نتیش کمار کی ہوئی گھر واپسی

نتیش کمار اس مہا گٹھ بندھن کا حصہ تھے، جس نے بہار میں مودی کاوجے رتھ روک دیا تھا۔ جبکہ اس الیکشن کو جیتنے کیلئے بھاجپا نے پوری طاقت جھونکی تھی۔ بہار کی جیت نے میڈیا میں خوب سرخیاں بٹوریں اور نتیش ملک کی نئی امیدبن کر ابھرے۔ بہار کے بعد ہونے والے صوبائی انتخابات میں بہار ماڈل کو اپنانے کی خوب باتیںہوئیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے کہ حزب اختلاف میں نتیش ہی ایسے رہنما ہیں جن کی قیادت میں 2019 کا الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نتیش کمار کا اچانک لیا گیا فیصلہ جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم ہے یا اس کی اسکرپٹ پہلے ہی تیار کی جاچکی تھی ،صرف صحیح وقت کے آنے کا انتظار تھا۔جو لالو یادو کے خاندا ن پر لگے کرپشن کے الزامات نے نتیش کمار کو گھر واپسی کا موقع دے دیا۔
بہار کے اسمبلی انتخاب کے دوران سوال اٹھا تھاکہ مہا گٹھ بندھن کتنے دن چلے گا؟ جواب میں پانچ سال چلنے کی بات کہی گئی تھی۔ بیچ میں کئی مواقع ایسے آئے ،جب اس گٹھ بندھن میں درار آنے کا شک ہوا، لیکن لالو یادونے اسے سنبھالے رکھا۔ لالو اور نتیش دونوں لوہیا، جے پی آندولن سے نکلے سماجوادی کنبہ کے فرد ہیں۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ زیادہ تر سماجوادی بھاجپا کا حصہ بن چکے ہیں۔ خود نتیش کمار سترہ سالوں تک این ڈی اے کا حصہ رہے۔ بہار میں بھاجپا کے ساتھ مل کر حکومت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں لالو کا ساتھ راس نہیں آرہا تھا یا پھر وہ لالو یادو پر سرکار بنائے رکھنے کا دبائو بناکر رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انہوںنے بی جے پی سے نہ کبھی دوری بنائی اورنہ ہی اس کی کسی پالیسی پر اعتراض کیا۔ اس وقت بھی نہیں جب پورا دیش نوٹ بندی کی وجہ سے پریشا ن تھا۔ سنگھ کے سینئر لیڈر کے این گووند اچاریہ نے نوٹ بندی پر سخت تنقید کی تھی لیکن نتیش کمار مودی سرکار کے اس قدم کی تعریف کررہے تھے۔ پٹنہ صاحب گردوارہ میں مودی نتیش کی ملاقات کے بعد سے بہار کی سیاست کے بدلنے کااندازہ لگایا جارہا تھا۔ صدر جمہوریہ کے الیکشن میں نتیش کمار کے رویہ سے بدلائو کے آثار نظرآنے لگے تھے۔
نتیش کمار کا استعفیٰ ،بلاتاخیراس کی منظوری اوراس کے فوراً بعد کرپشن کے خلاف لڑائی میں ساتھ جڑنے کیلئے نریندر مودی کی مبارکباد، صرف دو گھنٹہ میں بی جے پی کی حمایت اور جے ڈی یو ،بھاجپا کے ارکان قانون سازیہ کا مشترک لیڈر نتیش کمار کو بنانے کا اعلان، رات ہی میں نئی حکومت سازی کا دعویٰ اور صبح صبح ہی حلف برداری۔ سب کچھ پہلے سے طے ہونے کے شک کو تقویت پہچاتا ہے۔ سشیل کمار مودی نائب وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے 13-13 ممبران کو وزیر بنانا طے ہوا ہے۔ حلف لینے کا وقت جلدی جلدی میںپہلے شام پانچ بجے طے ہوا تھا لیکن بعد میںاسے صبح دس بجے کردیاگیا۔ خبر یہ آرہی تھی کہ شرد یادو بیس بائس ممبران اسمبلی کو توڑ سکتے ہیں۔ حلف برداری کی رسم رکوانے کیلئے عدالت کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ شاید اسی لئے حلف لینے میں اتنی جلد بازی کی گئی۔
راشٹریہ جنتا دل کے بہار اسمبلی میں80،کانگریس کے27، بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی(مالے)کے3، آزاد4، بی جے پی کے58اور جے ڈی یو کے71 ممبران ہیں۔ قاعدے میں آرجے ڈی ہائوس میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔ جے ڈی یو سرکار کے استعفیٰ دینے کے بعد اسے سرکار بنانے کا موقع دیا جانا چاہئے تھا۔ اس سے پہلے کہ گورنر کوئی فیصلہ لیتے، ان کے سامنے بی جے پی کی مدد سے سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کردیا گیا۔ پھر بہار میں گورنر بھی وہ صاحب ہیں جو بھاجپا کی توسیع پسند پالیسی میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوںنے تو مغربی بنگال میں بھاجپا کے پیر جمانے کیلئے عہدے کا بھی خیال نہیں کیا اور ریاستی سرکار کی ناک میں دم کردیا۔
استعفیٰ کے بارے میں پوچھے جانے پر نتیش کمار نے میڈیا سے کہا کہ انہوںنے کرپشن کے خلاف ضمیر کی آواز پر اخلاقی ذمہ داری کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکاربنانے کے بارے میں انہوںنے بتایاکہ اس سے ریاست کی ترقی ہوگی ان کایہ فیصلہ عوام کے حق میں ہے۔ آئیے ان دونوں باتوں کا جائزہ لیا جائے۔ پہلی یہ کہ کرپشن کے خلاف نتیش جی نے ضمیر کی آواز سنی۔ ضمیر کی آواز سننااور اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کرسی چھوڑ دینا بہت ہمت کا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ جیتن رام مانجھی اب ان کے ساتھ وزیر ہوںگے تو کیا نتیش جی نے ان کی ایمانداری چیک کرلی ہے۔ یاد دلا دیں کہ جب وہ وزیر ریل تھے تو ریلوے میں کئی بڑے حادثے ہوئے تھے تو کیا اس وقت انہوںنے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کی تھی۔ بہار میں باڑھ کے دوران ہزاروں لوگ بے گھر اور برباد ہوگئے تھے تو کیا اس وقت اخلاقی ذمہ داری کا انہیں احساس ہوا تھا۔ رہا سوال صوبے کی ترقی اور لوگوں کے حق میں فیصلہ لینے کا توآنے والا وقت اس کو بتادے گا۔
دراصل نتیش کمار کے اس قدم کا2019 سے سیدھا تعلق ہے۔ حزب اختلاف کا پارلیمانی انتخاب کیلئے و فاق تیار ہو رہا تھا۔ اس کودھکا لگا ہے۔ ایسا مانا جارہا تھا کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس مل کر لڑیںگے تو 40-50 سیٹیںحاصل کرلیںگے۔ وہیں بہار میں مہا گٹھ بندھن کو 30-35 سیٹیں مل جائیںگی۔ راجستھان،مدھیہ پردیش اور گجرات میں کانگریس کے کچھ بہتر کرنے کی امید ہے۔ اس طرح 2019 میں این ڈی اے کو سخت ٹکر دی جاسکے گی۔ نتیش کمار کے مہا گٹھ بندھن سے ناطہ توڑنے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور حزب اختلاف کیلئے مشکلیں بڑھیںگی۔ نتیش کمار تجربہ کار سیاست دا ں ہیں اور وہ بی جے پی کی پے در پے کامیابیوں کو دیکھ رہے ہیں ۔جس وقت انہوں نے مودی کے نام پر خود کو بھاجپا سے الگ کیا تھا اس کے پیچھے ان کی وزیر اعظم بننے کا لالچ اور اقلیتی ووٹوں کی فکر تھی۔ موجودہ حالات میں انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ کوئی مضبوط مہا گٹھ بندھن 2019کیلئے ایسا بننے والا نہیں ہے جو بھاجپا کو چنوتی دے سکے ۔اگر بن بھی گیا تو یہ ضروری نہیں کہ عوام اسے قبول بھی کرے اس لئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر وزیر اعلیٰ ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ایسی پارٹی کے ساتھ رہا جائے جو اگلی میقات میں بھی انہیں وزیر اعلیٰ بنوا سکے ۔ اب اگست میںہونے والی لالو پرساد یادو کی ریلی پر اب سب کی نگاہیں ٹکی ہیں کہ اس میں اپوزیشن کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ بہار کے عوام نے نتیش اور لالو کو بھاجپا کے خلاف چنا تھا۔ اب وہ عوام کے درمیان جاکر کیا کہیںگے۔ کیا یہ عوام کے جذبات سے کھلواڑ نہیں ہے۔ کیا سیاست دانوں کی اسی حرکت کی وجہ سے عوام کا ان سے بھروسہ اٹھا ہے۔ لوگوں نے ذات، برادری، مذہب سے اوپر اٹھ کر ان کا ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ سیمانچل کے لوگوںنے توایم آئی ایم کے امیدوار وں کو بھی مستردکر دیا تھا۔ اگر عوام کو اپنا فائدہ بی جے پی کے ساتھ لگتا تو پھر وہ اسی کو چنتے۔ مہاگٹھ بندھن کو ووٹ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جے ڈی یو کے ممبران اسمبلی اپنے حلقہ میں جاکر بی جے پی کے ساتھ جانے کے بارے میں کیا کہیںگے؟ بھاجپا تو زیادہ سے زیادہ ریاستوں میں اپنی سرکار چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے منصوبہ کو بروئے کار لاسکے۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے سپریمو موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مودی ہندوراشٹر کے سچے علمبردار بن کر ابھرے ہیں۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ وہ ایک بڑے مشن کیلئے کام کررہے ہیں۔ مشن یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریاستوں پر مرکز کی پکڑ مضبوط ہو یا پھر ریاستیں مرکز کے سامنے دست نگر رہیں اسی کیلئے جی ایس ٹی کو لاگو کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی یہ بھی ایجنڈا ہے کہ ریاستوں میں سرکار ہونے پر وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ دستور بدل کر ہندو راشٹر کے ایجنڈے پر عمل کرسکیں جنوب کی ریاستوں نے ہندو تو (برہمنیت ) کو کبھی قبول نہیں کیا لیکن وہ بھی ہندو راشٹر کے نام پر بھاجپا کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں۔ نام نہاد سیکولر لوگوں کی مفاد پرستی کی وجہ سے ہی بھاجپا اتنی مضبوط ہوئی ہے۔ اس میں نتیش کمار جیسے سیاستدانوں کے رول کا بھی بڑا دخل ہے۔
بہار میں سیاسی اتھل پتھل اس وقت ہوتی ہے جب ملک کا آدھا حصہ باڑھ سے متاثر ہے۔ چین کے ساتھ سرحد پر تنائو ہے۔ پاکستان بار بار سیز فائر کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ملک میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور بھیڑ کے ذریعہ دلتوں اور اقلیتوں پر حملے ہورہے ہیں۔ باڑھ اور بارش کی وجہ سے فصلیں برباد ہورہی ہیں اور کسانوں کے احتجاج جاری ہیں۔ سرکار ایک طرح سرحدوں کو لے کر پریشان ہے تودوسری طرف مہنگائی ،ساری کوششوں کے باوجود کسانوں کی بے چینی دور نہیں ہوپارہی ہے۔ بھاجپا ملک کے حالات پر فکر مند ہونے کے بجائے توسیع پسندی پر زور دے رہی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب پورے ملک اور تمام پارٹیوں کو ایک جٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ اب نتیش کمار کو یہ سوچنا ہے کہ انہوںنے کس کے حق میں فیصلہ لیا ہے ملک کے، بہار کے یا اپنے۔

[email protected]

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔