مشروط نکاح

اسلام دین فطرت ہے ، انسانی جذبات اور ضروریات زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیونکہ یہ کسی انسانی ذہن کی پیداوار اور اپج نہیں بلکہ اس علیم و خبیر کی طرف سے ہے جو انسان کی ضروریات اور مصالح سے اس سے زیادہ آگاہ او رواقف ہے ، ساتھ ہی اپنی مخلوقات پر رحیم و کریم اور شفیق بھی ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ تحفظات چاہتاہے، خاص طور پر معاملات میں شرط کی شکل میں وہ اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتاہے، اسلام میں اس جذبہ کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر شرط لگانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے: الناس علی شروطھم ما وافقت الحق (لوگوں پر ان شرطوں کی تکمیل لازم ہے جوحق کے موافق ہوں)نیز خریدوفروخت کے معاملہ میں رہن اور کفالہ کی گنجائش رکھی گئی ہے جوبقول ابن قدامہ ایک قسم کی شرط ہی ہے۔(1)
شرط عربی لفظ ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو لازم اور ضروری قرار دینا ’شریطہ‘ بھی اسی معنی میں استعمال ہوتاہے (2) شرط کی اصطلاحی تعریف بھی قریب قریب یہی ہے، علامہ حموی تحریر فرماتے ہیں۔

الشرط ھو التزام أمر لم یلزم فی امر قد یوجد بصیغۃ مخصوصۃ(3)

شرط کسی معاملہ میں ایسی چیز کو لازم کرلینا ہے جو نفس معاملہ کی وجہ سے لازم نہ ہو، مخصوص الفاظ کے ذریعہ۔
غرض یہ کہ شرط کی وجہ سے دو سرے فریق پر کچھ ایسی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جواس پر واجب و ضروری نہ تھیں، تاہم شریعت نے اس سلسلہ میں فریقین کو بالکل آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ معاملہ کو جس طرح سے چاہیں طے کرلیں بلکہ معاملہ کی روح اور مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے نیزدونوں کی فطرت و صلاحیت کے پیش نظر ایک گونہ پابندی لگادی ہے تاکہ کمزور فریق کا استحصال نہ ہوسکے اور اس کی مجبوری سے بے جا فائدہ اٹھانے پر بند لگایاجاسکے۔ اس اعتبار سے عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرطیں تین طرح کی ہیں۔
1۔ وہ فرائض و ذمہ داریاں جو خود عقد و نکاح کی وجہ سے عائد ہورہی تھیں انھیں کو شرط کی شکل میں ذکرکردیاجائے مثلاً عورت یہ شرط لگائے کہ شوہر رکھ رکھاؤ اوربرتاؤ میں اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرے گا، اس قسم کی شرط بالاتفاق معتبرہے، اگربصورت شرط نہ بھی ذکرکیا جاتاجب بھی اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا، ہاں شرط لگانے کی وجہ سے مزید تاکید پیدا ہوجائے گی۔(4)
2۔ ایسی شرطیں جن کا مقصد نکاح سے پیدا ہونے والی کسی ذمہ داری سے گریزہو بقول ابن رشد’’جونکاح صحیح ہونے کی شرطوں میں سے کسی کو ختم کردیتی ہوں یا نکاح کے واجب احکام میں تبدیلی کو مستلزم ہوں‘‘(5) مثلاً یہ شرط لگانا کہ شوہر نفقہ کا ذمہ دار نہ ہوگا یا مہر ادا نہیں کرے گایا عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس سے ہم بستری نہیں کرے گا یا اس کی سوکن کی بہ نسبت اس کے یہاں زیادہ رہے گا،ایسی شرط بالاتفاق نامعتبرہے(6)مگر کیا اس شرط کی وجہ سے عقدنکاح کی صحت پر کوئی اثرپڑے گا یا نہیں؟

اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں قدرے اختلاف ہے، احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نکاح شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتا، گوشرط کو عقد کے ساتھ بیان کیاگیا ہو۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ شرط فاسد کی وجہ سے نکاح فاسد ہوجاتاہے لیکن اگر اس کے باوجود یکجائی ہوجائے تو نکاح صحیح اور شرط باطل ہے ۔ شوافع اور حنابلہ کے یہاں کچھ تفصیل ہے ، بعض شرطوں کی وجہ سے وہ نکاح کو فاسد قرار دیتے ہیں اور بعض کی وجہ سے نہیں۔(7)
3۔ وہ شرطیں جومذکورہ دونوں قسموں میں شامل نہیں بلکہ مباح اور جائز ہیں لیکن اس کی وجہ سے ایک فریق پر ایسی پابندی عائدہوجاتی ہے جو غیر مشروط نکاح کی صورت میں عائد نہیں ہوتی جیسے عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس کو لے کر سفر میں نہیں جائے گا، اس کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کرے گا، اس کو میکے ہی میں رہنے دے گا، اپنے گھر لے جانے پر مجبور نہیں کرے گاوغیرہ۔ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں ائمہ کے درمیان قدرے اختلاف ہے، احناف کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے کاسانی رقم طراز ہیں:
ان ما شرط الزوج من طلاق المرأۃ وترک الخروج من البلد لایلزمہ فی الحکم لأن ذلک وعد وعدلھا فلا یکلف بہ(8)
عورت کو طلاق دینے اور شہر سے نکلنے کی شرط کی تکمیل قضاء شوہر کے لیے ضروری نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ عورت سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے ، جس کے پورا کرنے کا وہ مکلف نہیں۔
ابوعبید شافعی کی بھی یہی رائے ہے (9)لیکن امام شافعی کا خیال ہے کہ یہ شرط لغو ہے اور نکاح مہر مثل کے ساتھ درست ہے(10) فقہاء مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسی شرطیں کراہت سے خالی نہیں ان کی تعمیل صرف مستحب ہے(11) تاہم یہ تینوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ عورت کو اس کی وجہ سے فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوگا، صحابہ میں حضرت علیؓ بھی اسی کے قائل ہیں۔ عطاء، شعبی، زہری، قتادہ ، ہشام بن عروہ، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، حسن بصری، ابن سیرین ربیعہ، ابوالزناد، لیث اور سفیان ثوری کی بھی یہی رائے اور مسلک ہے۔
اس کے برخلاف حضرت عمرؓ، سعد بن ابی وقاص، عمروبن العاص اور حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ شرط کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے، عدم تعمیل کی صورت میں عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف بھی یہ رائے منسوب ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، جابربن زید، طاؤس، ابوالشعثاء، اوزاعی، امام احمدبن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور بعض مالکیہ بھی اسی کے قائل ہیں(12) ماضی قریب یا حال کے محققین علماء میں استاذ ابوزہرہ، شیخ مصطفےٰ زرقاء، وھبہ زحیلی اسی خیال کے حامی اور مؤیدہیں۔(13)
فریق اول کے دلائل
جوحضرات شرط کو لازم اور ضروری نہیں سمجھتے یا اس کی وجہ سے فسخ نکاح کا حق نہیں دیتے وہ درج ذیل احادیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔
1۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کل شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل(14)
ہروہ شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں باطل ہے۔
معلوم ہوا کہ جوشرطیں اللہ کی کتاب اور اس کے مقتضیٰ کے مطابق نہیں ، وہ باطل ہے ، مذکورہ شرائط بھی اسی قبیل کی ہیں کیونکہ قرآن نے اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی ہے جبکہ شرط کی وجہ سے شوہر کو پابند ہونا پڑتاہے۔
2۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلمون علی شروطھم الا شرطا احل حراما او حرم حلالا(15)
مسلمانوں کے معاملات طے شدہ شرطوں کے مطابق انجام پذیر ہوں گے، سوائے ان شرطوں کے جو کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرتی ہیں۔
طریقہ استدلال یہ ہے کہ چونکہ شرط لگانے کی وجہ سے ایک حلال چیز یعنی دوسری شادی یا ساتھ سفرمیں لے جانا وغیرہ حرام ہوجاتی ہے ، اس لیے ایسی شرط حدیث کی رو سے ناقابل وفاہے۔
3۔ حضرت علیؓ سے اس عورت کے متعلق دریافت کیاگیاجس نے عقد کے وقت میکے میں رہنے کی شرط لگادی تھی تو آپ نے فرمایاکہ شوہر کو وہاں سے لے جانے کا حق حاصل ہے کیونکہ اللہ کی شرط عورت کی شرط پر مقدم ہے۔(16)
4۔ چونکہ ایسی شرط عقد کی مصلحت اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے اس کو پورا کرنا لازم نہیں۔(17)
5۔ حضرت عمرؓ سے منقول روایتوں میں تضاد ہے ، اس لیے اس سے استدلال درست نہیں، چنانچہ ابن وہب بہ ’سندجید‘ روایت کرتے ہیں کہ کسی عورت نے نکاح کے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ وہ میکے میں ہی رہے گی ، بعدمیں شوہر نے وہاں سے لے جانا چاہا، مقدمہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا، آپ نے شرط کا کوئی اعتبارنہیں کیا اور فیصلہ کیاکہ عورت شوہر کے ساتھ رہے گی ، وہ جہاں لے جانا چاہے لے جاسکتاہے۔(18)
6۔ حدیث ان أحق الشروط ان یوفی بھا ما استحللتم بھا الفروج میں شرط سے مراد مہر ہے یا وہ ذمہ داریاں ہیں جو عقد نکاح کی وجہ سے خودلازم اور ضروری ہوجاتی ہیں۔(19)
دوسرے فریق کے دلائل
جوحضرات شرط کی تکمیل کو لازم اور ضروری سمجھتے ہیں اور عدم تعمیل کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا حق دیتے ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں:
1۔ قرآن کریم میں عہد اور وعدہ کو پورا کرنے کا حکم دیاگیاہے، چنانچہ ارشادباری ہے:
یاایھاالذین آمنوا أوفوا بالعقود(20)
ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
آیت میں عقود سے مراد عہد اور وعدے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس، مجاہد، ابن جریج ، ابوعبید ہ اور متعدددیگر لوگوں سے آیت کی یہی تفسیر منقول ہے اور ظاہرہے کہ شرط بھی ایک عہد اور وعدہ ہے چنانچہ جصاص رازی اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں۔
وکذالک کل شرط شرطہ انسان علی نفسہ فی شیء فی المستقبل فھو عقد(21)
ایسے ہی آئندہ کسی کام کے متعلق انسان اپنے اوپر جو شرط عائد کرلے وہ عقد ہے۔
پھرآگے وہ اس آیت کے تقاضا پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انسان جوشرط قبول کرلے اس آیت کے مطابق اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے الا یہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود ہو‘‘(22)نیزفرمانِ باری ہے:
واوفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا(23)
عہد کوپورا کرو اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔
یہ عہد عام ہے کہ اللہ سے کیاگیاہو یا بندے سے ، گووہ کافرہی کیوں نہ ہو، چنانچہ ارشادہے:
الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فأتموا الیھم عھدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین(24)
مگر وہ مشرکین اس حکم میں شامل نہیں جن سے تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے اس عہد کے نباہنے میں کوتاہی نہیں کی اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہیں کی ۔ سو ان کا معاہدہ مدت مقررہ تک پورا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کوپسندکرتاہے۔ اس طرح کی اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں وفاء عہد کا حکم دیاگیاہے اور بدعہدی پروعید سنائی گئی ہے ، شرط بھی ایک طرح سے عہد ہے لہٰذا اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے۔
2۔ حدیث میں بدعہدی نفاق کی علامت بتلائی گئی ہے ، بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جس میں اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے وفاء عہد کا حکم دیا اور خلاف عہد کرنے کی سخت مذمت بیان فرمائی ، شدید وعیدوں سے خبردار کیا۔
3۔ نکاح کے معاملہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے بصراحت فرمایاکہ
احق الشروط ان توفوا بہ ما استحللتم بہ الفروج(25)
تعمیل کی مستحق سب سے زیادہ وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعہ تم عصمتوں کو حلال کرتے ہو۔
معلوم ہوا کہ دیگر شرطوں کی بہ نسبت عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرط زیادہ لائق وفاہے۔
4۔ حضرت عمرفاروق نے ایک موقع پر فیصلہ فرمایاکہ شوہر کے لیے شرط کو پورا کرنا ضروری ہے ، ورنہ عورت کوفسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا، شوہر نے اعتراض کیاکہ پھرمردوں کے طلاق کا کیا حاصل؟ اذاً تطیقنا حضرت عمرؓ نے جواب میں یہ قانونی جملہ ارشادفرمایا ’’مقاطع الحقوق عند الشروط‘‘(26)
5۔ قرآن پاک سے یہ ثابت ہے کہ معامات میں اصل بنیاد’رضا‘ ہے۔ لہٰذا جس شرط پر فریقین راضی ہوں اور عقد کے مقصد و روح کے مغائر نہ ہو ، نیز اس کی وجہ سے شریعت کے متعین کردہ حدود نہ ٹوٹتے ہوں تو وہ جائز اور لازم ہے۔
6۔ معاملات میں اصل ’اباحت‘ ہے ۔ اس پر تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے صرف ظاہریہ حظرکے قائل ہیں(27) اور عبادات میں اصل ’ممانعت و حظر‘ ہے کہ صرف وہی چیزیں لازم و ضروری ہوں گی جسے شریعت نے فرض و واجب قرار دیا ہے ، اپنی طرف سے کسی چیز کو فرض وواجب قرار دینا درست نہیں لیکن اس کے باوجود عبادات میں’نذر‘ کی صورت میں شرط لگانے کی اجازت دی گئی ہے کہ جو چیز ذمہ میں واجب نہ ہو اسے ’نذر‘ کے ذریعہ واجب کرلے، جب عبادات ۔ جس میں اصل ممانعت ہےمیں شرط کی اجازت ہے اور اس کی تکمیل لازم و ضروری ہے تو معاملات جس میں اصل اباحت ہے۔ میں بدرجہ اولیٰ اس کی تکمیل ناگزیر ہوگی۔
7۔ یہ ایسی شرطیں ہیں جو نکاح کے منشاومقصد کے منافی نہیں، ایک جائز منفعت اس سے وابستہ ہے۔ لہٰذا جس طرح زیادتی مہر کی شرط لازم ہے ، اسی طرح سے یہ شرائط بھی ضروری اور واجب التکمیل ہیں(28)
دلائل کا ایک جائزہ
1۔ واقعہ ہے کہ فریق اول کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں حضرت علیؓ کے اثرکے علاوہ کوئی صریح نہیں ہے، اس قسم کی شرطوں کو ’تحریم حلال‘ قرار دینا مشکل ہے کیونکہ شرط کی وجہ سے یقینی طور پر حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اس شرط کی خلاف ورزی کی اب بھی اجازت ہے، وہ لازم و ضروری اس معنی میں ہے کہ اس کے خلاف کرنے کی وجہ سے عقد کو ختم کرنے کا حق ملتاہے، نیز کسی چیز کو لازم و ضروری قرار دینے اور اس کو حرام کرلینے میں نمایافرق ہے۔ ابن قدامہ اپنے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قلنا لایحرم الحلال وانما یثبت للمرء ۃ خیار الفسخ(29)
ہم کہتے ہیں کہ شرط کی وجہ سے حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی ہاں اس کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔
نیز ’’اقناع‘‘ میں ہے:
فھذا صحیح لازم للزوج بمعنی ثبوت الخیار لھا بعدمہ ولا یجب الوفاء بہ بل یسن(30)
تو یہ شرط صحیح ہے، شوہر کے لیے لازم ہے اس معنی کرکہ شرط کو نہ نباہنے کی وجہ سے عورت کو اختیار ملے گا اور شرط کے مطابق عمل کرنا واجب نہیں بلکہ مسنون ہے۔
2۔ حدیث کل شرط لیس فی کتاب اللہ سے مراد وہ شرطیں ہیں جو قواعد شریعت اور معاملہ کے مقصد و روح سے میل نہ کھاتی ہوں، علماء محققین نے حدیث کی یہی تشریح کی ہے (31) چنانچہ علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں:
وقال القرطبی لیس فی کتاب اللہ ای لیس مشروعا فیہ تاصیلاً وتفصیلا ومنھا ما اصل اصلہ کدلالۃ الکتاب علی اصلیۃ السنۃ والاجماع والقیاس (32)
قرطبی فرماتے ہیں کہ لیس فی کتاب اللہ سے مراد وہ شرطیں ہیں جو قرآن میں نہ باعتبار اصل مذکور ہوں اور نہ باعتبار تفصیل اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کے اصل ہونے پر اللہ کی کتاب میں دلیل موجود ہو جیسے کہ سنت و اجماع اور قیاس۔
مذکورہ حدیث جس پس منظرمیں کہی گئی ہے وہ بھی اس توجیہہ کی مؤید ہے کہ حضرت بریرہ ایک باندی تھیں، حضرت عائشہ نے چاہاکہ انھیں ان کے مالک سے خرید کر آزادکردیں، وہ بیچنے پر راضی تو ہوگئے لیکن شرط لگادی کہ ’’حق ولاء‘‘(33) انہیں کو ملے گا اللہ کے رسول ﷺ کو جب اس صورت حال کی اطلاع ملی تو آپ نے برہمی ظاہر کی اور ارشادفرمایا’’لوگوں کو کیا ہوگیاہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں جوشخص ایسی شرطیں لگائے جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہوتو وہ معتبرنہیں، اگرچہ وہ سو  شرطیں لگادے۔(34)
ظاہرہے کہ یہ شرط مقصد شریعت کے خلاف ہے ،’’حق ولاء‘‘ سے شریعت کا مقصد یہ ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ غلاموں کی آزادی کی طرف راغب ہوں، اگر فروخت کے باوجودبھی یہ حق ملتارہے تو مقصد ہی باقی نہیں رہے گا ، لوگوں کی توجہ آزادی سے ہٹ کر فروختگی پر مبذول ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں دوہرے فائدہ کا امکان ہے، غلام کی قیمت تو ملے گی ہی ، شرط لگاکر ’’حق ولاء‘‘ کو بھی محفوظ کرلیں۔ علاوہ ازیں ’’ولاء‘‘ شریعت کی نظرمیں ایک رشتہ ہے ، فروخت کرنے یا بخشنے کی چیز نہیں ہے کہ معاہدہ کے ذریعہ دوسرے کو بخشاجاسکے، اس کا حقدار تو وہی ہوگا جس نے اسے آزاد کیاہے، چنانچہ ارشادنبوی ہے:
الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لایباع ولایوھب (35)
’’ولاء‘‘ نسبی رشتہ کی طرح ہے ، نہ اسے بیچا جاسکتاہے اور نہ ہبہ کیاجاسکتاہے۔
لہٰذا جس طرح سے نسبی رشتے معاہدہ اور شرط کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیے جاسکتے اسی طرح سے حق ولاء کو بھی دوسرے کی طرف منتقل نہیں کیاجاسکتا، اس کا حقدار تو وہی ہوگا جس نے اسے آزاد کیاہے۔
3۔ حدیث ’’ان احق الشروط‘‘ کی یہ توضیح کہ اس سے مراد مہر یا وہ فرائض و ذمہ داریاں ہیں جوعقدنکاح کی وجہ سے عائد ہوتی ہیں، ظاہرحدیث کے خلاف ہے ، چنانچہ مشہور محدث ابن دقیق العید شافعی فرماتے ہیں:
’’وہ فرائض و ذمہ داریاں جو تقاضا ء عقد میں شامل ہیں ان کو واجب قرار دینے میں شرط مؤثرنہیں ہے تو پھر ان شرطوں کے لگانے پر حکم کو معلق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور حدیث کا سیاق بھی اس کے خلاف تقاضاکرتاہے، اس لیے کہ لفظ ’’احق الشروط‘‘ کا تقاضا ہے کہ بعض شرطیں قابل وفاہیں اور بعض زیادہ قابل وفا ہیں اور جو شرطیں واجبات عقدمیں سے ہیں وہ لازم وفا ہونے میں برابرہیں۔(36)
4۔ دوسرے فریق کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں بھی صحابہ کرام کے اقوال کے علاوہ کوئی صریح نہیں ہے ، ان آثارمیں بھی حضرت عمرؓ سے منقول فیصلوں میں تضادہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا مشکل ہے ، صحابہ کرام کے ارشادات اور فیصلہ جات کے علاوہ دلائل سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ وفاء عہد لازم اور ضروری ہے ۔ یہ صراحت نہیں کہ اس کی وجہ سے عقد کو فسخ اور ختم بھی کیاجاسکتاہے۔
5۔ اس سلسلہ میں احناف کا جو نقطۂ نظر ہے کہ شرط وعدہ ہے ، دیانتاً اس کی تکمیل لازم و ضروری ہے(37) وہی قرآن و حدیث سے زیاد ہ قریب ہے۔ تاہم دین سے دوری بلکہ دین بیزاری کے اس پرآشوب ماحول میں جہاں اخلاقیات کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ،نیزاس طرح کے معاملات میں شرط کی عدم تکمیل کی وجہ سے معاشرہ میں طرح طرح کی برائیاں اور خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسے صرف اخلاقی حیثیت تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ قانونی اعتبار سے بھی شرط کو پورا کرنے پر مجبور کیاجائے، اگرشوہر اس کے لیے تیار نہ ہو تو نکاح کو فسخ کردیاجائے، کیونکہ لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر قانونی نقطہ نظر سے وعدہ کی تکمیل لازم ہوجاتی ہے ۔ حصکفی لکھتے ہیں:
لان المواعید قد تکون لازمۃ لحاجۃ الناس وھو الصحیح(38)
لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے وعدے کبھی قانونی طور پر بھی لازم ہوجاتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔
تفویض طلاق
اللہ نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے تاہم اگر وہ چاہے تو اس حق کو بیوی کے سپرد کرسکتاہے جسے اصطلاح میں تفویض کہتے ہیں(الفقہ الاسلامی واداتہ 7/414) ’’تفویض‘‘ کی مختلف صورتیں ہیں ، کبھی وقت شرط وغیرہ کی کوئی تحدید نہیں ہوتی مطلقاً کہہ دیاجاتاہے کہ أمرک بیدک [معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے] اس صورت میں عورت کو اپنے آپ کو طلاق دینے کا اختیار صرف مجلس تک باقی رہے گا، مجلس کے بدل جانے سے یہ اختیار ختم ہوجائے گا لیکن اگر یہ کہہ دے کہ ’’معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے جب بھی تو چاہے‘‘(امرک بیدک متی شئت أو اذا شئت) اس صورت میں پوری زندگی عورت کو یہ اختیار حاصل رہے گا، تاآنکہ وہ خود ہی اس اختیار کو ختم کردے، اگر اختیار کے لیے کوئی مدت متعین کردیتاہے مثلاً’’آج کے دن تجھے اپنے اوپر طلاق دینے کا اختیار ہے‘‘ تو مکمل ایک دن تک یہ اختیار برقرار رہے گا، اگر مشروط تفویض ہو مثلاً ’’فلاں آگیا تو تیرامعاملہ تیرے اختیار میں ہے‘‘ تو اس کی بھی وہی صورتیں اور احکام ہیں جومذکور ہوئیں۔(یہ تفصیل بدائع 2/116۔113سے ماخوذہے۔)
تفویض کب درست ہے؟
’’تفویض‘‘عقد کے وقت بھی درست ہے اور عقد کے بعد بھی، لیکن عقد کے وقت تفویض کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور شوہر اسے قبول کرلے مثلاً مرد ایجاب کرتاہے ،عورت جواب میں کہتی ہے کہ میں اس شرط پر قبول کرتی ہوں کہ طلاق کا اختیار میرے ہاتھ میں رہے گا اور مرد اس کو مان لیتا ہے،اگرمرد ایجاب بایں طور کرتاہے کہ میں تم سے شادی اس شرط پر کرتاہوں کہ طلاق کا اختیار تمہارے ہاتھ میں رہے گا اور عورت قبول کرلیتی ہے تو یہ درست نہیں۔ علامہ ابن عابدین شامی دونوں کے فرق کی وضاحت فقیہ ابواللیث کے حوالے سے ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ابتداء جب شوہر کی طرف سے ہو تو یہ طلاق اور تفویض نکاح سے پہلے ہے لہٰذادرست نہیں اور جب ابتداء عورت کی طرف سے ہو تو یہ تفویض نکاح کے بعد ہے ، اس لیے کہ جب مرد نے عورت کے کلام کے بعد کہا (قبلت)میں نے قبول کیا اور جواب میں سوال ملحوظ ہواکرتاہے تو گویا اس نے کہاکہ میں نے قبول کیا اس شرط پر کہ تجھ پر طلاق ہو یا اس پر کہ معاملہ تیرے اختیار میں ہو، تو یہ معاملہ نکاح کے بعدعورت کے اختیارمیں ہوگا۔(ردالمختار3/244، مطبوعہ ایم سعید کمپنی، پاکستان)
اگرعقد سے پہل یہی تفویض کی شرط طے ہوجائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ شوہر ابھی اس کا مالک ہی نہیں ہواہے تو جس چیز کاخودمالک نہیں دوسرے کو کیسے مالک بناسکتاہے؟ البتہ اگرتفویض اس طرح ہوکہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا تو اپنی طلاق کی مختار ہوگی تو یہ درست ہے ، کیونکہ یہ تفویض طلاق ہی کی طرح ہے ، جس طرح نکاح سے پہلے طلاق اضافی درست ہے، ایسے ہی تفویض اضافی بھی درست ہے۔
حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
اس کی تینوں صورتیں جائز ہیں، چاہے نکاح سے پیشتر لکھوالیاجائے ، چاہے عین وقت عقد زبان سے کہلوالیاجائے، چاہے بعد میں لکھوالیاجاے مگرپہلی اور دوسری صورت کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے ایک شرط ہے ، پہلی صورت یہ کہ کابین نامہ نکاح سے پہلے لکھاجاوے اس کے معتبراور مفید ہونے کے لیے یہ شرط ہے ، اس میں نکاح کی طرف اضافت اور نسبت موجود ہو۔ مثلاً یہ لکھاجائے کہ اگرمیں فلاں بنت فلاں کے ساتھ نکاح کروں اور پھر شرائط مندرجہ اقرار نامہ ہذا میں سے کسی شرط کے خلاف کروں تو مسماۃ مذکورہ کو اختیار ہوگاکہ اسی وقت یا پھر اور کسی وقت چاہے تو اپنے اوپر ایک طلاق بائن واقع کرکے اس نکاح سے الگ ہوجائے، اگر اس میں اضافت الی النکاح نہ لکھی گئی تو یہ اقرار نامہ محض بیکار ہوگا، اس کی رو سے عورت کو کسی قسم کا اختیارحاصل نہ ہوگا، دوسری صورت یہ کہ عین ایجاب و قبول ہی میں زبانی شرائط مذکور ہوں، اس کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے ہو۔(الحیلۃالناجزہ/21)
مشروط تفویض
عورتوں کی فطری جلدبازی کے پیش نظرمناسب ہے کہ مطلق تفویض نہ کی جائے بلکہ احتیاطاً کچھ قیود و شرائط کا لگادینا بہترہے، اسی فطری کمزوری کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے ’’تخییر‘‘ کے موقع پر حضرت عائشہ سے فرمایا: عائشہ! فیصلہ میں جلدبازی نہ کرنا ، اپنے والدین سے مشورہ کے بغیرکوئی اقدام نہ کرنا، ایک موقع پر ازواج مطہرات نے آپﷺ سے معاشی تنگی کی شکایت کی اور مطالبہ کیاکہ ہمارے نان نفقہ میں کچھ توسیع سے کام لیاجائے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی’’یاایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراجا جمیلا(احزاب:28) اس آیت میں ازواج مطہرات کو اختیار دیاگیاکہ وہ موجودہ حالت یعنی معاشی عشرت و تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہنا قبول کریںیا پھر طلاق کے ساتھ آزاد ہوجائیں ، اس کو تخییرکہاجاتاہے(معارف القرآن ج7ص127) لہٰذاتفویض کے ساتھ احتیاط کے لیے مزیدکچھ شرطیں بڑھائی جاسکتی ہیں مثلاًیہ کہ طلاق کا اختیار اسی وقت ہوگا جب کہ عورت کے والدین بھی اسی پر راضی ہوں وغیرہ۔ حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
چونکہ عورت ناقص العقل ہے، اس لیے طلاق کو مطلقاً اس کے ہاتھ میں دینا خطرہ سے خالی نہیں، پس مناسب ہے کہ تفویض میں کوئی قید مناسب بھی لگادی جائے جس میں خطرہ نہ رہے مثلاً نکاح کے وقت عورت کی طرف سے وہ خودیا اس کا ولی یا وکیل (یعنی قاضی نکاح خواں) یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو یا مسماۃ بنت فلاں کو تمہارے نکاح میں اس شرط پر دیاکہ جس وقت اس کو تم سے کوئی تکلیف شدید پہنچے گی جس کو فلاں فلاں اشخاص میں سے کم از کم دو آدمی تسلیم کرلیں تو اس کے بعد ہر معاملہ میرے یا اس کے اختیار میں ہوگاکہ اپنے آپ کو طلاق بائن دے کر اس نکاح سے علاحدگی اختیار کرلی جائے، اس صورت میں طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں اس وقت آئے گا جب کہ تسلیم کردہ اشخاص میں سے کم از کم دو آدمی تسلیم کرلیں کہ تکلیف شدید ہے۔(الحیلۃ الناجزہ:24)
مشروط مہر
طلاق کے بے جا استعمال کو روکنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے عقد کے وقت شرط لگادی جائے کہ اگرشوہر طلاق دے گا تو مہر مثلاً بیس ہزار ہے اور اگر طلاق نہ دی تو دس ہزار ہے، ایسی صورت میں طلاق دینے کی صورت میں امام ابوحنیفہ کے نزدیک نقطہ نظر کے مطابق مہرمثل ہے اور امام ابویوسف و محمد کی رائے کے مطابق معین کردہ مہر یعنی بیس ہزارلازم ہے۔
چنانچہ سرخسی رقم طراز ہیں:
اگر کوئی نکاح اس طور پر کرے کہ اس کی کوئی بیوی نہ ہو تو ایک ہزار درہم ہے
اور اگر دوہزار یا اگر کوفہ سے نہ لے جائے تو ایک ہزار اور بصورت دیگردوہزار تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں صورتوں میں پہلے طلاق دے تو جس مہرکاتذکرہ کیاہے ، وہ صحیح ہے اور دوسرا فاسد ہے، یہاں تک کہ اگریکجائی سے پہلے طلاق دے دے تو جس مہر کا تذکرہ پہلے ہواہے ، اس کا آدھامہراداکرے اور اگریکجائی ہوجائے اور شرط کو بھی پورا کردے تو ایک ہزار سے زیادہ نہ ہو اور ابویوسف و محمد کے نزدیک دونوں شرطیں معاہدہ کے مطابق جائز ہیں۔ گرچہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے امام ابویوسف و محمد سے مختلف ہے، لیکن دلیل کے اعتبار سے صاحبین کی رائے قوی ہے، نیز حالات کا تقاضا بھی یہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ نے امام ابویوسف و محمد ہی کے مذہب کو اختیار کیاہے۔(المبسوط 5/9، نیزدیکھئے الاحوال الشخصیہ /155)
طلاق ہی کی طرح دوسری شادی کا مسئلہ ہے کہ اگر عقد میں یہ شرط لگادی جائے کہ اگرمرد نے اس عورت کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی تو مہربیس ہزار ہوگا بصورت دیگردس ہزار تو ایسی صورت میں امام ابویوسف و محمد کے مسلک کے مطابق دونوں شرطیں معتبرہوں گی اور دونوں صورتوں میں متعین کردہ مہر لازم آئے گا۔
خلاصہ
واضح رہے کہ ان دونوں مسئلوں میں امام ابویوسف و محمد کی رائے پر فتویٰ دیتے وقت کچھ شرائط کا اضافہ بھی ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے جس مقصد کے تحت اسلام نے طلاق یا تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے وہ مقصدہی فوت ہوجائے، شرط کی وجہ سے مرد بالکل پابندہوکررہ جائے گا اور ناگزیر ضرورت کے وقت بھی رقم ادا نہ کرنے کی پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے طلاق نہ دے سکے، زندگی بالکل تلخ اور اجیرن بن کر رہ جائے، طرح طرح کی خرابیاں اور بگاڑ پیدا ہوں جس کو ختم کرنے کے لیے شریعت نے طلاق کی اجازت دی ہے۔
ملازمت پیشہ عورت ’’مشروط نکاح‘‘ کے ذیل میں یہ تفصیل گذرچکی ہے کہ مباح شرطوں کے بارے میں امام شافعی کا نقطہ نظریہ ہے کہ شرط لازم نہیں، حنفیہ کے نزدیک یہ ایک وعدہ ہے ، دیانتا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو نباہے، اس کے مطابق عمل کرے۔ اگرشوہر ایسانہیں کرتا تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اس کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔
کاسانی رقم طراز ہیں:
شوہر کا یہ شرط لگانا کہ وہ اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے گا یا اس عورت کو اس کے شہر سے نہیں لے جائے گا تو یہ قضاءً لازم نہیں ، اس لیے کہ یہ ایک وعدہ ہے جوشوہر نے اس سے کیاہے، لہٰذا اس پر مجبور نہیں کیاجائے گا۔(بدائع 2/285)
لہٰذااگرکوئی عورت نکاح کے وقت شرط لگائے کہ آئندہ کوئی مناسب ملازمت ملے تو اس سے منع نہیں کرے گا اور اس شرط کو شوہر قبول کرلیتاہے ، اس کے باوجود اسے روکنے کا حق ہے اور عورت کے لیے شوہر کے حکم کی تعمیل ضروری ہوگی، اگرعورت شوہر کی رضامندی کے بغیر ملازمت پرلگی رہی تو ’’ناشزہ‘‘ سمجھی جائے گی اور نفقہ کی حقدار نہیں ہوگی۔(الفقہ الاسلامی واداتہ 7/792 کتاب النفقہ)
چنانچہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
اگرعورت صرف دن میں شوہر کے ساتھ رہے اور رات میں رفاقت نہ ہو یا اس کے برعکس تو وہ نفقہ کی مستحق نہ ہوگی، اس لیے کہ سپردگی ناقص ہے ، اس سے ہمارے دور کے اس مسئلہ کا حل بھی آیاجبکہ شادی کسی پیشہ سے متعلق عورت کے ساتھ ہوجو دن اکثر کارخانہ میں گزارتی ہے اور رات شوہر کے ساتھ بسرکرتی ہے ، اس کے لیے نفقہ نہیں ہے۔(البحرالرائق 2/180)
امام احمد کے مسلک کے مطابق شوہر کے لیے شرط کی تعمیل ضروری ہے، اسے روکنے اور منع کرنے کا حق نہیں، اگر سلسلہ ملازمت کو ختم کرنے پر مجبور کرتاہے تو عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے اور بلااجازت ملازمت کرتے ہوئے بھی ’’ناشزہ‘‘نہیں سمجھی جائے گی اور نان و نفقہ کی مستحق ہوگی ۔ وہبہ زحیلی ان کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حنابلہ نے اس شرط کو بھی صحیح قرار دیا اور اس شرط پر وفاء کو لازم گردانا۔ لہٰذا شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ عورت کو کام کرنے سے روک دے اور اگر روک لگادے تو وہ ’’نافرمان‘‘نہیں سمجھی جائے گی۔ (الفقہ الاسلامی 7/792)

حواشی:
(1) المغنی 7/71(2) القاموس المحیط 869، لسان العرب 7/329
(3) عیون البصائر2/225(4)فتح الباری 9/272(5)بدایۃ المجتہد2/59(6)فتح الملک المعبود3/32
(7) الفقہ الاسلامی وادلتہ 7/53 وما بعدہا(8) بدائع 2/285نیز دیکھئے العرف الشذی مع الترمذی 1/216 عمدۃ القاری 20/140(9) فتح الباری 9/273

(10) شرح نووی علی مسلم 1/455 (11)الفقہ الاسلامی 7/60(12)مصنف عبدالرزاق 6/224 ومابعدہا مصنف ابن ابی شیبہ 4/199 وما بعدھا ، شرح السنہ 9/54، فتح الباری9/173، عمدۃ القاری 20/140، المغنی 7/71، فقہ السنہ 2/181 و بعض المالکیہ ساروا اسارھم ، امام احمدبن حنبل /345 لا بی زہرہ(13) امام احمد بن حنبل 351، المدخل 1/486، الفقہ الاسلامی وادلتہ 7/60 (14) بخاری 1/377

(15) رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی و قال حسن صحیح (16)مصنف عبدالرزاق 6/231، مصنف ابن ابی شیبہ 4/201،

المعلی 9/125، ترمذی 1/214 (17) شرح مہذب 16/250

(18) فتح الباری 9/272(19)مرقاۃ 3/421(20) سورہ مائدہ : 1(21)احکام القرآن 3/286

(22) احکام القرآن 3/285(23) سورہ بنی اسرائیل 34 (24) سورہ توبہ 4

(25) بخاری مع فتح الباری 9/217، مسلم 1/455 وغیرہما(26) بخاری مع الفتح 9/217، مصنف عبدالرزاق 6/227(27)مبدأ الرضاء فی العقود/1186

(28) یہ تمام تر تفصیلات فتاویٰ کبری3/329 ومابعدہ لابن تیمیہ اعلام المعوقین 3/402 ، المغنی 7/72۔71 سے ماخوذ ہیں۔(29)المغنی7/71(30)الاقناع 3/190نیز دیکھئے الروض المربع/340

(31) المدخل 1/470 (32)فیض القدیر 5/22للمناوی رقم الحدیث 6313

(33) غلام یا باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے بعض صورتوں میں آزاد کرنے والا ان کا وارث ہوتاہے، اسی کو’’حق ولاء‘‘ کہتے ہیں۔

(34) بخاری 1/65 (35) للجامع الصغیر 2/723حدیث 9687 نیزدیکھئے فیض القدیر 6/377

(36) فتح الباری 9/272(37) والشروط التی لا تنافی النکاح جائزۃ وتوفی دیانۃ ولا تلزم قضاء (العرف الشذ مع الترمذی 1/216) (38) الدرالمختار 4/247

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔