نازک رشتے

احساس نایاب

یہ کیسی کشمکش ہے زندگی

کوئی پاس رہکر بھی دور ہے

کوئی دور ہوکے بھی دل کے قریب ہے

یہ وہ الجھن ہے، جو سلجھتی ہی نہیں

وہ کونسا اپنا ہے ؟

جو اپنا ہوکر بھی اپنا نہیں

جب سے دنیا بنی ہے بابا آدم اور ماں حوا سے لیکر آج تک ہر مرد و عورت کو عمر بھر ایک خاص نظر کی تلاش رہی ہے، ہر ایک دل کو کسی کے نام پہ دھڑکنے کی چاہ ہوتی ہے، جس دن وہ نظر سے نظر ٹکڑاجائے تو دھڑکنیں بےقابو ہونے لگتی ہیں اور یہ احساس تن من کو آبشار کے شبنمی بوندوں کی مانند بھگودیتا ہے، جسکے لمس سے روم روم کستوری کی طرح مہکنے لگتا ہے اور کانوں میں سُرتال بجنےلگتے ہیں اور جب اُن نظروں کی تپش جسم کے آر پار ہونے لگتی ہے تو دل ودماغ میں ہزاروں ان سلجھے سوال و جواب تہلکہ مچادیتے ہیں تو وہیں سماج کا ڈر اور شرم و حیا کی زنجیریں ایک عورت کواپنے اردگرد جکڑ لیتی ہیں لیکن یہ وہ احساس ہے جو لاکھ زنجیروں میں قید کرنا چاہیں، گذرتے وقت کے ساتھ اپنے ہونے کا احساس دلا ہی جاتا ہے، جیسے سمندر کی لہروں کو جتنا دبانے کی کوشش کریں وہ ہواؤں کے جھونکوں میں مگن ہوکر اتنی بےقابو ہوجاتی ہیں کہ پل بھر میں طوفان اٹھادیتی ہیں، بالکل اسی طرح یہ احساس بھی دو دلوں میں طوفان مچادیتا ہے اور یہ طوفان ایک دوسرے کو تکتے رہنے، ہر گھڑی ایک دوسرے کی یاد میں ڈوبے رہنے اورہر وقت ایک دوسرے کے ذکر کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ مستقل دوپیارکرنے والوں کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دوپیارکرنے والے ایک وقت بنا کھائے پئے جی بھی لیں،مگر اپنے محبوب کو یاد کئےبنا،اوراس کے ذکرسے اپنے دل کوچین وقرارپہونچائے بغیرزندہ نہیں رہ سکتے اور یہی وہ بیقراری ہے جو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو اتنا قریب لے آتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی آواز سننے کے لئے بے چین رہنے لگتے ہیں۔ ۔۔۔نظروں سے شروع ہونے والی یہ گفتگو کب دل کی بات بن کرخط وکتابت کے رستے سے گذرکرٹیلی فون اورموبائل تک پہونچ جاتی ہے پھر نہ ختم ہونے والی باتوں کاسلسلہ اتناطویل ہوجاتاہے کہ گھنٹہ دن میں،دن ہفتوں میں اورہفتے سالوں میں کس طرح تیزی کے ساتھ گذرجاتے ہیں احساس ہی نہیں ہوتااوریہی احساس دونوں کو اتنا قریب کردیتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے جذبات،احساسات حتیٰ کہ پل پل کی چھوٹی سی چھوٹی باتیں تک شئیر کرنے لگ جاتے ہیں، اوریہی وہ نازک لمحہ ہوتاہے جب دوپیارکرنے والے دلوں کا اجنبی پن ختم ہوجاتاہے اور ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ جدائی کے بارے میں سوچنابھی عذاب محسوس ہوتاہے،دونوں کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ پوری دنیا میں یہی وہ واحدشخص ہے جو اسے سمجھتا ہے، جو صرف اورصرف اسی کے لئے ہی بنا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی آواز سنے بنا، اسے دیکھے بنا،دونوں کو پل بھر کے لئے بھی چین نہیں ملتا، بسااوقات توایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے بات نہ بھی کریں تو بھی ایک دوسرے کے درمیان کی خاموشی ہی بہت کچھ کہہ جاتی ہے، دونوں کی نظریں آپس میں اتناکچھ کہہ جاتی ہیں کہ مزیدکچھ کہنے اورسننے کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی، ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن، سانسوں کی رفتار دونوں کے دل کا سارا حال بیان کردیتی ہے اور وہ لمحہ دوپیارکرنے والوں کی زندگی کایادگارلمحہ ہوتاہے اوریہی وہ لمحہ ہوتاہے جوانہیں دنیاسے بے خبرکر دیتا ہے،اردگرد میں رونماہونے والے واقعات سے غافل بنادیتاہے،وہ صرف اپنی دھن میں مگن اوراپنے پیارکے نشے میں مدہوش رہتے ہیں، لیکن جب سناٹے دار خاموشی کو چیرتے ہوئے محبوب کی زبان سے اپنا نام سنتا ہے تو دل مچل جاتا ہے، اسکے تصور سے ہی جذبات بےقابو ہونے لگتے ہیں کیونکہ احساس سے بنا اپناپن وقت کے ساتھ ساتھ دوستی،محبت،چاہت کی سیڑھیاں طئے کرتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ نامعلوم رشتہ نہ جانے کب کبھی نہ سلجھنے والے رشتہ میں تبدیل ہوگیا اور وہ دونوں ایسے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو لاعلاج ہے، جسکی کوئی دوا نہیں، بس محبوب کی آغوش کے سوا اسکو کہیں پہ سکون نہیں ملتا اور ایک اچھے خاصے انسان سے وہ مریضِ عشق بن جاتے ہیں اور یہ مرض نس نس میں نشہ بن کر اترجاتا ہے، ہر پل میٹھےمیٹھے دردکااحساس کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ آنکھوں سے نیندیں اُڑجاتی ہیں، سیاہ رات کی تنہائی میں اُسکی آواز کانوں میں سرگوشی کرنے لگتی ہے، ایک تڑپ، ایک بےچینی ہمیشہ کے لئے ان کی ساتھی بن جاتی ہے۔ آنکھوں میں ہر لمحہ اسی کا انتظار رہتا ہے۔پھر ایک دن دل کی دنیا ویران ہوجاتی ہے،محفلوں اور اپنوں کے بیچ رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں، اپنے دن رات بس کسی کی یاد میں، کسی کے انتظار میں، کسی کو محسوس کرتے ہوئے اسکے تصور میں گذار دیتے ہیں اور کسی کو پانے کی چاہت ہر رشتے ناطے کو اپنوں سے دور کردیتی ہے اور جب یہ محبت تمام بندشیں پار کرکے جنون اور دیوانگی کی حدتک پہونچ جاتی ہے تو وہ وقت کسی بھی انسان کی زندگی کا بہت مشکل وقت ہوتاہے جہاں اسے پوری دنیا کے آگے صرف اور صرف وہی شخص نظر آتا ہے، جیسے وہ اسکی روح میں بس چکا ہو، اُس وقت انسان کو صحیح غلط، اچھا برا کچھ نظر نہیں آتا، اگراسے کچھ نظر آتا ہے تو صرف اُس شخص کا چہرہ اور کسی چیز سے مطلب رہتا ہے تو وہ ہے اسکی خوشی، اسی بیچ وہ موڑ بھی آہی جاتا ہے جب ایک عورت اپنے ہی دل کے آگے ہار کر محبت کا اقرار کر دیتی ہے اور زندگی بھرکے لئے اُس شخص کی محبت میں گرفتار ہوکر اُ سکو اپنا سب کچھ مان لیتی ہے، جس کے آگے اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور یہ محبت جنون بن جاتا ہے تو وہ پل بھی دور نہیں رہتا جب عورت محبت کے آگے پوری طرح سے کمزور ہوجاتی ہے، لاکھ کوششوں کے باوجودوہ خود کو روک نہیں پاتی اور خود کو اُسکی آغوش میں پگھلتے ہوئے اپنے جسم کے ساتھ روح بھی سونپ کر اپنا وجود ہار جاتی ہے اور ساری زندگی خود کو امانت کی طرح اپنی اُس محبت کے نام پہ سنبھال کے رکھتی ہے،یکایک اس کے سپردکردیتی ہے۔

یہ لمحہ جہاں ایک عورت کے لئے اس کی زندگی کابہت ہی نازک ترین لمحہ ہوتاہے وہیںدوسری جانب ایک مردکے لئے فخرکی بات ہوتی ہےکہ بالآخرایک عورت اس کی محبت میں گرفتارہوکراس کی جھولی میں آگری،اوریہی وہ لمحہ ہوتاہے جب مرد عورت کے اظہارمحبت کے بعد بےفکر ہوجاتا ہے، کیونکہ اب اسکو اس بات کا یقین ہوچکا ہوتا ہے کہ یہ پوری طرح سے میری ہے، اوریہ میرے دام محبت میں گرفتارہوچکی ہے، جس کمزور لمحے میں عورت اسکی محبت میں ہار گئی تھی، اُسی پل مرد کا یقین بڑھ جاتا ہے کہ اب یہ ہمیشہ کے لئے میری ہوگئی،اور اسی بےفکری کی وجہ سے مرد لاپرواہ ہوجاتاہے،یہیں سے دوپیارکرنے والوں کااصلی اورحقیقی امتحان شروع ہوجاتاہے۔مردجوکبھی اس عورت کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتاتھااب اس سے دوربھاگتاہے،اب اسکو اُس عورت کے انتظار، اُسکی یاد، اُسکی تڑپ اور اُسکے جذبات کا احساس ہی نہیں رہتا اور وہ کچھ ہی وقت میں محبت کی دنیا سے دور ہوتے ہوئے اپنی حقیقی زندگی میں مصروف ہونے لگتا ہے،اب وہ اپنے اوپر زمانے کا ڈر، اپنے رشتوں کو زندہ رکھنے کی چاہت اور اپنا وقار برقرار رکھنے کی کوشش میں اسکی محبت میں وہ پہلی والی شدت نہیں رہتی، جسکی وجہ سے اسکی مصروفیات بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ وہ صبح کا پہلا سلام بھی بھول جاتاہے جواظہارمحبت اوراقرارمحبت سے پہلے دونوں ایک دوسرے کوکیاکرتے تھے۔ جبکہ یہ معمولی سا سلام اُس عورت کی زندگی کا حصہ بن چکاہوتا ہے، جس کو سن کر وہ ہر صبح اپنی آنکھیں کھولا کرتی تھی، محبوب کی خیریت جان کر اسکے چہرہ پہ مسکراہٹ آجاتی اور اُسکا سارا دن اطمینان سے گذرتاتھا، پھر رات میں محبت بھری باتوں کے ساتھ اللہ حافظ سنکر چین بھری نیند کی آغوش میں چلی جاتی تھی، لیکن اقرار اور محبت کو پالینے کے یقین کے ساتھ ہی وہ سارے حسین لمحے ختم ہونے لگتے ہیں، پہلے جو گھنٹوں گھنٹوں تک باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں ابھی وہ مختصر ہونے لگتی ہیں، اسی درمیان ایک دوسرے پہ غصہ،بات بات پہ ناراضگی، جھگڑا ہر دن کا معمول بن جاتا ہے کیونکہ عورت کو ہر پل اپنی محبت کے کھونے کا ڈر لگا رہتا ہے، وہ کسی بھی قیمت پر اپنے احساسات اور جذباتوں کا گلا گھوٹنا نہیں چاہتی، نہ ہی اپنی محبت کو دھیرے دھیرے دم توڑتے ہوئے دیکھ سکتی ہے،لیکن افسوس دل کے رشتے چاہے جتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں، کتنے بھی گہرے کیوں نہ ہوں، وقت کی آندھی اور دنیاوی رشتوں کے آگے بے بس اورلاچار ہوجاتے ہیں اور ناچاہتے ہوئے بھی مجبوراً اپنے دل کو ہی اپنی حسرتوں اور ارمانوں کا زندہ قبرستان بنادینا پڑتا ہے، جسکا انجام یہ ہوتاہے کہ حقیقی دنیا کے ساتھ ساتھ دل کی دنیا بھی قبرستان بن کے رہ جاتی ہے، کیونکہ محبت کی چاہت میں وہ خود سے ہی اپنے جسم اور روح کا بٹوارہ کرچکی ہوتی ہے، کسی ایک کو پانے کی خاطر اپنا سب کچھ کھو چکی ہوتی ہے اور اسکی ساری زندگی اس ان سلجھے رشتے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

اسی لئے پیارکرنے والوں کوکہاجاتاہے کہ بہتر ہے ان رشتوں میں اپنا سب کچھ لٹنے سے پہلے وقت رہتے خود کو سنبھال لیں، پل بھر کی خوشیوں کی خاطر اپنی زندگی کوجہنم نہ بنائیں،بلکہ جب دوپیارکرنے والوں نے اقرارِ محبت کرہی لیا ہے تو اس ان سلجھے اورنازک رشتے کو ایک حسین موڑدیکر نکاح جیسے عظیم رشتے سے منسلک ہوجائیں، لیکن اس دوران اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ پہلے جو محبوب محبوبہ والی زندگی گذار رہے تھے اب نکاح کے بعد وہ میاں بیوی کی زندگی ہوگی اور زندگی کے ان دونوں پہلو میں بہت فرق ہے اور اس فرق کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے شادی شدہ زندگی گذارینگے تو کامیابی ملے گی، مگر محبوب محبوبہ والی سوچ اگرذراسی بھی باقی رہ گئی تو ضروری نہیں کہ شادی کے بعد مرد بھی وہی سوچ رکھے،اسلئے بہتری اسی میں ہے کہ دونوں پہلوؤں پہ غوروفکر کر کے صحیح فیصلہ لیں تاکہ آگے چل کر پچھتانا نہ پڑے ورنہ ایک خواب سمجھ کر اُسے بھلادیں اور اپنی حقیقی منزل کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھ جائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔