پاکستان میں قادیانیوں کو کیسے غیر مسلم قرار دیا گیا؟

پروفیسر عبدالغفوراحمد (سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان، سابق ممبر نیشنل اسمبلی)

        7؍ ستمبر 1974ء کوپاکستان کی نیشنل اسمبلی (پارلیمنٹ ) نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعہ فادیانیت کے دونوں فرقوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ پروفیسر عبدالغور صاحب لیاقت آباد (کراچی) حلقہ سے قومی اسمبلی کے منتخب ممبر ہواکرتے تھے۔ پچھلے الیکشن میں جماعت اسلامی پاکستان، تحریک انصاف پارٹی نے چیف جسٹس پاکستان افتخار احمد کے سپریم کورٹ سے ہٹائے جانے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے پروفیسر صاحب الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے۔ جب قادیانیوں کا مسئلہ پاکستان اسمبلی میں زیرغور تھا تو پروفیسر  صاحب نے مباحثوں میں پوری دلچسپی اوربیدار مغزی سے حصہ لیا۔ زیر نظر مقالہ سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر عبدالغفور صاحب نے یکم محرم۱۳۹۵ھ رابطہ عالم اسلامی (مکہ مکرمہ) کے ایک جلسہ میں پیش کیا۔ اس مقالہ سے پاکستان میں قادیانیوں کو کیسے عروج حاصل ہوا اورکیسے وہ پاکستان  کے ہر معاملہ میں دخیل ہوئے، آسانی سے جانا جا سکتا ہے۔ (عبدالعزیز)

        تمام مسلمانوں کا اس نقطہ پر کلی طور سے اتفاق ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور ان کے بعدکسی طرح کا کوئی دوسرا نبی نہیں پیدا ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں جب بھی کسی جھوٹے مدعی نے دعویٰ نبوت کیا تومسلمان اسے برداشت نہ کرسکے اور اس مجرم کو اس کے متبعین سمیت فنا و زوال کے گھاٹ اتار دیا۔ مسلمانوں کے اس طریقہ ٔ عمل نے مدعیانِ نبوت اوران کے متبعین کی اس حد تک بیخ کنی کی وہ پھر کبھی پنپ کربرگ وبار نہ لاسکے اور آج صفحۂ ہستی پر ان کا کہیں نام و نشان بھی نہ مل سکے گا۔

         لیکن ایک افسوسناک اورعجیب و غریب حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک ہندوستانی مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی جو قادیان (پنجاب ہند) کی سرزمین پر ۱۸۳۹ء میں پیدا ہوا۔ وہ مسلمانوں کے اس طریقہ عمل بڑی حد تک مستثنیٰ رہا۔ مرزا غلام احمد نے بتدریج اپنے دعوئوں کی ابتدا کی۔ ۱۸۸۲ء میں اس کا یہ پہلا دعویٰ سامنے آیا کہ خدا وند قدوس نے بذریعہ الہام اسے ایک نہایت اہم خدمت مامورپر فرمایا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر دوسرا دعویٰ کیا کہ اس کے پاس حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے تھے، اپنے ان گمراہ کن اور فتنہ انگیز دعوئوں کی تبلیغ بھی برابر کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی عقل فتنہ پرور نے اس دعویٰ کو بھی نہ چھوڑا کہ ’’اے خدا نے رسول کا لقب دے کر اس کانام سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ’’محمد‘‘ رکھ دیا ہے اور ۱۹۰۱ء میں تو اس نے بلاکسی ابہام و غموض کے ’’نبیٔ مرسل‘‘ ہونے کا اعلان بڑے زور و شور سے شروع کردیا جو اس کا خاص نشانہ اور آخری مطمح نظر تھا۔ اس کا یہ نظریہ آخیر دم تک قائم رہا اور اپنے اوپر ایمان نہ لانے والے مسلمانوں کو کافر سمجھتا رہا۔ ہندوپاک اور دیگر ممالک میں اس کے متبعین و ناصرین کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے جو اس کے مذہبی خیالات و معتقدات کی برابر تبلیغ و اشاعت کررہی ہے۔

قادیانیت کی پشت پر سامراجیت کا ہاتھ

         بجا طورپر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندو پاک کے وہ مسلمان جو اپنی قوت ایمانی اورخاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت میں مسلمانِ عالم کے درمیان اپنا ایک امتیاز مقام رکھتے ہیں انہوں نے اس کذّاب کے وجود کو کیسے گوارا کرلیا اوران کی غیر ت ایمانی کیوں خاموش رہی۔

         اس سوال کا سیدھا سادا جواب تو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد کے خیالات منظر عام پر آتے ہی مسلمانوں کے اندر اضطراب و بے چینی کا باعث بن گئے۔ انہوں نے اپنے غیض و غضب  کے اظہار کے ساتھ ہی اس تحریک کو اس کے گہوارہ ہی میں دفن کردینے کی اتنی ہی کوششیں کیں جتنی ہر اسلام دشمن تحریک کے ساتھ کی جاتی تھیں لیکن اس بات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ اس وقت برصغیر ہندستان میں برطانوی سامراجیت کی حکمرانی تھی اور مرزا غلام احمد اسی سامراجیت کا پروردہ تھا۔ اسی لئے ہندستان میں اپنے استحکام و دوام کے لئے برابر اس کی حمایت و مدافعت کرتی رہی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی سامراجیت نے اسے دعویٰ نبوت و اعلان و ابطال جہاد پر ابھارا اور اس کے پیچھے اس کا یہ خیال کارفرما تھا کہ مسلمانوں کے اندر انتشار و خانہ جنگی پیدا کرکے نظر یاتی و عملی طورپر ان سے برطانوی استعمارکو منوالیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح انگریز اس کی مادی مدد کیاکرتے تھے اسی طرح ان کی پولس بھی اس کی حفاظت و نگرانی کیاکرتی تھی اورانہوں نے مسلمانوں میں اپنے باطل نظریات کو پھیلانے کے لئے مرزا کو ہر ممکن سہولتیں بھی مہیا کیں اور مختلف ممالک بالخصوص برطانوی مستعمرات میں قادیانی مراکز قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے اورممتاز مسلم گھرانوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ قبول قادیانیت پر ابھارتے ہی نہیں بلکہ مجبور بھی کیاکرتے۔ ان کی ترغیب پریا مادی مصالح کے تحت جو لوگ اسے قبول کرلیا کرتے تھے انہیں القاب و انعامات اور تمغوں سے نوازا جاتا۔ مختصر یہ کہ غیرملکی سامراجیت ہی نے مرزا کو مسلمانوں کے سرتھو پا کیونکہ اس کے لئے تمام سہولیات اورحمایت و اعانت کے سبھی دروازے نہایت فراخدلی سے کھولدئیے کہ وہ مسلمانوں کے اندر گھس کر انہیں ایک سخت دھچکا پہنچائیں تاکہ اندرونی طورپر انتشار و افتراق کی آگ بھڑک اٹھے۔ انگریزوں کے ظل عاطفت میں اطمینان و سکون کے ساتھ قادیانیت پھلتی پھولتی رہی۔ یہاں تک کہ 1947ء میں پاکستان عالم وجود میں آیا۔ ہمارے وہ اسلامی برادر جو دنیا کے گوشے گوشے میں بستے ہیں انہیں یہ سمجھنا بڑا دشوار ہوگا کہ وہ پاکستان میں جو اسلامی اصول ونظریات کی بنیاد پر عالم وجود میں آیا تھا۔ اس میں قادیانیت کی بقا کا سوال ہی کیا۔ وہ کیوں اورکیسے بڑھتی اورپروان چڑھتی رہی۔

پاکستان اور قادیانیت

        اب عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کر رہاہوں جن کی وجہ سے قادیانی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا موقع پا گئے اورپاکستان و بیرون پاکستان اپنے باطل نظریات کی اشاعت کرسکے۔

         پاکستان جب 1947ء میں دنیا کے نقشہ پر ابھرا تو اس کے پاس ذرائع ووسائل یکسر مفقود تھے۔ پھر انگریز حکمرانوں نے بھی اس نئی حکومت کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ لاکھوں پناہ گزینوں کی امداد اوران کی آبادکاری کا مسئلہ بھی کچھ کم ہمت شکن اور صبر آزمانہ تھا، بڑی طاقتیں بھی اس کی بقا و ترقی نہیں چاہ رہی تھیں اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتیں تاکہ مضبوط بنیادوں پر اس کی عمارت استوار نہ ہوسکے اورکچھ ہی دنوں میں اس کی ابتدا و انتہا دونوں کی داستان مکمل ہوجائے ان تمام دشواریوں کے باوجود پاکستان نے پناہ گزینوں کو ہر طرح کی سہولیات بہم پہنچائیں۔ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے قادیانی سربراہوں نے قادیان (جو مرزا کامولد و مسکن تھا) سے اپنا مرکز پاکستان منتقل کرلیا اور دوسری طرف سر ظفر اللہ خان (قادیانی) کو اس کا وزیر خارجہ بنانے پر مجبور کردیا۔ مسلمانوں نے اس پر بہت احتجاج کیا لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوسکا۔ خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان نے نہایت عاجزی  سے کہا کہ وہ سر ظفر اللہ خان کے خلاف کسی طرح کاکوئی اقدام کرنے سے مجبور ہیں اور اگر ایسا کیاگیا تو پاکستان غیر ملکی امداد بالخصوص غذائی بحران سے دو چار ہوجائے گا اور اس طرح وہ مصائب و مشکلات میں گھر کر موت کی ہچکیاں لینے لگا۔ اس کٹھن وقت میں پاکستان قادیانیوں کو ہر ممکن سہولتیں اورمراعات دینے پر مجبور ہوگیا جب کہ دوسرے ہم وطن بڑی حد تک ان سے محروم رہے۔ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بہت سے پروگرام بنائے اور ان میں سے اکثر کو ایک مختصر سی مدت میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب بھی رہے اورپاکستان کو آسانی سے دنیا بھر میں اپنا پروپگنڈہ کرنے کے لئے ایک مرکز بنالیا۔ مجھے اس کااعتراف ہے کہ انہوں نے  اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرلیا۔

         مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں آپ ان کی طاقت اورپوزیشن کا اچھی طرح اندازہ کرسکتے ہیں۔

(1) ’’ربوہ‘‘ قادیانیوں کی راجدھانی

         پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد مختلف راستوں سے اس میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگے مختصر سی قیمت پر زمین خرید کر اپنا ایک مخصوص شہر’’ربوہ‘‘ کیا اور اس کی باگ ڈور اور سارا نظام قادیانیوں ہی کے ہاتھ میں رکھا۔ انہیں کی زیر نگرانی پولس کا مخصوص نظام ہی مختلف قسم کے جو دفاتر ہیں وہ بھی انہیں سے متعلق ہیں کسی بھی مسلمان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ تھوڑی سی زمین بھی ’’ربوہ‘‘ میں خرید سکے۔ یہاں تک کہ وہ کرایہ دار بھی نہیں ہوسکتا۔ سرکاری وغیر سرکاری ہر طرح کی ملازمتوں پر ان کا قبضہ ہے۔ کسی بھی غیر قادیانی کو کوئی ملازمت نہیں مل سکتی۔ ان کے اپنے مستقل اسکول و کالج اور شفا خانے ہیں۔ مختصر یہ کہ ’’ربوہ‘‘ اندرون ملک قادیانیوں کی ایک ’’آزاد ریاست‘‘ ہے۔ ملک و بیرون ملک اپنے گمراہ کن خیالات کی تبلیغ و اشاعت کے لئے صدر دفتر کے طورپر جدید آلات سے مرصع و مسلح ان کی عظیم الشان سکریٹریٹ بھی ہے۔

(2) ملازمتوں میں قادیانیوں کی کثرت

         سرظفر اللہ خان نے وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے فوج اور شہری محکموں اور اداروں میں اہم عہدوں پر قادیانیوں کو بھر دیا۔ پاکستانی سفارت خانوں کے اہم عہدوں پر اپنے نوجوانوں کو جگہ دینے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑا۔

(3)    اسکول وکالج اور شفاخانے

         اپنے غیر محدود وسائل و ذرائع کا استعمال کرتے ہو۔ اعلیٰ پیمانے پر تعلیمی ادارے اور شفاخانے کھول دئیے اورمسلمانوں کو ان سے استفادہ کا موقع اس لالچ میں دیتے کہ عیسائی مشنریوں کی طرح بتدریج اپنے دام میں پھنسا سکیں۔

(4)    مالی تعاون اور تعلیمی وظیفے

        غریب طلبہ کو وظیفے اوربیکار مزدوروں کو ملازمیں دلاتے اورحاجت مندوں کومالی مدد بھی کرتے بشرطیکہ وہ قادیانیت قبول کرلیں۔

(5)    سرکاری عہدوں کا بیجا اور غیر قانونی استعمال

        کثرت سے سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ ایسی فضا تیار کرتے کہ نیچے ملازمین اگر قادیانیت قبول کرلیں تو بآسانی انہیں ترقی حاصل ہوسکتی ہے۔

(6)    صنعتی اور تجارتی ادارے

        حکومت کی جانب سے قادیانیوں کو صنعت، تجارت، زراعت میں تیز رفتاری سے ترقی کرنے کے لئے تمام سہولتیں حاصل تھیں جن کی وجہ سے ان میدانوں میں اکثر ملازمتیں یا قادیانیوں کو ملتیں یا ان مذبیں کو جو آسانی سے ان کے شکار ہوسکیں۔

کتابیں اور پمفلٹ

        جادۂ حق سے دور کرنے اور اسلامی عقائد و افکار میں شک و تذبذب پیدا کرنے کے لئے پمفلٹ اورلٹریچر کی اشاعت کے لئے انہوں نے تمام ذرائع و وسائل مہیا کررکھے ہیں۔ یہ چیز مسلمانوں کے لئے بڑی قلق و اضطراب کی باعث تھی۔ انہوں نے ہر میدان میں بڑی جرأت و دلیری سے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے نہ جانے کتنی بار حکومت سے مطالبہ بھی کیا۔ مذکورہ اسباب کی بنا پر جتنی بھی حکومتیں بنتی بگڑتی رہیں انہیں فیصلہ کن انداز میں کسی جرأت مندانہ اقدام کی ہمت نہ پڑسکی۔ مسلمانوں کا اضطراب بڑھتا رہا اور مجبور ہوکر انہیں ملک بھر میں احتجاجوں اور مظاہروں کی فضا تیار کرنی پڑی۔ اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے حکومت تو مجبور کرنے کی کوششوں کرتے رہے۔ ۱۹۵۳ء تو اس طرح کے مطالبات سے پُر نظر آتا ہے لیکن بد قسمتی سے حکومت بجائے اس کے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرتی اس نے نہایت بیددری سے اسے  کچل دیا۔ پنجاب (جس میں ’’ربوہ‘‘ ہے) میں مارشل نافذ کردیا جس میں تقریباً دس ہزار مسلمان مارے گئے اورلاکھوں کو قیدوبند کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ حکومت کے ان اقدامات سے قادیانیوں کی حوالہ افزائی ہوتی اورانہوں نے اپنی تخریب کارانہ سرگرمیوں کو اور تیزکردیا لیکن ہزاروں مسلمانوں کی شہادت اور ناقابلِ برداشت شدائد و آلام بھی اس تحریک کو مٹا نہ سکی اور بالآخر شہیدوں کا خون رنگ لاکر رہا۔

قادیانیت اور حکومت

        اس میں شک نہیں کہ قادیانیوں نے 1970ء کے الیکشن میں موجودہ حکمراں پارٹی (پیپلز پارٹی) کا زبردست تعاون کیا۔ وزیر اعظم پاکستان اس وقت پارٹی کے صدر تھے۔ اسی قادیانی دعویٰ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ان ہی کی مدد سے جیتی ہے اور انہیں کی حمایت سے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوسکے ہیں۔ اپنی حمایت کی قیمت حاصل کرنے کے لئے قادیانی زیادہ سے زیادہ حکومت سے قریب ہوئے۔ تجارتی اور صنعتی جگہوں پر مستقل قبضہ کرنے کے لئے اونچے اونچے عہدوں تک اپنے لوگوں کو پہنچایا تاکہ حکومت پاکستان کو مکمل طورپر اپنا ملک بناکر اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے تمام منصوبوں کو بروئے کار لاسکیں۔ وہ بیرونی ممالک میں یہ پروپگنڈہ بھی کرنے لگے تھے کہ پاکستان ایک قادیانی مملکت ہے وہاں کے سبھی باشندے قادیانی ہیں اور انہیں کے ہاتھوں میں ہر طرح کے امور کی باگ ڈور بھی ہے۔ سرکاری معاملات میں انہیں اس حد تک اپنے اثر و رسوخ پر اعتماد تھا کہ عقیدۂ ختم نبوت کے موضوع پر ایک بار کچھ علماء نے تقریریں کیں تو قادیانی بپھر گئے اور ان علماء پر حملہ کر بیٹھے۔ فطری بات ہے کہ مسلمان اس مجرمانہ حرکت پر غضب ناک ہوجائیں۔

’’ربوہ‘‘ کا فساد

         قادیانیوں نے اپنی طاقت کے زعم میں ربوہ اسٹیشن سے گزرنے والے کچھ مسلم طلبہ پر حملہ کرکے انہیں بری طرح زدوکوب کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ طلبہ ہنگامہ سے ایک ہفتہ قبل اس اسٹیشن سے ختم نبوت کی حمایت اور اس سے متصادم نظریات کے خلاف اسلامی الفکر نعرے لگاتے ہوئے گزرے تھے۔ مسلمانوں میں اس شرارت آمیز حملہ کی خبر پھیلتے ہی ایک آگ سی لگ گئی۔ انہوں نے متحد و منظم ہوکر اس حملہ کی مرتکبین کی سزا کا مطالبہ کیا اور اعلان کردیا کہ جب تک قادیانیوں کو غیر مسلم فرقہ نہ قرار دیا جائے اس وقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اورنہ ہی کسی طرح امن و سکون کی فضا پیدا ہوسکتی ہے۔

         مئی 1974ء میں جب کہ پارلیمنٹ کے اجلاس ہو رہے تھے اس وقت حزب اختلاف کے تمام ممبران نے ایجنڈے میں مندرج موضوعات پر نہایت عجلت سے بحث کرکے اس اہم واقعہ پر مباحثہ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اسپیکر پارلیمنٹ نے حکومت کا بجٹ پیش ہوجانے کے بعد اس موضوع پر مباحثہ کا وقت دینے کا وعدہ کیا۔

قادیانیت کا مسئلہ پارلیمنٹ میں

         30 جون 1974ء کو قادیانیت کے مسئلہ پر گفتگو سے پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغاز ہوا۔ 37 ممبران پارلیمنٹ بحث کے پہلے روز یہ قرارداد پیش کی۔

        چونکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کیا ہے جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور اس کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا اور اس نے اپنے جھوٹے دعوے کی تبلیغ کی ہے اور ابطال جہاد کا حکم نیز آیات قرآنی میں تحریف کی کوشش کرکے صریحاً اسلامی تعلیمات و ہدایات کی مخالفت کی ہے اوریہ بات بھی متحقق ہوچکی ہے کہ یہ فرقہ سامراجیت کا پروردہ ہے اور اس کا اہم مقصد وحدتِ اسلامی کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ اس کے تمام متبعین چاہے اسے نبی مانتے ہوں یا قائد یا مصلح بہر صورت اہل اسلام کے نزدیک وہ خارج از اسلام ہیں وہ خود کو ایک مسلم طبقہ سمجھ کر مسلم معاشرہ میں زندگی گزارتے ہیں تاکہ ان کی تخریبی کارروائیوں پر پردہ پڑا رہے۔ لیکن فساد قلب و نظر کا یہ حال ہے کہ اس کے تمام کارکنان ملک و بیرون ملک میں تخریب کارانہ کارروائیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام ۶؍ اپریل تا ۱۱؍ اپریل 1974ء کو مکہ مکرمہ میں اسلامی تنظیموں کی جو عالمی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے مسلم تنظیموں کے ایک سو چالیس وفود شریک ہوئے تھے اس نے با تفاق آراء یہ قرار داد پاس کیا۔

        ’’قادیانیت ایک تخریب پسند فرقہ ہے جو اسلام اورمسلمانوں کی تباہی چاہتا ہے‘‘

         ان تمام وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو یہ تسلیم کرکے مرزا غلام احمد کے ماننے والے چاہے جس رنگ میں بھی ہوں خارج از اسلام ہیں۔ اس کا اعلان بھی کردیا جانا چاہیے۔

         دستور میں ترمیم کرکے اسے ہر جگہ نافذ العمل کردیا جائے اور آئینی طورپر پاکستان میں قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے کر اسے تمام واجبی حقوق دئیے جائیں۔

        حزب اختلاف کی قرار داد کے ساتھ ہی حکمراں پارٹی نے بھی ایک دوسری قرار داد پیش کرکے اس موضوع پر بحث کرنے کا مطالبہ کیا جس کا خاص مقصد یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننے والوں کی قانونی حیثیت کی تجدید کردینی چاہیے۔ یہ دونوں قرار داد یں پارلیمنٹ میں پیش ہوگئیں اور رازدارانہ طورپر ان پر بحث ہونا طے پایا۔

جان توڑ کوششیں

        پارلیمنٹ میں دونوں قراردادیں پیش ہوجانے کے بعد قادیانیوں کی سرگرمیاں تیز تر ہوگئیں یہاں تک کہ خبریں ملتی ہیں کہ ممبران پارلیمنٹ کو اپنانے کے لئے بیشمار دولت خرچ کی گئی۔ عام مسلمانانِ ملک اور بالخصوص ممبران پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ لوگوں میں یہ بات راسخ کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ اگر آج قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاگیا تو کل یہی حشر شیعوں کا پھر وہابیوں کا اور اس کے بعد سنیوں کا ہوگا اور تمام فرقے اس کی زد میں آتے جائیں گے یہاں تک کہ ایک دن وہ آئے گا۔ جب کہ ان قوانین کے تحت روئے زمین پر کوئی مسلمان نہ رہ جائے گا۔

        عالمی سطح پر قادیانیوں نے پاکستان کے خلاف ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات و رسائل کے ذریعہ گمراہ کن پروپگنڈے کئے کہ چند مذہبی دیوانوں نے ہزاروں قادیانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ لاکھوں کی جائیداد لوٹ لی گئیں یا انہیں جلاکر خاکستر کردیا گیا حالانکہ یہ الزامات قطعاً بے بنیاد تھے اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان پر بیرونی دنیا کی طرف سے دبائو ڈالاجائے چنانچہ ایسا ہوا کہ چند ممالک نے ان کی خواہش کے مطابق حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو قادیانیوں کے حق میں نقصان دہ ہو ____ ان دشوار گزار حالات میں پارلیمنٹ نے اس مسئلہ پر اپنے کام کا آغاز کیا۔

قادیانیوں میں دو فرقے

        مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین دو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک فرقہ ’’قادیانی جماعت ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جس کا مرکز روحانی ’’ربوہ‘‘ ہے اور جس کا موجودہ پیشوائے اعظم مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے مرزا ناصر احمد ہیں۔ دوسرے فرقے کو ’’لاہوری جماعت‘‘ کہاجاتا ہے جس کا مرکز لاہور ہے اور جس کے مذہبی مقتدا …… صدر الدین ہیں ان دونوں فرقوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں ایسی درخواستیں آئیں جس میں یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں اپنے موقف اور اپنے خیالات کے اظہار کے لئے تحریری اورکتابی صورت میں بھی اجازت دی جائے۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طورپر دونوں کی درخواستوں کو منظور کرلیا۔ سنجیدگی اور اطمینان و سکون سے اپنا موقف واضح کرنے کے لئے کافی وقت بھی دیا چنانچہ قادیانی جماعت نے بڑی سائز کے دو سو صفحات پر مشتمل ایک طویل بیان پیش کیا۔ اس طرح لاہوری جماعت کا بیان بھی بڑی سائز کے سو صفحات پر مشتمل تھا۔ دونوں بیانوں کے ساتھ تقریباً بارہ کتابیں بھی تھیں۔ قادیانیت پر غور و فکر کرنے کے لئے ممبران پارلیمنٹ میں بیانات کے ایک ایک نسخے بھی مع کتابوں کے تقسیم کئے گئے۔

پارلیمنٹ میں مباحثہ کی سرگزشت

         پارلیمنٹ نے صدر الدین پیشوائے جماعت لاہوری کی خواہش پر ممبران کے سامنے تقریر کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ ان دونوں پارٹیوں کو بحث و مباحثہ میں مدد دینے کے لئے اپنی جماعت کے اہل علم و اصحاب فکرو نظر کو بھی ساتھ لے جانے کا موقع دے دیا۔ اس طرح دونوں فرقوں نے ان کی مدد سے کھل کر اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا۔ پیش شدہ مواد پر غائرانہ نظر ڈالنے کے لئے ممبروں کو دس روز کا موقع دیا گیا کسی بھی مسئلہ میں افہام و تفہیم کے لئے ہر ایک کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ مرزا ناصر احمد جن کے ساتھ بہت سے ان کے ہم مشرب اہل علم بھی تھے انہیں ممبران کے سوالات کے جوابات کے لئے ہر طرح کی سہولتیں اور رعایتیں دے دی گئیں۔ جب بھی وہ کسی جواب کے لئے کھڑے ہوئے انہیں بے روک ٹوک پورا پورا موقع دیا گیا۔ تقریر و تحریر اور وقت کی کوئی قید نہ تھی۔ صدر الدین پیشوائے جماعت لاہور کو بھی یہ سب مراعات حاصل تھیں۔ آخر میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ لوگ کچھ اور پیش کرنا چاہیں تو عام اجازت ہے۔

         دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سے ممبران کو قادیانیت کے سلسلے میں بہت کم معلومات حاصل تھیں۔ اس کا بھی اندازہ ہواکہ کچھ ممبران قادیانی پروپگنڈوں سے متاثر ہیں لیکن جو مواد خود قادیانیوں نے پیش کئے ہیں اس نے ان کی آنکھیں کھول دیں، پارلیمنٹ نے آخری یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قادیانیوں اور لاہوریوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے جیسا کہ مرزا ناصر احمد نے بتایا کہ جومسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے وہ ان کے عقیدہ کے مطابق کافر ہیں۔ مسٹر صدر الدین نے یہ کہا کہ جو مسلمان مرزا غلام احمد پر ایمان نہیں لاتے وہ ان کے عقیدہ کے مطابق کافر ہیں، مسٹر صدر الدین نے یہ کہا کہ مرزا نے جہاد کو باطل قرار دیا ہے۔ ایسے ہی مرزا ناصر احمد نے بتلایا کہ اسرائیل میں ان کا ایک مرکز ہے اورجب میں غیر ممالک کا سفر کرتا ہوں تو اسرائیل سفراء مجھ سے انٹرویو لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قادیانی رہنمائوں کے بیانات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ اپنے علاوہ تمام مسلمانانِ عالم کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔

دستور میں ترمیم

         ٹھیک ایک مہینہ (30 دن ) تک پارلیمنٹ نے دن رات ایک کرکے مسئلہ قادیانیت کی تحقیق و تدقیق کی۔ 7 ستمبر کو ایک عظیم تاریخی قرارداد پاس کی جس کی روسے پاکستانی دستور میں دو زبردست تبدیلیاں ہوئیں۔ وہ یہ ہیں۔

         اولاً : مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین خواہ قادیانی ہوں یا لاہوری دونوں دستور کے مطابق غیر مسلم اقلیت ہیں۔

         ثانیاً: دستور میں ایک دفعہ یہ بھی بڑھائی گئی کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مطلقہ اور ان کے آخری رسول ہونے پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں اس نئے دفعہ (260-3) کی وضاحت یہ ہے۔

         ’’جو شخص محمد علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کی نبوت مطلقہ اور ان کے آخری رسول ہونے پر ایمان نہ لائے اور جو شخص نبوت کی شکل اور مفہوم اورکلمہ ٔ نبوت کی تفسیر و توضیح کے ساتھ دعوتِ نبوت کرے اورجوبھی کسی مدعی نبوت پر ایمان لائے یا اسے دین میں تجدد پیدا کرنے والا سمجھے وہ دستور و قانون کی رو سے غیرمسلم ہوگا‘‘۔ پارلیمنٹ نے اجتماعی طورپر یہ بھی پاس کیا کہ جومسلمان کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت مطلقہ کے مخالف کسی بھی عقیدہ کو قبول کرے یا عملاً اس پر گامزن ہو یا اس کی دعوت دے اسے قانون تعزیرات پاکستان کے رو سے لازمی طورپر سزا دی جائے گی اسی طرح پارلیمنٹ نے یہ بھی پاس کیاکہ قادیانیوں کو ووٹر لسٹوں اور دیگر سرکاری دستاویزات مثلاً پاسپورٹ اقرارنامہ وغیرہ پر غیر مسلم لکھا جائے گا۔ قرار داد میں اس کی بھی ضمانت ہے کہ بلاکسی لحاظ دین ومذہب تمام ہم وطنوں کی حریت و آزادی، ان کی جان ومال، عزت و آبرو اوربنیادی حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔

         ان قراردادوں کو ایک طویل مدت تک حقائق و حالات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر نہایت جانبداری کے ساتھ پاس کیاگیا ہے۔

        چونکہ قادیانیوں کو بھی اپنے موقف کی وضاحت کے لئے پوری آزادی دے دی گئی تھی اور عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ نے اس قرار داد کو پاس کیا ہے لہٰذا کسی کو مسئلہ قادیانیت پر کسی طرح کی تنقید اورانگلی رکھنے کی گنجائش نہیں قادیانیوں سے یہ بھی کہنا ہے کہ وہ خود کو مظلوم نہ سمجھیں کسی طرح سے بھی ان کی حق تلفی یا ان پر زیادتی نہیں کی گئی ہے باوجودیکہ ان کی اسلام و وطن دشمن سرگرمیاں تیز تر ہوچکی ہیں لیکن پاکستانی دستور ان کے بنیادی حقوق ان کی جان و مال اور ان کی آزادی کا ضامن ہے۔ مسلمانانِ پاکستان نے اس فیصلہ پر اپنی بے پناہ مسرت کا اظہار کیا اس باب کا قابل قدر پہلو یہ ہے کہ انہوں نے نہایت فراخدلی اورکھلے ذہن و دماغ کے ساتھ غیر مسلم اقلیت کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ان کے جانوں کی حفاظت کی جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ تاریخ فیصلہ کے بعد پاکستان کے کسی علاقہ میں بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مرزا ناصر احمد نے اس فیصلہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ سے پہلے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ تمام قادیانی پاکستان کے اس پارلیمانی قرار داد کو مسترد کرتے ہیں، پھر تہدید آمیز لہجے میں کہا، سابق دستور کی طرح اس تبدیل شدہ دستور کو بھی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ قادیانیوں کو صبر وسکون کی تلقین کرتے ہوئے کہا، جنوری یا فروری تک انہیں ایسی خبر پہنچے گی کہ وہ مسرور و شادماں ہوجائیں گے۔

         بیرون پاکستان قادیانی اپنے وطن دشمنی پروپگنڈوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ باوثوق ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اس کام کے  لئے مخصوص بینک قائم کئے ہیں اور ان میں قادیانیوں کے ساتھ ان کے یہودی دوستوں نے بھی بڑی رقمیں دی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ امریکہ اوربعض دوسرے ممالک کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں انہوں نے پروپگنڈہ کے لئے بذریعہ رقم کچھ اوقات مخصوص کرالئے ہیں اورغیر ملکی اخبارات و رسائل میں ایسے مضامین شائع کئے جاتے ہین جنہین کھل کر پاکستان اور اس کے دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب پر تنقید و تبصرہ کیاجاتا ہے اب روز روشن کی طرح یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ قادیانی تحریک اسلام اورمسلمانوں کے لئے بے پناہ خطرناک ہے۔ خطرہ اورمعاملہ کی نوعیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کہ مسلم لباس میں رہنے کی وجہ سے بآسانی وہ پہنچانے بھی نہین جاتے بظاہر مسلمانوں جیسے اعمال ان کے بھی ہوتے ہین اور انہیں غیر مسلم اقلیت قراردئیے جانے کے بعد تومسلمانوں سے انتقام لینے کی تگ و دو میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور ہمیشہ ان کے درپے آزاد رہنے لگے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو نہایت متحد و منظم ہوکر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ رابطہ عالم اسلامی بڑی حد تک تک اس سلسلے میں مسلمانانِ عالم کی رہنمائی کرکے انہیں خطرات سے بچا سکتی ہے۔ چند تجاویز پیش کرنے کی سعادت حاسل کررہا ہوں امید ہے اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔

        اولاً: قادیانیت کے سلسلے میں پاکستانی پارلیمنٹ میں جو دستوری تبدیلیاں ہوئی ہیں انہیں مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے تمام عالم اسلام میں وسیع پیمانہ پر تقسیم کردیا جائے اور قادیانیت کے سلسلے میں پاکستان کی اختیار کردہ راہ کو اپنانے کے لئے تمام مسلم ممالک کو دعوت دی جائے اور ان سے اس بات کا پرزور مطالبہ بھی کیاجائے۔

        ثانیاً: اہل علم و دانشور طبقہ کی ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو یورپ، ا مریکہ، افریقہ کے مختلف ممالک میں قادیانیت اور اس کے خطرات و فریب کاریوں کے پردے چاک کرکے اور اس  موضوع پرپرمغز و وقیع مقالے پیش کرے اور قادیانی علماء سے افہام و تفہیم کی بھی کوشش کرے تاکہ جمہور امت مسلمہ کے سامنے اس کی گمراہیوں کی صحیح تصویر سامنے آجائے۔

        رابعاً : دنیا میں جتنے قادیانی مراکز، وفود، عبادت گاہیں، شفاخانے اورمدارس ہیں ان کی ایک فہرست بناکر ہر جگہ بھیج دی جائے تاکہ مسلمان ان سے واقف ہوکر بچنے کی کوشش کریں۔

        خامساً: مشہور قادیانی شخصیتوں کے مختصر تعارف و سوانح پر مشتمل ایک فہرست تیار کرلی جائے تاکہ پھر وہ مسلم ممالک میں کسی اہم عہدہ پر فائز نہ ہوسکیں۔ سادساً قادیانیت کی بیخ کنی کے لئے متعدد عالمگیر زبانوں میں رسائل جاری کئے جائیں اور انہیں ہر جگہ پہچایا جائے۔ یہ خبریں بھی برابر سننے میں آرہی ہیں کہ بہت سے قادیانی پھر سے مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی خبروں کو ان پرچوں میں شائع کیاجائے تاکہ وہ لوگ جو اس گمراہ فرقہ کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کی نیت کررہے ہیں ان کی ہمت افزائی ہوسکے۔ سابعاً : جن علاقوں میں قادیانیت سرگرم عمل ہے وہاں کی مسلم تنظیموں کو بھی اپنی سرگرمیاں تیز تر کردینے کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے۔

        ثامناً : دنیا بھر میں قادیانی سرگرمیوں کا پتہ چلاکر مسلمانوں کو ان سے باخبر کیاجائے۔

        تاسعاً: رابطہ ٔ عالم اسلامی ایک کمیٹی تشکیل کرے جو قادیانی سرگرمیوں ان کے فریب کارانہ انداز اور ان کے طریقۂ عمل اور طرزِ زندگی پر کڑی نظر رکھے اور ان کے پیدا کردہ اثرات کو زائل کرنے کی فوری تدبیر کرے اور اس سلسلے میں جب بھی کوئی رکاوٹ سامنے آئے تو اس پر غوروفکر کرنے اورلازمی تدبیر اختیار کرنے کے لئے اس معاملہ کو اس کمیٹی کے سپرد کیاجائے۔

         اب آخر رابطۂ اسلامی کے جنرل سکریٹریٹ کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتا ہوں جس نے میرے لئے یہ قیمتی اوربہترین موقع فراہم کرنے کی زحمت گوارا کیا۔ خدا وندکریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام پر ثابت قدم رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔                (آمین )

تبصرے بند ہیں۔