نماز: سفرِ معراج کا عظیم تحفہ

سفرِ معراج نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا نہایت عظیم الشان واقعہ اور محیر العقول معجزہ ہے۔اللہ تعالی نے ایک خاص پسِ منظر میں اپنے حبیب رحمتِ دوعالم ﷺ کو آسمان پر بلایا اور اپنے خصوصی انعامات سے نوازا۔مسلسل آزمائشوں اور سخت حالات کے بعد اپنے نبی ﷺ کی دل جوئی اور ان کی دل داری کے لئے یہ عروج و سر بلندی کا تاریخی سفر پیش آیا۔اس مبارک سفر میں اللہ تعالی نے اپنے قربِ خاص سے نوازا ،انبیاے کرام سے ملاقاتیں کروائیں ، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایااور نیکوں کے اجر و ثواب اور بُروں کے انجام و عذاب کانظارہ کروایا۔اس عظیم سفر میں بہت سے انعامات سے نوازا گیا جن میں ایک خاص انعام امت کے لئے نماز کا تحفہ بھی ہے ،اور قیامت تک کے لئے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا ۔نماز جیسی عظیم عبادت اسی سفر میں عطا کی گئی ۔واقعۂ معراج کے ضمن میں جہاں بہت سارے مشاہدات کا ذکر کیا جاتا ہے اور سفرِ معراج کی عظمت واہمیت اور اس کی تاریخی حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ اس رات میں اور اس سفر میں دئیے جانے والے عظیم انعام نماز پر بھی بھر پور توجہ دی جائے ۔اللہ تعالی نے نماز کے لئے یہ خصوصی معاملہ فرمایا کہ اسے اپنے پاس بلاکر عنایت فرمایا ورنہ تو دیگر عبادات اور احکامات وہ ہیں جو اسی زمین پر اتارے گئے، لیکن نماز کی یہ انفرادی خصوصیت ہے کہ اسے عر ش پر بلاکر اور اعزاز و اکرام کے ساتھ نوازا گیااس لئے شبِ معراج کے اس موقع پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی عظمت کو اور اہمیت کو سمجھیں۔تو آئیے ایک نظر اس کی فرضیت اور اس کے اثرات و برکات پر ڈالتے ہیں۔
فرضیتِ نماز:
حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے کہ : نبی کریمﷺ پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں ،پھر ان میں کمی کی گئی یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں۔پھر اللہ تعالی کی طرف سے ندا آئی کہ اے محمد!میرا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاتا ،اور بے شک آپ ( اور آپ کی امت )کے لئے ان پانچ نمازوں کے ساتھ پچاس نمازوں کاثواب ہے ۔( مسند احمد)بخاری شریف میں پچاس نمازوں کی تخفیف اور پانچ نمازوں کے باقی رہنے پر ایک طویل روایت ہے کہ :آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ:پھر میرے اوپر ہر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں،میں لوٹا تو موسی ؑ کے پاس سے گزر ہوا ،انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا؟میں نے کہاکہ مجھے ہر دن میں پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ،موسی ؑ نے فرمایا کہ : آپ کی امت کو ہر دن میں پچاس نمازوں کی قدرت نہ ہوگی ،اللہ کی قسم میں نے لوگوں کی حالت کا آپ سے پہلے تجربہ کرلیا ہے اور بنی اسرائیل کے لئے سخت کوشش کی ہے ،تو آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیے ،اور ان میں اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کیجئے ؟تو میں ( اپنے رب کی طرف ) لوٹ گیا( اور تخفیف کی درخواست کی )اللہ تعالی نے مجھ سے دس نمازوں کو کم کردیا( اور پچاس کے بجائے چالیس رہ گئیں)پھر میں موسی ؑ کی طرف لوٹا،انہوں نے پہلے کی طرح بات کی ( اور تخفیف کرانے کا مشورہ دیا) تو میں ( دوبارہ ) اللہ تعالی کی طرف لوٹا ( اور کمی کرنے کی درخواست کی ) اللہ تعالی نے دس نمازیں کم کردیں ( اور تیس نمازیں رہ گئیں ) پھر میں موسی ؑ کی طرف لوٹ آیا ،انہوں نے پھر پہلے کی طرح بات کی ( اورتخفیف کرانے کامشورہ دیا ) پھر میں اللہ تعالی کی طرف لوٹ کر گیا ( اور کمی کی درخواست کی ) اللہ تعالی نے مجھ سے دس کم فرمادیں ( اور بیس نمازیں رہ گئیں )پھر موسی ؑ کی طرف لوٹ کر آیا ،تو انہوں نے پھر پہلے کی طرح کہا ( اور تخفیف کرانے کا مشورہ دیا) پھر میں اللہ تعالی کی طرف لوٹا ( اور کمی کی درخواست کی ) تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا ( اور دس نمازیں رہ گئیں)پھر میں لوٹ کر آیا تو موسی ؑ نے پہلے کی طرح بات کی ( اور تخفیف کرانے کا مشورہ دیا)پھر میں اللہ تعالی کی طرف لوٹ کر گیا ( اور کمی کی درخواست کی ) تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ،پھر میں موسی ؑ کی طرف لوٹ کر آیا ،انہوں نے فرمایا کہ آپ کو کیا حکم دیاگیا؟میں نے کہا کہ مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے ،موسی ؑ نے فرمایا کہ آپ کی امت کو ہر دن میں پانچ نمازوں کی استطاعت نہ ہوگی اور میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں ،اور بنی اسرائیل کے ساتھ سخت جد و جہد کرچکا ہوں ،لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ کر جائیے اور ان سے اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجیے؟اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے ( کئی مرتبہ ) درخواست کرلی ہے ،یہاں تک کہ اب مجھے حیاء آگئی ہے ،اور اب میں راضی ہوں اور اس حکم کو ( ہرطرح سے)تسلیم کرتا ہوں ،پھر جب میں آگے بڑھا تو ( اللہ تعالی کی طرف سے ) ایک پکارنے والے نے کہاکہ میں نے اپنا فریضہ پورا کرلیا ہے اور اپنے بندوں پر آسانی کردی ہے ۔( بخاری :3623) اس طرح دن بھر میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں تھیں لیکن وہ تخفیف ہوہو کر پانچ رہ گئیں اور اللہ تعالی نے پانچ کو پچاس کے برابر اجرو ثواب دینے کا وعدہ فرمایا۔ سفرِ معراج کے موقع پر نماز کے دئیے جانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر مصطفی السباعی ؒ لکھتے ہیں کہ : اللہ تعالی نے معراج کی رات نماز کو فر ض کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ :بندوں تمہارے نبی کا جسم و روح کے ساتھ معرا ج کرنا یہ ایک معجزہ ہے ،لیکن تمہا رے لئے ہر دن پانچ مرتبہ یہ سعادت ہے کہ تمہاری روح اور دل معراج کرکے میری طرف آتے ہیں ۔( السیرۃ النبویۃ دروس و عبر:59)علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے شبِ معراج میں نماز کی فرضیت کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ:اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ظاہر وباطن کو آبِ زم زم سے پاک صاف کرکے جس طرح مقد س و مطہر کردیا گیا تھا اور ایمان وحکمت سے آپ کو نواز اگیا تھا ۔ایسے ہی نماز کے لئے بھی ضروری ہے کہ پہلے ہر قسم کی ظاہری و باطنی غلاظت سے اپنے آپ کو پا ک کیاجائے ۔اس مناسبت سے اس موقع پر نماز کی فرضیت کو اہمیت دی گئی ۔علاوہ ازیں اس طرح آپ کے شرف وفضل کو فرشتوں پر بھی واضح بھی کرنا تھا جو بلاواسطہ نماز کے حکم سے فرشتوں پر آشکار اکیاگیا۔( فتح الباری :1/548)
نماز کی اہمیت :
نماز اسلامی عبادات میں ایک مہتم بالشان عبادت ہے ،اللہ تعالی نے نماز کے ذریعہ انسان کے بہت سارے خیراور فوائد کو جوڑے رکھا ہے ۔اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں نماز بھی ایک اہم ترین رکن ہے ۔نبی کریم ﷺ فرمایا کہ: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے : لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی دینا ،نماز قائم کرنا ،زکوۃ اداکرنا ،حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا ۔(بخاری:7)حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا: نماز دین کا ستون ہے ۔( بیہقی:2564)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔( نسائی:3903)حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی : نماز ۔نماز اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو یعنی ان کے حقوق اداکرو۔( ابوداؤد:4491) ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا ۔اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔( طبرانی :1898)اس کے علاوہ اور بھی بے شمار ارشاداتِ نبوی اور قرآنی آیات ہیں جن میں نماز کی بے پناہ اہمیت کو بیان کیا گیا اور اس کے اہتما م کی تعلیم دی گئی ہے ۔
نماز کی تاثیر:
نماز ایک جامع الصفا ت عبادت ہے ۔ایک نماز کے اہتمام کرنے کے نتیجہ میں بندہ کے بہت سارے اعمال اور افعال سیدھے راستے پر آجاتے ہیں اور اس نماز کی برکت سے اللہ تعالی اس کو نیکیوں کا خوگر اور برائیوں سے دور فرمادیتے ہیں ۔قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ: اتل مااوحی الیک من الکتاب واقم الصلوۃ ،ان الصلوۃ تنھی عن الفحشا ء و المنکر۔(العنکبوت:45) ( اے پیغمبر!) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعہ بھیجی گئی ہے ،اس کی تلاوت کرو ۔اور نماز قائم کرو ۔بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ: متعدد مستند احادیث کی رو سے یہ مطلب ہے کہ اقامتِ صلوۃ میں بالخاصلہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں بشر طیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو بلکہ الفاظِ قرآن کے مطابق اقامتِ صلوۃ ہو۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے ہیں ،جس میں کسی طرف جھکا ؤ نہ ہو ۔اس لئے اقامتِ صلوۃ کا مفہوم یہ ہوا کہ نماز کے تمام ظاہر اور باطنی آداب اس طرح ادا کریں جس طرح رسول اللہ ﷺنے عملی طور پر اداکرکے بتایا ۔( معار ف القرآن :6/696)نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:آپ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا : بتاؤ اگر کسی شخص کے دروازہ پر ایک نہر جاری ہو جس مین وہ پانچ مرتبہ روزانہ غسل کرتا ، کیااس کے بدن پر کچھ میل باقی رہے گا۔صحابہؓ نے عرض کیا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں نماز وں کا ہے کہ اللہ تعالی ان کی وجہ سے گناہوں کو زائل کردیتے ہیں ۔( بخاری:499)نماز کے اندر یہ تاثر رکھی گئی کہ اس کا اہتمام کرنے والے دیگر اوامر واعمال کی بجا آوری میں پیش پیش رہتے ہیں۔ نماز کے اس حکیمانہ نظام پر مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی ؒ لکھتے ہیں :حکمت الہی اور شریعتِ ربانی نے نماز کا جو لطیف و عمیق اور جامع نظام قائم کیا ہے اس سے مقصودصرف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اپنے مقصد عبدیت کی تکمیل کرسکے ، اس کے اندر اخلاص ،غایت درجہ کا خضوع وتذلل،استغاثہ و ابتہال اور تعلق مع اللہ کی صفات پیدا ہوں ،وہ ماسوی اللہ سے منقطع ہوجائے اور ہر اس شخص کے خلاف اعلانِ بغاوت کردے جو اللہ کی الوہیت و ربوبیت ،اس کی عظمت و کبریائی ،اس کے حکم و فیصلہ اور اطاعت مطلقہ میں حصہ دار بننا چاہتا اور زبانِ قال یا حال سے اپنی پرستش کرنے کی دعوت دیتا ہو اور اپنے طرزِ عمل سے اس کا دعوے دار ہو کہ وہی حکم دینے والا ہے اور وہی منع کرنے والا ، اسی سے امید رکھنی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے ۔۔۔( ارکانِ اربعہ : 39)
نماز کی برکات:
نماز میں ظاہر ی اور باطنی بہت سی برکتیں اللہ تعالی نے رکھیں ہیں۔دینی اور دنیوی بے شمار خوبیوں کو جمع فرمادیا۔نماز کی برکتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پانچوں نمازیں ،جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کا کفارہ ہیں جب کہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔( مسلم :349)آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالی کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتا ۔( صحیح ابن خزیمہ:1082)ایک حدیث قدسی میں ارشادہے کہ: اللہ تعالی نے فرمایاکہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور اس کا میں نے اپنے لئے عہد کرلیا ہے کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کو ان کے وقت پر اداکرنے کا اہتمام کرے اس کو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا اور جو ان نمازوں کا اہتمام نہ کرے تو مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔( ابو داؤد:365)حافظ ابن حجر ؒ نے منبہات میں حضرت عثمان غنیؓ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص اوقات کی پابندی کے ساتھ نماز کی محافظت کرے اللہ تعالی نو چیزوں سے اس کا اکرا م فرماتے ہیں :(1) اس کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں۔(2)اس کو تندرستی عطا کرتے ہیں ۔(3)فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔(4)اس کے گھر میں برکت عطا کرتے ہیں۔(5) اس کے چہرے پر صلحاء کا نور ظاہر ہوتا ہے ۔(6)اس کا دل نرم فرمادیتے ہیں ۔(7)روز محشر اس کو پل صراط سے بجلی کی تیزی سے گزاردیں گے۔(8)جہنم سے نجات عطا فرمائیں گے۔(9)جنت میں نیکوں کا ساتھ عطا کریں گے۔( نماز کے اسرار و رموز:17)
نماز نصرتِ خدا کا نسخہ:
نماز اپنی ظاہری خوبیوں اور باطنی کمالات کے ساتھ اللہ تعالی کی مدد ونصرت کو طلب کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ۔نماز کے ذریعہ نصرت الہی متوجہ ہوتی ہے ،اور اس کا حکم بھی دیا گیا کہ نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کریں ۔چناں چہ ارشاد ہے :واستعینوا بالصبر والصلوۃ،وانھا لکبیرۃ علی الخشعین۔( البقرۃ:45)اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو ۔نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع ( یعنی دھیان اور عاجزی)سے پڑھتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی سخت واقعہ یا حادثہ یا حالات پیش آتے توآپ فوری نماز کی طرف رجوع فرماتے ۔حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کو جب بھی کوئی سخت امر پیش آتا تو نماز کی طرف فورامتوجہ ہوتے تھے۔( ابوداؤد:1125)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:جس شخص کوکوئی بھی ضرورت پیش آئے دینی ہویا دنیوی اس کا تعلق مالک الملک سے ہو یا کسی آدمی سے اس کو چاہیے کہ بہت اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ جل شانہ کی حمد وثنا کرے اور پھر درود شریف پڑھے اس کے بعد یہ دعا پڑھے تو انشاء اللہ اس کی حاجت ضرور پوری ہوگی۔دعا یہ ہے لاالہ الا اللہ الحلیم الکریم۔۔۔الخ(فضائلِ نماز:206)حضرا ت صحابہ کرام کا معمول بھی یہ رہا کہ وہ نبوی تعلیمات کے مطابق ناموافق حالات اور مشکلات میں سب سے پہلے نماز کا اہتمام فرماتے اور اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے۔
ترکِ نماز پر وعید:
نماز کا ادا کرنا جہاں دین و دنیا کی خیر وبرکات کا ذریعہ ہے اور ہر طرح کی خوبی وکمال کاسبب ہے وہیں نماز کی ادا ئیگی سے لاپرواہی برتنا ،سستی و کاہلی کا معاملہ کرنا اور نماز کو ترک کرنا انتہائی سخت ترین گناہ اور دوجہاں کی خسروان و تباہی کاموجب ہوگا۔بہت تاکید کے ساتھ نماز کو چھوڑنے سے منع کیااور اس کو بروقت ادا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ:نماز چھوڑنا آدمی کو کفر سے ملادیتا ہے۔( مسلم :119)حضرت عبادہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے سات نصیحتیں کیں( جن میں ایک یہ ہے کہ)جان کر نماز نہ چھوڑو ، جو جان بوجھ کر نماز چھوڑے وہ مذہب سے نکل جاتا ہے ۔( طبرانی:16613)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جس شخص کی ایک نماز بھی فوت ہوگئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لو گ اور مال و دولت سب چھین لیا گیا ہو۔( ابن حبان:1498)ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:جس شخص نے نماز چھوڑدی وہ اللہ تعالی سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر سخت ناراض ہوں گے۔( طبرانی:11624)حضرات صحابہ کرام کی جن خوبیوں کو قرآ ن کریم میں ذکر کیا گیا ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کاروبار و تجارت انہیں اللہ کی یاد اور اقامتِ صلوۃ سے غافل ہونے نہیں دیتا۔ ( النور:37)
لمحہ فکریہ:
نماز جیسی عظیم دولت اور قیمتی نعمت اللہ تعالی نے سفرِ معراج کے موقع پر ہی عنایت فرمائی ۔یہ آسمانی تحفہ ہے جو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ نبی ﷺ کو عرش پر بلاکر دیا گیا اور بتا دیا کہ اگر یہ امت اس کا اہتمام کرے گی تو دنیا میں بھی اور آخرت میں کامیاب ہو گی اور اپنے خالق و مالک کی نظروں میں معزز رہے گی ۔اور ہر وقت وہ اپنے پرور دگار سے رابطہ میں رہ اپنے ہر مسئلہ کی یکسوئی کرواسکتی ہے ۔ہمارے پاس شبِ معراج کے موقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ رات کو منانے کی فکر کی جاتی ہے ،خطابات و بیانات ہوتے ہیں ،مقررین آسمان اور جنت و جہنم سے متعلقات کو خوب کھول کر بیان کرتے ہیں اور کچھ حضرات اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ نماز اسی رات کو اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کو دی ہے لہذا اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔۔۔لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کبھی نماز کو معراج سے جوڑ کر دیکھتے ہی نہیں ،اس کی اہمیت اور قدر و منزلت ہمارے دلوں میں ہے ہی نہیں ۔رات بھر جاگیں گے ،خوب بیانات سنیں گے لیکن نمازصبح کی فجر سے ہی غفلت کی نذر ہوجاتی ہے ۔سالہاسال سے ہم شبِ معراج مناتے آرہے ہیں لیکن عمریں گزررہی ہیں نماز کے اہتمام کی فکر پیدا نہیں ہوئی ،دن میں ایک نہیں پوری پوری نمازیں چھوٹ رہی ہیں ،ہفتوں اور مہینوں تک مسجد جانے اور نماز ادا کرنے کا موقع سوائے جمعہ و عیدین کے نہیں آتا ؟اگر واقعی ہمارے دل میں نبی کریمﷺ کی عظمت و اہمیت ہوگی اور شبِ معراج کے مقام کو سمجھنے والے ہوتے تو سب سے پہلے ہم نماز کا اہتمام کرنے والے بنتے کیوں کہ نماز اسی رات میں عطاکردہ عظیم اور بے مثال نعمت ہے اور اسی رات کا خصوصی تحفۂ خداوندی ہے ۔نماز کی ادا ئیگی ہی میں ہماری ہر کامیابی اور عزت ہے اور ہر طرح کی خیر و خوبی ہے ۔

تبصرے بند ہیں۔