصد کیلئے اور جو تعلیم لے کر آیا ہے اس کا لُبِ لباب جان لے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو مٹانے کیلئے اور اس کی جگہ جو چیز قائم کرنے کیلئے تشریف لائے تھے اس کو خوب پہچان لے اور اس خاص طریق زندگی سے واقف ہوجائے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے مقرر کیا ہے۔ اتنے علم کیلئے کچھ بہت زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ایمان عزیز ہو تو اس کیلئے ایک گھنٹہ روز نکالنا کچھ مشکل نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔