نبیؐ بحیثیت ایک مدبّر اور ماہر سیاست

تحریر: مولانا امین احسن اصلاحی … ترتیب: عبدالعزیز

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے جو دین بھیجا، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے ذریعے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے، اُتنا ہی اس کا تعلق حکومت سے بھی ہے۔ اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے حضورؐ کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکّی نفوس اور ایک معلم اخلاق ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہر سیاست اور ایک مدبر کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔ میں آج کی صحبت میں حضورؐ کی زندگی کے اس پہلو سے متعلق چند باتیں عرضی کرنی چاہتا ہوں۔

            اس امر واقعی سے آپ میں سے ہر شخص واقف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مورخ علامہ ابن خلدونؒ نے ان کو ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو انکار نہیں کرسکتے کہ اہل عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان پر مزاج اور انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعورِ قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قایم ہوتی ہیں، اُن کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج، مزاج پسندی کیلئے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امر محال بن چکا تھا۔ خود قرآن مجیدنے ان کو قوْماً لُدّاً کے لفظ سے تعبیر فرمایا جس کے معنی ’جھگڑالو قوم‘ کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا ہے:

            ’’اور تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرلیتے، جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘(الانفال:63)۔

            لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیان مرصوص بن گئی۔

            یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی تھی بلکہ اپنے باطنی عقاید و نظریات میں بھی بالکل ہم آہنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتر بانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلا استثناء دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست و جہانبانی کا درس دیا۔

            اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانیت تنظیم تھی، ا س کے پیدا کرنے میں حضورؐ نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام کیا، نہ دنیوی مفادات کا کوئی لالچ دیا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انہی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضورؐ بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی، لیکن آپؐ نے صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان میں سے ہر چیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنہ کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو خدا کی بندگی اور اطاعت، عالمگیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، علائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے، اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ آپؐ کی کوشش سے ایک بہترین اُمت ظہور میں آئی، جس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے:

            ’’تم دنیا کی بہترین امت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کیلئے اٹھائے گئے ہو‘‘۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضورؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ میں نے عرض کیا فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ ان کے احاطہ میں آتا تھا لیکن آپؐ نے کسی اصول کے معاملہ میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں فرمائی۔ نہ دشمن کے مقابل میں نہ دوست کے مقابل میں۔ آپ کو سخت سے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو آپؐ کے مقابل میں موم پڑجاتا لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملہ میں کبھی کوئی سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں کیا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیشکشیں بھی کی گئیں اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی اور دنیوی مصلحتیں بھی سجھانے کی کوشش کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کی تدبیریں بھی آپؐ کے کسی موقف سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہر بات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قایم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کا نشان آپ نہیں دے سکتے، جو اپنے دو چار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظام زندگی کھڑا کر دیا جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانہ کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرین سیاست اس انوکھے نظام کو پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے لیکن حضورؐ نے اس نظام زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کر دیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے وہ خود دیوانے تھے۔

            صرف یہی نہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کیلئے بھی اپنے اصولوں کی قربانی کبھی نہیں دی۔ اصولوں کیلئے جان اور مال اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کئے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کئے گئے لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک ہی کیلئے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا۔ وہ اپنی مدت پوری کرچکنے کے بعد ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہر حال میں اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کی جائے۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کیلئے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں، شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دے دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی کسی ذاتی غرض کیلئے جھوٹ بولے، چالبازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگر چہ اس زمانہ میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں اور اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھہراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو حرام قرار دیتا ہے لیکن کیا ایک سیاستدان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کیلئے کرے تو یہ سارے کام اس کے فضائل اور کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ سیاست کیلئے یہی صفات اور کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے مگر اس کانتیجہ یہ تھا جو لوگ ان باتوں میں ماہر ہوتے تھے وہی لوگ ابھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

            لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابلہ میں ایک صاحب اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہیں زیادہ سنگین قرار دیا۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپ کو پیش آئے جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔ آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حلیفوں اور حریفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے۔ دشمن سے متعدد جنگیں لڑنی پڑیں، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے۔ آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کیلئے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے۔ بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیئے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔ اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا۔ کسی معاہدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپؐ دنیا کے مدبرین اور اہل سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں، تو میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی اس دیانت اور سچائی قایم رکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر سے تعبیر کیجئے یا حکمت نبوت سے۔

                                                                                                                                    (جاری)

تبصرے بند ہیں۔